
قرآنی بیانیے میں ’’وحدتِ تأثُّر‘‘ کی کارفرمائی
متعدد واقعات اور مثالیں نوعیت کے اعتبار سے مختلف مگر سب میں ہدایت کا پیغام پنہاں
ابوفہد ندوی، نئی دہلی
"وحدت تأثر” کا لفظی مطلب ہوتاہے ایک ہی نوع کا تاثر۔ یعنی قاری کے ذہن پرکسی افسانے کی قرأت سے جو تاثرپیدا ہو وہ مختلف ا`لنوع اورمختلف الجہت نہ ہو۔ اگر کسی افسانے میں ایک مرکزی واقعے کے ساتھ ساتھ کئی اور بھی مختصر واقعات بیان ہوئے ہوں تووہ مختصر واقعات بھی قاری کے ذہن ودماغ پر اسی تاثرمیں اضافے اور وفور کا باعث ہوں جو مرکزی واقعے کا تاثر ہے۔ایسا نہ ہو کہ مرکزی واقعے کا تاثر کچھ اور ہو اور ذیلی واقعات کا تاثر کچھ اور۔ جیسے سورج مکھی کے پھول ہوتے ہیں، وہ اپنے حسن اورحجم کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں مگر اپنے رخ کے اعتبار سے باہم دگر متحد ہوتے ہیں۔ یعنی ہر پھول کا رخ سورج کی طرف ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی افسانے میں بیان ہونے والے مختلف واقعات اپنے مقصد، غایت اور تأثر کے اعتبارسے یک رخ ہونا چاہئیں۔ ریختہ ڈکشنری میں ‘وَحدَتِ تَاَثُّر’ کی تعریف اس طرح کی گئی ہے: "وہ وحدت جو کسی ادب پارے میں قاری یا ناظر کے ذہن پر صرف ایک تاثر چھوڑے تاکہ اس میں شدت اور گہرائی ہو، کسی ادبی تخلیق کا قلب و ذہن پر یکساں اثر” اس کا مطلب یہ ہے کہ تحریر کے تمام عناصر ایک مرکزی تھیم یا مرکزی خیال پر ارتکاز کرتے ہوں اوراسے تقویت دیتے ہوں تاکہ ایک واضح، مربوط اور قلب ونگاہ میں جاں گزیں ہو جانے والے پیغام کی ترسیل ممکن ہوسکے۔
"وحدت تأثر” دراصل ایک ہُنر اور کَلا ہے، بالکل اسی نوعیت کی جس نوعیت کی کسی مضمون میں ادبیت ہوتی ہے اور انشاء پردازی ہوتی ہے، مضامین تو ادبیت اور انشاء پردازی کے بغیر بھی لکھے جاسکتے ہیں اور لکھے جاتے رہے ہیں، مگر جوقلم کار انشاء پرداز اوراس سے بھی آگے بڑھ کر صاحب اسلوب ہوتے ہیں وہ اپنے مضامین میں ان چیزوں کو احسن طریقے پر برتتے ہیں اورتحریر کو خوشنما اور دلنشیں بنانے میں کامیابی حاصل کرپاتے ہیں۔ وحدت تأثر کا استعمال بطورخاص افسانوں اور ڈراموں میں زیادہ کیا جاتا ہے اور بعض دوسری اصناف سخن میں بھی کسی نہ کسی حدتک ملحوظ رکھا جاتا ہے، جیسے خاکوں وغیرہ میں۔ یہ ہنر اگر یک موضوعی اور اکہرے بیانیے والے مضامین میں بھی برتا جائے توبعض حیثتوں سے ایسے مضامین کا اعتبار و وقار بھی بڑھ سکتا ہے۔
فارسی کا ایک شعر ہے اس کے توسط سے ’وحدت تأثر‘ کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے:
ہوا مخالف و شب تار، وبحر طوفاں خیز
گسستہ لنگر کشی، وناخدا خفت است
ترجمہ: "ہوا مخالف ہے، رات انتہائی تاریک ہے اور سمندر میں طوفان خیز لہریں اٹھ رہی ہیں، پھر کشتی کا لنگر بھی ٹوٹا ہوا ہے اور ملاح بھی سویا ہوا ہے (یا بیمار ہے یا ندارد ہے)”
اس شعر میں کل پانچ وقوعوں کا ذکر ہے اور ہر وقوعہ دوسرے سے زیادہ ہولناکی کا مظہر ہے۔ ذرا تصور کریں کہ آپ حالات کے مارے ہوئے ہوں، رات کا وقت ہو، ہوا طوفانی رفتار سے چل رہی ہو اور مخالف سمت میں چل رہی ہو، اس صورت حال میں آپ ایک کشتی میں پناہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں مگر کشتی میں پناہ لینے کے بعد آپ کومعلوم ہوتا ہے کہ کشتی کا لنگر کھلا ہوا ہے، نہیں معلوم کہ یہ طوفانی ہوائیں اس ناپید کنار سمندر میں بادبانی کشتی کو کہاں لے جائیں، پھر اس پر طرہ یہ کہ کشتی کا ملاح بھی سویا ہوا ہے، اس کے لیے تو یہ روز روز کا تجربہ ہے اس لیے وہ بے فکر سویا ہوا ہے، یا بیمار پڑا ہوا ہے یا پھر موجود ہی نہیں ہے۔ اس ہولناک صورت حال میں آپ کے لیے ایک ملاح کا سہارا آخری سہارا تھا، سو وہ سہارا بھی ٹوٹ گیا۔
شخصی اور اجتماعی زندگی بھی کچھ ایسی ہی تو ہوتی ہے، آدمی زندگی بھر خود کو بے سہارا محسوس کرتا ہے اور بعض مواقع پر اس کا یہ احساس شدت اختیار کر جاتا ہے، جب وہ کسی سہارے کی تلاش میں ہوتا ہے اور کوئی سہارا نہیں ملتا، آخر وہ تھک ہارکر دیوار کا سہارا لیتا ہے مگر دیوار ہی خود اس پر آ گرتی ہے۔ تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی سہارے ہیں سب کے سب کمزور سہارے ہیں، مکڑی کے جالے سے بھی کمزور، مگر وہ یہ سہارے حاصل کرنے کے لیے مجبور بھی تو ہے۔
اس پورے شعر میں جو پانچ تراکیب استعمال ہوئی ہیں یا جن پانچ وقوعوں کا ذکر ہے، ان میں سے ہر وقوعہ یا ترکیب حالات کی سنگینی اور ہولناکی کو ہی بتا رہی ہے۔ اگر کشتی کا لنگر کھلا ہوا نہ ہوتا تب بھی صبر آجاتا کہ کچھ دیر میں طوفان تھم جائے گا اور آپ کشتی سے محفوظ نکل آئیں گے یا پھر کم از کم ملاح موجود ہوتا یا سویا ہوا نہ ہوتا تب بھی کچھ امید کی جاسکتی تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس ہولناک صورت حال سے اپنے تجربے، تدبیر اور ہنر مندیوں سے کشتی کو محفوظ رکھ پانے میں کامیاب ہو پائے گا۔ مگر کہیں سے کوئی امید نہیں۔ سارے راستے بند ہیں اور ہولناک حالات سے نکلنے کا کوئی آسرا اور سہارا نہیں۔
وحدت تأثر کواچھی طرح سمجھ لینے کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں وحدت تأثر کس درجے میں پایا جاتا ہے؟ سب جانتے ہیں کہ قرآن کا متن ادب کا اعلیٰ نمونہ ہے، قرآن آنے کے بعد عربی زبان وادب کی گویا معراج ہوگئی اور قرآن کے بعد عربی ادب کے لیے اب اور کوئی معراج نہیں ہے۔
قرآن میں اخلاقیات ہیں اور احکامات ہیں اور پھر قرآن میں تاریخی واقعات ہیں اور ان سب کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے ہدایت، دنیاوی ہدایت بھی اور اخروی ہدایت بھی۔ اگر اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو قرآن کے ہر واقعے، ہر چھوٹی بڑی داستان، پھر ان کے علاوہ جتنے بھی احکامات ہیں اور اخلاقی ہدایتیں ہیں، ان سب کا بھی ایک ہی بنیادی مقصد ہے اور وہ ہے انسان کی رہنمائی، یعنی ہدایت۔ آپ اصحاب کہف کے واقعے کو دیکھ لیں، موسیٰ وخضر کے واقعے کو پڑھ لیں، ذوالقرنین کے واقعے کو دیکھ لیں، حتیٰ کہ قرآن میں مذکور طویل ترین داستان، داستان یوسف کو پڑھ جائیں، سورۂ کہف میں دو باغ والوں کاقصہ پڑھ لیں، سورۂ نمل میں بلقیس اورسلیمانؑ کا قصہ پڑھ لیں، سورۂ ص میں داوؤد اور دو بھائیوں کا مقدمہ سمجھ لیں، اصحاب فیل کا قصہ پڑھ لیں، آپ کو جو بات اور جو پیغام ان سب میں مشترک ملے گا وہ ہے اللہ کی طرف سے انسانیت کی رہنمائی اور اس کا ماحصل اِس کے سوا کچھ نہیں کہ انسان کو دنیا وآخرت کی بھلائی اور خیرحاصل ہوسکے۔ اس ماحصل سے آپ شاید ہی کسی ایک آدھ آیت کو الگ کر سکیں، نہیں کرسکیں گے کیونکہ آیتیں بھی اپنی نہاد میں مجرد نہیں ہیں، اگر وہ اپنے اندر مکمل مفہوم رکھتی ہوں تب بھی وہ دوسری آیات سے منسلک ہیں اور ان کے ساتھ انسلاک سے اپنے معانی کی تکمیل کرتی ہیں، یا کم از کم انہیں اپنے معانی کے اثبات کے لیے کسی نہ کسی نوع کی تائید حاصل ہوتی یا ان کے اجمال کی تفصیل اور غموض کی توضیح ہوتی ہے۔
قرآن میں نماز قائم کرنے کا حکم ہے، زکوٰۃ اداکرنے کا حکم ہے اور سورۂ العصر میں خصوصی طور پر چار چیزوں کا ذکر ہے، ایمان، عمل صالح، حق اور صبر کی تلقین۔ قرآن میں طیب اور پاکیزہ چیزیں کھانے کا ذکر بھی ہے اور غیر پاکیزہ چیزوں سے بچنے کا حکم بھی ہے، قرآن میں ہے کہ جھوٹی گواہی مت دو، لہو و لعب میں نہ پڑو اور بے لگام جنسی خواہشات کے پیچھے مت بھاگو، قرآن میں ہے کہ انبیاء کرام کا طریقہ اپناؤ اور طاغوت اور شیطان کا طریقہ مت اپناؤ۔اگر ان سب باتوں کا خلاصہ کریں گے اور ایک نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں گے تو یہی خلاصہ اور نتیجہ نکل کر سامنے آئے گا کہ قرآن کے قاری کو برائیوں سے بچنا ہے اور اچھائیوں کو اختیار کرنا ہے تاکہ انسان دنیا و آخرت دونوں جگہ کامیاب وکامران ہوسکے۔ یہ سب مضامین اور احکام و ہدایات اپنے ماحصل کے اعتبار سے باہم دگر منسلک اور منضبط ہیں اور کسی بھی ایک حکم، ہدایت یا مضمون کو اس ماحصل سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
قرآن کا بیانیہ ادبی واجمالی ضرور ہے مگر اس میں ادب جیسی سرّیت نہیں ہے، اس لیے آپ دیکھیں گے کہ اس میں صاف اور واضح احکام ہیں، کھلا میسیج ہے، قرآن میں افسانوی ادب کی طرح ایسا اسلوب اور پیرایہ بیان نہیں ہے کہ کہانی خود بولے گی اور کہانی کے درو بست سے میسیج خود بخود منکشف ہوگا، کہانی کار کو کھلا میسیج دینے کی ضرورت نہیں ہے، اس کے برعکس قرآن میں واضح میسیج ملے گا، اس لیے قرآن میں بار بار یہ تنبیہ ملتی ہے:
” ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ، )العنكبوت: ٥٧( ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ)الروم: ١١( ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ )السجدة: ١١( ” اور واضح اعلان ملتاہے: ” فَأَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ، فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَّاضِيَةٍ، وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ، فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ ) القارعة(”
پورے قرآنی بیانیے پر ایک ہی نوعیت کا تأثرغالب ہے اور یہیں سے اِس بیان کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے کہ سورۂ فاتحہ پورے قرآن کا خلاصہ ہے، اگر قرآن کی معنوی سطح پر یہ خصوصیت نہ ہوتی تو سورۂ فاتحہ پورے قرآن کا خلاصہ نہیں بن سکتی تھی۔ یا سورۂ اخلاص کو ثلث قرآن قرار نہیں دیا جاسکتا تھا (صحیح بخاری: 6643) اور اسی طرح سورۂ نصرکی تعلیمات ایک مسلمان کی پوری اسلامی زندگی کی کامیابی کا مدار نہیں بن سکتی تھیں۔
قرآن کے مضامین کو تقسیم کریں تو یہ صرف تین چار موضوعات کے تحت سما جاتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے قرآن کے مضامین کو پانچ قسم کے مضامین میں تقسیم کیا ہے، اس کے بعد اگر قرآن کے تمام مضامین کو کسی ایک موضوع بلکہ یک لفظی موضوع کے تحت لانا چاہیں تو ایک لفظی موضوع کے تحت بھی لاسکتے ہیں اور وہ "ہدایت” ہے۔ اور یہ عنوان قرآن کو یک نوعی تأثر کی ڈوری سے باندھ دیتا ہے۔اس ناحیے سے اگر غور کریں تو قرآن کے مضامین پر سورج مکھی کے کھیت کی مثال صادق آتی ہے کہ اگرچہ اس کھیتی کا ہر پھول دوسرے پھول سے جدا ہے، اپنے حصے کی زمین پر استوار ہے، زمین سے اور سورج سے اپنے حصے کی غذا لیتا ہے اور خود اپنی پنڈلیوں پر کھڑا ہے مگراس کے باوجود ایسا ہے کہ ہر پھول قبلہ نما ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس کا قبلہ سورج ہے، مگر ہر پھول کے اندر قبلہ نمائی کی کیفیت تو موجود ہے۔
سورۂ کہف میں چار واقعات بیان ہوئے ہیں، پہلا واقعہ اصحاب کہف کا ہے، دوسرا باغ والوں کا، تیسرا حضرت موسیٰ وخضر علیہما السلام کا اور چوتھا واقعہ ذوالقرنین کا ہے۔ آپ ان چاروں واقعات کا مطالعہ کرلیں آپ کو سب میں ایک ہی طرح کی اسپرٹ، میسیج، ایک ہی رنگ اور ایک ہی ماحصل دکھائی دے گا۔ پہلو بھلے ہی مختلف ہوں اور آپ ان میں سے ہر ایک میں بھلے ہی ایک سے زائد پؤائنٹس نکال سکیں، مگر سب کا رجحان ایک ہی ہے، روٹ ایک ہی ہے اور لائن ایک ہی ہے اور وہ ہے اللہ کی طرف سے ہدایت و رہنمائی۔ اور اہل ایمان کو یہ میسیج کہ ہر طرح کے حالات میں صرف اور صرف اللہ کا سہارا پکڑنا ہے۔ ذوالقرنین بھلائی کا کام کرتے نظر آتے ہیں، حضرت خضر علم اور اس کی حکمتیں، علتیں اور اسرار و رموز سکھاتے نظر آتے ہیں، باغ والوں میں سے جو مؤمن ہے وہ اپنے بھائی کو اللہ سے ڈراتا ہوا نظر آتا ہے اور اصحاب کہف کی حکایت تو ہے ہی اہل ایمان کو ایمانی جوش وجذبے سے سرشار کر دینے والی۔ ان ساری کی ساری کہانیوں اور واقعات میں یہی کیفیت ملے گی۔ اگرچہ وہ سب الگ الگ ہیں، ان کی زمین الگ ہے، زمانہ الگ ہے، شخصیات الگ ہیں اور نوعیتیں الگ ہیں، حتیٰ کہ قرآنی متن میں ان کا توارد بھی مختلف ہے۔ مگر وہ سب کی سب گویا ایک ہی ڈور میں پروئی ہوئی ہیں اور ہر حکایت سے ایمان و ہدایت کی روشنی پھوٹتی ہوئی نظر آتی ہے۔
قرآن میں موجود تمام حکایات اور تمام واقعات اپنے مطمح نظر کے اعتبار سے اور اپنے رنگ و رجحان کے اعتبار سے ان نمازیوں کے مثل ہیں جو دنیا بھر کی مساجد اور عید گاہوں میں قبلہ رخ ہوکر صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں، بھلے ہی ان میں ہزار طرح کے اختلافات ہوں، رنگ ونسل کے اختلافات ہوں، زبان وثقافت کے اختلافات ہوں حتیٰ کہ اعتقادات کے اختلافات بھی موجود ہوں، تب بھی وہ سب کے سب نماز میں یک رخ کر ہوکر صف آرا ہوتے ہیں، وہ قبلے سے سر مو بھی انحراف نہیں کرسکتے۔ بالکل ایسے ہی قرآن میں مذکور واقعات ہیں، حکایات ہیں اور احکام وقوانین ہیں کہ وہ سب کے سب باہم دگر مختلف ہیں اور مختلف حالات کے لیے ہیں مگر اپنے آخری ہدف کے اعتبار سے اور مطمح نظر کے اعتبار سے اور ماحصل کے اعتبار سے سب کے سب یک رخ اور یک نوع ہیں۔
اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ سورۃ الفاتحہ جو پورے قرآن کا خلاصہ ہے، اس میں توحید، عبادت، اور ہدایت کا مرکزی پیغام ہے۔ سورۃ یوسف حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان کرتی ہے، لیکن یہ قصہ توحید، صبر اور ہر طرح کے حالات میں اللہ پر بھروسا رکھنے کا پیغام دیتا ہے۔ اسی طرح دیگر سورتوں اور آیات کا بھی حال ہے۔
قرآن میں تھیم کی وحدت اس کی سب سے نمایاں خصوصیات میں سے ایک ہے۔ متنوع موضوعات پر توجہ دینے کے باوجود، قرآنی بیانیہ مسلسل اپنے مرکزی پیغام اللہ کی وحدانیت اور انسانیت کی رہنمائی کے گرد گھومتا ہے جو پورے قرآن میں یکسانیت اور ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔ قرآنی بیانے میں موجود یہ وحدتِ تاثر قرآن کی الہامی اور معجزاتی حیثیت کو ظاہر کرتی ہے اور اسے دیگر کتب سے ممتاز بناتی ہے.
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 مارچ تا 22 مارچ 2025