قرآنی بیانیے میں رسولِ رحمت حضرت محمد ﷺ کا تذکرہ

کلام الٰہی میں نبیؐ کا ذکر محبوبیت کے پیرائے میں

0

ابو فہد

حضورؐ سے محبت ایمان کی کسوٹی اور اطاعتِ رسول کے بغیر اللہ سے محبت کا تصور ممکن نہیں
قرآنی بیانیے میں نبی کریم حضرت محمد ﷺ کے ذکر و تصور کے حوالے سے یہ کتنی اہم بات ہے کہ اللہ نے اپنی اطاعت کو آپؐ کی اطاعت کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللہ (نساء) جس نے رسول کی اطاعت کی تو فی الواقع اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی اور ظاہر ہے کہ اللہ کی اطاعت انبیاء کے توسط کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، کیونکہ اللہ انسانوں سے براہ راست مخاطب نہیں ہوتا، اسی لیے اللہ نے کوئی بھی کتاب، ہدایت نامہ اور الواح بغیر کسی نبی کے توسط سے لوگوں کو نہیں عطا کیں اور اللہ چونکہ غیب میں ہے اس لیے اللہ کی اطاعت براہ راست ممکن بھی نہیں ہے۔
اسی طرح اللہ نے اپنی محبت کو بھی نبیؐ کی اطاعت کے ساتھ مشروط قرار دیا ہے: قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي ‎﴿آل عمران: ٣١﴾‏
اے نبی، ان سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اطاعت کرو۔
اس قبیل کی دیگر آیات سے پتہ چلتا ہے کہ نبیؐ کی محبت و اطاعت ہی اللہ کی اطاعت و محبت کی نشانی ہے۔’’
ایک اور جگہ فرمایا کہ اہل ایمان کا ایمان اس وقت تک قابل قبول نہیں ہے جب تک کہ وہ نبیؐ کو حَکَم نہ مان لیں اور پھر جب آپ ان کے مابین کوئی فیصلہ فرما دیں تو وہ اس فیصلے کے خلاف اپنے دل میں ذرا بھی تنگی محسوس نہ کریں۔ ارشاد ہے: فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (النساء)
”تمہارے رب کی قسم! جب تک یہ لوگ اپنے باہمی اختلافات میں تم کو حَکَم نہ مان لیں اور اس طرح نہ مان لیں کہ جب تم کوئی فیصلہ کردو تو وہ اس فیصلے کے خلاف اپنے دل میں ذرا بھی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ اسے دل وجان سے قبول کرلیں، تب تک وہ صاحب ایمان قرار نہیں دیے جاسکتے”
قرآن میں جا بجا ‘‘اللَّهَ وَالرَّسُولَ‘‘ اور ’’لِلہ وَلِلرَّسُولِ‘‘ کی ترکیب آئی ہے۔ صحابہ کرام بھی اکثروبیشتر یہی الفاظ ’’اللہ ورسولہ اعلم‘‘دہراتے تھے۔
اللہ نے اپنے نبی سے اپنی محبت کا اظہار اس طرح بھی فرمایا ہے: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ‎﴿الأنفال: ٣٣﴾‏ ”اور اللہ ایسا نہ کرے گا کہ تمہاری موجودگی میں ان کو عذاب دے”
قرآن میں رسول اللہ ﷺ کے لیے ایک لفظ ’’عبد‘‘ بھی استعمال ہوا ہے اس میں بھی محبوبیت کے معنیٰ ہیں اور ساتھ ہی اس لفظ میں اس بات کی بھی نفی ہے کہ محمد ﷺ کوئی فرشتہ ہیں۔
اگر اس طرح غور کریں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن نبیؐ کے ذکر سے بھر اپڑا ہے، ہر دوسری اور تیسری آیت میں آپؐ سے خطاب ہے، پھر سورۃ الضحیٰ، الم نشرح اور الکوثر تو تقریبا پوری کی پوری آپؐ کی ذات ہی سے متعلق ہیں، جن میں اللہ نے آپؐ پر اپنے احسانات گنوائے ہیں، اللہ نے جو کچھ آپ کی ذات والاصفات میں ودیعت فرمایا اس کا ذکر ہے اور جو کچھ اللہ آخرت میں آپ کو عطا فرمائے گا اس کا بھی ذکر ہے۔ سورۂ ضحیٰ میں فرمایا: وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى ”اورتمہارا رب تمہیں وہ سب کچھ عطا فرمائے گا جس سے تم خوش ہو جاؤ گے۔” اور سورۂ کوثر میں فرمایا: إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ”اے نبی! ہم نے تمہیں ‘کوثر’ عطا کر دیا ہے”
تو یہ کہنا شاید بجا ہوگا کہ نبیؐ کا ذکر قرآن میں اگرچہ اس طرح نہیں ہے جس طرح حضرات نوح، ابراہیم، موسیٰ و یوسف علیہم السلام کا ہے پھر بھی قرآن میں حضرت محمد ﷺ ذکر ان سے بہت زیادہ ہے اور ان تمام آیات کو جن میں آپؐ کا ذکر صراحتاٌ موجود ہے ایک مختصر سے مضمون میں جمع کر پانا انتہائی مشکل کام ہے۔
یہ ایک طرح سے ایسا ہی ہے جیسے قرآن میں خود اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر اللہ کی ذات کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ کی صفات اور قدرت کے حوالے سے ہے۔ سورۂ اخلاص اور آیت الکرسی اس کہ بہترین مثالیں ہیں۔ اسی طرح قرآن میں حضرت محمد ﷺ کا ذکر بھی رسالت کے حوالے سے ہے اور رسالت میں آپؐ کی زندگی کی پوری جدوجہد اور نبوت کی پوری تاریخ اس میں آ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں محمد ﷺ کی ما قبل نبوت والی زندگی اس طرح بیان نہیں ہوئی جس طرح عام سیرت وسوانح کی کتابوں میں متعلق شخص کی زندگی کے احوال وکوائف بیان کیے جاتے ہیں، بلکہ ولادت سے لے کروفات تک زندگی کے تمام حالات و واقعات اور زندگی کے تمام اتار چڑھاؤ کا ذکر خیر کیا جاتا ہے اور پھر افکار، خیالات اور جدوجہد اور فتوحات کا ذکرکیا جاتا ہے۔
قرآن میں حضرت محمد ﷺ کا ذکر محبوبیت کے پیرائے میں ہے۔ قرآن کی بہت سی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں، شاید اس حوالے سے سب سے اہم آیت سورۂ کہف کی یہ آیت ہے: فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَـٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا ‎﴿الكهف: ٦﴾‏ "اے پیغمبر! تو کیا اس غم میں کہ یہ لوگ قرآن پر ایمان نہیں لاتے، تم اپنے آپ کو ہلاک کر لوگے” اس کے علاوہ درج ذیل آیات بھی محبوبیت کے حوالے سے بہت اہم ہیں: مَا كَانَ مُحَمَّدِ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكنْ رَسُوْل اللّٰه وَخَاتَمُ النَّبِيين (احزاب) ” اے لوگو! محمدؐ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النیین ہیں۔”
اس آیت میں بھی محبوبیت کا رنگ پایا جاتا ہے۔ اہل ایمان کو بتایا جا رہا ہے کہ محمد تمہارے باپ نہیں ہیں کہ ان کی تکریم وعزت کرنے میں تم آزاد ہو، بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اہل ایمان انہیں نظر انداز کرکے صاحب ایمان نہیں رہ سکتے۔ اسی طرح سورۂ آل عمران میں ارشاد ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوعَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ
”اللہ نے اہل ایمان پر یہ احسان فرمایا کہ ان کے اندر انہی میں سے ایک ایسا رسول مبعوث کیا جو ان کو اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے”
اس آیت میں آپؐ کی بعثت کو اہل ایمان کے لیے عظیم احسان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایک اور آیت دیکھیں: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا(احزاب) ”بے شک اللہ رب العزت اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔”
اس سے بڑھ کر محبوبیت کی مثال اور کیا ہوگی کہ اللہ اور اس کے فرشتے نبیؐ پر درود سلام بھیج رہے ہیں اور اللہ اہل ایمان کو بھی نبیؐ پر درود بھیجنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ آیت میں اللہ کے درود بھیجنے کا مطلب آپؐ پر رحمت و عنایات فرمانا ہے۔
ذیل کی آیات میں دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے کس طرح کا پروٹوکول رکھا ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ اہل ایمان کو ہدایات دی گئی ہیں کہ ان کے کسی عمل سے نبی ﷺ کو اذیت نہ پہنچے۔ آپؐ کے سامنے اونچی آواز سے بات نہ کیا کریں اور آپ کے گھر میں بغیر اجازت نہ جایا کریں، وہاں دیر تک نہ بیٹھیں اور اگر نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگ لیا کریں۔ اور انہیں حکم دیا کہ نبی کے بعد نبی کی بیویوں سے کوئی مسلمان نکاح نہ کرے۔ اللہ نے اہل ایمان کے لیے نبیؐ کی بیویوں کو ان کی ماؤں کے درجے پر رکھ دیا بلکہ حقیقی ماں سے بھی بڑا درجہ دیا۔ جس طرح خود محمد ﷺ کو اہل ایمان کے لیے ان کی جان سے بھی زیادہ عزیز ومحبوب بتایا۔ سورۂ حجرات میں فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ ‎﴿الحجرات: ٢﴾‏’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کیا کرو” اور سورۂ احزاب میں فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ ۔۔ الخ‎﴿الاحزاب: ٥٣﴾
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبی کے گھروں میں بغیر اجازت نہ چلے آیا کرو، ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ ۔۔‘‘
اللہ نے خود ہی محمد ﷺ کے اخلاق عالیہ کی اور علم وحلم کی بلندیوں کی شہادتیں دیں۔ سورۂ نجم کے آغاز میں ہی اپنے نبی کی طرف سے اہل کفر وشرک کی طعنہ زنی اور الزام تراشیوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے پیغمبر جادۂ مستقیم سے نہیں ہٹے اور وہ قرآن کے نام پر اپنی طرف سے کچھ نہیں۔ کہتے وہ قرآن کے حوالے سے جو کچھ بھی تمہارے سامنے بیان کرتے ہیں بس ہماری ہی بات بیان کرتے ہیں اور ہمارے ہی حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ ‎ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ (النجم)
یہ تو محبوبیت کا بیانیہ ہوا، اس کے بر عکس زجر و توبیخ کا بیانیہ بھی قرآن ملتا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے:
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ‎﴿٤٤﴾‏ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ‎﴿الحاقۃ: ٤٤ -٤٧﴾‏ ” اگر یہ رسول ایک بات بھی اپنی طرف سے بنا کر ہماری طرف منسوب کر دیتے تو ہم ان کا سختی کے ساتھ مؤاخذہ کرتے، یہاں تکہ ہم ان کی شہ رگ ہی کاٹ دیتے اور تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو ہمیں اس انتقام سے باز رکھ سکتا”
یہ سخت بیانیہ بھی دراصل حفاظتِ قرآن کے پس منظر میں آیا ہے۔ ورنہ فی نفسہ آپؐ کے ساتھ سخت کلامی کرنا مقصود نہیں ہے، بالکل اسی طرح جس طرح خود آپؐ نے ایک موقع پر اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہؓ کے تعلق سے سخت الفاظ ارشاد فرمائے تھے: اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ (بخاری)
اسی طرح سورۂ عبس کی ابتدائی دس آیات میں دیکھیں کہ آپؐ کو کس طرح تنبیہ کی گئی ہے: عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ أَن جَاءَهُ الْأَعْمَىٰ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّىٰ أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنفَعَهُ الذِّكْرَىٰ
اے پیغمبر! تم نے اپنی مجلس میں ایک نابینا کے اچانک آجانے پر ناگواری کا اظہار کیا اور اس کی طرف سے منہ پھیرلیا۔ (تمہاری طرف سے یہ رویہ مناسب نہیں) تمہیں کیا معلوم، شاید وہ (تمہاری صحبت سے) اپنا تزکیہ ہی کر لیتا یا وہ نصیحت کی بات سنتا تو اسے نصیحت فائدہ پہنچاتی۔”
ایک اور آیت ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ محمد بھی دیگر رسولوں کی طرح ایک رسول ہیں، اگر وہ فوت ہو جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ‎﴿آل عمران: ١٤٤﴾‏
ایک طرف محبوبیت کا یہ عالم ہے کہ جیسے اللہ کو اپنے نبی کی ادنیٰ تکلیف بھی گوارہ نہ ہو اور دوسری طرف قرآن اور دعوت وتبلیغ کے لیے اتنی حساسیت بھی ہے کہ اپنے نبی کو دو ٹوک اور کھرے لب ولہجے میں تنبیہ فرماتا ہے اور یہاں تک بھی ارشاد فرما دیتا ہے کہ کسی اور کی تو کیا مجال کہ قرآن میں کچھ کمی بیشی کرے، اگر خود ہمارے فرستادہ محمد بھی اپنی طرف سے کچھ باتیں بنا کر اور کلام گھڑ کر ہمارے کلام میں شامل کر دیتے تو ہم انہیں بھی بخشنے والے نہیں تھے۔ پھر کسی ایرے غیرے کی، کسی فرشتے کی یا شیطان کی کیا حیثیت کہ وہ ایسی جرأت کرسکے؟
قرآنی بیانیے میں رسولِ رحمت حضرت محمد ﷺ کے ذکر اور تعارف وتوصیف کے عنوان سے قرآن میں بہت سا مواد موجود ہے مگر طوالت کے خوف سے اس مضمون کو یہیں پر ختم کیا جا رہا ہے۔
***

 

***

 ایک طرف محبوبیت کا یہ عالم ہے کہ جیسے اللہ کو اپنے نبی کی ادنیٰ تکلیف بھی گوارہ نہ ہو اور دوسری طرف قرآن اور دعوت وتبلیغ کے لیے اتنی حساسیت بھی ہے کہ اپنے نبی کو دو ٹوک اور کھرے لب ولہجے میں تنبیہ فرماتا ہے اور یہاں تک بھی ارشاد فرما دیتا ہے کہ کسی اور کی تو کیا مجال کہ قرآن میں کچھ کمی بیشی کرے، اگر خود ہمارے فرستادہ محمد بھی اپنی طرف سے کچھ باتیں بنا کر اور کلام گھڑ کر ہمارے کلام میں شامل کر دیتے تو ہم انہیں بھی بخشنے والے نہیں تھے۔ پھر کسی ایرے غیرے کی، کسی فرشتے کی یا شیطان کی کیا حیثیت کہ وہ ایسی جرأت کرسکے؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 جنوری تا 18 جنوری 2024