قرآنی بیانیے میں لفظ ’ کافر‘:توارد اور معنویت

ایمان وعقیدے کے لحاظ سے انسانوں کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ یہ تقسیم قرآن نے انسانوں پر بلا جواز نہیں تھوپی ہے بلکہ قرآن اور رسول کے بالمقابل انسانوں کے مختلف رویوں کی وجہ سے از خود قائم ہوئی ہے۔ اور قرآن نے اسے نتیجے کے طور پر بیان کیا ہے۔

ابو فہد ندوی

قرآنی بیانیے میں لفظ ’کافر‘ بالکل سادہ معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح، جس طرح ’مؤمن‘ اور ’مسلم‘ الفاظ سادہ معانی میں استعمال ہوئے ہیں۔ قرآنی بیانیے کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں کوئی بھی لفظ حتی کہ لفظ کافر بھی بطور گالی کے استعمال نہیں ہوا ہے۔ لفظ ’کافر‘ کے حوالے سے بھی حقیقت یہی ہے کہ یہ لفظ نہ تو کسی کی عیب جوئی کے لیے استعمال ہوا ہےاور نہ ہی اس سے کوئی خاص گروہ، مذہب یا فرقہ مراد ہے۔ سادہ اردو زبان میں لفظ ’کافر‘ کی ایک تعبیر ’غیر مؤمن‘ اور ’غیر مسلم‘ بھی ہوسکتی ہے۔ آخر دین اور عقیدے کے اعتبار سے جس شخص کی جو عرفیت ہے اسے کسی نہ کسی لفظ اور نام سے پکارا تو جائے گا ہی تاکہ دین وعقیدے اور تہذیب و روایات کے اعتبار سے جس کسی کی بھی جو عرفیت اور شناخت ہے وہ واضح ہوسکے۔
اور یہ بات کسی طرح سے بھی قرآن کے شایان شان نہیں ہوسکتی تھی کہ قرآن کسی کو گالی نما لفظیات کے ساتھ خطاب کرے۔ قرآن نے تو ابلیس، فرعون اور ابوجہل و ابولہب کو بھی گالی نما لفظیات سے خطاب نہیں کیا۔ اور وہ ایسا کر بھی کیسے سکتا تھا جبکہ خود اسی نے اہل ایمان کو ہدایت دی ہے کہ غیر مسلم جن شخصیات، چیزوں اور مورتیوں کی عبادت کرتے اور پوجتے ہیں انہیں گالی نہ دیں:
وَلَا تَسُبُّواالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللٰهِ  (الانعام: ۱۰۸)
’’اے ایمان والو! یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو‘‘
یہ اصول دینے کے بعد قرآن نے انسانوں کو دنیا میں اپنے اپنے عقائد کے اعتبار سے رہنے اور جینے کی آزادی بھی دی ہے۔ قرآن نے کہا ہے : فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ‎﴿النحل: ٨٢﴾‏ ترجمہ: ’’اے نبی! اگر یہ لوگ تمہاری دعوت قبول نہ کریں تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔ تمہارے ذمہ تو صرف کھلے طور پر پیغام پہنچا دینا ہے‘‘
یہی مضمون دیگر مقامات پر بھی بیان ہوا ہے، جو انسان کو ایمان وعقیدے کے انتخاب کی آزادی دیتا ہے۔ سورہ الکافرون میں ہے: لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِين سورہ یونس میں ہے:  وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّى عَمَلِى وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ ۖ أَنتُم بَرِيٓـُٔونَ مِمَّآ أَعْمَلُ وَأَنَا۠ بَرِىٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ اسی طرح سورہ قصص میں ہے: لَنَآ أَعْمَٰلُنَا وَلَكُمْ أَعْمَٰلُكُمْ ہے۔
دین اسلام کی من جملہ تمام خوبیوں میں ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ کسی کے ساتھ زور زبردستی نہیں کرتا، حالانکہ وہ خود انسان ہی کی بھلائی کے لیے کوئی بات کہہ رہا ہوتا ہے، مثلا توحید کی دعوت دے رہا ہوتا ہے اور پھر وہ اس میں بھی فیصلہ اس انسان پر ہی چھوڑ دیتا ہے، چاہے تو وہ اسے مانے اور چاہے تو اسے رد کردے۔ البتہ ماننے اور نہ ماننے کے برے نتائج سے خبردار ضرور کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ دنیا میں تو ماننے یا نہ ماننے کی آزادی ہے مگر قیامت کے دن یہ سوال ضرور ہوگا کہ اللہ کے مقابلے میں ان کمزور انسانوں اور بے جان اور بے بس چیزوں کو کیوں پوجتے رہے جن کو خود اللہ نے ہی پیدا کیا تھا اور پھر کمزور پیدا کیا تھا اور خود انسان سے بھی تو کمزور ہے۔
قرآن میں لفظ ’کافر‘ کے توارد کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ قرآن نے تو دنیا میں انسانوں کے آنے سے بہت پہلے عرش پر رہنے والی مخلوق میں ابلیس کو بھی کافر کہا ہے۔ اس وقت تو دنیا کا ہی وجود نہیں تھا۔ اس وقت تک صرف جن وفرشتے پیدا کیے گئے تھے اور پہلے انسان یعنی آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے تھے۔
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ ‎﴿البقرة: ٣٤﴾‏
ترجمہ: ’’اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں تو سب فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا، مگر ابلیس نے سجدہ نہیں کیا، اس نے غرور کیا اور انکار کرنے والوں میں سے (پہلا شخص) ہو گیا‘‘
ابتدائے آفرینش میں جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں تو فرشتوں نے سجدہ کیا اور ابلیس نے سجدہ نہیں کیا۔ اس انکار اور اقرار کی وجہ سے فرشتے مسلم قرار پائے یعنی اللہ کے حکم کے سامنے سر نیاز خم کر دینے والے جبکہ ابلیس کافر قرار پایا یعنی اللہ کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہونے والا اور اس کی حکم عدولی کرنے والا۔
اقبال نے کہا ہے:
اسے صبح ازل انکار کی جرأت ہوئی کیونکر
مجھے معلوم کیا، وہ رازداں تیرا ہے یا میرا
اس حوالے سے اگر ہم انسانی تاریخ کے ابتدائی دور سے تاحال واقعات اور لوگوں کی نفسیات کا جائزہ لیں تو پیغمبروں کی دعوت کا اقرار و انکار کرنے کا یہ عمل ایک بار نہیں ہوا بلکہ بار بار ہوا ہے۔ جب بھی اللہ نے کسی بھی قوم میں اپنے رسولوں کو بھیجا اور انہیں ہدایات دیں، پھر انہوں نے لوگوں کو اللہ کے بارے میں اور اللہ کی ہدایات کے بارے میں بتایا تو کچھ لوگوں نے اقرار کیا، یہ مؤمن کہلائے اور کچھ لوگوں نے صاف صاف انکار کر دیا جو کافر کہلائے۔ ان دو واضح گروہوں کے علاوہ  کچھ لوگ کنفیوژڈ بھی رہے، انہوں نے صاف صاف انکار بھی نہیں کیا اور مان کر بھی نہیں دیا۔جبکہ کچھ لوگوں نے زبان سے تو اقرار کیا مگر دل سے اقرار نہیں کیا۔ قرآن کی اصطلاح میں یہ لوگ منافق کہلائے۔ پھر انکار کرنے والوں میں کچھ لوگ حد سے تجاوز کر گئے اور انہوں نے نبیوں اور رسولوں کو ستانا شروع کر دیا، یہاں تک کہ ان میں سے بعض کو قتل بھی کر دیا۔ اللہ نے ایسے لوگوں اور قوموں کی دنیا میں ہی سزا دی۔
قرآن کے بیانے میں موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے جو مکالمات جگہ جگہ آئے ہیں، ان میں ایک مکالمے میں فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی کافر کہا تھا:
وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِي فَعَلْتَ وَأَنتَ مِنَ الْكَافِرِينَ ‎(الشعراء: 19)
’’فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا اور تونے ہمارے آدمی کو قتل کرنے کا جرم بھی کیا تھا۔ تو تو بڑا ہی ناشکرا نکلا‘‘ ‏
ماضی میں گزری ہوئی ان اقوام کو بھی کافر کہا گیا ہے جو کسی نہ کسی نبی یا رسول کے مقابل تھیں۔:
وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ‎(البقرۃ: 250)
ترجمہ: ’’اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکر کا مقابلہ کرنے کو نکلے تو انہوں نے (اپنے رب سے) یوں دعا کی: ’’اے ہمارے پروردگار ہمیں دشمن کے مقابلے کی ہمت عطا فرما، ہمارے قدم جما دے اور کافر قوم پر ہمیں غلبہ عطا کر‘‘‏
یعنی نزول قرآن اور نبی (ﷺ) کی آمد سے بہت پہلے ہی جو قومیں اپنے وقت کے پیغمبر کو مانتی تھیں وہ قرآن کی اصطلاح میں مسلمان تھیں اور جو نہیں مانتی تھیں وہ کافر تھیں۔ جنہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کا انکار کیا قرآن کی زبان میں وہ بھی کافر ہیں۔ اسی طرح حضرت موسیٰ وعیسی (علیہم السلام) کے زمانے میں جو قومیں تھیں اور ان کی مخالفت کرتی تھیں قرآن کی زبان میں وہ بھی کافر ہیں۔ قرآن کی زبان میں شیطان بھی کافر ہے اور فرعون بھی کافر ہے۔ قرآن نے تو ’کاشتکاروں‘‘ کے لیے بھی ’کفّار‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ دیکھیں:
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ 
(الحدید آیت نمبر 20)
ترجمہ: ’’یاد رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل تماشا ہے، زیب و زینت ہے، آپسی تفاخر اور مال و اولاد کی کثرت کی نمائش ہے۔ دنیا کی زندگی کی مثال (اپنی ناپائیداری میں) ایسی ہی ہے جیسے کہ بارش ہوئی، اس سے کھیتی پیدا ہوئی، کسانوں کے دل خوشیوں سے بھر گئے، پھر جلد ہی وہ پک کر پیلی پڑگئی اور پھر جلد ہی بھس بن کر ختم بھی ہوگئی‘‘ 
لغوی اعتبار سے تو رات کو، کالے بادلوں کو اور سمندر کو بھی کافر کہا جاتا ہے۔ لغوی اعتبار سے کافر کے ایک معنیٰ چھپانے کے بھی ہے، کسان بیج کو مٹی میں چھپا دیتا ہے، اس لیے اسے کافر کہتے ہیں، رات انسانوں کی آنکھوں سے اس کے آس پاس کی چیزوں کو چھپا دیتی ہے، کالے بادل سورج کی روشنی کو چھپا لیتے ہیں اور سمندر اپنے اندر کئی طرح کے خزانے اور قیمیتی چیزیں چھپائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس لیے ان سب کو کافر کہا جاتاہے۔
پھر اس لفظ ’کافر‘ کے کئی شیڈس بھی ہیں، کہیں اس میں انکارِ حق کے معنیٰ ہیں اور کہیں کفران نعمت کے معنیٰ ہیں، کہیں پر تخاطب معاشرے کے بدخصال لوگوں سے ہے اور کہیں پر متکبر اور آمادہ جنگ رہنے والوں سے خطاب ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے:
الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللَهُ مِن فَضْلِهِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا ‎﴿٣٧﴾
ترجمہ:’’ جولوگ خود بھی بخیل ہیں اور دوسروں کو بھی بخل پر آمادہ کرتے ہیں، پھر اللہ نے محض اپنے فضل وکرم سے انہیں جو مال عطا کیا ہے، اسے سمیٹ سمیٹ کر اور چھپا چھپا کر رکھتے ہیں (ایسے لوگوں کو بھی اللہ پسند نہیں کرتا ہے) ایسے ناشکرے لوگوں کے لیے اللہ نے آخرت میں ذلت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘‏
اس آیت میں لفظ ’کافرین‘ ناشکری کے معنیٰ میں ہے۔ ذیل کی آیت میں بھی لفظ ’کافر‘ آخرت کا انکار کرنے کے معنیٰ میں ہے۔
الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا وَهُم بِالْآخِرَةِ كَافِرُونَ (الأعراف: ٤٥)
ترجمہ: لعنت ہو ان ظالموں پر جو لوگوں کو اللہ کی راہ سے بھٹکاتے تھے، اس میں خامیاں تلاش کرتے تھے اور آخرت کا انکار کرتے تھے۔
ذیل کی دونوں آیتوں میں کافرون کا لفظ انکارِ محض کے لیے ہے۔ یعنی کسی پہچانی ہوئی چیز کو پہچاننے سے انکار کر دینے والے، حق بات سے مکر جانے والے، جیسے گواہ گواہی سے مکر جاتا ہے۔
أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنفُسِهِم مَّا خَلَقَ اللَهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَكَافِرُونَ ‎(الروم: ٨)
ترجمہ: کیا انہوں نے کبھی اپنے آپ پر غور نہیں کیا کہ اللہ نے زمین وآسمان اور ان کے مابین جو کچھ بھی ہے، انہیں بے کار اور بلا وجہ پیدا نہیں کیا ہے اور پھر ایک وقت مقررہ تک کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔ ان کے درمیان کتنے لوگ ہیں جو اس بات سے انکار کیے جا رہے ہیں کہ ایک دن انہیں اللہ کے دربار میں بھی حاضر ہونا ہے۔
وَلَمْ يَكُن لَّهُم مِّن شُرَكَائِهِمْ شُفَعَاءُ وَكَانُوا بِشُرَكَائِهِمْ كَافِرِينَ ‎(الروم: ١٣)
ترجمہ: اس دن ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں سے کوئی بھی ان کی سفارش نہیں کر سکے گا، بلکہ وہ خود ہی اپنے شریکوں کے منکر ہو جائیں گے‘‘
اب اگر اردو زبان کی بات کریں تو اس لفظ ’کافر‘ میں اور بھی کئی شیڈس اور پہلو پیدا ہو جاتے ہیں۔ اردو زبان میں تو معشوق بھی کافر ہے۔
لائے اس بت کو بڑی التجا کرکے
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے
اسی رنگ کا ایک اور شعر ہے:
چھوڑوں گا میں نہ اس بتِ کافر کا پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر
ظاہر ہی سی بات ہے کہ پہلے مصرعے میں ’بتِ کافر‘ سے کوئی غیر مسلم عورت تو مراد نہیں ہے۔ بلکہ راست طور پر ’معشوقہ‘ مراد ہے، خواہ اس کا مذہب، کلچر اور ملک کوئی بھی کیوں نہ ہو۔
غالب نے تو خود کو بھی کافر کہا ہے:
وسعت رحمت حق دیکھ کہ بخشا جاوے
مجھ سا کافر کہ جو ممنون معاصی نہ ہوا
ظاہر ہے کہ یہاں کافر گناہ گار کے معنٰی میں ہے۔
ہاں اس لفظ کے پہلے مخاطب اہل مکہ تھے اور وہ اسلام، پیغمبرِ اسلام اور مسلمانوں کی اعلانیہ مخالفت پر کمربستہ تھے۔ اس لیے قرآن میں بعض جگہ پر یہ لفظ جنگی نوعیت کے حالات میں بھی استعمال ہوا ہے۔ اسے جنگی حالات کا بیانیہ کہنا زیادہ درست ہے۔ جب جنگ درپیش ہوتی ہے تو حاکم اور کمانڈر کا بیان، قول وقرار اور برتاو مختلف نوعیت کا ہوتا ہے اور جب حالات نارمل ہوتے ہیں تو نوعیت بدل جاتی ہے۔ قرآن کا بیانیہ بھی ایسا ہی ہے، جنگی حالات کا بیانیہ مختلف ہے اور پر امن حالات کا بیانیہ مختلف ہے۔ ذیل کی آیات دیکھیں:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَءَامَنُوا۟ قَٰتِلُوا۟ ٱلَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ ٱلْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا۟ فِيكُمْ غِلْظَةً
(التوبة : 123)
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! ان کفار سے جنگ کرو جو تمہارے قریب ہیں (کیونکہ وہ تمہارے ساتھ برسر پیکار ہیں۔ تم خود کو اس طرح متحد اور مضبوط رکھو) کہ وہ تمہارے اندر بے خوفی اور سختی محسوس کریں‘‘
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُبَيْنَهُمْ ۖ (الفتح : ۲۹)
ترجمہ: محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھی اہل کفر کے لیے (میدان کارزار میں) سخت (اور غالب رہنے والے) ہیں اور باہم دگر رحیم اور شفیق ہیں‘‘
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِۦ فَسَوْفَ يَأْتِى ٱللَهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى ٱلْكَٰفِرِينَ (المائدة: 54)
ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تم میں سے کوئی اس دین سے پھرنا چاہتا ہے (تو پھرجائے، وہ ایسا کرکے اللہ کا کچھ نقصان نہ کرسکے گا) پھر اللہ جلد ہی ایسے لوگ پیدا کرے گا کہ اللہ خود ان سے محبت فرمائے گا اور وہ بھی اللہ سے محبت کرنے والے ہوں گے (ان کی ایک صفت یہ بھی ہوگی کہ) وہ اہل ایمان کے لیے (تمام معاملات میں) نرم ہوں گے اور اہل کفر کے لیے (میدان کارزار میں) سخت (جواب دینے والے) ہوں گے‘‘
وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَهِ وَعَدُوَّكُمْ (المائدة : 60 )
ترجمہ: اور اے مسلمانو! اپنے اور اللہ کے دشمنوں کو خوف زدہ رکھنے کے لیے جتنی بھی قوت جمع کرسکتے ہو کرلو اور جتنے بھی تیار بند گھوڑے رکھ سکتے ہو رکھ لو (تاکہ یہ تمہارے خلاف جنگ کرنے کی ہمت نہ کرسکیں)‘‘
یہ تمام آیات دراصل جنگی حالات کا بیانیہ ہیں، پرامن حالات کا بیانیہ نہیں ہیں۔ قرآن نے اس کی وضاحت بھی کردی ہے۔ وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (الانفال : 61)
ترجمہ: اور اے نبی! اگر یہ لوگ صلح وامن کے طلب گار ہوں تو تم ان کے ساتھ صلح کرنے پر راضی ہوجاو، پھر اللہ پر بھروسہ رکھو، بے شک وہ بہت سننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔
وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُونَ (التوبة : 6)
ترجمہ: ’’اے نبی! اگر ان مشرکوں میں سے کوئی تم سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو تاکہ وہ کلام اللہ سنے (اور پھرجب وہ جانا چاہے) تو اسے امن کی جگہ پہنچا دو، (یہ حسن سلوک اس لیے ہے) کیونکہ یہ مشرکین نہیں جانتے (کہ اللہ اور اللہ کے نبی ان کے ساتھ کیا بھلائی کرنا چاہتے ہیں)
یہ دونوں آیات سورۂ توبہ کی آیات ہیں اور ان میں صراحت کردی گئی ہے کہ امن کے حالات میں امن کی بحالی اور اس کو قائم رکھنے کے لیے مسلمان پابند عہد ہیں۔ سورۂ ممتحنہ میں یہ میسیج اور بھی زیادہ واضح ہوگیا ہے۔:
لَّا يَنْهَىٰكُمُ ٱللَهُ عَنِ ٱلَّذِينَ لَمْ يُقَٰتِلُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَٰرِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوٓا۟ إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ ٱللَهَ يُحِبُّ ٱلْمُقْسِطِينَ، إِنَّمَا يَنْهَىٰكُمُ ٱللَهُ عَنِ ٱلَّذِينَ قَٰتَلُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَٰرِكُمْ وَظَٰهَرُوا۟ عَلَىٰٓ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّٰلِمُونَ ‎(الممتحنہ: 8-9)‏
ترجمہ: اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ عدل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ اللہ تو محض تمہیں ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے منع فرماتا ہے جنہوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں (یعنی وطن) سے نکالا اور تمہارے باہر نکالے جانے پر (تمہارے دشمنوں کی) مدد کی۔ اور جو شخص ان سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔
قرآن نے دنیا کے تمام انسانوں کو ایک ماں باپ کی اولاد بتایا ہے، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ’نفس واحدۃ‘ سے ان کا رشتہ جوڑا ہے، جس کے ظاہری معنیٰ یہی ہیں کہ سارے انسان یعنی تمام مرد اور عورتیں سب کے سب ایک نفس یعنی ’آدم‘ سے پیدا ہوئے ہیں اور دوسرے معنیٰ یہ بھی ممکن ہیں کہ نفس واحدہ سے ’’واحد خلیہ / single life cell ‘‘ مراد ہو۔ سورۂ نساء کی پہلی آیت کا پہلا فقرہ اس طرح ہے:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُوا۟ رَبَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَٰحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَآءً ۚ (النساء:۱)
’’اے لوگو! اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا، پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر اس جوڑے سے بہت سے مرد اور عورتیں (روئے زمین پر) پھیلا دیے ‘‘
یہ مضمون قرآن میں اور بھی کئی مقامات پر بیان ہوا ہے۔ مثلا سورۂ اعراف آیت نمبر ۱۸۹، سورۂ زمر آیت ۶، سورۂ انعام آیت نمبرآیت ۹۸ وغیرہ۔ نیز سورۂ انعام میں ہے:  وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ  (انعام ۹۸) ترجمہ: وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے‘‘
قرآن کے اس بیانیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا کے انسان ایک کنبے کی طرح ہیں، جن میں انسان ہونے کی حیثیت سے کوئی بھید بھائی اور اونچ نیچ نہیں ہے، نہ آدمی اور آدمی کی درمیان کوئی اونچ نیچ ہے اور نہ ہی مرد اور عورت کے درمیان کوئی اونچ نیچ ہے۔ شرف انسانیت وآدمیت میں سب برابر ہیں۔
البتہ فرقِ مراتب ہے اور یہ فرق مراتب انسانوں کی ذاتی قابلیت، صلاحیت، نیکی اور تقویٰ کے اعتبار سے قائم ہوتا ہے، نہ کہ فی نفسہ مرد ہونے کی وجہ سے یا صحت ودولت میں ممتاز ہونے کی وجہ سے؟ یعنی مرد کو محض مرد ہونے کی وجہ سے عورت ذات پر بڑائی حاصل نہیں ہے اور نہ ہی ایک آدمی دوسرے آدمی سے اس لیے بڑا ہے کہ کسی کے پاس زیادہ دولت ہے، بڑا عہدہ ہے اور اچھی صحت ہے۔
اس کے بعد قرآن نے انسانوں کے درمیان نیک و بد اور مفید و مضر ہونے کے اعتبار سے ایک تقسیم کی ہے۔ جو شخص معاشرے کے لیے جتنا زیادہ مفید ہے وہ اللہ کی نظر میں اتنا ہی زیادہ محبوب ہے اور جو انسان معاشرے کے لیے جتنا زیادہ مضر ہے اللہ کی نظر میں وہ اتنا ہی ناپسندیدہ ہے۔ قرآن میں اللہ کے پسندیدہ انسانوں کی ’عبادالرحمن‘ کے نام سے ستائش کی گئی ہے، اسی طرح قرآن میں ہے۔  وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ‎(المائدہ: ۶۴)‏ ترجمہ: اللہ فساد پھیلانے والوں کو پسند نہیںکرتا۔ یعنی اللہ اچھے لوگوں کو پسند فرماتا ہے اور برے لوگوں کو ناپسند کرتا ہے۔
حدیث شریف میں ہے: أحب الناس إلى الله أنفعهم للناس.  ترجمہ :’’اللہ کو وہ لوگ زیادہ پسند ہیں جو اللہ کے بندوں کے زیادہ کام آنے والے ہیں۔
اس کے بعد عقیدے کے اعتبار سے تقسیم ہے۔ قرآن نے ایمان و عقیدے کے لحاظ سے بھی انسانوں کی دو بڑی قسمیں کی ہیں۔ زیادہ درست بات یہ ہے کہ یہ تقسیم قرآن نے انسانوں پر بلا جواز نہیں تھوپی ہے بلکہ قرآن اور رسول کے بالمقابل انسانوں کے مختلف رویوں کی وجہ سے از خود قائم ہوئی ہے۔ اور قرآن نے اسے نتیجے کے طور پر بیان کیا ہے۔ جب قرآن نازل ہوا تو کچھ لوگ اس پر ایمان لے آئے اور کچھ لوگ ایمان نہیں لائے۔
قرآن میں ہے:
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ ‎﴿التغابن: ٢﴾‏
ترجمہ:’’وہی اللہ ہے جس نے تم سب کو پیدا کیا ہے، پھر تم میں سے کوئی (اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ اسے اللہ نے ہی پیدا کیا ہے) اور کوئی (اس بات کو) تسلیم کرلیتا ہے‘‘
تو جس نے اللہ کو خالق اور رب تسلیم کرلیا وہ قرآن کی زبان میں ’مؤمن‘ ہوا اور جس نے تسلیم نہیں کیا وہ قرآن کے نزدیک ’کافر‘ ٹھہرا۔ اب اگر قرآن نہ ماننے والے کے لیے ’کافر‘ کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ استعمال کرتا، اعتراض کرنے والوں کو اس پر بھی اعتراض ہوسکتا تھا۔ اور بہر حال اس کے لیے کوئی نہ کوئی لفظ تو استعمال کرنا ہی تھا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ لفظ ’کافر‘ قرآن وحدیث میں نہ تو کسی  کے لیے گالی ہے اور نہ ہی اس سے کوئی خاص قوم مراد ہے، بلکہ یہ دیگر تمام الفاظ کی طرح ایک عام لفظ ہے جو قوموں کے درمیان اعتقادی فرق کو بتانے کے لیے ہے۔ یعنی اگر کسی شخص یا قوم کو کافر کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس شخص یا قوم کا عقیدہ مسلمانوں کے عقیدے سے مختلف ہے۔اسی طرح مخالف ومتوازی معنیٰ میں یہی مطلب مسلمان اور مؤمن کا بھی ہوتا ہے۔ یعنی جو مسلمان ہے وہ یہودی، عیسائی، مجوسی اور سناتنی نہیں ہے۔ اور ایسے معانی پر مشتمل الفاظ دنیا کی ہر زبان، ہر قوم اور ہر مذہبی کتاب میں یہاں تک کہ ہر ملک کے دستور میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ جب صورت حال یہ ہے تو خاص اس حوالے سے قرآن پر اعتراض کی بظاہر کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ قرآن پر اعتراضات کی وجوہات عموما یا تو سیاسی ہوتی ہیں یا انتقامی اور معاندانہ، یا پھر مسلمانوں کے ایسے رویوں کا رد عمل ہوتی ہیں جو قرآن میں وارد الفاظ اور آیات کے درست مدلولات، انطباقات اور استدلال کی درست نوعیتوں کو سمجھے بغیر اکثر وبیشتران کی طرف سے سامنے آتے رہتے ہیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 اکتوبر تا 14 اکتوبر 2023