قرآنی بیانیے میں استثنیات

گنجائشیں اللہ تعالیٰ کی حکمتِ عدل کا تقاضا

محمد الیاس ابو فہد ندوی

کسی بھی بیانیے کی ایک نوعیت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ متکلم کے اعتبار سے قطعی الدلالہ ہی ہوتا ہے تاہم وہ مخاطب کی سطح پر ظنی الدلالۃ یا کثرتِ انطباق والا بیانیہ بن جاتا ہے
قرآنی بیانیے کی اصل یہی ہے کہ وہ قطعیت کا حامل بیانیہ ہے، اصطلاحی تعبیر میں کہا جائے تو فی الواقع قطعی الدلالۃ بیانیہ ہے، خاص طور پر توحید کے بیانات میں قطعیت ہے، قیامت اور حشر و نشر کے بیان میں بھی قطعیت ہے۔ اس میں قطعیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ یہ کوئی تخیلی، تجریدی، علامتی اور افسانوی بیانیہ نہیں ہے اور اس لحاظ سے بھی ہے کہ اس کے الفاظ اور جملوں کی دلالت اپنے معانی پر قطعی ہے۔ تاہم قرآنی بیانیہ از اول تا آخر سارا کا سارا ایسی قطعیت والا نہیں ہے کہ جس میں استثنیات نہ ہوں۔ قرآن کے بہت سارے بیانات میں استثنیات ہیں۔ قرآن میں ہے:إِنَّ اللہ شَدِيدُ الْعِقَابِ ‎(المائدة: ٢) اور اسی قرآن میں ہے:إِنَّ اللہ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ(‎التوبة: ١١٨)۔ ایک ہی سورت البروج میں یکے بعد دیگرے اللہ کے لیے دو صفات بیان ہوئی ہیں؛ إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ (‎البروج-۱۲) اور وَهُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ ‎(البروج-١٤ )بے شک اللہ مجرموں کو سزائیں بھی دے گا مگر معافیاں بھی کئی گنا زیادہ دے گا۔اسی لیے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نے اللہ کے حضور یہ عرض نیاز رکھی؛ إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ‎المائدۃ- ١١٨ ’’اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر انہیں معاف فرما دے تو تو غالب وحکیم ہے‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن میں جزا و سزا کا بیانیہ قطعی بیانیہ ہے تاہم اس میں معافی کے استثنیٰ کا پہلو بھی شامل ہے۔ استثنی کے باوجود یہ قطعی اس لیے ہے کہ خود اللہ نے ہی اپنے بیان میں استثنیٰ رکھا ہے۔ اللہ اپنی حکمتِ عدل کے تحت مجرموں کو سزا بھی دے گا اور اپنی رحمت کے سبب معافیاں بھی دے گا۔
کسی بھی بیانیے کی ایک نوعیت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ متکلم کے اعتبار سے قطعی الدلالہ ہی ہوتا ہے تاہم وہ مخاطب کی سطح پر ظنی الدلالۃ یا کثرتِ انطباق والا بیانیہ بن جاتا ہے۔ متکلم کے نزدیک کسی بھی لفظ کی دلالت ایک وقت میں ایک ہی معنیٰ پر ہو سکتی ہے مختلف معنیٰ پر نہیں ہوسکتی، یہاں تک کہ ذو معانی الفاظ اور ذو معانی جملوں کی دلالت بھی بیک وقت ایک ہی معنیٰ پر ہوسکتی ہے۔ لہذا ’’اٹھو مت بیٹھو‘‘ جیسے ذو معانی جملوں میں بھی ایک وقت میں ایک ہی معنیٰ مراد لیے جاسکتے ہیں، دو معنیٰ مراد نہیں لیے جا سکتے۔ کیونکہ کسی بھی کلام سے معنیٰ کی وحدت مطلوب ہوتی ہے کثرت نہیں، اگر کوئی کلام کثرتِ معانی کا حامل ہے تو وہ سامع اور مخاطب کی حیثیت سے کثرت معانی والا کلام ہو سکتا ہے متکلم کے اعتبار سے نہیں ہو سکتا۔ پھر کثرت عام طور پر معنیٰ میں نہیں ہوتی بلکہ انطباقات میں ہوتی ہے، جیسے قرآن میں ہے؛ وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ ‎(الأنفال ٦٠) ’’جہاں تک ممکن ہوسکے دشمنوں کے خلاف قوت جمع رکھو‘‘ یہاں ’قوۃ‘ کا لفظ ایک طرح سے جوہری لفظ ہے، اس کے انطباقات وقت کے ساتھ بدلتے رہیں گے۔ کیونکہ طاقت کے مآخذ اور مظاہر بدلتے رہتے ہیں۔ نزول قرآن کے زمانے میں طاقت و قوت کے اہم مظاہر میں گھوڑے اور تیر و تفنگ تھے، اسی لیے اس کے بعد فرمایا ’’ومن رباط الخیل۔۔‘‘ ’’بندھے ہوئے گھوڑوں کی کھیپ، یعنی ہر دم تیارو تازہ دم گھوڑے بھی تیار رکھو‘‘ اور آج کے زمانے میں طاقت کے مظاہر لڑاکا طیارے اور میزائل وغیرہ ہیں۔
قرآن میں کئی طرح کے استثنیات ملتے ہیں۔ استثنیٰ کی ایک مثال تو وہی ہے جو انسانی کلام میں ہوتی ہے یعنی اداتِ استثنیٰ کے ذریعے سے استثنیٰ۔جیسے:وَالْعَصْرِ، إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ، إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۔ ’’زمانے کی قسم! تمام انسان خسارے میں ہیں، البتہ وہ لوگ (خسارے میں نہیں ہیں) جو ایمان لے آئے، پھر نیک عمل کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے‘‘ ‏یہاں حرف ’الَّا‘ کے ذریعہ استثنیٰ کیا گیا ہے۔ اور قرآن میں اس کی مثالیں بہت ہیں۔ بیشتر مقامات پر قرآن کا اسلوب یہی ہے کہ وہ استثنیات رکھ کر ہی بات کرتا ہے، جیسے؛ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ‎)البقر ہ ٢٤٦ )’’تو جب ان پر قتال فرض کر دیا گیا تو ان میں سے معدودے چند کے سوا سب اپنے قول وعزم سے پھر گئے۔‘‘
آیت الکرسی میں تین جگہ حرف ’اِلّا‘ آیا ہے۔ پہلی جگہ تو تاکید اور زور بیان کے لیے ہے، جبکہ دوسرے دو مقامات پر جو استثنیٰ ہے ان سے زیر بحث مسئلے کی پوری وضاحت ہوتی ہے ۔ایک جگہ ہے:مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ’’کون ہے جو اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر کسی کے لیے سفارش بھی کرسکے‘‘ اور دوسری جگہ ہے:وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ )‎البقرة: (٢٥٥ ’’ تمام انسان باہم مل کر بھی اللہ کے علم سے صرف اتنا ہی حاصل کرسکتے ہیں جتناعلم وہ انہیں دینا چاہے‘‘ قرآن میں اس طرح کے استثنیات سے حقیقت بیانی مقصود ہوتی ہے، بیان اپنے مدعا کے تمام پہلوؤں کو حاوی ہو جاتا ہے اور پھر اس میں لطافت اور لچک بھی پیدا ہوتی ہے۔
۱۔ قرآن میں ہے ’لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ۔ ’’اللہ کے کلمات میں کوئی رد وبدل نہیں، یعنی اللہ کے حکم کو کوئی بھی رد کرنے والا اور ٹالنے والا نہیں ہے‘‘ مگر اسی قرآن میں نسخ کی بات بھی آئی ہے۔ کلمات سے مراد اللہ کے اقوال بھی ہیں، جو آسمانی کتابوں میں محفوظ ہیں، خاص کر قرآن میں، کلمات سے مراد فطرت میں کار فرما طبعی اصول اور امور بھی ہیں اور کلمات سے مراد شرعی احکام بھی ہیں۔ قرآن میں ہے کہ نہ اللہ کے کلمات میں کوئی تبدیلی ممکن ہے، نہ اس کی تخلیق میں اور نہ ہی کائنات میں جاری وساری اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی ممکن ہے۔ ’لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللہ ‘ ‎(يونس٦٤ ) ’لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللہ ‘‎)الروم۳۰)
اور ’وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللہ تَبْدِيلًا‘ ‎(الأحزاب۶۲)
اللہ کے دین میں نسخ دو طرح سے ہوا ہے ایک اس طرح کہ بعد کے انبیاء کرام کو جو شریعتیں دی گئیں وہ پہلے انبیاء کرام کی شریعتوں سے قدرے مختلف تھیں، گو کہ توحید وشرک وغیرہ کی بنیادی تعلیمات ایک ہی رہیں، کیونکہ دین تو ابتدا سے ایک ہی رہا ہے۔ دوسرا نسخ اس طرح ہوا ہے کہ ایک ہی شریعت میں ابتدائی مراحل میں جو احکام دیے گئے بعد کے مراحل میں ان میں سے بعض احکام میں تبدیلی کی گئی۔ آخری شریعت اور آخری کتاب میں بھی یہ نسخ واقع ہوا ہے:قرآن میں ہے:مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۔ ’’ ہم اگر کوئی آیت (حکم) منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں، تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ہم اس کی جگہ اس سے بہتر یا اسی جیسا کوئی دوسرا حکم لانا چاہتے ہیں‘‘
۲۔ قرآن میں ہے:وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَاللہ (الانسان-۳۰)۔ ’’اگر اللہ نہ چاہے تو تم کسی کام کا ارادہ بھی نہیں کرسکتے‘‘مگر اللہ نے انسان کو ایک حد تک آزادیاں بھی دے رکھی ہیں، اور نہ صرف کمانے کھانے کی بلکہ قتل وگناہ کی آزادیاں بھی دے رکھی ہیں۔ آزادیاں دینا اللہ کی حکمت و تدبیر کے تحت ہے اور وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللہ ۚ ، اللہ کی قدرت کاملہ کو بتانے کے لیے ہے، اور یہ انتہائی درجے کی بات ہے کہ اگر اللہ نہ چاہے تو انسان کسی کام کا ارادہ بھی نہیں کر سکتا، کیونکہ انسان کا ارادہ اور عمل بھی اپنی انتہائی شکل میں اللہ کی مرضی کے تابع ہے۔ مگر اللہ نے ہی یہ چاہا ہے کہ انسان ایک مخصوص دائرے میں اپنے ارادے واختیار کا مالک بھی رہے۔ انسان اپنے اختیار سے خود اپنی جان لے سکتا ہے مگر وہ خود اپنی مرضی سے جنم نہیں لے سکتا۔ اور جان لینا بھی اسی مخصوص دائرے کے اختیار اور محدود آزادی کے تحت ہے، اگر اللہ نہ چاہے تو کوئی شخص اپنی جان بھی نہیں لے سکتا۔
۳۔ قرآن میں ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ امر ’کن‘ سے چیزوں کو پیدا فرماتا ہے۔ إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ( ‎یٰسن۸۲) ’’اس کی شان تو ایسی نرالی ہے کہ جب وہ کسی بھی کام (کسی عظیم الشان تخلیق کا بھی) کا ارادہ کرتا ہے تو وہ صرف یہ فرماتا ہے کہ ’ہوجا‘ اور وہ کام ہو جاتا ہے‘‘۔جبکہ دوسری جگہ یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ نے اس کائنات کو چھ دن میں پیدا فرمایا ہے: ‌‏’’ہم نے زمین وآسمان اور ان کے مابین جان دار وغیر جان دار تمام چیزوں کو چھ دنوں میں تخلیق کیا، اور ہمیں کچھ بھی تکان لاحق نہیں ہوئی‘‘ق۳۸)۔
مگر قرآن کے ان دونوں طرح کے بیانیوں میں تضاد کی نسبت نہیں ہے، بلکہ یوں ہے کہ اللہ کے یہاں امر کن بھی ہے اور تدریج بھی ہے۔ امر کن اللہ کی قوت کو بتاتا ہے اور تدریج اللہ کی حکمت اور تدبیر کو بتاتی ہے۔
۴۔ قرآن میں ہے ; مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ‎السجدة: ’’ اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی دوست ہے اور نہ کوئی سفارشی‘‘
جبکہ اسی قرآن میں دوسرے مقامات پر شفاعت کے لیے استثنیٰ بھی رکھا گیا ہے۔ اسی لیے قرآنی بیانیے میں کئی مقامات پر’ إِلَّا بإِذْنِهِ‘،’إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ‘ اور’ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى)ٰ ‎الأنبياء۲۸) کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ سورۂ یونس میں ہے؛ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِإِذْنِهِ ‎(يونس٣۔) اسی طرح آیت الکرسی میں ہے؛ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اگر کسی کو اللہ کے حضور سفارش کی اجازت مل پائے گی تو ظاہر ہے کہ وہ انبیاء کرام ہی ہوں گے اور بالخصوص نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ ہی ہوں گے۔
قرآن کے ایک جگہ تاکیدی بیانیے سے اور دوسری جگہ استثنائی بیانیے سے معلوم ہوا کہ قرآن میں اگرچہ سفارش کی نفی ہے مگر یہ من کل الوجوہ نہیں ہے اور نہ ہی بلااستثنیٰ ہے۔
۵۔ قرآن میں ہے؛ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ ‎(القمر۱) ’’قیامت قریب آگئی اور چاند دو ٹکڑے ہوگیا ‘‘ اس معنیٰ کی اور بھی آیات ہیں، قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ ‎الأعراف: ١٨٥ اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ ‎الأنبياء: ١ وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ ‎الأنبياء: ٩٧ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃُ کَہَاتَیْنِ وَضَمَّ السَّبَّابَۃَ وَالْوُسْطیٰ (مسلم:2949) میری بعثت اور قیامت کے آنے بس اتنا ہی فرق ہے جتنا ان دو انگلیوں کے درمیان ہے۔آپ نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو باہم ملا کر دکھایا‘‘
مگر دنیا کروڑوں سالوں سے ہے اور ابھی تک قیامت نہیں آئی، نبی ﷺ کو ساڑھے چودہ سو سال گزر چکے ہیں، مگر قیامت ابھی تک نہیں آئی۔ تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ قرآن اپنے بیان میں سچا نہیں۔ رسول اللہﷺ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر جو خطبہ ارشاد فرمایا تھا، اس میں یہ الفاظ بھی ہیں؛ وَکُلَّ مَا ہُوَاٰتٍ قَرِیْبٌ‘ (دلائل النبوۃ) ہر وہ چیز جو آنے والی ہے وہ قریب ہی ہے۔
پھر جب قیامت واقع ہوجائے گی تو یہ دنیاوی حیات اپنی تمام تر طولانی کے باوجود مختصر معلوم ہوگی کیونکہ پھر آپ کے سامنے ایک ابدی حیات ہوگی، پھر جب آپ اس ابدی حیات کا موازنہ دنیا کی فانی حیات سے کریں گے جو آج آپ کو کروڑوں سالوں پر محیط بظاہر بہت طویل معلوم ہو رہی ہے، مگر کل ابدی حیات کے سامنے یہ بالکل ہیچ معلوم ہو گی جیسے سمندر کے سامنے پانی کا ایک قطرہ۔
۶۔ اسی طرح سے غیب کا بیانیہ ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ یہ بیان ملتا ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ‎الجن: ٢٦ ’’وہ غیب کا جاننے والاہے اور وہ کسی کوغیب پر مطلع نہیں کرتا‘‘ سورۂ یونس میں ہے:فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ ‎(يونس٢٠ )’’اے نبی! آپ کہہ دیجیے، کہ غیب کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے‘‘ سورۂ اعراف میں ہے:وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ‎)الاعراف-١٨٨ (’’اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں اپنے لیے بہت سی بھلائی اور خیر جمع کرلیتا اور پھر مجھے کبھی کوئی ضرر نہ پہنچ پاتا‘‘ ان آیات اور دیگر آیات میں غیب کے علم کو اللہ کے لیے خاص کیا گیا ہے اور نبی ﷺ کے لیے علم غیب کی نفی کی گئی ہے۔ ایک اور آیت ہے جس میں جنات کے لیے بھی علم غیب کی نفی کی گئی ہے؛ فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ) ‎سبإ: (١٤ ’’جب ہم نے سلیمانؑ کی روح قبض کر لی، تو جنات کو ان کی موت کی خبر نہ ہوئی، مگر جب ان کی اس لاٹھی کو دیمک نے چاٹ لیا جس کا وہ سہارا لیے کھڑے تھے، اور وہ زمین پر گرپڑے تب جنات کو پتہ چلا کہ یہ تو وفات پا گئے تھے۔ اور انہیں اس بات کا بھی یقین ہوگیا کہ اگر وہ غیب کی خبر رکھتے ہوتے تو وہ (طویل عرصے تک) مشقت بھرا کام نہ کرتے رہتے‘‘-
لیکن سورہ آل عمران میں غیب کے بیانیے میں استثنیٰ کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے اللہ اپنے بعض پیغمبروں کو غیب پر مطلع فرما دیتا ہے۔ وَمَا كَانَ اللَهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَٰكِنَّ اللَهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ) ‎آل عمران۱۷۹) ’’اللہ ہر کس وناکس کو غیب پر مطلع نہیں کرتا مگر وہ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے منتخب فرما لیتا ہے (تاکہ اسے غیب کی بعض باتوں سے باخبر کرے)‘‘ نبی ﷺ کی نسبت سورۂ تکویر میں فرمایا گیا ہے:وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ ‎التكوير: ٢٤ ’’ اور وہ غیب کی وہ باتیں لوگوں تک پہنچانے میں بخل نہیں کرتے، جن سے اللہ نے انہیں آگاہ کیا ہے ‘‘
علم غیب کے حوالے سے استثنیٰ کی مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں اگرچہ نبی ﷺ کی نسبت سے یہ بات کہی گئی ہے: وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوء (اعراف۔188) تاہم حقیقت واقعہ یہی ہے کہ اللہ نے اپنے نبی کو غیب کی بہت سی باتوں کا علم دیا تھا۔ اس لیے قرآن کی بعض آیات کے پیش نظر جن میں نبی کے لیے علم غیب کی نفی کی گئی ہے، یہ کہنا غلط ہوگا کہ نبیﷺ کو غیب سے کچھ بھی نہیں دیا گیا تھا، تاہم یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ نبی ﷺ کو ماکان ومایکون کا علم دے دیا گیا تھا، کیونکہ پھر قرآن میں نبی ﷺ کے لیے علم غیب کی نفی کی کوئی توجیہ ممکن نہیں ہوسکے گی۔ تاہم یہ کہنا درست ہے کہ استثنائی طور پر اللہ نے اپنے نبی کو غیب کی بہت ساری باتوں سے مطلع کر دیا تھا، جن میں بعض باتیں ماضی سے متعلق بھی تھیں اور بعض مستقبل سے متعلق بھی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے قیامت کی قطعی خبر نہیں دی کہ وہ کب واقع ہوگی تاہم قیامت کی بہت ساری نشانیاں بیان فرمائیں۔
سورۂ کہف میں موسیٰ وخضر علیہم السلام کی باہم ملاقات کا قصہ بیان ہوا ہے۔ خضر علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام کے سامنے کئی ایسے کام کرتے ہیں جن کا حقیقی علم اور ان کی اصل علتیں اور حکمتیں موسیٰ علیہ السلام کے علم میں نہیں تھیں۔ خضر علیہ السلام کے بارے میں قرآن میں ہے۔ وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا ‎الکہف-٦٥ ’’ہم نے اسے (خضر کو) اپنی طرف سے خاص علم عطا کیا تھا‘‘ ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ اپنے رسولوں کو غیب کی بہت ساری باتوں پر مطلع فرماتا ہے۔
اگر قرآن کے بیانیے کی دونوں نوعیتیں بیک وقت ذہن میں رہیں تو نبی ﷺ کے لیے علم غیب کی کلی نفی نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی یہ کہنا ممکن ہو سکتا ہے کہ نبی ﷺ کو ماکان و مایکون کا علم عطا کر دیا گیا ہے۔
سورۂ کہف کی مذکورہ آیت میں ’’مِن لَّدُنَّا‘‘ کے الفاظ سے اہل تصوف نے ’علم لدنی‘ کے نام سے علم کی ایک خاص اصطلاح بنالی، حالانکہ سارا علم ’علم لدنی‘ ہی ہے کیونکہ چھوٹے بڑے اور ظاہر و باطن ہر علم کی نسبت اللہ کی طرف ہی جاتی ہے۔ حتی کہ انسان جو علم اپنے کسب اور تجربے سے حاصل کرتا ہے وہ بھی اللہ کی طرف سے ہی ہے۔ کیونکہ کسب کرنے کی صلاحیت بھی تو اللہ نے ہی عطا کی ہے۔
۷۔ قرآن میں یہ آیت بھی ہے ؛‏ لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ) ‎آل عمران٢٨ ) ’مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں کے مقابلے میں کفار کو اپنا دوست نہ بنائیں‘
مگر غیر مسلموں سے دوستی من کل الوجوہ منع نہیں ہے۔ کیونکہ نبی ﷺ بہر حال اہل کتاب اور کفار ومشرکین کے درمیان رہتے تھے، ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے، تجارت اور لین دین کرتے تھے اور ان سے معاہدے کرتے تھے،انہیں دعوت بھی دیتے تھے اور ان کی تالیف قلوب بھی فرماتے تھے۔ قرآن نے آخر تالیف قلوب کے لیے زکوٰۃ کی ایک مد ہی مقرر فرما دی ہے اور اجازت کی حد تک اہل کتاب سے نکاح بھی جائز ہے۔
۸۔ قرآن میں ایک صریح حکم ہے مگر نبی ﷺ سے اس کے برعکس عمل بھی ثابت ہے جیسے خفین اور جرابین پر مسح کرنا۔ قرآن میں پیروں کو دھونے کا صریح حکم دیا گیا ہے مگر نبی ﷺ سے خفین پر مسح کرنا ثابت ہے۔ تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ قرآن کے حکم میں یہ گنجائش تھی اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے خفین اور جوربین پر مسح فرمایا۔
۹۔ قرآن میں ہے: وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (آل عمران:139) ’’کمزوری مت دکھاؤ اور غم نہ کرو اگر تم ایمان پر قائم رہے تو بالٓاخر سرخروئی تمہارا ہی مقدر ہوگی‘‘ ظاہر ہے یہ سربلندی غیر مسلم اقوام کے مقابلے میں ہی ہوگی۔
کئی اہل علم، موجودہ حالات کے تناظر میں اس آیت کو پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یا تو مسلمان صحیح معنیٰ میں مسلمان نہیں ہیں یا پھر قرآن کا بیان درست نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کا بیان بالکل سچا ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اہل ایمان، ہر ایک زمانے میں اور ہر ایک مقام پر غیروں پر حاکم رہیں گے اور علمی میدانوں سے لے کر عسکری میدانوں تک ہر جگہ انہیں فوقیت حاصل ہوگی۔ بلکہ معاملہ اس کے بر عکس بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی یہ ممکن ہے کہ کسی زمانے میں اہل ایمان صحیح معنیٰ میں صاحب ایمان ہوتے ہوئے بھی سربلند نہ ہوں، بہت ممکن ہے کہ وہ اپنے وقت کی قوموں سے عسکری میدانوں میں ہار جائیں، یا کسی جگہ علمی میدان میں وہ بہت پیچھے رہ جائیں اور یہ عرصہ طویل بھی ہوسکتا ہے، اور اس سے اس آیت کی حقانیت پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ ویسے قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ میں ایک دو صدیوں کا عرصہ کوئی خاص قابل ذکر بھی نہیں ہے۔ کسی زمانے میں اہل ایمان کے پاس ہمہ جہت سر بلندی یا غلبہ نہیں ہے تو اس سے ان کے ایمان کی نفی ہوگئی۔ ہاں ایمان اور ایمان کے تقاضوں کی کمزوری ضرور کہ سکتے ہیں۔
۱۰۔ قرآن کا بیانیہ کس انداز کا ہے، اس حوالے سے ذیل کی آیت پر بھی غور کریں۔ سورۂ قصص کی آخری آیت کا ایک ٹکڑا اس طرح ہے: كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ (القصص-۸۸) ذات باری تعالی کے سوا ہر شئے فنا ہوجائے گی۔ یہ مضمون سورہ رحمان میں بھی آیا ہے۔كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ‎الرحمان-٢٦ ’’زمین پر جو کچھ بھی ہے بالآخر اسے فنا ہونا ہے‘‘
تاہم یہ بھی قرآن ہی کا بیانیہ ہے:لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الْأُولَىٰ ‎)الدخان-٥٦)’’ایک موت جو انہیں دنیا میں دی جا چکی ہوگی اس کے بعد ان کے لیے جنت کی زندگی میں کوئی اور موت نہیں ہوگی‘‘ یعنی کسی نہ کسی درجے میں انسان کے لیے بھی ہمیشہ کی زندگی ہے۔ دنیا میں انسان کی جو فنا یا ہلاکت ہے وہ عارضی ہے اور نظری ہے۔ بعث بعد الموت کی حقیقت یہی درشاتی ہے کہ انسان کی دنیاوی موت گویا موت کے پردے سے گزرنا ہے، یہ مرنا اور پھر دوبارہ زندہ ہونا گویا نیند لینے جیسا ہی ہے، جس طرح انسان سوکر اٹھ جاتا ہے اسی طرح وہ موت کے بعد بھی جی اٹھے گا،اس فرق کے ساتھ کہ سونا بہت کم مدت کے لیے ہوتا ہے اور وہ اسی جسم کے ساتھ سوکر اٹھتا ہے جس جسم کے ساتھ وہ سویا تھا جبکہ موت کے بعد جو بیداری یا زندگی ہے اس میں انسان وہی ہوگا مگر جسم دوسرا ہوگا۔ تاہم انسان کی زندگی کی اس ابدیت کو باری تعالیٰ کی شان ابدی وازلی سے کوئی نسبت نہیں ہے، کیونکہ ذات باری تعالیٰ از خود ہے اور انسان کی ذات اور زندگی باری تعالیٰ کے اذن اور امر سے ہے۔ انسان پر ایک عارضی موت طاری ہوگی، پھر اس کے بعد انسان کے لیے ہمیشہ کی زندگی ہے، جبکہ اللہ کی ذات ایسی کسی عارضی فنا سے بھی پاک ومبرا ہے۔
پھر جب میدان حشر قائم کر دیا جائے گا، لوگوں کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا اور جنت وجہنم نیک وبد لوگوں سے بھر دی جائیں گی تو پھر حیات اخروی ایک مقام پر ٹھیر جائے گی، پھر یہ کتنے زمانے تک اسی حالت پر برقرار رہے گی، اس کے لیے بھی کوئی حشر ونشر ہے یا نہیں ہے، اس کے بارے میں قرآن خاموش ہے۔بظاہر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ حیات اخروی لا متناہی وقت کے لیے قائم ہوگی۔ جیسا کہ سورۂ کہف میں ہے کہ اہل ایمان ہمیشہ جنت میں رہیں گے: وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنًا ، مَّاكِثِينَ فِيهِ أَبَدًا ‎)الکہف:۳۲) ’’تاکہ وہ اہل ایمان کو جو نیک اعمال کرتےہیں یہ خوش خبری سنائے کہ ان کے لیے ان کے نیک اعمال کابدلہ جنت ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘ اور جو انکار کرنے والے اور طاغوت کی پیروی کرتے ہیں وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے: أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ،هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (‎البقرہ:۲۵۷ )’’ یہی لوگ جہنمی ہیں اور یہ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘ تاہم قرآن کے اسی استثنائی بیانیے کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’ابدا‘ اور ’خالدون‘ کی بھی کوئی نہ کوئی زمانی میقات، میعاد اور حد ہو، یہ بالکل ممکن ہے، اگرچہ اس حوالے سے قرآن وسنت میں کوئی دلیل مذکور نہیں ہے۔
اس سے کم از کم قرآن کے بیانیے کا انداز معلوم ہوتا ہے کہ قرآن جن بعض چیزوں کو قطعیت کے ساتھ بیان کرتا ہے وہ فی الواقع وقت کے ساتھ منسوب ہیں۔ پھر وقت کی نسبتیں دنیا میں مختلف ہیں اور آخرت کی حیات میں وقت کی نسبت بالکل ہی مختلف ہوگی۔ قرآن میں اس کے اشارے موجود ہیں۔
قرآنی بیانیے میں استثنٰی کی ایک نوعیت یہ بھی ہے کہ اللہ نے اپنے احکام میں سہولتیں رکھی ہیں اور ان سہولتوں کے پیش نظر نماز اور روزے جیسے بنیادی اعمال میں بھی رخصتیں ہیں۔
اس بحث کا جو سب سے بڑا نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن وسنت کا کوئی بھی عالم خواہ اس کا علم کتنا بھی کیوں نہ ہو، وہ اپنے علم اور بحث وتحقیق سے ثابت ہونے والے نتائج اور آراء کو امکانی درجے میں بیان کرے، حتمی اور قطعی درجے میں بیان نہ کرے۔ جیسا کہ امام شافعیؒ نے فرمایا: ’’میری رائے درست ہے لیکن غلطی کا احتمال رکھتی ہے اور دوسرے کی رائے غلط ہے لیکن اس میں صحت کا احتمال ہے‘‘
اگر قرآن وسنت سے مسائل کے استنباط میں یہ پہلو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو اس کا کم از کم یہ نتیجہ ضرور سامنے آئے گا کہ امت مسلکی شدت پسندیوں سے نجات پا جائے گی۔ ان شاء اللہ۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 4 فروری تا 10 فروری 2024