ابوفہد ندوی
قرآن کی توقیفی ترتیب کے اعتبارسے قرآن کے بالکل ابتدا ہی میں جہاں ابتدائے آفرینش کا ذکر ہے علم کا حوالہ آیا ہے۔ ارشاد ہے: وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّهَا۔ ’اس نے آدم کو تمام اشیاء کے اسماء وخواص کا علم دیا‘ اور قرآن کی نزولی ترتیب کے اعتبار سے قرآن کے آخر آخر میں بھی علم کاحوالہ آیا ہے۔ارشاد ہے: عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ﴿العلق:٥﴾ ’اس نے انسان کو وہ سب سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا‘ ابتدائے آفرینش کے ذکر میں صرف اسماء کی تعلیم کا حوالہ ہے، اب خواہ یہ تعلیم دینے کی حد تک ہو یا پھر اسماء کی صفات اور کُنہ کو جاننے کی صفت اور اسے جاننے کا ملکہ ودیعت کرنا ہو، اس مقام پر صرف علم یا تعلیم کا حوالہ ہے جبکہ آغاز وحی کے موقع پر علم سیکھنے اور محفوظ کرنے کے ذرائع میں سے ایک اہم ذریعے کا بھی اضافہ ہے۔ ارشاد ہے: اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ﴿٣﴾ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ﴿العلق:٤﴾ ’پڑھو اپنے اس رب کے نام سے جو بہت کریم ہے، اس نے انسان کو قلم کے ذریعہ تعلیم دی‘۔
قرآن میں انبیاء کرام کو روحانی اور دینی علوم عطا کرنے کا جا بجا ذکر ہے، ساتھ ہی بعض ایسے علوم عطا کرنے کا بھی ذکر ہے جنہیں ہم آج کے دور میں دنیاوی علوم کہتے ہیں۔ آدم علیہ السلام کے بارے میں ہے: وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّهَا ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں ہے: عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ ﴿النمل: ١٦﴾ اور داؤود علیہ السلام کے بارے میں ہے وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ ﴿١٠﴾ أَنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ اور نوح علیہ السلام کو حکم دیا گیا ہے: وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا۔
شیطان نے تخلیقی عنصر کی وجہ سے آدم علیہ السلام کے مقابلے میں اپنی افضلیت کا دعویٰ کیا اور کہا: أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ ﴿ص: ٧٦﴾ قطع نظر اس سے کہ آگ مٹی سے افضل ہے بھی یا نہیں، شیطان نے اپنے طور پر یہ استدلال رکھا تھا۔ مگر اللہ تبارک وتعالیٰ نے تخلیق آدم کے وقت فرشتوں کے سامنے’’علم‘‘ کا حوالہ دیا۔ تخلیقی افضلیت کا حوالہ نہیں رکھا۔ فرشتوں نے کہا ہم تو صرف وہی جانتے ہیں جو آپ نے ہمیں سکھایا ہے۔ فرشتوں کی جبلت کے برعکس اللہ نے آدم علیہ السلام کی صفت معلوم سے غیر معلوم کو معلوم کرنے کی رکھی۔ یعنی خود کے اور ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنے اور نتائج حاصل کرنے کی صلاحیت آدم کے اندر ودیعت کی۔ یوں تو علم کی تھوڑی بہت مقدار اللہ نے ہر مخلوق کو عطا کی ہے، فرشتوں کو بھی اور حیوانات کو بھی ان کی ضرورت کے بقدر علم دیا ہی گیا ہے مگر آدم علیہ السلام کو یعنی انسان کو جو علم دیا گیا یا یوں کہیں کہ علم حاصل کرنے کی جو قوت اور صلاحیت دی گئی وہ کسی اور کو نہیں دی گئی۔ پھر اللہ نے اپنے رسولوں کو تو غیب کے علم میں سے بھی کچھ مرحمت فرمایا ہے۔ جنت اور دوزخ کی کیفیات اور حالات دنیا کے تمام انسانوں کے لیے غیب کے پردے میں ہیں مگر رسول اللہ ﷺ کے لیے اللہ نے جنت ودوزخ کا بہت سارا علم شہود کے درجے پر رکھ دیا۔ ایک تو جنت و دوزخ کا مشاہدہ کروایا اور پھر وحی کے ذریعہ بھی بہت سا علم عطا فرمایا۔ قرآن میں ہے کہ اللہ غیب کا جاننے والا ہے اور وہ غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا البتہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے اور جتنا چاہتا ہے غیب کا علم عطا کرتا ہے۔ عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا ﴿سورۃ الجن:٢٧﴾ ’’وہ غیب کا علم رکھتا ہے اور غیب کے علم پر کسی کو مطلع نہیں کرتا، الا یہ کہ وہ اپنے رسولوں میں سے کسی کو (غیب کے علم پر) مطلع کرنا پسند کرے۔ اور (جب وہ ایسا کرتا ہے تو غیبب کے علم کی حفاظت کے لیے اس رسول) کے آگے پیچھے محافظ لگا دیتا ہے‘
قرآن میں اللہ کی صفت جا بجا علیم وحکیم بتائی گئی ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام کی صفات بھی علیم وحکیم بتائی گئی ہیں۔ قرآن میں عالم وجاہل کے مراتب میں فرق کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ نہ جاننے والے جاننے والوں کے برابر نہیں ہو سکتے۔ قرآن میں ہے "قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِینَ لَا یَعْلَمُوْنَ” (الزمر:۹)
قرآن میں کئی مقامات پر آیا ہے کہ کل کائنات کی کوئی بھی شے خواہ وہ مرئی ہو یا غیر مرئی اللہ کے علم میں ہے، کوئی شے اس کے علم سے باہر نہیں ہے: وَأَنَّ اللَهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا ﴿الطلاق: ١٢﴾ اور اللہ کا علم ہر شے کو محیط ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے: يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ﴿البقرۃ:۲۵۵﴾ ’جو کچھ لوگوں کے سامنے ہے (ان کے سامنے ہو رہا ہے یا ماضی میں ہوچکا ہے) اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے(ان کے بعد وقوع پزیر ہوگا) اللہ سب کچھ جانتا ہے۔‘‘
اسی آیت کے اگلے حصے میں یہ بھی ہے کہ انسان اللہ کے علم کا احاطہ نہیں کر سکتا اور نہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اللہ کے پاس کتنا علم ہے۔ ارشاد ہے: وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍمِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ﴿البقرۃ:۲۵۵﴾ اور انسان اللہ کے علم میں سے کسی چیز کا بھی احاطہ نہیں کرسکتا الا یہ کہ اللہ خود ہی کسی کو کچھ بتا دے‘‘
قرآن میں یہ بھی ہے کہ اہل علم ہی صحیح معنیٰ میں اللہ سے ڈرتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے ایمان وایقان اور دینی و دنیاوی علم کی بنیاد پر اللہ کی قدرت اور شان کو جانتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ہرشئے کا خالق و مالک اللہ ہی ہے اور اس کی نشانیاں جابجا پوری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں، جو ان کے دلوں کے اللہ کے خالق ومالک ہونے کا یقین پیدا کرتی ہیں: إِنَّمَا يَخْشَى اللَهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ ’علم رکھنے والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں‘
قرآن میں علم میں اضافے کی دعا بھی سکھائی گئی ہے۔ ارشاد ہے: وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا ﴿طه: ١١٤﴾ ’اے پیغمبر’ یوں دعا کیا کرو ’اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما‘
موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے: وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَىٰ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ﴿القصص: ١٤﴾ ’جب وہ پختہ عمر کو پہنچ گیا تو ہم نے اسے علم وحکمت کی دولت سے سرفراز کیا‘
ذیل کی دونوں آیتوں میں حضرت لوط اور حضرت سلیمان علیہم السلام کو علم وحکمت اور نبوت سے نوازے جانے کی شہادت ملتی ہے۔ وَلُوطًا آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ﴿الأنبياء: ٧٤﴾ فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ﴿الأنبياء: ٧٩﴾
حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں ہے: آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا ﴿الكهف: ٦٥﴾
حضرت موسی اور حضرت خضر علیہم السلام کی باہمی ابتدائی گفتگو بھی بڑی دلچسپ ہے اور یہ علم کے حوالے سے ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے اس علم کو حاصل کرنے کی درخواست کی جو خاص طور پر انہیں سکھایا گیا تھا۔ اس پر خضر علیہ السلام نے بڑی عجیب سی علت بیان کی، فرمایا کہ تم میرے ساتھ نہیں ٹھہرسکتے۔ یعنی میں اپنے علم کے مطابق جو اقدام کروں گا تم ان سے مطمئن نہیں ہو سکو گے اور اعتراض کرو گے۔ پھر انہوں نے اس کی علت بھی بیان کی کہ چونکہ تمہیں ان اقدامات اور اعمال کی حکمتیں اور علتیں معلوم نہیں ہوں گی اس لیے تم ان کو آسانی سے گوارا نہیں کر سکو گے۔ قرآن میں یہ گفتگو مختصر الفاظ میں اس طرح بیان ہوئی ہے:
قَالَ لَهُ مُوسَىٰ هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰ أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا ﴿٦٦﴾ قَالَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ﴿٦٧﴾ وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَىٰ مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا ﴿٦٨﴾ ’موسیٰ نے ان (خضر) سے کہا ’کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے بھی اس علم ودانش سے کچھ سکھا دیں جو آپ کوسکھائی گئی ہے۔ اس (خضر)نے کہا ’تم میرے ساتھ رہ کر (میرے فیصلوں پر اور اقدامات پر) صبر نہیں کر سکتے اور پھر ایسا کر بھی کیسے سکتے ہو جب تمہیں ان کے بارے میں کچھ علم ہی نہ ہو‘
اس سے معلوم ہوا کہ علم انسان کے اندر صبر کا مادہ پیدا کرتا ہے اور انسان کو پرسکون رکھتا ہے، کم از کم فوری رد عمل سے بچاتا ہے۔ اگر کسی انسان کا پیر اندھیرے میں اچانک رسی پر پڑ جائے اور وہ اسے اپنے گمان کے مطابق سانپ سمجھ بیٹھے تو وہ اسی لمحے میں خوف سے بھر جائے گا، لیکن جیسے ہی اسے علم ہوگا کہ وہ سانپ نہیں بلکہ رسی ہے تو اس کا سارا خوف جاتا رہے گا۔ لوگوں میں بھوت اور چڑیل کا تصور اسی لیے پیدا ہوا ہے کہ انہیں کم روشنی میں یا کسی اور باعث کئی چیزیں حقیقت سے مختلف دکھائی دیتی ہیں، مثلا رسی سانپ نظر آتی ہے اور درخت سایہ دکھائی دیتا ہے۔
قرآن کی پہلی وحی میں قلم کا حوالہ انتہائی معجز بیانی کے طور پر آیا ہے۔ کیونکہ اس کا تعلق ماضی کی کسی معلوم چیز سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق سر تا سر بعد کی ساری صورت حال سے ہے۔ یہ ایک طرح سے غیب کی پیشن گوئی کرنے جیسا ہے۔ جب قرآن نے علم کے حوالے کے ساتھ قلم کا ذکر بھی کیا تو یہ واضح اشارہ دینا مقصود تھا کہ آنے والی دنیا میں قلم (یعنی لکھنے اور محفوظ کرنے کے عمل) کو قوموں اور نسلوں کو تعلیم دینے کی موروثی اور غیر موروثی روایت میں مرکزی حیثیت حاصل ہونے والی ہے۔
پہلی وحی’’اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿العلق:١﴾ ‘‘ میں قلم سے سکھانے کی بات خاص طور پر اس لیے کہی گئی ہے کہ اب تک جتنے بھی رسول آئے انہیں صرف زبانی ہدایات دی گئی تھیں، سوائے الواح موسیؑ کے، مگر اس امت کو پورا کا پورا قرآن اس طرح دیا جانا تھا کہ خود پیغمبر کے ذریعہ ہی قرآن کو فی الفور لکھوانے اور محفوظ کرنے کا بالغ اہتمام کیا گیا۔ یہاں تک کہ قرآن پورا کا پورا رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں ہی تحریری شکل میں آگیا اور
نہ صرف تحریری شکل میں آگیا بلکہ لکھے ہوئے قرآن کو رسول اللہ ﷺ کے حافظے سے ملایا بھی گیا اور اس کی پوری جانچ پڑتال بھی کرلی گئی۔ یہ ایک طرح سے عروج آدم کا پہلا قدم تھا کہ اس کے بعد سے آدم نے لکھنے پڑھنے کا باقاعدہ اہتمام شروع کر دیا۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی چیزیں لکھی جاتی تھیں۔ یہود ونصاریٰ کے بعض علماء انجیل اور توریت لکھتے تھے۔ قرآن میں ہے: فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِندِ اللَهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ ﴿البقرہ:٧٩﴾’ اُن لوگوں کے لیے ہلاکت وبربادی ہے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں اور اسے اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں تاکہ اس سے تھوڑی سی کمائی کر لیں۔ ان کے لیے بربادی ہے اس کے سبب جو کچھ ان کے ہاتھوں نے لکھا اور تباہی ہے اس کمائی کے سبب جو انہوں نے حاصل کی‘
فرعون اور اس سے قبل کے دور میں بھی لوگ نقش بنا کر اور تصویریں بناکر سیکھتے سکھاتے تھے اور اپنی تہذیب کو اس طرح محفوظ رکھتے تھے مگر پڑھنے لکھنے کا باقاعدہ آغاز اگر کسی امت میں ہونے جا رہا تھا تو اب ہونے جا رہا تھا۔
یہاں تعجب خیز امر یہ بھی ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے خود نبی ﷺ کو قلم سے لکھنا نہیں سکھایا۔ آپ صرف بغیر دیکھے پڑھ سکتے تھے اور اس کی وجہ یہی تھی کہ آپ پر قرآن کو اپنے ہاتھ سے لکھنے کا شبہ نہ کیا جائے۔ (پھر بھی لوگوں نے آپ پر قرآن کو خود سے لکھنے کا الزام لگایا جس کی قرآن میں جا بجا تردید کر دی گئی ہے) چنانچہ قرآن وحدیث کا پورا ذخیرہ ایسا ہی ہے کہ آپ نے اپنی زبان مبارک سے بغیر دیکھے پڑھا ، پڑھایا اور املا کروایا ہے، جس طرح بن دیکھے تقریر کی جاتی ہے اور گفتگو کی جاتی ہے۔ چنانچہ کوئی ایک آیت، ایک حدیث یا کوئی ایک خط وفقرہ بھی تاریخی ریکارڈ پر ایسا موجود نہیں ہے جو آپ نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہو۔ حالانکہ آپ نے بادشاہوں کو اور خود اپنے گورنروں کو خطوط بھی لکھوائے اور معاہدے بھی لکھوائے مگر یہ سب املا کروائے گئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے کبھی کوئی چیز نہیں لکھی۔
نیز یہ بھی اپنے آپ میں اہمیت کی حامل بات ہے کہ پہلی وحی کے بعد جو دوسری وحی نازل ہوئی، یعنی ’ن والقلم‘ اس میں بھی قلم کا ذکر ہے۔ شاید اسی وجہ سے کہ اس کے بعد سے انسان کی جملہ کاوشوں اور سرگرمیوں میں قلم کو مرکزی حیثیت حاصل ہونے والی تھی اور قلم ایک طرح سے بنی نوع انسان کے لیے ترقی کا ذریعہ اور علامتی شئے بننے والا تھا۔
آج زمانہ بہت ترقی کر گیا ہے اور قلم کے نعم البدل ایجاد کر لیے گئے ہیں، جیسے اسکرین اور کی پیڈ وغیرہ۔ ان کا نام بھلے ہی کچھ ہو اور ان کی کارکردگی بھلے ہی قلم کے بالمقابل بہت زیادہ ہو مگر کام وہی ہے جو قلم کا ہے، یعنی لکھنا اور محفوظ کرنا۔
جب بھی کسی عالم دین کو یا اسلامی اسکالر کو دین اسلام میں ’’علم‘‘ کی اہمیت پر روشنی ڈالنی ہوتی ہے تو ان کی نظر انتخاب پہلی وحی کی پہلی آیت ’’اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿العلق:١﴾ ‘‘ پر جاتی ہے۔ وہ بغیر کسی استثنیٰ اور بغیر کسی شرط اور اگر مگر کے سیدھے سیدھے علم کی اہمیت کے حوالے سے اس آیت کو لے آتے ہیں۔ اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ آیت مجرد علم کے بارے میں نہیں ہے۔
مجرد علم قرآن و حدیث کا بھی ہو تو وہ بھی کچھ فائدہ دینے والا نہیں ہے، لہذا بہت سارے مستشرقین ایسے ہوئے ہیں اور آج بھی ہیں جو قرآن وحدیث کا علم رکھتے ہیں مگر وہ ایمان اور معرفت نہیں رکھتے اس لیے انہیں قرآن وحدیث کا علم کچھ فائدہ نہیں دیتا۔ تو جب شرعی علوم کی تجریدی صورت کی یہ حالت ہے تو پھر وہ عمرانی اور سائنسی علوم جن میں کائنات کے خالق ومالک کی منشاء معلوم کرنے کی سعی نہیں کی جاتی، جن میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ چیزوں کی نسبتیں کس طرح اللہ سے ملتی ہیں، کس طرح وہی ہر چیز کا خالق ہے، یعنی اس نوعیت کے مطالعے میں مخلوق (پیڑ پودے،انسان وحیوان اور کائنات کے فطری قوانین) کو جانچا و پرکھا جاتا ہے مگر ان کے وجود اور ان کی حیرت انگیز کارکردگی اور بناوٹ کے پیچھے خالق کا رشتہ تلاش نہیں کیا جاتا، ایسے عمرانی اور سائنسی علوم انسان کو آخرت کے حوالے سے کچھ بھی فائدہ دینے والے نہیں ہیں، اور قرآن ایسے علم کی بات نہیں کرتا جس علم سے خالق ومخلوق کا رشتہ استوار نہ ہو بلکہ وہ اس کے برعکس خالق کی نفی پر قائم ہو۔
***
***
مجرد علم قرآن و حدیث کا بھی ہو تو وہ بھی کچھ فائدہ دینے والا نہیں ہے، لہذا بہت سارے مستشرقین ایسے ہوئے ہیں اور آج بھی ہیں جو قرآن وحدیث کا علم رکھتے ہیں مگر وہ ایمان اور معرفت نہیں رکھتے اس لیے انہیں قرآن وحدیث کا علم کچھ فائدہ نہیں دیتا۔ تو جب شرعی علوم کی تجریدی صورت کی یہ حالت ہے تو پھر وہ عمرانی اور سائنسی علوم جن میں کائنات کے خالق ومالک کی منشاء معلوم کرنے کی سعی نہیں کی جاتی، جن میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ چیزوں کی نسبتیں کس طرح اللہ سے ملتی ہیں، کس طرح وہی ہر چیز کا خالق ہے، یعنی اس نوعیت کے مطالعے میں مخلوق (پیڑ پودے،انسان وحیوان اور کائنات کے فطری قوانین) کو جانچا و پرکھا جاتا ہے مگر ان کے وجود اور ان کی حیرت انگیز کارکردگی اور بناوٹ کے پیچھے خالق کا رشتہ تلاش نہیں کیا جاتا، ایسے عمرانی اور سائنسی علوم انسان کو آخرت کے حوالے سے کچھ بھی فائدہ دینے والے نہیں ہیں، اور قرآن ایسے علم کی بات نہیں کرتا جس علم سے خالق ومخلوق کا رشتہ استوار نہ ہو بلکہ وہ اس کے برعکس خالق کی نفی پر قائم ہو۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 اپریل تا 15 اپریل 2023