قرآنی بیانیے میں اللہ کا تصور
اللہ کی ذات ایک ایسا نور ہے جس کی تمثیل انسان کے بس کی بات نہیں
ابو فہد ندوی
نہ بصارتوں میں ایسی روشنیاں ہیں کہ اللہ کی لطیف ذات کو دیکھا جا سکے اور نہ بصیرتوں میں اتنی نورانیت و روحانیت ہے کہ اس بے کراں ذات کا احاطہ کیا جاسکے۔ نہ عقلوں میں ایسی عقلانیت ہے اور نہ دانشوں میں اتنی دانشمندی ہے کہ اس کے علم وکمال کی انتہاؤں کو سر کیا جا سکے۔ جب ایک چہیتے پیغمبر کو ’لن ترانی‘ جیسا دو ٹوک جواب مل سکتا ہے تو ہمہ شما کی کیا حیثیت ہے؟ اللہ تو نور ہے اور نور ہی اس کا حجاب ہے، آخرت میں یا تو اللہ اپنے اس نور کو اس ڈگری پر لے آئے گا کہ اس کی طرف نظر کرنا ممکن ہو پائے گا یا پھر وہ اہل جنت کی بصارتوں کو اتنی قوت ونورانیت بخش دے گا کہ وہ اس نور کی تاب لاسکیں گی۔ دنیا میں تو یہی قاعدہ ہے جواللہ نے خود بیان فرمایا دیا ہے:’’ لا تدركه الأبصار‘‘، ’’ولا يحيطون به علما‘‘ اور ’’وما كان لبشر أن يكلمه الله إلا وحيا أو من وراء حجاب‘‘(الشورى : 51) جبکہ بذریعہ وحی اور ورائے حجاب کلام کرنا بھی صرف انیباء کرام ہی کا خاصہ ہے۔ غیر نبی کی پہنچ یہاں تک بھی نہیں۔
غیر انبیاء کے لیے اللہ کوجاننے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ اللہ کو اس کی صفات کے ذریعے سے جانا جائے۔ اور صفاتِ الٰہی کا صحیح علم تو صرف قرآن سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ قرآن میں اللہ کا تعارف ذات کے اعتبار سے نہیں ملتا البتہ قدرت اور صفات کے اعتبار سے ملتا ہے۔ اللہ کا تعارف سورۂ اخلاص میں اور آیت الکرسی میں بہت واضح طورپر ملتا ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی آیات ہیں۔آیت الکرسی میں اللہ کی صفات اور قدرت کا بیان کچھ اس طرح ملتا ہے:
’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں،وہ زندہ جاوید ہے، ہمیشہ ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے، وہ قیوم ہے، خود بھی قائم و استوار ہے اور ماسوا کو بھی قائم واستوار رکھنے والا ہے، اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ ہی نیند آتی ہے، زمین وآسمان میں یعنی کل کائنات میں جو کچھ بھی ہے سب کا خالق اور مالک ومختار ہے۔ اس کائنات میں ایسا کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اُس کی جناب میں کسی کے لیے سفارش بھی کرسکے؟ وہ لوگوں کے ماضی اور مستقبل کے تمام حالات سے واقف وباخبر ہے۔ اگر وہ نہ چاہے تو (تمام انسان باہم دگر مل کر بھی اس کے علم سے معمولی مقدار بھی حاصل نہیں کرسکتے۔اس کی کرسیِ قدرت زمین وآسمان یعنی کل کائنات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اور اس کے لیے ان کی حفاظت یعنی انہیں تھامے رکھنا اور ان کا انتظام سنبھالنا کچھ بھی مشکل نہیں۔ یقینا وہ اللہ بہت ہی عالی شان اور عظیم قدرت والا ہے۔
اسی طرح سورۂ حشر میں ہے: ’’وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ہر ظاہر اور ہر پوشیدہ چیز سے باخبر ہے، وہ رحمان ورحیم ہے، وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی مالک حقیقی ہے، ہرعیب سے پاک، سلامتی والا، امن دینے والا، نگہبانی کرنے والا، غالب، زور آور اور کبرائی والا۔ اللہ ان تمام مشرکوں سے بری ہے جن کو یہ لوگ اس کا شریکِ کار ٹھیرارہے ہیں۔ وہی اللہ خالق بھی ہے، موجد بھی ہے اور مصور بھی، تمام اچھے صفاتی نام اسی کے لیے زیبا ہیں، زمین وآسمان یعنی کل کائنات کی تمام چیزیں اس کی پاکی بیان کرتی ہیں، وہ غالب ہے اور حکمت والا ہے۔ (الحشر:٢٤-٢٢﴾
اس معنیٰ کی حامل اور بھی بہت سی آیات ہیں مگر نہ قرآن نے اللہ کا سراپا بیان کیا ہے نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے۔ یعنی قرآن میں یہ نہیں ہے کہ اللہ کیسا نظر آتا ہے اور اس کی ظاہری ہئیت کیسی ہے۔ قرآن میں ہے ’’اللہ عرش پر مستوی ہے یا متمکن ہے۔ (طه:5) مگر اس استویٰ وتمکین کی کیفت ونوعیت انسانوں کے لیے مجہول ہے۔
ایک آیت میں اللہ کا تعارف تمثیلی پیرائے میں ملتا ہے، یہ سورہ نور کی آیت ہے:
’’اللہ زمین وآسمان یعنی کل کائنات کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق ہے، اس میں ایک چراغ ہے، وہ چراغ چمکتے ہوئے تارے کی مانند فانوس میں رکھا ہواہے، پھر وہ چراغ زیتون کے ایسے مبارک تیل سے روشن کیا گیا ہے، جو نہ شرقی ہے نہ غربی، اس درخت کا تیل اس قدر صاف وشفاف ہے کہ آگ لگانے سے پہلے ہی آگ کی طرح روشن دکھائی دیتا ہے۔ اس کی روشنی ایسی ہے جیسے روشنی پر روشنی ہو رہی ہے۔ یہ ہے اللہ کے نور کی مثال۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنے نور کی ہدایت بخشتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ اللہ کی معرفت حاصل کرسکیں اور اللہ ہر چیزکا کامل علم رکھتا ہے‘‘ ﴿النور: ٣٥﴾
پورے قرآن میں یہی ایک آیت ایسی ہے جس میں اللہ کی تعریف تمثیل کے پیرائے میں ملتی ہے۔ یہاں اللہ نے خود کو زمین وآسمان کا نور بتایا ہے بلکہ ’نور علیٰ نور‘ بتایا ہے یعنی اللہ نور ہے اور نور بھی وہ جو سب سے اعلیٰ درجے پر ہو جس سے آگے پھر کوئی درجہ نہیں۔ اس آیت کے کلیدی الفاظ اس کے ابتدائی الفاظ ’ اللَهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ‘ ہی ہیں۔ اس کے بعد تو اسی نور کی توضیح ہے، جسے روشنی کے ذریعہ سمجھایا گیا ہے۔ پھر آخر کا جو فقرہ ہے’ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ‘ وہ ’علت‘ کے بیان کے لیے ہے۔ اور تفہیم کے لیے تمثیلی پیرایہ اختیار کرنے کی توجیہ بیان کر رہا ہے۔ اور اس سے ماقبل کا جو فقرہ ہے’ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ‘ یہاں نور سے مراد ایمان اور معرفت ہے۔ یعنی اللہ جسے چاہتا ہے اس کے دل کو ایمان کے نور سے منور کرتا ہے اور یہاں اس کے اولین مدلول انبیاء کرام ہیں، کیونکہ ساری انسانیت سے اللہ نے انہی کو اپنے ساتھ ’ہم کلامی‘ کے لیے چنا ہے۔
نور روشنی سے بہت مختلف ہے چیز اور نور کی وضاحت کرنا مشکل ہے۔ گرچہ قرآن میں یہ لفظ کئی طرح کی معنویت کے لیے آیا ہے۔ یہ ظلمات کے مقابلے میں بھی آیا ہے اور انبیاء اور ان کی تعلیمات کو بھی نور سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نور بصارت، بصیرت اور ہدایت وایمان کے معنی میں بھی ہے اور محض روشنی کے معنیٰ میں بھی۔قرآن میں ہے: وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ﴿١٩﴾ وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ (فاطر: 19-20) ’اندھا اور آنکھوں والا، دونوں برابر نہیں ہوسکتے اور نہ ہی تاریکیاں اور روشنی ایک جیسی ہوسکتی ہیں۔
آیت مذکورہ کے ابتدائی جملہ’’ اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ‘‘ میں جو تعبیر اختیار کی گئی ہے وہ قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی اختیار کی گئی تعبیرات سے قدرے مختلف ہے۔ قرآن میں خود قرآن، تورات اور انجیل سب کو اللہ کا نور کہا گیا ہے، مگر آیت مذکورہ میں یہ کہا گیا ہے کہ اللہ زمین وآسمان کا نور ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے: وَأَشْرَقَتِ الأرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا ۔ ’’قیامت کے دن زمین اللہ کے نور سے جگمگا اٹھے گی‘‘ غالبا مراد دونوں کی ایک ہی ہے کہ کائنات کی ہر شے اللہ کے نور سے منور ہے۔ گوکہ بظاہر ہمیں یہی لگے کہ نظام شمسی کی وجہ سے ستارے اور سیارے روشن ہیں۔مگر فی الواقع زمین وآسمان اللہ کے نور سے استوار ،متحرک اور روشن ہیں۔ چاند اور سورج کی روشنی یا دیگر سیاروں کی اپنی روشنی تو ثانوی درجے کی روشنی ہے۔ پھر یہ سب اللہ کے اذن اور امر ہی سے تو روشن ہیں، ان کا اپنا تو کچھ بھی نہیں۔
نور کا لفظ استعارتاً استعمال کیا گیا ہے اور اس سے مراد اللہ کی قدرت ہے، قدوسیت ہے اور جبروتیت ہے۔ جیسے لفظ تجلی ہے، کہ وہ بھی استعارتاً استعمال ہوا ہے اور مراد اللہ کی قدرت کا ظہور ہے۔ تفسیر ابن کثیر ودیگر تفاسیر میں لفظ ’نور‘ کی وضاحت میں لفظ ’تجلی‘ کا استعمال کیا گیا ہے: ’’ أضاءت يوم القيامة إذا تجلى الحق ‘‘
قرآن میں اللہ کی قدرت کو بتانے کے لیے بہت سارے پیرائے اور کئی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ تاہم ’نور‘ اور ’تجلی‘ خاص معانی کے لیے بھی استعمال کیے گئے ہیں۔سورۂ اعراف میں ہے: فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ ﴿الأعراف: ١٤٣﴾ حالانکہ یہ لفظ عمومی معنیٰ میں بھی استعمال ہوا ہے۔ ارشاد ہے: وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ ﴿الليل: ٢﴾ دن کی تجلی کے ظہور اور اللہ کی تجلی کے ظہور میں زمین وآسمان کا فرق ہے، گوکہ ہم انسانوں پر یہ فرق واضح نہ ہوسکے۔ تجلی ایسی چیز ہے جسے انسان سہ نہیں سکتا جیسا کہ ’وخر موسیٰ صعقا‘ سے واضح ہے اور نور کو انسان نے نہ صرف یہ کے سہ لیا بلکہ نور سے انسان کی ذات کو مزید تقویت ونورانیت ملی اور اس سے اس کے اندر محبت و فدائیت جیسے عناصر اور گن پیدا ہوئے۔
غالب کا ایک شعر ہے:
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
قسمت کھلی ترے قد ورخ سے ظہور کی
قرآن نے اپنے معانی کے اظہار کے لیے جن الفاظ کو بطور قالب استعمال کیا ہے وہ سب عربی لغت کے معروف الفاظ ہیں، نہ صرف لغت کے الفاظ ہیں بلکہ عربوں کی بول چال میں رچے بسے ہوئے الفاظ ہیں۔ان الفاظ کے معانی سے بھی اہل عرب اچھی طرح واقف تھے اور آج بھی واقف ہیں۔ کیونکہ اللہ کی یہ سنت رہی ہے کہ جب وہ کسی بھی قوم کے پاس اپنی روشن ہدایات بھیجتا ہے تو اسی قوم کی زبان میں بھیجتا ہے۔ سورۂ ابراھیم میں ہے: وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ(ابراھیم4)
پھر قرآن نے جس پیرائے اور اسلوب میں کلام کیا ہے وہ بھی عربوں کے اسلوب کے مشابہ ہے،البتہ قرآن کا اسلوب اپنے موضوعات کی اہمیت، معجز بیانی اور معانی کی رفعت کی وجہ سے عام انسانوں کے اسلوب سے ممتاز ہے۔ قرآن اپنی صنفِ سخن کے اعتبار سے بھی دنیا کے تمام بیانیوں اور مہابیانیوں سے مختلف اور ممتاز ہے۔ کیونکہ قرآن نہ تو نظم ہے اور نہ ہی نثر ہے، اگر نظم مان لیں تو وہ نظم کے معیارات اور اصول وضوابط کو قبول نہیں کرتا اور اگر اسے نثر مان لیں تو نثر کی کسی بھی صنف سخن کا سا اہتمام اس کے بیانیے میں نہیں پایا جاتا۔
اگر سوال کیا جائے کہ اللہ کون ہے؟ تو اس کے جواب میں وہی کہا جا سکتا ہے جو خود قرآن نے کہا ہے اور اوپر کی آیات میں بیان کیا گیا ہے۔یعنی اللہ وہ ہے جس نے ساری کائنات کو اپنے دست قدرت سے تخلیق کیا ہے۔ اور جو اس عظیم و لا محدود کائنات کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے، ہر ذی نفس کی زندگی اور موت اسی کے حکم اور اشارے سے ہے۔ قرآن کا سارا بیانیہ اللہ کی اسی نوعیت کی تعریف پر مبنی ہے۔
اور اگر سوال کیا جائے کہ اللہ کیسا ہے؟ تو اس کا جواب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ اللہ مثل نور ہے، حالانکہ قرآن میں ہے: لیس کمثلہ شئی۔ یعنی اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ لیکن چونکہ قرآن ہی میں اللہ نے خود کو زمین وآسمان یعنی کائنات کا نور کہا ہے۔ اور بالخصوص قیامت کے دن، جب چاند تاروں کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی تو عرش اللہ کے نور سے منور ہوگا۔ اللہ کے نور ہی سے عرش وکرسی منور ہیں اور اللہ خود اپنے نور ہی میں محجوب ہے۔یعنی ظہور ہی پردہ ہے اور پردہ ہی ظہور ہے۔
دنیا کی تمام خاص وعام روشنیاں یعنی چراغ ولالٹین کی روشنی سے لے کر بجلی کے بلب، قمقمے، چقماق اور آسمانی بجلی، نیز چاند اور سورج تک کی تمام اقسام کی روشنیاں جن سے انسان آشنا ہے اور جو اس کے مشاہدے وتجربے میں آسکی ہیں، نور ان میں سے کسی کے بھی ہم معنٰی اور مثل بالکل بھی نہیں ہے، مماثلت اگر ہے تو جزوی ہے نہ کہ کلی۔اس مثال سے قرآن کی غرض تقریبِ فہم سے ہے نہ کہ حقیقت کے اظہار سے؟ اللہ کی ذاتِ والا صفات جو سرتاپا نور ہے اس کو سمجھنے کے لیے اسی مادی روشنیوں میں سے کسی روشنی کی مثال تقریب فہم کے لیے راست ذریعہ ہوسکتی تھی جو انسان کے تجربے میں آچکی ہو۔اور قرآن کا نزول بجلی اور قمقموں کی ایجاد سے قبل ہوا ہے اس لیے اللہ نے زیتون کے اصلی اور معیاری تیل سے روشن کیے جانے والے چراغ کی مثال دی۔
سورۂ انعام آیت ۹۵ سے ۱۰۳ تک اللہ کی قدرت، عمل اور اس کے اختیارات کے حوالے سے اللہ کی جامع ومانع تعریف ملتی ہے۔ اللہ نے فرمایا: ’’بے شک وہ اللہ ہی ہے جو دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر ان سے پیڑ پودے نکالتا ہے وہ اللہ ہی ہے جو زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے۔ وہ اللہ تو ایسی نرالی وعالی شان والا ہے، تو تم آخر اس کی راہ چھوڑ کر کہاں بھٹکے پھر رہے ہو۔ وہ اللہ ہی ہے جو تاریکی کے پردے سے روشن صبح نمودار کرتا ہے، جس نے رات کو وجہ سکون بنایا ہے اور چاند سورج کو حساب وشمار کے لیے تخلیق کیا ہے۔ یقیناً یہ غالب اور علیم وخبیر ہستی کا قائم کیا ہوا اندازہ ہے۔ اسی اللہ نے تمہارے لیے خلا میں ستارے رکھ دیے ہیں تاکہ تم سمندر اور بیاباں کی تاریکیوں میں ان سے رہنمائی حاصل کرسکو۔ دیکھو!اس طرح ہم نے علم وشعور رکھنے والوں کے لیے آفاق وانفس میں اپنی آیات خوب واضح کر دی ہیں۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ’نفس واحدۃ‘ یعنی آدم سے پیدا کیا، پھر تمہارے لیے دو مقام مقرر کردیے، ایک ٹھیرنے کی جگہ (رحم مادریا دنیا) اور دوسرا وداع لینے کی جگہ (قبریا پھر دنیا، کہ قبر سے اٹھنا ہے اور دنیا کو الوداع کہنا ہے) بے شک علم وشعور رکھنے والی قوموں کے لیے ہم نےاپنی (تشریعی و تکوینی) آیات کی وضاحت کردی ہے۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس پانی کے ذریعہ ہر قسم کی نباتات اگائیں، پھر اس سے سبزہ یعنی ترکاریاں اور اناج نکالا، ان سے تہہ بہ تہہ چڑھے ہوئے دانے نکالے اور کھجور کے شگوفوں سے کھجوروں کے گچھے نکالے جو جھکے ہوئے ہوتے ہیں، اسی طرح اسی بارش کے پانی سے انگور، زیتون اور انار کے باغ اگائے،جو بعض لحاظ سے باہم دگر متشابہ (ایک جیسے بھی) ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے (رنگ، بو، ذائقے اور تاثیر میں) منفرد بھی ہوتے ہیں۔ ذرا ان پکے ہوئے پھلوں کو شوق وعبرت کی نگاہ سے دیکھو کہ کیسے جاذب نظر ہیں اور کیسے کیسے فوائد کے حامل ہیں۔ یقیناً ایمان والوں کے لیے ان سب میں خدا کی عظمت و کاریگری کی بے شمار نشانیاں ہیں۔ پھر یہ کیسا ظلم ہے کہ لوگوں نے خدا کی عظمت وقدرت کا مشاہدہ کرنے کے باوجود بھی جنات کو اللہ کا شریک کار ٹھیرا دیا، حالانکہ جنات کو تو خود اللہ نے ہی پیدا کیا ہے۔ پھر مزید ظلم یہ ہے کہ بے سمجھے بوجھے اللہ کے بیٹے اور بیٹیاں بھی بنا ڈالیں۔ بے شک ان لوگوں کی من گھڑت باتوں اور تہمتوں سے اللہ کی ذات پاک وبرتر ہے۔ اللہ تو وہ ہستی ہے جس نے زمین وآسمان کو (پہلے سے موجود بغیر کسی مثال اور نمونے کے) تخلیق کیا ہے، اس کا کوئی بیٹا بھلا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ اس کی کوئی شریک حیات ہی نہیں ہے۔ تو یہ کیسی نادانی ہے کہ اللہ کے پیغمبروں کو ہی اس کا بیٹا بنا لیا جائے، جبکہ اللہ کے ماسوا جو کچھ بھی ہے وہ اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے۔ ایسی عالی اور نرالی شان والا اللہ تمہارا رب ہے، اس کے علاوہ کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ جب اسی نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے تو عبادت بھی اسی کی کیا کرو، وہ ہرچیز پر نگہبان ہے۔ تمہاری نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں، وہ تمہاری نگاہوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے، وہ بے انتہا لطیف اور وہ بہت باخبر ہے‘‘
***
***
دنیا کی تمام خاص وعام روشنیاں یعنی چراغ ولالٹین کی روشنی سے لے کر بجلی کے بلب، قمقمے، چقماق اور آسمانی بجلی، نیز چاند اور سورج تک کی تمام اقسام کی روشنیاں جن سے انسان آشنا ہے اور جو اس کے مشاہدے وتجربے میں آسکی ہیں، نور ان میں سے کسی کے بھی ہم معنٰی اور مثل بالکل بھی نہیں ہے، مماثلت اگر ہے تو جزوی ہے نہ کہ کلی۔اس مثال سے قرآن کی غرض تقریبِ فہم سے ہے نہ کہ حقیقت کے اظہار سے؟ اللہ کی ذاتِ والا صفات جو سرتاپا نور ہے اس کو سمجھنے کے لیے اسی مادی روشنیوں میں سے کسی روشنی کی مثال تقریب فہم کے لیے راست ذریعہ ہوسکتی تھی جو انسان کے تجربے میں آچکی ہو۔اور قرآن کا نزول بجلی اور قمقموں کی ایجاد سے قبل ہوا ہے اس لیے اللہ نے زیتون کے اصلی اور معیاری تیل سے روشن کیے جانے والے چراغ کی مثال دی۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جنوری تا 20 جنوری 2024