قرآنی بیانیہ اور صنفی امتیازات

کسی بھی زبان کا ’مرداساس بیانیہ‘ اور اس کی تفہیم

ابوفہد ندوی ، نئی دلی

دنیا میں جتنی بھی زبانیں ہیں اوران میں لکھی گئی جو بھی کتابیں پائی جاتی ہیں یا تقاریر ملتی ہیں، ان سب کا بیانیہ بنیادی طورپر مرداساس بیانیہ ہی ہے۔ اگرچہ زبانوں کی گرامر میں صنفی امتیازکے اظہار کے لیے الگ الگ اسماء، ضمائراورافعال پائے جاتے ہیں، جیسے انگریزی میں مفرد مذکر کے لیے اسم ضمیرھِی (He) اورمفرد مؤنث کے لیے شِی (She) استعمال کیا جاتا ہے اورعربی زبان میں’ھُوَ ھِیَ‘۔ انگلش کےافعال Verbsمیں مذکرومؤنث نہیں ہوتا مگرعربی اوراردو فارسی وغیرہ کے افعال میں بھی مذکرمؤنث ہوتے ہیں۔ اس لیے انگریزی میں اسم Noun اور ضمائر He & She کے ذریعہ سے تذکیروتانیث کے مابین امتیاز پیدا ہوتا ہے جبکہ عربی وفارسی اوراردو وہندی وغیرہ میں افعال کے ذریعہ بھی مذکر ومؤنث کی تفریق یا پہچان ہوتی ہے۔ جیسے ’’زید آرہا ہے اور زینب آرہی ہے‘‘۔ ان دونوں جملوں میں زید اور زینب کے ذریعہ بھی مذکر ومؤنث میں امتیاز ہورہا ہے اور افعال ’آرہا +آرہی‘ کے ذریعہ بھی۔ جبکہ انگریزی میں ورب Verb کی کل تین فارم ہوتی ہیں جو تینوں زمانوں ماضی، حال اورمستقبل پر دلالت کرتی ہیں، وہ بذات خود مذکرومؤنث کا امتیاز نہیں کرتیں، تاہم ہرزبان کی گرامرمیں یہ سہولت ہونے کے باوجود ایسا ہے کہ کسی بھی زبان کا عمومی بیانیہ اورزبان کا بیشترحصہ مردوں کے ساتھ تخاطب پر ہی مبنی ہوتا ہے، خواہ وہ نظم ہو یا نثر،ادبی شہ پارے ہوں یا مذہبی جواہر پارے، اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹرہویا پھر کسی ملک کا دستور، یہاں تک کہ آسمانی کتاب ہونے کا دعویٰ رکھنے والی دنیا میں موجود کتابیں بھی اسی مرداساس اسلوب اورمخاطبے کے ساتھ ہی لکھی گئی ہیں۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ دنیا کا بیشترادب مذکرغائب کے صیغے میں لکھا گیا ہے۔ اوراسلوب کی سطح پراس طرزعمل سے کسی بھی زبان کے کسی بھی بیانیے کی ترتیب وتشکیل میں نسائیت کے مقابلے میں رجولت کو ترجیحی اورتغلیبی حیثیت خود بخود حاصل ہوتی دکھائی دیتی ہے گرچہ اس طرزعمل میں نسائیت کوجانتے بوجھتے مغلوب اورمرجوح رکھنا بدیہی مطمح نظرنہ ہواور نہ ہی بالقصد وارادہ ایسا مقصود ہو۔
بھارت کے آئین کی (اردو ترجمے کی) ابتدائی تمہیدی لائن اس طرح ہیں:
’’ہم بھارت کے عوام متانت وسنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ بھارت کو ایک مقتدرسماجوادی غیرمذہبی عوامی جمہوریہ بنائیں اور اس کے تمام شہریوں کے لیے حاصل کریں: انصاف،سماجی،معاشی اور سیاسی، آزادیِ خیال،اظہار،عقیدہ ودین اورعبادت،مساوات بہ اعتبار حیثیت اور موقع اوران سب میں اخوت کوترقی دیں جس سے فرد کی عظمت اور قوم کے اتحاد اورسالمیت کا تیقن ہو،اپنی آئین سازاسمبلی میں آج چھبیس نومبر1949ء کو یہ آئین ذریعہ ھذا اختیار کرتے ہیں، وضع کرتے ہیں اوراپنے آپ پر نافذ کرتے ہیں۔‘‘
ان لائنوں میں جو افعال ہیں ان سب میں مذکر کے صیغے استعمال کیے گئے ہیں، مثلا اس میں ہے کہ’’ہم بھارت کے عوام … عزم کرتے ہیں۔۔۔ اختیار کرتے ہیں، وضع کرتے ہیں اور نافذ کرتے ہیں‘‘گرچہ یہ صیغے لفظ ’عوام‘کی مناسبت سے لائے گئے ہیں تاہم یہ سارے صیغے مذکر ہی کے ہیں۔ مگراس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس سے صرف مرد ہی مخاطب ہیں۔ بھارت کے عوام میں مردو خواتین اورنواجوان سب برابر سرابر شامل ہیں۔اور اس اسلوب میں یعنی مرد اساس اسلوب میں عورتوں کے خلاف توہین آمیزرجحان کو روا رکھنے کی کوئی کوشش یا نیت پیش نظر نہیں ہے۔
انجیل مقدس سے بھی ایک ہدایت جو ’’خلاصہ‘‘ کے عنوان سے بیان کی گئی ہے ملاحظہ کریں:
’’خلاصہ: 18 میں یوحنا ہرایک کوجواس کتاب کی پیش گوئیاں سنتا ہے آگاہ کرتا ہوں، اگرکوئی اس کتاب میں کسی بھی بات کا اضافہ کرے تو اللہ اس کی زندگی میں ان بلاؤں کا اضافہ کرے گا جواس کتاب میں بیان کی گئی ہیں۔ 19اوراگر کوئی نبوت کی اس کتاب سے باتیں نکالے تو اللہ اس سے کتاب میں مذکور زندگی کے درخت کے پھل سے کھانے اور مقدس شہر میں رہنے کا حق چھین لے گا۔ 20 جو ان باتوں کی گواہی دیتا ہے وہ فرماتا،’’جی ہاں! میں جلد ہی آنے کو ہوں۔‘‘ ’’آمین ! اے خدا وند عیسیٰ آ!‘‘21 خداوند عیسیٰ کا فضل سب کے ساتھ رہے۔ (یوحنا عارف کا مکاشفہ، صفحہ 1752انجیل مقدس،اصل عبرانی، آرامی اوریونانی متن سے نیا اردو ترجمہ، سن اشاعت 2015، ناشرین، جیولنک ریسورس کنسلٹینٹس)‘‘
پوری انجیل اور تورات پڑھ جائیں آپ کو ہر جگہ مردوں ہی سے خطاب ملے گا اور ہر جگہ مذکر کے صیغوں کا ہی استعمال ملے گا۔ حتیٰ کہ بعض ایسے خطابات جس میں مرد وعورت دونوں بیک وقت خصوصی طورپر مخاطب ہوں وہاں بھی مذکر کے صیغے ہی استعمال کیے گئے ہیں۔
اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ نے جو خطبات ارشاد فرمائے تھے،ان میں بھی روئے سخن مردوں کی ہی طرف ہے اور مردوں کو ہی مخاطب کرکے انہیں خواتین، مزدوروں اورغلاموں کے حقوق یاد دلائے جارہےہیں۔ انہی خطابات کی ایک لائن یہ بھی ہے:’’اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے(اورسارے انسان اسی کی مخلوق ہیں، توپھرتفریق کیسی؟) سن لو! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر،اسی طرح کسی گورے کو کسی کالے پراور کسی کالے کو کسی گورے پرکوئی برتری اور فضیلت حاصل نہیں ہے۔اگر کسی کی کوئی فضیلت ہے تو صرف اس بنیاد پرہے کہ زیادہ پرہیزگارکون ہے۔ جو زیادہ پرہیزگار ہے وہی اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز ہے۔‘‘
اس لائن میں بلکہ پورے خطبےمیں مردوں کو ہی خطاب کیا گیا ہے۔ پہلا لفظ ’الناس‘ اگرچہ کامن لفظ ہے مگر سارے خطبے میں مذکر ہی کی ضمائر ہیں اورمذکر کے ہی صیغے ہیں اور پھربھی ایسا نہیں ہے کہ اس خطبے کی ہدایات میں عورتیں شامل نہیں ہیں،اس خطبے میں خواتین بھی اسی فیصد اور تناسب کے ساتھ شامل ہیں جس تناسب اور فیصد کے ساتھ مرد اس میں شامل ہیں، گرچہ روئے سخن مردوں کی ہی طرف ہے اوراس موقع پرآپﷺ کے سامنے جو دو ڈھائی لاکھ لوگوں کا جم غفیر تھا وہ مردوں پرہی مشتمل تھا، اس کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ اس موقع کے تمام خطبات میں جو احکام وہدایات ہیں اور حقوق بیان کیے گئے ہیں وہ صرف مردوں کے لیے ہی ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی زبان اسی طرح لکھی جاتی ہے، کامن تخاطب کے ساتھ یعنی بیک وقت مرد وعورت دونوں کی رعایت کرتے ہوئے کوئی بھی زبان نہیں لکھی جاسکتی، اگر لکھی بھی جائے گی تو افعال اور ضمائر کی تکرارسے زبان بوجھل اور مخدوش ہوجائے گی۔ جیسے:’’جوبھی مرد/عورت اپنا ٹکٹ بک کرانا چاہتے ہوں/چاہتی ہوں، وہ کل صبح دس بجے سے پہلے پہلے اپنا اپنا ٹکٹ بک کرالیں ‘‘ در اصل دنیا کی کوئی بھی زبان ایسی نہیں ہے جو بیک وقت رجولت اور نسائیت دونوں کو تخاطب کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہو۔
تقریبا یہی معاملہ قرآنی بیانیے کے اسلوب کا بھی ہے۔ قرآن کا بھی بیشتر بیانیہ رجولت کے ساتھ تخاطب اور مخاطبے کے حوالے سے ملتا ہے۔ البتہ کہیں کہیں نسائیت کے ساتھ تخاطب اورمخاطبہ بھی ہے۔ البتہ دیگر بیانیوں کے مقابلے میں قرآنی بیانیے کو ایک انفرادیت یہ بھی حاصل ہے کہ قرآن کے بیانیے کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو کامن صیغوں پرمشتمل ہے۔ اوریہ اس باعث بھی ہے کہ عربی میں مخاطب کے دونوں صیغے مشترک ہیں، یعنی ان میں مذکر ومؤنث کی تخصیص نہیں ہوتی۔ جیسے اردو ادب میں خاص طورپر اردو غزل میں بعض کامن اور مشترک الفاظ اور صیغے استعمال کیے جاتے ہیں،ذیل کے چند اشعار دیکھیں، ان میں اگرچہ تخاطب ہے مگر پھر بھی ان میں مذکر مؤنث کی تخصیص نہیں ہے:
کہوں جو حال تو کہتے ہو مدعا کہیے
تمہیں کہو کہ جو تم یوں کہو تو کیا کہیے
نہ کہیو طعن سے پھر تم کہ ہم ستم گر ہیں
مجھے تو خو ہے کہ جو کچھ کہو بجا کہیے
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
اس غزل میں جتنے بھی صیغے یا جملے ہیں جیسے کہوں،کہیے، تمہیں کہو،کیا کہیے، ہم نے مانا،خاک ہوجائیں گے، تم کو۔۔ وغیرہ وہ سب ایسی تکنیک کے ساتھ استعمال کیے گئے ہیں کہ ان سے صنفی تفریق لازم نہیں آتی۔ کیونکہ سب کے سب مشترک صیغے ہیں اور ایسے اسمائے صفاتی ہیں جوتانیث ورجولت دونوں کے لیے یکساں طوپر استعمال ہوتے ہیں۔
یہ اشعاراسد اللہ خاں غالب کے ہیں۔اورغالباً یہ کہنا درست ہے کہ کلام غالب کی ایک خصوصیت یہ بھی قرار پاتی ہے کہ اس میں صنفی تخصیص کرنےوالے صیغوں کے ذریعہ مخاطبہ کم ہے، اس کے برعکس کامن/مشترک صیغوں کے ذریعہ مخاطبہ زیادہ ہے۔ جیسے اوپر کے اشعارسے واضح ہے۔
اسی طرح آپ کو سورۂ فاتحہ میں صنف ظاہرکرنے والے الفاظ، ضمیریں اور صیغے نہیں ملیں گے، کیونکہ اس میں مخاطبہ نہیں ہے، اس میں تعریف ہے، دعویٰ ہے اور دعا ہے۔اسی طرح آپ معوذتین پڑھیں،ان میں بھی صنفی امتیازظاہر کرنے والے الفاظ نہیں ملیں گے۔اسی طرح آیت الکرسی ہے۔ جنسی تفریق کا مسئلہ وہیں پیش آتا ہے جہاں تخاطب ہوتا ہے۔ اورسورہ فاتحہ،آیت الکرسی اور معوذتین وغیرہ میں کوئی تخاطب نہیں ہے، بلکہ ان میں دعا ہے اور اللہ کی تعریف ہے۔ سورۂ اخلاص میں بھی اللہ کی تعریف ہے مگر اس میں اور آیت الکرسی میں مذکر کی ضمیر،مذکرکے صیغے استعمال کیے گئے ہیں مگر یہ سب اللہ کے لیے ہیں اور ان سے صنفی شناخت مقصود نہیں ہے۔
پھر یہ تخاطب دوطرح کا ہوتا ہے۔ ایک خاص تخاطب ہوتا ہے اورایک عمومی تخاطب ہوتا۔ اور قرآنی بیانیے میں یہی عمومی تخاطب زیادہ ہے۔جیسے: يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ ‎﴿النساء: ١﴾‏… وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ ‎﴿البقرة: ٤٣﴾‏ وغیرہ۔ اس عام تخاطب میں مرد اور مؤنث دونوں یکساں طورپر مخاطب ہوتے ہیں، اگرچہ اس میں مذکر کے صیغے استعمال کیے گئے ہوں اورعموماً کیے بھی جاتے ہیں۔ سورۂ فرقان میں عبادالرحمان کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ مکمل ایک رکوع ہے: وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا ‎﴿٦٣﴾‏ اس پورے رکوع میں مردوں سے تخاطب ہے اورمذکرکے صیغے ہی استعمال ہوئے ہیں، کہیں بھی مؤنث کے صیغے استعمال نہیں ہوئے۔ مگراس مخاطبے میں عورتیں بھی پوری طرح شامل ہیں۔عورتیں بھی رحمان کی بندیاں ہیں، ان کی بھی یہی تمام صفات ہیں اوران کی نیکیوں کے بدلے بھی اسی طرح ملیں گے، بنا کسی کمی بیشی کے اور بناکسی تردد کے۔
اس قبیل کے مرد اساس بیانیے کے توسط سے سمجھا جاسکتا ہے کہ قرآن میں اہل جنت کا جو بیان ہے وہ اسی مرد اساس بیانیے کے توسط سے بیان ہوا ہے جوعمومی خطاب کا بیانیہ ہے اوراس میں عورتیں بھی پوری طرح شامل ہیں، سورۂ ’الانسان‘ میں جنت کی نعمتوں کا ذکر خاصی تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے مگر یہ ساراکا سارا مذکر کے صیغوں اور مذکرکی ضمائر کے ساتھ ہی بیان ہوا ہے۔ بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب نعمتیں صرف مردوں کے لیے ہی ہوں گی کیونکہ تخاطب مردوں ہی سے ہے۔ پھر اس بیانیے میں ایسے فقرے بھی شامل ہوجاتے ہیں جو ایسی نعمتوں کے بارے میں کلام کرتے ہیں جو صرف مردوں کو ہی ملنے والی ہوتی ہیں یا صرف انہیں ہی مل سکتی ہیں۔ جیسے ’حورٌعینٌ‘ کا بیانیہ۔ حدیث شریف میں یہ بیان مزید توسیع کے ساتھ ملتا ہے اوراس میں ایک نیک وپرہیزگارمرد کے لیے بہترحوروں کا بیان ہے۔ تواس سے ذہن پختہ ہوجاتا ہے کہ یہ سب کچھ مردوں کے لیےہی ہے۔ مگر فی الواقع ایسا نہیں ہے، مخاطبہ بھلے ہی مردوں کے ساتھ ہو اور صیغے اور ضمائربھی بھلے مذکر کی ہی استعمال کی گئی ہوں مگر یہ بیان عورتوں کے لیے بھی اتنا ہی ہے جتنا مردوں کے لیے ہے۔ خواتین کے لیے بھی اسی طرح کی نعمتیں ہوں گی، ان کے ہاتھوں میں بھی جام ہوں گے، وہ بھی مسند نشیں ہوں گی اور گاؤ تکیے لگائے بیٹھی ہوں گی۔ ان کے اطراف بھی حوروغلمان گردش کررہے ہوں گے اور انہیں بھی شراب طہور پلائی جائے گی او ان کے لیے بھی چشمۂ سلسبیل جاری ہوگا۔ انہیں بھی جنت میں وہی سب ملے گا جو ان کا دل چاہے گا، جس کی وہ تمنا کریں گی، جس سے ان کے دل شاداں وفرحاں ہوں گے اورآنکھیں روشن و ٹھنڈی ہوں گی، یقیناً عورتیں بھی اسی طرح لذت کام ودہن سے آشنا ہوں گی جس طرح مرد لذتِ کام ودہن سے شاد کام ہوں گے۔
بہترحوروں کا بیانیہ ایک علامتی بیانیہ ہے، ممکن ہے انعام واکرام کی یہ صورت مردوں کے لیے خاص ہو تاہم خواتین پر بھی اللہ کے خصوصی انعامات کی بارش اسی طرح ہوگی اوران کے انعامات بھی مردوں کے مقابلے میں خاص ہوسکتے ہیں۔ یعنی مردوں کے بعض انعامات ایسے ہوسکتے ہیں جوعورتوں کو نہ ملیں اورعورتوں کے لیے بھی بعض ایسے انعامات ہوسکتے ہیں جو مردوں کو ہوسکتا ہے کہ نہ ملیں۔
قرآن میں ہے:
وَلَكُمۡ فِيهَا مَا تَشۡتَهِيٓ أَنفُسُكُمۡ وَلَكُمۡ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ نُزُلٗا مِّنۡ غَفُور رَّحِيم (فصلت-۳۱-۳۲)
’’ جنت میں تمہیں ہر وہ نعمت ملے گی جسے تمہاراجی چاہے گا اور جس کا تم مطالبہ کروگے۔اور یہ نہایت بخشنے والے رحیم وکریم رب کی طرف سے تمہاری میزبانی ہوگی‘‘
وَفِيهَا مَا تَشۡتَهِيهِ ٱلۡأَنفُسُ وَتَلَذُّ ٱلۡأَعۡيُنُۖ وَأَنتُمۡ فِيهَا خَٰلِدُونَ (الزخرف-۷۱)
’’(جنت میں اہل جنت کے لیے) ہروہ چیزحاضر ہوگی جس کی اہل جنت کے دل آرزو کریں گے اور جسے دیکھ کران کی آنکھیں لذت محسوس کریں گی۔ اور(اہل جنت کو یہ خوشخبری بھی سنائی جائے گی کہ اب وہ ہمیشہ اسی ناز ونعم میں رہوگے‘‘
ان آیات میں اگرچہ خطاب مردوں سے ہے اور مذکرکے صیغوں کے ساتھ کلام کیا گیا ہے، مگر اس خطاب میں مومن عورتیں بھی پوری طرح شامل ہیں۔ یہاں مردوں سے خطاب زبان کے پیٹرن، طرز ادا اورعربی زبان کے خطابی نظام کی وجہ سے ہے نہ کہ عورتوں کو قرآن کے بیانیے سے منہا رکھنے کے لیے، جنت کی نعمتوں سے محروم کرنے یا دنیا وآخرت کی زندگی میں ان کی ثانوی حیثیت کو ظاہرکرنے کے لیے ہے۔
قرآن کے بیانیے میں بعض جگہ عورت ومرد دونوں کو تخاطب میں شامل کیا گیا ہے۔ جیسے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ‎﴿سورۃ النحل،٩٧﴾‏
’’جو کوئی بھی نیک عمل کرے ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور وہ صاحب ایمان بھی ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی گزارنے کا موقع دیں گے۔ اوران (مردوخواتین) کے اچھے اعمال کا ہم انہیں اچھا بدلہ دیں گے۔‘‘
اس آیت میں مذکرومؤنث کوبرابر کی حیثیت سے شاملِ خطاب کیا گیا ہے۔ اور لفظی طورپر دونوں جنس(مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ) کا اظہار بھی ہے، تاہم اس سے آگے کی عبارت مذکر کے صیغے میں ہے اور یہ ابتداء میں جو ’مَن‘ موصولہ ہے اسی کی نسبت سے ہے، پھر اس کے بعد کا جو فقرہ ہے’ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً‘ یہ بھی مذکر کے صیغے اور مذکر کی ضمیر کے ساتھ ہے۔ پھرآخری جملہ مذکر کے صیغے اور مذکر کی ضمیر کے ساتھ آیا ہے۔ تو اس آیت میں تانیثیت اگرچہ لفظی اظہار میں موجود ہے تاہم اس آیت کا عمومی بیانیہ بھی رجولت اساس بیانیہ ہی ہے۔ اوریہ رجولت کے تئیں احساس برتری یا افضلیت کی ذہنیت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ اس وجہ سے ہے کہ زبانوں کی انشائی تشکیل وترتیب کچھ اسی طرح کی ہے۔ نزول قرآن کے وقت جوعربی زبان عرب میں رائج تھی اس کا اسٹریکچر،تشکیل، ھیئت اوربناوٹ بھی کچھ اسی طرح کی تھی۔
اسی حوالے سے ایک اور آیت دیکھیں:
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا۔(الاحزاب : 35)
اس آیت میں قرآن کے عمومی بیانیے کے برخلاف ایک ایسا مشترک بیانیہ ملتا ہے جس میں رجولت اورتانیثیت دونوں کو لفظی طورپر ایک ساتھ مخاطب کیا گیا ہے۔ ایسا بیانیہ پورے قرآن میں شاید ہی ایک دو جگہ اورمل سکے۔ لیکن اس میں بھی جوآخری فقرہ ہے جودرحقیقت اسم ’ إِنَّ ‘ کی خبر ہے یعنی ’أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًاعَظِيمًا‘ اس فقرے میں ’ لَهُم‘ میں جو ضمیر ہے وہ مذکر کی ضمیر ہے۔ کیونکہ زبان میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ مذکرومؤنث دونوں ضمیریں یعنی ’لَھُمۡ +لَھُنَّ‘ ایک ساتھ لائی جاسکیں، جس طرح اسماء ’الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ۔۔‘ ایک ساتھ لائے گئے ہیں۔
زبان کی تنگ دامانی کا شکوہ ہنرمندوں کو اکثررہتا ہی ہے۔ غالب نے ظرفِ غزل کی تنگی کا شکوہ کیا ہے:
بہ قدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل
کچھ اورچاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے
غالب کا یہ شکوہ گرچہ ایک خاص صنف سخن کے حوالےسے ہے تاہم ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ شاعروں، ادیبوں اورزبان کے ماہرین کو اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی اورتخیّل کے اظہارکے لیے صرف کسی سخن کی تنگ دامانی کا ہی شکوہ رہتا ہے۔ دنیا کی کسی بھی زبان کے بارے میں بھی یہی تصوردرست ہے کہ زبان انسانی خیال، تصوراورذہنی افتاد کا ساتھ نہیں دے سکتی خواہ زبان کتنی بھی زرخیزاورترقی یافتہ کیوں نہ ہو۔ اگرآپ کسی زبان کے ماہر ہیں، قادرالکلام شاعر ہیں اورصاحب اسلوب ادیب ہیں تب بھی آپ اپنے بارے میں سوچ کر دیکھیے کہ کتنی بار ایسا ہواہوگا کہ آپ کو اپنے خیالات کے اظہار کے لیے الفاظ اور پیرایہ بیان کے نہ ملنے کا شکوہ رہا ہوگا۔
سورہ احزاب کی مذکورہ ایت نمبر 35 کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مفسّرین نے لکھا ہے کہ امّہات المؤمنین میں سے حضرت ام سلمہؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! قرآن مجید میں بار بار مردوں کو ہی مخاطب کیا گیا ہے عورتوں کو مخاطب کیوں نہیں کیا جاتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں مومن مردوں اورعورتوں کو نہ صرف یکساں طور پر مخاطب کیا گیا ہے بلکہ اس میں ایک سچے اور پکے مسلمان مرد اورعورت کے کردار کا خاکہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ ان اوصاف کا مرد ہو یا عورت، جوان ہو یا بوڑھا، امیر ہو یا غریب، عربی ہو یا عجمی، گورا ہو یا کالا، حکمراں ہو یا محکوم جس میں بھی یہ اوصاف ہوں گے اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف فرمائے گا اور اسے اجرعظیم سے نوازے گا۔
اسی طرز واسلوب کی چند آیتیں اور بھی دیکھتے چلیں جن میں مرد وعورت دونوں کو خطاب کیا گیا ہے:
وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۔۔ ‎﴿التوبة: ٧٢﴾‏
وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ۔۔ ‎﴿الأحزاب: ٥٨﴾‏
لِّيُعَذِّبَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ وَيَتُوبَ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ‎﴿الأحزاب: ٧٣﴾‏
لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ‎﴿الفتح: ٥﴾‏
يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ۔۔ ‎﴿الحديد: ١٢﴾‏
أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ۔۔
‎﴿آل عمران: ١٩٥﴾‏
وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ ‎﴿النساء: ١٢٤﴾‏
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ ‎﴿النحل: ٩٧،غافر: ٤٠﴾‏
‏ایسی آیتیں اور بھی ہیں مگر ہم انہیں طوالت کے خوف سے قلم زد نہیں کر رہے ہیں۔
اسی سے ملتی جلتی بحث اللہ کے بارے میں بھی ہے کہ اللہ، گاڈ، خدا یا بھگوان مذکر کیوں ہے؟ اوراگراس کی کوئی جنس ہی نہیں ہے تو پھر اسے مذکر کے صیغے اور مذکر کی ضمیر کے ساتھ ہی کیوں مخاطب کیا جاتا ہے؟۔ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ اسے یا تو کسی کامن صیغے کے ساتھ مخاطب کیا جائے جس میں تذکیروتانیث کا فرق نہ ہو یا پھر دونوں صیغوں کے ساتھ مخاطب کیا جائے، کبھی مذکرکے صیغے کے ساتھ اور کبھی مؤنث کے صیغے کے ساتھ ۔
عیسائی اوریہودی مذہبی فکر میں اللہ کی ذات کے حوالے سے کہ وہ مذکر ہے یا مؤنث اور اسے ’He‘ کے ذریعہ مخاطب کرنا چاہیے یا ’She‘ کے ذریعہ یا وقتاً فوقتاً دونوں کے ذریعہ، یہودی اورعیسائی مذہبی فکر میں ایسے مباحث موجود رہے ہیں،مگر عیسایت میں بھی مرکزی تصور یہی ہے کہ خدا نہ مرد ہے اور نہ عورت، اس کے باوجود خدا کو ’باپ‘ کے لفظ سے مخاطب کیا جاتا ہے، لفظ ’ماں‘ سے کبھی مخاطب نہیں کیا گیا۔ بی بی سی اردو ویب سائٹ پر 2 جون 2015 کو شائع شدہ ایک مضمون کا مختصر اقتباس ملاحظہ کریں:
’’ 50 سال پہلے تک خدا کے متعلق اس طرح بات شاذ و نادر ہی کی جاتی تھی لیکن اس کے بعد مذہبی تعلیم کی ماہر خواتین نے چرچ کو ترغیب دی کہ روایتی مذہبی زبان میں خواتین کو غیر ضروری طور پر شامل نہیں کیا جاتا۔ جیسا کہ میری ڈیل نے 1973 میں لکھا کہ ’اگر خدا مرد ہے تو پھر مرد خدا ہے۔ 1980 کے بعد بائبل کا نیا ترجمہ کیا گیا اور ’مین‘ یا مرد کی جگہ ’ہیومن بینگز‘ یعنی انسان لکھا جانے لگا۔ تاہم بائبل کے زیادہ تر ترجمے اب بھی خدا کے لیے مذکر ہی کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔ 2003 میں عہدنامہ جدید کے نئے ترجمے میں خدا ’تمہارا باپ‘ کی جگہ ’تمہارے پیرنٹ‘ یعنی والدین لکھا گیا ہے۔ 1999 میں میتھوڈسٹ چرچ نے ایک نئی سروس بک متعارف کرائی جس میں خدا کے لیے مذکر اور مونث دونوں صیغے استعمال کیے گئے۔‘‘ (مضمون، خدا کے لیے صرف مذکر ہی کیوں؟، شائع شدہ بی بی سی، 2جون 2015)
ایسی ہی کاوش2020 میں جاپان میں کی گئی جب جاپانی ایرلائنز کے عملے کو صنفی تفریق ظاہر کرنے والے الفاظ ترک کرکے کامن الفاظ استعمال کرنےکی ہدایات دی گئیں۔ ذیل کا اخباری بیان ملاحظہ ہو:
’’ جاپان ایئر لائن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ آئندہ ’’خواتین وحضرات‘‘ladies and gentlemen کے بجائے Dear passengers’’معزز مہمانان‘‘ وغیرہ جیسے کلمات استعمال کیے جائیں گے تاکہ مہمانوں کا انسانی بنیادوں پر احترام کرتے ہوئے صنفی تفریق کے باعث پیدا ہونے والی کسی بھی متعصبانہ صورت حال سے بچا جا سکے۔‘‘
اسلام میں تواس حوالے سے مباحث ملتے ہی نہیں۔ اورنہ ہی مسلمانوں کو اس بات سے کوئی دقت ہے۔ مسلمان اگراللہ کو مذکرکے صیغے اور مذکر کی ضمائر کے ساتھ مخاطب کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اللہ کا مذکر ہونا ثابت ہوگیا۔ یا اگر وہ مؤنث کے صیغوں کے ذریعہ مخاطب کرنے لگ جائیں تو اللہ کے لیے تانیثیت ثابت ہوجائے گی۔ دراصل خطاب کے یہ تمام صیغے محض خطاب کے لیے ہیں، اللہ کی جنس کی تعیین کے لیے نہیں ہیں اورمذکر کے صیغے اس لیے استعمال کیے جاتے ہیں کیونکہ زبان کا ہیولیٰ (اسٹرکچر) اسی طرح کا ہے اور زبان کی تشکیل اسی طرح ہوئی ہے کہ اس میں ہر شے کو مذکر کے صیغے کے ساتھ ہی مخاطب کیا جاتا ہے البتہ بوقت ضرورت مؤنث کے صیغے استعمال کیے جاتے ہیں جب کسی وجہ سے تانیثیت کا اظہار مقصود ہو۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ اردو زبان میں جنس کے اظہار کے لیے جو الفاظ ہیں وہ زیادہ ترمذکر ہی ہیں،جیسے انسان، چرند، پرند، درندہ، جانور،چوپایا،وغیرہ وغیرہ۔۔۔ یہ سب مذکر ہی استعمال ہوتے ہیں حالانکہ یہ اس لحاظ سے جنس کے معنیٰ پر مبنی الفاظ ہیں کہ یہ مذکر ومؤنث دونوں جنسوں کے لیے بولے جاتے ہیں۔
اسلامی فکر کے اعتبارسے اللہ کی ذات کو کسی بھی نوع کے ساتھ متصف نہیں کیا جاسکتا اوراس کے باوجود نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن میں اللہ کے لیے مذکر کے صیغے اور مذکرکی ضمائر استعمال ہوئی ہیں۔ بعض جگہ کفار کی اس تقسیم پر ناراضی کا اظہار کیا گیا ہے کہ وہ اپنے لیے تو بیٹے منتخب کرتے ہیں اور اللہ کے لیے بیٹیاں بنالیتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی اللہ کے لیے کوئی جنس اور صنف تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ اللہ کے بارے میں قرآن میں ہے ’’لیس کمثلہ شیئ‘‘ یعنی دنیا جہان کی کوئی چیز بھی اللہ کی طرح نہیں ہے۔یہی ہمارا ایمان اور عقیدہ ہونا چاہیے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 اگست تا 31 اگست 2024