قرآنی بیانیہ :اجمال وتفصیل کے درمیان

قرآن میں موجود ’ہرشے کے ذکر‘ اور’ہر شے کی تفصیل‘ میں فرق کو سمجھنا ضروری

ابوفہد ندوی، نئی دہلی

قرآن کا بیانیہ اپنے الفاظ و معانی اوراستدلال و مدلولات کے اعتبار سے اجمال وتفصیل کے درمیان کا بیانیہ ہے۔ یعنی قرآن میں جو چیزیں بیان ہوئی ہیں وہ نہایت ہی اختصار اور قدرے تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہیں اور یہ کہ قرآن میں ہر شےکے بیان یعنی ماکان ومایکون کے بیان کا دعویٰ قرآن کے بیانیے سے میل نہیں کھاتا۔ گرچہ اللہ نے فرمایا ہے:
وَكُلَّ شَيْءٍفَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا ‎﴿الإسراء: ١٢﴾
‏’’اور ہم نے (ضروریات دین سے متعلق) ہر چیز کی خوب وضاحت کردی ہے‘‘
اور دوسری جگہ ارشاد ہے:
وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ‎﴿النحل: ٨٩﴾‏
’’اور اے پیغمبر! ہم نے تم پرایسی کتاب اتاری ہے جو (ضروریات دین سے متعلق) ہر چیز کی خوب وضاحت کرتی ہے‘‘
بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ ایسی آیات جن میں لِّكُلِّ شَيْءٍ اور كُلَّ شَيْءٍ کے الفاظ آئے ہیں وہ اپنے بیان میں اختصاص کا پہلو رکھتی ہیں نہ کہ عموم اور استیعاب کا۔ ان آیات میں تفصیل سے مراد توضیح اور قطعیت ہے یعنی اللہ کے احکام واضح ہیں اور ان کے حوالے سے اللہ کا جو حکم ہے وہ قطعی ہے، لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ‎﴿يونس: ٦٤﴾‏ ’’اللہ کے ارشادات (وعدے اور وعیدیں) بدلنے والے نہیں‘‘ کے مصداق والی قطعیت۔ قرآن نے اپنے بارے میں کہا ہے کہ وہ قول فیصل ہے، کوئی ہنسی مذاق کی بات نہیں ہے، إِنَّهُ لَقَوْلٌ فَصْلٌ ‎،‏ وَمَا هُوَ بِالْهَزْلِ ‎﴿الطارق:١۳-۱٤﴾ اس آیت میں فَصۡل، ہَزۡل کے بالمقابل آیا ہے اور اس اسلوب بیان سے ’ فَصۡل ‘کے معنیٰ غیرسنجیدہ قول اور پیغام کے مقابلے میں سنجیدہ،مہتم بالشان پیغام اور قول فیصل کے نکلتے ہیں۔
مذکورہ آیات اوراسی معنیٰ ومفاہیم پر مبنی بعض دیگر آیات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ نے قرآن میں تمام امور واحکامات کے جزئیات بھی بیان فرما دیے ہیں۔ ہرچھوٹی بڑی چیز بلکہ ’ماکان ومایکون‘یعنی جو ہوچکا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے سب کا سب اور پورا کا پورا قرآن میں بیان فرما دیا ہے جیسا کہ امت میں ایک عام سوچ چلی آرہی ہے اوراسے قرآن کے معجزہ ہونے کے ثبوت کے طورپر بیان کیا جاتا ہے۔
قرآن میں تو شرعی وتکوینی نوعیت کی تمام توضیحات ایک باربیان کردی گئی ہیں،کیونکہ قرآن کے بیانیے میں اب کچھ بھی اضافہ نہیں ہوگا، مگر کائنات اور فطرت کے حوالے سے تکوینی توضیحات کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسانی ذہن اوراس کی آنکھ سے اوجھل اشیاء اوران کی حقیقت وماہیت، گاہے بہ گاہے اور درجہ بہ درجہ انسان کے انفرادی واجتماعی ذہن پرمنکشف فرماتا رہا ہے اور آئندہ بھی فرماتا رہے گا۔ اس کی شہادت خود قرآن میں موجود ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ‎﴿فصلت:٥٣﴾
‏ ’’ان منکرین حق کو جلد ہی اپنی شان قدرت کی ایسی نشانیاں دکھائیں گے، کائنات کی بے کراں وسعتوں میں بھی اور خود ان کے اپنے نفوس کی گہرائیوں میں بھی، تاکہ ان پرواضح ہوجائے کہ قرآن ہی حق ہے‘‘
قرآن میں ہے:
أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ ‎﴿الأنبياء: ٣٠﴾
‏ ’’ کیا منکرین حق نے نہیں دیکھا کہ زمین وآسمان باہم ملے ہوئے تھے، ہم نے انہیں ایک دوسرے سے جدا کیا۔اور ہم نے ہر زندہ چیزپانی سے پیدا کی، تو کیا یہ لوگ (یہ سب دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی) ایمان نہیں لائیں گے‘‘ یہ ایک اجمالی بیان ہے، اس میں تفصیل تو بیان نہیں ہوئی ہے۔ تفصیل نہ اس بات کی بیان ہوئی ہے کہ زمین وآسمان کے باہم ملے ہوئے ہونے کی کیفیت کیا تھی اورنہ ہی اس بات کی کہ اللہ نے ان دونوں کو کس طرح ایک دوسرے سے جدا کیا۔ اسی طرح قرآن میں ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ‎﴿النساء: ١﴾
‏ ’’اے لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرتے رہو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ہے‘‘
اس آیت میں نہایت ہی اجمال کے ساتھ انسان کی تخلیق کے بارے میں بات کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ تمام انسان ’نفس واحدہ‘ سے وجود پذیر ہوئے ہیں۔ اب نفس واحدہ سے انسان کیسے وجود میں آئے اس کی تفصیل تو قرآن میں نہیں ہے۔ قرآن میں انسان کی پیدائش کے مختلف مراحل کا ذکرضرورہے مگر تفصیلات تو بہرحال نہیں ہیں۔
قرآن میں فطرت کا یعنی آسمان وزمین کا اور زمین میں موجود چیزوں کا، ہوا اور پانی کا، معدنیات کا اور پھل اور ترکاری کا، پھرچاند ستاروں کا اور گردش لیل ونہار کا بہت بیان ہےمگراس بیان سے دو ہی باتیں مقصود ہیں، ایک فطری امورکی حکمتوں اور منافع کا بیان اور دوسرے ان کے ذکر سے اللہ کی ذات کے وجود اوراس کی لازوال اوراعلی وبرتر شان وقوت پراستدلال قائم کرنا۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن میں فطرت کا بیان استدلال کے لیے ہے، نہ کہ فطری اموروآیات کی تفصیل اورجزئیات کی تفصیلات کے لیے۔ قرآن میں ہے:
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ‎﴿البقرة: ١٦٤﴾
‏ ’’آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں، رات ودن کی پیہم گردش میں، ان کشتیوں میں جو دریاؤں میں ایسی اشیاء لے کر چلتی ہیں جن سے لوگوں کو نفع ہوتا ہے، اس پانی میں جو اللہ آسمان سے برساتا ہے اوراس پانی کے ذریعہ سوکھی پڑی زمین کو سرسبز و شاداب بنادیتا ہے اورپھراس سرسبز وشاداب زمین میں ہرطرح کے جاندار پھیلادیتا ہے، ہواؤں کے رخ پھیرنے میں اور زمین وآسمان کے درمیان مسخر بادلوں میں غوروفکر کرنے والوں کے لیے اللہ کی شان کبریائی کی بے شمارنشانیاں موجود ہیں‘‘
اسی طرح قرآن میں روح کے حوالے سے یہ بیان ملتا ہے:
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا ‎﴿الإسراء: ٨٥﴾‏
’’اے نبی! یہ لوگ تم سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں،تو ان سے کہہ دو کہ روح تو میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں اس روح کے متعلق بہت کم علم دیا گیاہے‘‘
یہاں روح کے بارے میں ایک اجمالی حکم بیان ہوا ہے، روح کیا ہے اس کی تفصیل تو بیان نہیں ہوئی ہے۔ یہاں تو قرآن نے خود ہی واضح کردیا ہے کہ انسانوں کو زیادہ علم نہیں دیا گیا ہے، قرآن کے ذریعہ بھی نہیں، کم از کم روح کے متعلق تو قرآن کا بیان یہی ہے کہ اس کے بارے میں انسانوں کو زیادہ اور مکمل علم نہیں دیا گیا ہے۔
اسی طرح قرآن میں جابجا علم کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی ہے اور انبیاء کرام ،کفار ومشرکین کے جواب میں یہ ارشاد فرماتے نظرآتے ہیں، کہ علم تو اللہ ہی کے پاس ہے،ہم تو صرف خبردار کردینے والے ہیں۔ہود علیہم السلام نے عذاب کے متعلق اپنی قوم کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا:
إِنَّمَا الْعِلْمُ عِندَ اللَّهِ وَأُبَلِّغُكُم مَّا أُرْسِلْتُ بِهِ وَلَـٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ ‎
﴿الأحقاف: ٢٣﴾
‏ ’’ہود نے اپنی قوم سے کہا: اس کا علم تواللہ ہی کے پاس ہے (کہ وہ کب تم پرعذاب بھیجے گا) اورمیں تو صرف وہی پیغام تمہیں سنارہا ہوں جو پیغام اللہ نے مجھے دے کر تمہارے درمیان بھیجا ہے۔ لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تم نہایت ہی نادان قسم کے لوگ ہو تبھی تو تم عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہو اور اللہ کے مقابلے میں جرأت دکھا رہے ہو‘‘
رسول اللہﷺ نے اللہ کی ہدایت کے مطابق قیامت کے متعلق سوال کے جواب میں اللہ کا یہ جواب ارشاد فرمایا:
قُلْ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِندَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ ‎﴿الملك: ٢٦﴾
‏’’ اے نبی! انہیں ان سے کہ دو کہ یہ تو صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ قیامت کب واقع ہوگی۔ اور میں تو تمہیں قیامت کے تعلق سے صاف صاف خبردار کرنے کے لیے آیا ہوں‘‘
قرآن میں أرکان اربعہ نماز،روزہ،زکوۃ اورحج کا واضح حکم توموجود ہے، یعنی ان کا حکم قطعیت کے ساتھ دیا گیا ہے، مگران کی تفصیلات مع جزئیات بیان نہیں کی گئی ہیں۔ اگرچہ بعض احکام کی بہت ہی جامعیت اوراختصارکے ساتھ تفصیلات بھی ہیں،ان کا تعلق زیادہ ترمعاشرتی مسائل سے ہے، قرآن میں میراث کا بیان ہے، نکاح وطلاق کا بیان ہے،عدت کا بیان ہے، ان تمام بیانات میں قدرے تفصیل بیان ہوئی ہے۔ اسی طرح بعض قصص میں انبیاء کرام کے دعوتی مشن کی تفصیلات درج ہیں۔
قرآن میں’ فَصّل‘ اور اس کے مشتقات کثرت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں، اس کے علاوہ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ‎﴿النحل: ٨٩﴾‏، مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ۚ (الانعام: ۳۸) اور وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ ‎﴿يس: ١٢﴾‏ جیسی آیات بھی قرآن میں آئی ہیں۔ مگر غورکرنے والی بات یہ ہے کہ ان میں سے بعض آیات کا اشارہ لوح محفوظ کی طرف ہے نہ کہ قرآن کی طرف جبکہ بعض کا اشارہ قرآن کی طرف ہی ہے جیسے سورہ اسراء کی زیر بحث آیت : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا ‎﴿الإسراء: ١٢﴾‏ مگر جو بات اس آیت میں قرآن کے بارے میں کہی گئی ہے تقریبا وہی بات الواح موسیٰؑ کی نسبت سے بھی کہی گئی ہے، ارشاد ہے:
وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ‎﴿الأعراف: ١٤٥﴾‏
’’اور ہم نے موسیٰ کو تورات کی تختیوں میں ہر قسم کی نصیحت کی باتیں اور (دین سے متعلق ) ہر ضروری چیز کی تفصیل لکھ کر دے دی ہے‘‘
پھر قرآن میں لفظ ’تَفْصِيلًا‘جس طرح تشریعی امور کے لیے وارد ہوا ہے اسی طرح طبعی اورتکوینی امور کے لیے بھی وارد ہوا ہے۔ لوح محفوظ کے حوالے سے یہ کہنا بجا ہے کہ لوح محفوظ میں ہر شے، یعنی ’ماکان ومایکون‘ کا علم مذکور ہے، مگر قرآن کے بارے میں اور الواحِ موسیٰ کے بارے میں یہی بات اتنی وسعت کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی۔
وہ آیات جن میں ’قرآن یا لوح محفوظ‘ کی طرف ہرشے کے مذکور ہونے کی نسبت کی گئی ہے ذیل کی آیات ہیں۔ یہ آیت دو گروہوں میں تقسیم کی جارہی ہیں، پہلے گروہ کی تمام آیات کا تعلق لوح محفوظ سے ہے۔ نیز ہر آیت کے آگے وضاحت بھی کردی گئی ہے کہ کس آیت میں لوح محفوظ کی طرف نسبت ہے اور کسی میں قرآن اور تورات کی طرف:
گروپ اول:
وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ كِتَابًا ‎﴿النبإ: ٢٩﴾‏ (اللوح المحفوظ)
مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ(الانعام: ۳۸) (اللوح المحفوظ)
وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ‎﴿الأنعام: ٥٩﴾‏ (اللوح المحفوظ)
وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ‎﴿هود: ٦﴾‏ (اللوح المحفوظ)
وَمَا مِنْ غَائِبَةٍ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ‎﴿النمل: ٧٥﴾‏ (اللوح المحفوظ)
وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ ‎﴿يس: ١٢﴾‏ (اللوح المحفوظ)
گروپ دوم:
وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا ‎﴿الإسراء: ١٢﴾‏ (القرآن)
وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا ‎﴿الأنعام: ١١٤﴾‏ (القرآن)
وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ‎﴿الأعراف: ١٤٥﴾‏ (التوراۃ)
وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ ‎﴿النحل: ٨٩﴾‏ (القرآن)
مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ وَلَٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿یوسف: ۱۱۱﴾‏ (القرآن)
اس سلسلے میں زیادہ مغالطہ ’ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ‘کے الفاظ سے ہوتا ہے۔ یہ آیت گرچہ قرآن کے بارے میں ہی ہے تاہم اس کا وہ مفہوم نہیں ہے جو عموما بیان کیا جاتا ہے۔ التفسیرالمیسر میں ہے: ’’… وقد نَزَّلْنا عليك القرآن توضيحًا لكل أمر يحتاج إلى بيان، كأحكام الحلال والحرام، والثواب والعقاب، وغير ذلك، وليكون هداية من الضلال، ورحمة لمن صدَّق وعمل به، وبشارة طيبة للمؤمنين بحسن مصيرهم‎‘‘ ﴿النحل: ٨٩﴾‏
(التفسیر المیسر)
قرآن میں اسی مادہ پر مبنی لفظ سے موسوم ایک سورت، ’سورۂ فصلت‘ بھی ہے۔ اس کی پہلی تین آیات ہیں: كِتَابٌ فُصِّلَتْ آيَاتُهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِّقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ‎﴿فصلت: ۱-۳﴾ تفسیر جلالین میں ان آیات کی تفسیر اس طرح کی گئی ہے کہ:’’تنزيل من الرحمن الرحيم‘‘مبتدأ، ’’كتاب‘‘ خبره ’’فصلت آياته‘‘ بينت بالأحكام والقصص والمواعظ ’’قرآناً عربيا‘‘ حال من كتاب بصفته ’’لقوم‘‘ متعلق بفصلت ’’يعلمون‘‘ يفهمون ذلك، وهم العرب۔‘‘
’’فُصِّلَتْ آيَاتُهُ‘‘ یعنی اس قرآن کی آیات احکام وقصص اورمواعظ کے بیان پر مبنی ہیں۔اس کے بعد ’’ قُرْآنًا عَرَبِيًّا ‘‘ کا فقرہ بتارہا ہے کہ ’فُصِّلَتْ ‘ سے عربی زبان کا خاص تعلق ہے۔ یعنی قرآن کاعربی زبان میں اتاراجانا ہی گویا اپنے آپ میں خود تفصیلی اور وضاحتی بیان ہے کیونکہ عربی زبان معانی ومطالب کے ادا کرنے پرزیادہ قدرت رکھتی ہے۔ اوراس میں ایجازواختصار کی خصوصیت دیگر زبانوں کے مقابلے میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ اور اسی لیے یہ ممکن ہوپایا ہے کہ ایک مختصر سے حجم کی کتاب یعنی قرآن میں بہت ساری چیزیں اورعلوم ومعارف بیان ہوسکے ہیں۔
اب ذرا سورۂ فصلت ہی کی آیت نمبر ۴۴ پر غورکریں۔،ارشاد ہے:
وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِيًّا لَّقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى أُولَـئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ (فصلت -44)
’’اور اگر ہم اس قرآن کوکسی عجمی زبان میں نازل کرتے تو یہ لوگ کہتے کہ اس کی آیات کھول کر کیوں نہیں بیان کی گئیں؟(یعنی یہ قرآن عربی زبان میں کیوں نازل نہیں کیا گیا۔تب یہ کہتے کہ یہ کیا بات ہوئی کہ قرآن تو) عجمی زبان میں ہے اور وہ (یعنی محمدؐ) عربی ہیں؟ اے نبی! آپ کہدیجئے کہ یہ کتاب ایمان والوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے اور جو ایمان نہیں لائے وہ اس کی طرف سے بہرے اور اندھے بنے ہوئے ہیں،بلکہ ان کا رویہ ایسا ہے جیسے انہیں دور سے پکارا جارہا ہے۔(اس لیے وہ بات سمجھ نہیں پارہے ہیں، نہ سن پارہے ہیں اورنہ دیکھ پارہے ہیں)‘‘
یہ ایک ایسی آیت ہے جو قرآن میں مذکور لفظ ’ فُصِّلَتْ ‘ اور اس کے مشتقات ’فصلنا‘ وغیرہ کی ساری وضاحت کردیتی ہے۔ یعنی قرآن جب عربوں پر نازل کیا گیا تو ان کی اپنی عربی زبان میں نازل کیا گیا، کسی عجمی زبان میں نازل نہیں کیا گیا،جسے وہ سمجھ نہیں سکتے تھے۔ تو فصلت کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ اس میں ہرچیز کا ذکر اور ہرچیز کی تفصیل ہےبلکہ یہ مطلب ہوا کہ جو کچھ بھی کہا گیا ہے وہ ان کی سمجھ میں آنے والا ہے۔ قرآن اسی زبان میں ہے جو زبان وہ بولتے اور سمجھتے ہیں بلکہ اس میں ید طولیٰ بھی رکھتے ہیں اوراس کی باریکیوں اور فنی خوبیوں سے بھی خوف واقف ہیں، مگر بات یہ ہے کہ انہوں نے اس قرآن کے خلاف اڑیل رویہ اپنا رکھا ہے اوروہ جانتے بوجھتے اندھے اور بہرے بنے ہوئے ہیں۔سورہ لقمان اور دیگر مقامات پر قرآن نے اپنے مخاطبین سے یہی شکوہ کیا ہے:
وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا وَلَّىٰ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرًا فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ‎﴿لقمان: ٧﴾‏
’’ جب اسے ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو اکڑ کر منہ پھیرلیتا ہے(اور ایسے ظاہر کرتا ہے) جیسے اس نے کچھ سناہی نہیں اور جیسے اس کے کانوں میں بھاری پن ہے۔ اے نبی! اس کو سخت عذاب کی وعید سنادیں‘‘
یہ بات قرآن میں جابجا آئی ہے کہ قرآن عربی زبان میں ہی نازل ہوا ہے۔ سورۂ شعراء میں ہے : بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ (الشعراء-195) اورسورۂ یوسف میں ہے :
الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ ‎،‏إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ‎﴿یوسف :۱-۲﴾
’’الف ، الم ،را۔ یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں، ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا تاکہ تم اسے بخوبی سمجھ سکو‘‘
آیت نمبر دو میں ’ قُرْآنًا عَرَبِيًّا ‘اور ’ لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ‘کےدرمیان علت ومعلول کی نسبت ہے ۔ یعنی قرآن کو عربی زبان میں نازل کرنا تفہیم کے تقاضے پورے کرنے کی غرض سے ہے۔ ایک تو عربی زبان قرآن کے اولین مخاطبین کی اپنی زبان تھی، اس لیے وہ اسے بخوبی سمجھتے تھے اور دوسرے اس زبان کی یہ خوبی ہے کہ یہ ہر طرح کے مطالب اداکرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ تو زبان سے متعلق ان کی فہم اور سمجھ اور خود زبان کی اپنی قدرت اور وسعت ، دونوں کے باہم ملنے سے افہام وتفہیم کے سارے تقاضے پورے ہوجاتے ہیں۔
دراصل یہ جوابی بیانیہ ہے، کیونکہ کفار ومشرکین قرآن سن کراکثر وبیشتر ایسے ری ایکٹ کرتے تھے جیسے بات ان کی سمجھ میں ہی نہیں آئی، زبان حال وقال سے وہ کہتے تھے اگر وہ قرآن کو نہیں مان رہے ہیں تو اس کی وجہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن ان کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا ہے۔ ان کی اسی دلیل اور استدلال کا رد کرنے کے لیے قرآن نے بارباوضاحت کی کہ اس میں نہ سمجھنے والی کونسی بات ہے، قرآن کوئی اجنبی زبان میں تو نہیں ہے ،یہ تو تمہاری اپنی مادری زبان یعنی عربی زبان میں ہے، پھر سمجھ میں نہ آنے والی کونسی بات ہے۔
جیسے آپ کسی سے کوئی بات کہتے ہیں تو وہ پلٹ کر کہتا ہے، ’’کیا؟‘‘ یعنی کیا کہا سمجھ میں نہیں آیا۔ توآپ اسے جواب دیتے ہیں میں کوئی چائینیز/فرنچ یعنی اجنبی زبان تو نہیں بول رہاہوں اردو/ہندی میں ہی بات کررہا ہوں، یعنی اسی زبان میں جس زبان کو تم بخوبی سمجھتے ہو۔ یہ جواب اس وقت دیاجاتا ہے جب سامنے والا آپ کے ساتھ تجاہل عارفانہ برت رہا ہو۔ اورآپ کویہ ادراک ہو کہ یہ شخص جان بوجھ کر نہ سمجھنے کی ایکٹنگ کررہا ہے۔
بے شک قرآن میں دو طرح کی آیات ہیں، آیات محکمات اور آیات متشابہات، اول الذکر آیات کا تعلق انسان کے عمل اور شہادت سے اوران میں ایسا کچھ نہیں ہے جسے استدلال کی حد تک سمجھا نہ جاسکتا ہو اور تفصیل اور تبیین کا تعلق اسی حصے سے ہے، البتہ متشابہات کا تعلق اللہ کی ذات اورآخرت سے ہے اور چونکہ یہ چیزیں انسانی تجربات سے متعلق نہیں ہیں، یہ سب غیب کی چیزیں ہیں اورانسان ان کو نہیں سمجھ سکتا۔
جب قرآن کا بیانیہ اجمالی بیانیہ ہے اورپھرخاص کر تکوینی امور پر مشتمل آیات میں موجود مفرد ومرکب الفاظ کے مدلولات سوفیصد یقین کے ساتھ قائم نہیں کیے جاسکتے توان آیات میں موجود کسی بھی لفظ یا ترکیب سے کوئی خاص معنیٰ متعین کرکے حتمی اور یقینی طورپر بیان کرنا بھی درست نہیں۔ بس امکانی درجے میں کوئی بات بیان کرنا درست ہوسکتاہے۔ ماضی کے بعض علماء نے قرآن کے بعض الفاظ اورتراکیب سے زمین کےساکن ہونے کا مفہوم نکال لیا۔ اور یہ غلطی قرآن سے منسوب ہو گئی، حالانکہ یہ انسانی فہم اوراجہتاد کی خطا ہے۔
اور جیسے قرآن کا کوئی طالب علم اوپر مذکور آیت میں وارد لفظ ’نفس واحدۃ‘ سے امکانی طورپر’سنگل سیل‘ مراد لے کرابتدائی خلیے سے انسانی تخلیق کے سائنسی نظریے کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا چاہے تو ایسا کرنا درست ہوسکتا ہے۔ )اور وہی (اﷲ) ہے جس نے تمہیں ایک جان (یعنی ایک خلیہ) سے پیدا فرمایا ہے۔(الانعام: ۹۸) ترجمہ: ڈاکٹر طاہر القادری) مگر حتمی اور یقینی درجے میں ایسا کہنا مشکل ہے۔ کیونکہ قرآن کا بیانیہ اجمالی بیانیہ ہے۔ تاہم قرآن میں ’ہرشے کے ذکر‘ اور’ہر شے کی تفصیل‘ میں فرق کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ ذکر تو اشاروں کنایوں میں بھی ہوسکتا ہے مگر تفصیل تو کنایوں اوراشاروں میں نہیں ہوسکتی۔

 

***

 قرآن جب عربوں پر نازل کیا گیا تو ان کی اپنی عربی زبان میں نازل کیا گیا، کسی عجمی زبان میں نازل نہیں کیا گیا،جسے وہ سمجھ نہیں سکتے تھے۔ تو فصلت کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ اس میں ہرچیز کا ذکر اور ہرچیز کی تفصیل ہےبلکہ یہ مطلب ہوا کہ جو کچھ بھی کہا گیا ہے وہ ان کی سمجھ میں آنے والا ہے۔ قرآن اسی زبان میں ہے جو زبان وہ بولتے اور سمجھتے ہیں بلکہ اس میں ید طولیٰ بھی رکھتے ہیں اوراس کی باریکیوں اور فنی خوبیوں سے بھی خوف واقف ہیں، مگر بات یہ ہے کہ انہوں نے اس قرآن کے خلاف اڑیل رویہ اپنا رکھا ہے اوروہ جانتے بوجھتے اندھے اور بہرے بنے ہوئے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جون تا 08 جون 2024