قرآنی بیانیہ: سب سے جدا اور سب سے ممتاز

قرآنی معاشرے کے قیام کے لیے قرآن کی تفہیم کو کلیدی اہمیت حاصل

ابو فہد ندوی، نئی دہلی

قرآنی بیانیے کو اگر تمثیلی پیرائے میں سمجھنا چاہیں تو یہ ایسا ہی ہے جیسے آسمان میں ستارے اور سیارے جا بجا بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں مگر فی الواقع وہ بکھرے ہوئے نہیں ہیں۔ قرآن کا متن، مضامین اور معانی قرآن کے صفحات پر گویا اسی طرح بکھرے ہوئے ہیں اور ان میں اسی طرح کا نظم اور باہم دیگر ترتیب قائم ہے جس طرح خلا میں موجود ستاروں اور سیاروں کے درمیان ایک نظم ہے، ستاروں اور سیاروں کا حال یہ ہے کہ ان کا وجود بھی ایک دوسرے کے وجود کے ساتھ قائم ہے۔
قرآنی متن اپنے بیانیے اور اسلوب کے اعتبار سے اور کسی قدر کتابت کے لحاظ سے بھی دنیا کی کسی بھی زبان کی کسی بھی کتاب، دستاویز، قرارداد، رپورٹ، مضمون اور مقالے نیز، کسی بھی ملک کے دستور وقانون سے بھی جدا اور مختلف ہے۔ قرآنی متن کی اس عمومی خصوصیت و انفرادیت میں اگر کسی نوعیت سے کسی تحریر یا کسی کتاب کا استثنیٰ کیا جانا ممکن ہوسکتا ہے تو قرآن کے علاوہ جو دیگر آسمانی کتابیں دنیا میں پائی جاتی ہیں، ان کا استثنیٰ کیا جانا بعض اعتبارات سے ممکن ہوسکتا ہے، جیسے تورات اور انجیل وغیرہ۔
قرآن کی دو ترتیبات ہیں، ایک نزولی اور ایک تدوینی، دُہری ترتیب کا یہ پیٹرن دنیا کی کسی اور کتاب میں دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پہلے پڑھا اور یاد کیا گیا ہے پھر اس کے بعد املا کرایا گیا ہے۔ قرآن جب نازل ہوا تو موقع ومحل کے اعتبار سے نازل ہوا، جب اور جہاں جس اثباتی وامتناعی حکم کی ضرورت ہوئی، یا کسی ہدایت و رہنمائی کی ضرورت ہوئی وہ اس وقت اور اس موقع کے حساب سے وحی کے ذریعہ نبی ﷺ کو دےدی گئی، پھر آپ نے اس حکم اور ہدایت کو ذہن میں محفوظ کیا اور اپنے ساتھیوں کو سنایا، پھر اس پر خود بھی عمل کیا اور آپ کے ساتھیوں نے بھی اس پر عمل کیا، پھر آپ نے اسے لکھنے کی ہدایت فرمائی۔ اور یہ تینوں عمل یعنی یاد کرنا، عمل کرنا اور لکھنا تقریباً ایک ساتھ ہی انجام دیے گئے یہاں تک کہ 23 سال کے طویل عرصے میں قرآن مکمل طور پر نازل ہوگیا، مکمل طور پر یاد بھی کرلیا گیا اور پورا قرآن لکھ بھی لیا گیا۔ نبی ﷺ کے ساتھی جب قرآن آپ سے سن کر لکھ رہے ہوتے تھے توآپ انہیں یہ ہدایات بھی فرماتے تھے کہ کس حکم اور کس ہدایت کو کس ترتیب کے ساتھ لکھنا ہے، وحی کے کس حصے کو کونسی سورۃ میں لکھنا ہے اور کس جگہ پر یعنی کس آیت سے پہلے اور کس آیت کے بعد لکھنا ہے۔باس طرح قرآن کی تدوینی ترتیب نزولی ترتیب سے مختلف ہوئی۔
ترتیب وتدوین کی یہ ساری صورت حال دنیا کی کسی اور کتاب کے ساتھ پیش نہیں آئی۔ باقی کتابیں پہلے لکھی جاتی ہیں اور پھر پڑھی جاتی ہیں۔ اور پھر دنیا کی عام کتابیں صرف پڑھی جاتی ہیں، زبانی یاد نہیں کی جاتیں، جبکہ قرآن کو زبانی یاد بھی کیا جاتا ہے۔ یہ تفرُّد دنیا کی صرف اسی ایک کتاب یعنی قرآن کو حاصل ہے۔
قرآن کو دنیا کی کتابوں کے درمیان ہمہ پہلو انفرادیت حاصل ہے، بلکہ تفوق کے ساتھ حاصل ہے۔ عام کتابوں میں ابواب ہوتے ہیں، فصلیں ہوتی ہیں، مضامین ہوتے ہیں، عنوانات ہوتے ہیں اور ذیلی عنوانات بھی ہوتے ہیں۔ پھر متن کے درمیان پیراگرافنگ ہوتی ہے۔ حواشی ہوتے ہیں، حوالے ہوتے ہیں، پھر انہیں سال بہ سال اپڈیٹ بھی کیا جاتا ہے۔ جبکہ قرآن کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ قرآن میں کسی قسم کا کوئی اپڈیشن نہیں ہے سوائے اس کے خط کے اور اس چیز کے کہ قرآن اول اول متفرق چیزوں پر لکھا گیا پھر بعد میں کاغذ پر منتقل ہوا۔ دیگر کتابوں کے برعکس قرآن میں ابواب نہیں ہیں، ابواب کی جگہ سورتیں ہیں ۔سورتوں کے نام بھی مختصر ترین نام ہیں، یعنی یک لفظی نام ہیں، پھر بیشتر سورتوں کے نام ان میں بیان کردہ مضامین یا بنیادی مضمون کی عکاسی بھی نہیں کرتے، جس طرح عام کتابوں اور تحریروں کےعنوانات اپنے مضامین کی عکاسی اور ترجمانی کرتے ہیں۔ عام تحریروں میں سب سے مختصر نام افسانوی تحریروں میں ہوتے ہیں، مگر یہ نام افسانوں میں بیان کی گئی فکر اور مضمون کی عکاسی وترجمانی کرتے ہیں بلکہ بعض افسانوں کے نام افسانے کی معنویت کی تکمیل کرتے ہیں۔ جبکہ قرآن کا معاملہ کچھ الگ ہے۔
قرآنی متن میں ایک فقرے کو دوسرے فقرے سے جدا کرنے کے لیے ’آیات‘ کا نظم قائم کیاگیا ہے اور ایک مضمون کو دوسرے مضمون سے الگ کرنے کے لیے ’رکوع‘ کا نظم بنایا گیا ہے۔ اسی طرح قرآنی متن کی سات منزلوں پر اور پھر تیس پاروں پر تقسیم کی گئی ہے، اور پھر ہر پارے کو چار اجزاء (ربع، نصف، ثلث اور ربع آخر) پر تقسیم کیا گیا، مگر ان تمام طرح کی تقسیمات کا سوائے آیات اور رکوع کی تقسیمات کے، قرآنی متن کے معانی سے یا معانی کی تفہیم سے کچھ زیادہ مطلب نہیں ہے، یہ تقسیمات معانی کی تفہیم یا تکمیل کے لیے نہیں کی گئی ہیں بلکہ ان کا تعلق عمومی طور پر قرآن کی قرأت سے ہے یعنی نماز اور نماز سے باہر قرأتِ قرآن میں سہولت پیدا کرنے کی غرض سے اور قرآن کو حفظ کرنے میں سہولت پیدا کرنے کی غرض سے بھی ہے۔ تاہم ان سہولیات کا تعلق عربوں سے کم عجمیوں سے زیادہ ہے۔
اسی طرح قرآن کے متن میں کہیں بھی پیراگرافنگ نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ قرآنی متن کا اس حوالے سے بغور مطالعہ کریں گے تو شاید اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ قرآن میں پیراگرافنگ بھی ہے۔ مگر یہ متن کے تسلسل کو تقسیم کرکے اور نئی لائن قائم کرکے نہیں کی گئی ہے بلکہ یہ اسلوب کے پیرائے میں ہے۔ قرآن میں جا بجا ’الم تر، اذ، اذا، یسئلونک، کلا اور أرأیت جیسے جو الفاظ ہیں یہ ایک طرح سے پیراگرافنگ کا ہی کام کرتے ہیں۔ یعنی ان کے بعد جو مضمون ہے وہ سابقہ مضمون کا تسلسل توڑے بغیر ذرا مختلف پیرایہ بیان کے ساتھ شروع ہوتا ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی کتابت کے طریقۂ کارمیں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ قرآن کے متن کو تسلسل کے ساتھ لکھا جاتا ہے، ایک سورۃ کا متن بغیر کسی پیراگرفنگ کے تسلسل کے ساتھ آخر تک چلا جاتا ہے جبکہ موجودہ دور میں کسی بھی زبان کی کسی بھی کتاب میں شاید ایک صفحہ بھی ایسا نہیں ہوتا جس میں ایک یا ایک سے زائد پیراگرافس نہیں ہوتے۔ پیراگرافنگ کا تعلق معانی سے ہے نہ کہ انشاء سے، پیراگرافنگ انشاء کے اعتبار سے بہت معمولی فرق کو واضح کرتی ہے تاہم معانی کی تفہیم میں مدد ضرور دیتی ہے۔ قرآنی متن میں یہ کام رکوع کرتے ہیں، آیات کرتی ہیں اور وہ الفاظ کرتے ہیں جو اوپر بیان ہوئے۔
پیش کش اور خطاب کی سطح پر قرآنی متن کی تشکیل جس طرح ہوئی ہے اس طرح کسی بھی کتاب کے متن کی تشکیل نہیں ہوئی۔ قرآنی متن میں خطاب، دعا، تعریف، حکم اور پھر وعدہ و وعید پہلو بہ پہلو چلتے ہیں، ابھی خطاب تھا کہ ابھی دعا کا آغاز ہوگیا، پھر یکا یک جنت کی بشارتیں سنائی دینے لگیں اور پھر یکایک جہنم کی ہولناکیاں بیان ہونے لگیں۔ ابھی توحید کا بیان تھا اور ابھی کے ابھی کفر کا بیان شروع ہوگیا۔ اس کے علاوہ تمجید، تسبیح اور تذکیر تو ہر طرح کے مضمون کے آغاز یا انتہا میں ضرور مل جائے گی۔
اسی طرح قرآنی متن کی اسلوبیاتی یا صرفی ونحوی تشکیل بھی کسی نہ کسی درجے میں مختلف ہے۔ایک ہی فقرہ جمع سے شروع ہوتا ہے اور واحد پر ختم ہوتا ہے اور ایک ہی جملہ واحد سے شروع ہو کرجمع پر ختم ہوتا ہے۔ عام کتابوں میں ایسابنہیں ہوتا۔
اس حوالے سے درج ذیل آیات دیکھیں اور ایسی آیات قرآن میں بہت ہیں۔
أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَىٰ ۚ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ‎ (الرعد-۱۹)
’’تو اے پیغمبر! بھلا وہ شخص جو یہ جانتا (اور مانتا ہے) کہ تمہارے رب نے جو (قرآن) تم پر نازل کیا ہے وہ حق ہے کیا وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو اس بات سے بے بہرہ ہے (اور قرآن پر ایمان نہیں لاتا)۔ حقیقت یہ ہے کہ دانش مند لوگ ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں‘‘
یہ آیت دو فقروں پر مشتمل ہے، پہلے فقرے میں (يَعْلَمُ+ أَعْمَىٰ) واحد کے صیغے ہیں اوربواحد کی ضمیر (هُوَ) استعمال ہوئی ہے اور دوسرے فقرے میں (أُولُوالْأَلْبَابِ) جمع استعمال ہواہے۔ پھر اس کے بعد والی تمام آیات میں جمع مذکر کے صیغے ہیں۔ (الَّذِينَ يُوفُونَ..(٢٠) وَالَّذِينَ يَصِلُونَ .. ‎(٢١)‏ وَالَّذِينَ صَبَرُوا..۲۲) وغیرہ۔
ایک اور آیت دیکھیں:
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ وَاللَّهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ ۚ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ‎ (الرعد-۴۱)
’’کیا (یہ منکرین حق) نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہم زمین کو اس کے اطراف سے کم کرتے جا رہے ہیں۔ اور جب اللہ کوئی حکم دیتا ہے تو کوئی بھی اس کے حکم کو رد نہیں کرسکتا۔ اور وہ جلد حساب لینے والا ہے ‘‘
اس آیت میں بھی یہی اسلوب ہے کہ آیت کا پہلا فقرہ جمع کے صیغے’’أَنَّا نَأْتِي‘‘ کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور دوسرا فقرہ ’’ وَهُوَ ‘‘ واحد غائب کی ضمیر سے شروع ہوتا ہے۔ پھر اسی آیت کے پہلے فقرے میں فاعل اسم ضمیر جمع متکلم ہے اور اگلے فقرے ’’ وَاللَّهُ يَحْكُمُ ..‘‘ میں فاعل اسم ظاہر ہے۔
ایک اور آیت بھی دیکھتے چلیں:
وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌوَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۗ إِنَّمَا تُنذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ ۚ وَمَن تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ ۚ وَإِلَى اللَهِ الْمَصِيرُ ‎﴿فاطر-١٨‏)
اس آیت میں درمیانی فقرہ ’ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم … وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ‘‘ جمع کے صیغے ہیں جبکہ اس کے ماقبل ومابعد یعنی اطراف میں واحد کے صیغے ہیں ’ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ … وَمَن تَزَكَّىٰ… ‘ وغیرہ۔ اسی طرح ابتدا اور انتہا میں خطاب عمومی ہے یعنی اس میں کسی کو مخاطب نہیں کیا جا رہا ہے جبکہ درمیانی فقرے ’ ِنَّمَا تُنذِرُ الَّذِينَ….
وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ ۚ ‘ میں نبی ﷺ کو مخاطب کیا گیا ہے۔ یعنی ایک ہی آیت میں عمومی مخاطبہ بھی ہے اور خصوصی مخاطبہ بھی ہے۔
اسی طرح قرآنی بیانیے کے حوالے سے یہ نکتہ بھی نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ قرآنی بیانیہ لفظ ’قل‘ کے توسط سے آگے بڑھتا ہے، جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ قرآن کا متن اس طرح نہیں لکھا گیا ہے جس طرح کوئی مصنف کوئی کتاب تصنیف کرتا ہے بلکہ قرآنی بیانیے میں لفظ ’قل‘ یہ درشاتا ہے کہ قرآنی بیانیہ کسی غیبی طاقت کے ذریعہ سے نبی ﷺ کو املا کروایا گیا ہے۔ کوئی ہے جو آپ کو کہنے اور پڑھ کر سنانے کا حکم دے رہا ہے اور آپ اسی حکم کی تعمیل میں قرآنی آیات لوگوں کو پڑھ کر سنا رہے ہیں اور اتنی احتیاط کے ساتھ سنا رہے ہیں کہ حکم دینے والے کے وہ الفاظ بھی متن میں شامل کر رہے ہیں جو صرف حکمیہ الفاظ ہیں، قُلْ هُوَ اللہ أَحَدٌ۔۔ ’’اے نبی! لوگوں کو آگاہ کر دو کہ اللہ ایک ہے اور یکتا ہے‘‘ قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللہ ۔۔ ’’اے نبی! پوچھو ان سے، کہ تمام آسمان اور زمین کا مالک کون ہے؟ اور انہیں بتاو کہ اللہ ہی تنہا مالک ہے۔ یہ بیانیہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک استاد اپنے شاگرد کو پڑھنے کے لیے کہے:’پڑھو الف با تا ثا۔۔‘‘ تو شاگرد استاد کے الفاظ کو من وعن دہرائے ’’پڑھو الف با تا ثا۔۔‘‘یعنی حکمیہ لفظ ’پڑھو‘ کو حذف کیے بغیر وہ دہراتا ہے۔
یہ انداز بتا رہا ہے کہ نبی ﷺ کو کوئی خطاب کر رہا ہے۔ دنیا کی کسی بھی کتاب میں آپ کو یہ اسلوب نہیں ملے گا۔ کیونکہ کسی بھی کتاب کا مصنف اپنی کتاب میں اپنی ہی فکر پیش کرتا ہے اور اپنے ہی آئیڈیاز اپنی مرضی سے بیان کرتا ہے کوئی دوسری طاقت اسے ان خیالات اور آئیڈیاز کو املا نہیں کرواتی اور اسے اس طرح آرڈر نہیں دیتی کہ اب یہ لکھو اور اب یہ لکھو۔ پھر کسی ادارے یا کسی شخص کے حکم پر کوئی تحریر لکھی بھی جاتی ہے تو اس میں ’قل‘ کا سا تحکمانہ لہجہ نہیں ہوتا۔ بلکہ لکھنے والا اس شخص یا ادارے کے حوالے سے لکھتا ہےجیسے، ’’بادشاہ کا حکم ہے کہ سب لوگ دو پہر کے بعد دربار میں حاضر باش ہوں‘‘ یا ’’ادارے کا یہ منصوبہ ہے کہ جلد ہی ایک اور ماتحت ادارہ قائم کیا جائے گا‘‘ اگر کوئی املا بھی کروائے گا تو اس میں یہ اسلوب نہیں اپنایا جائے گا، ’’لکھو بادشاہ یہ حکم دیتا ہے اور کہو کہ بادشاہ یہ اور وہ چاہتا ہے‘‘ اس طرح کے اسلوب میں تحریریں نہیں لکھی جاتیں حکم نامے بھی نہیں اور خطوط بھی نہیں لکھے جاتے۔
اسی طرح قرآن کا لب ولہجہ تحکمانہ ہے جبکہ دیگر کتابوں کا لب ولہجہ (سوائے شاہی فرامین کے) فدویانہ ہوتا ہے اور اس میں حکم دینے کے بجائے مشورے دیے جاتے ہیں اور وہ پیش کش پر مبنی ہوتے ہیں۔
عام طور پر بیشتر کتابوں کا ایک موضوع ہوتا ہے مگر قرآن کا کم از کم ایک موضوع قرار دینا مشکل ہے۔ اہل علم کے یہاں اس حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ قرآن کا موضوع توحید ہے اور کوئی کہتا ہے کہ قرآن کا موضوع انسان ہے۔ تاہم درست بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ قرآن کے کئی مرکزی موضوعات ہیں۔ توحید بھی قرآن کا بنیادی اور مرکزی موضوع ہے، انسانوں کی دنیوی اور اخروی رہنمائی بھی مرکزی اور بنیادی موضوع ہے۔ اسی طرح دنیا میں قیام امن وانصاف بھی قرآن کے بنیادی اور مرکزی موضوعات میں سے ہے۔اسی طرح تذکیر اور ہدایت بھی قرآن کے ان اہم لفظوں میں سے ہیں جنہیں قرآن کے موضوع کے عنوان کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ایک سطح پر تذکیر اور ہدایت بھی قرآن کی غایت ہیں اور مقصود بالذات ہیں۔
پھر دوسری کتابوں کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی کتاب سائنس کی کتاب ہے تو وہ ادب کی کتاب نہیں ہوتی اور اگر کوئی کتاب ادب کی کتاب ہے تو وہ سائنس کی کتاب نہیں ہوتی۔ مگر قرآن کا معاملہ ایسا بھی نہیں ہے۔ قرآن کے بارے میں کوئی یہ تو کہہ سکتا ہے کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے اور یہ کہ قرآن ادب کی کتاب نہیں ہے مگر یہ نہیں کہہ سکتا کہ قرآن میں ادب اور سائنس نہیں ہے یا اس کا ادب وسائنس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرآن اپنے موضوعات، مضامین اور اسلوب کے اعتبار سے ست رنگی اور ہشت پہلو کتاب ہے۔
قرآن کے اس سلوب بیان اور اسلوب ترتیب، کہ ایک موضوع سے متعلق آیات ایک جگہ نہیں ہیں بلکہ وہ جا بجا ہیں، اسی طرح ایک حکایت یا ایک نبی کا ذکر ایک جگہ نہیں ہے بلکہ موقع ومحل کے اعتبار سے اس حکایت یا تذکرے کے اجزا جا بجا بکھرے ہوئے ہیں، قرآن کے اس اسلوب کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ قرآن کا کوئی بھی قاری قرآن میں کہیں سے بھی چار پانچ صفحات پڑھ لے اور ایک دو بڑی اور درمیانی طوالت کی سورتوں کا مطالعہ کرلے تو کم سے کم وقت اور کم سے کم مطالعے میں اس کے سامنے قرآن کے اکثر مباحث اور مضامین آجائیں گے۔ خاص طور پر وحدانیت، الوہیت، ربوبیت، آخرت اور کفر و شرک کی نفی پر مبنی مضامین اور مباحث۔ اسی طرح قرآن کا جو ایک بڑا اور بنیادی مقصد ہے ’تذکیر‘ وہ قاری کو قرآن کے ہر رکوع، ہر صفحے اور ہر آیت سے حاصل ہو جاتی ہے۔ تذکیر تو قرآن کی ہر دوسری، تیسری یا ہر چوتھی اور پانچویں آیت میں مل جاتی ہے۔ حکم بیان ہو رہا ہے تو اس کے اختتام پر تذکیر مل جاتی ہے، حکایت بیان ہو رہی ہے تو اس کی ابتدا یا انتہا میں تذکیر مل جاتی ہے اور اسی طرح کونی و تکوینی اسرار و رموز کھولے جارے ہیں تب ان کی انتہا یا ابتدا میں تذکیر مل جاتی ہے۔
قرآنی بیانیہ گرچہ دنیا کی مختلف زبانوں کے بیانیوں سے مختلف اور یکتا ہے تاہم اس بیانیے کی تشکیل کے لیے جن عناصر کی ضرورت ہوتی ہے یا پھر زبان کی زمین سے خام مٹیریل کی ضرورت ہوتی ہے وہ تقریباً وہی ہے جو دنیا کی مختلف زبانوں میں پایا جاتا ہے۔ مثلا الفاظ، جملے، فقرے، تشبیہات، استعارات، تمثیلات، گرامر، اسلوب، مضامین، عناوین اور استدلال وغیرہ اور پھر بھی قرآن دنیا کی کتابوں میں سب سے جدا ہے اور سب سے الگ ہے۔
پھر قرآنی بیانیے اور دیگر بیانیوں میں جو جوہری فرق ہے وہ ادبیت کے معیار کا ہے، فکر کی سلامتی کا ہے، اعتدال پسندی کا ہے اور پھر اس بات کا ہے کہ دیگر بیانیے وقت کے ساتھ ساتھ ازکار رفتہ اور بے معنیٰ ہو جاتے ہیں اور پھر جس زبان میں وہ لکھے جاتے ہیں وہ بھی بدل جاتی ہے اور مٹ جاتی ہے مگر قرآن میں جو کچھ بھی ہے بالکل امر ہے اور اٹل ہے، قرآن کی زبان باقی ہے اور زندہ ہے، لب و لہجہ باقی ہے اور موضوعات باقی ہیں اور یہ سب کچھ قیامت تک باقی رہنے والا ہے، لا تبدیل لکلمات اللہ۔
چونکہ قرآن موجودہ ممالک کے دستور کی طرح دفعات کی شکل میں نہیں لکھا گیا ہے اس لیے قرآن سے احکام وقوانین کو دفعات کی طرح پڑھ کر نہیں سنایا جا سکتا، اس لیے اس بات کی ضرورت پیش آتی ہے کہ قرآن سے مسائل کا استنباط کیا جائے اور اس کے لیے قرآن وحدیث کی مکمل جانکاری ضروری ہوتی ہے۔ قرآن کی مکمل جانکاری کے بغیر قرآن سے ثواب تو حاصل کیا جا سکتا ہے مگر قرآنی معاشرہ تشکیل نہیں دیا جاسکتا۔

 

***

 قرآنی بیانیے اور دیگر بیانیوں میں جو جوہری فرق ہے وہ ادبیت کے معیار کا ہے، فکر کی سلامتی کا ہے، اعتدال پسندی کا ہے اور پھر اس بات کا ہے کہ دیگر بیانیے وقت کے ساتھ ساتھ ازکار رفتہ اور بے معنیٰ ہو جاتے ہیں اور پھر جس زبان میں وہ لکھے جاتے ہیں وہ بھی بدل جاتی ہے اور مٹ جاتی ہے مگر قرآن میں جو کچھ بھی ہے بالکل امر ہے اور اٹل ہے، قرآن کی زبان باقی ہے اور زندہ ہے، لب و لہجہ باقی ہے اور موضوعات باقی ہیں اور یہ سب کچھ قیامت تک باقی رہنے والا ہے، لا تبدیل لکلمات اللہ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جون تا 06 جولائی 2024