قرآنی بیانیہ : صفات وامتیازات

قرآنی بیانیے میں حروف تہجی نون اور میم کی اثر انگیزی

ابو فہد، نئی دہلی

ایک ہی شے اور ایک ہی شخص کے لیے متعدد اسماء کے استعمال کی منفرد نوعیت
قرآن کا بیانیہ کچھ اس طرح کا واقع ہوا ہے کہ وہ خود ہی اپنے اجمال کی تفصیل بیان کرتا ہے، دنیا کی کوئی دوسری کتاب اس خصوصیت کی حامل نہیں ہے۔ چونکہ قرآنی بیانیہ عام تصنیفی فارمیٹ میں نہیں ہے اس لیے اس میں کسی حکم یا واقعے کا مختصر حصہ یا اجمالی بیان ایک جگہ ہوتا ہے اور اسی واقعے یا حکم کا وضاحتی بیان اور تفصیلی حصہ دوسرے کسی مقام پر بیان کیا جاتا ہے۔ اور اس طرح قرآنی بیانیے میں یہ صفت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے اجمال کی تفصیل خود بیان کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
قرآنی بیانیے کی ایک خصوصیت جو اسے دوسرے مہا بیانیوں سے ممتاز کرتی ہے اس کے فواصل ہیں۔ قرآنی آیات کے فواصل بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں، یہ فواصل ہی ہیں جو قرآنی متن میں نغمگی اور صوتی حسن کا جوہر پیدا کرتے ہیں۔ اعجاز القرآن کے حوالے سے لکھی گئی کتابیں قرآنی بیانیے کے فواصل اور خواتم پر سیر حاصل بحث کرتی ہیں۔ ان فواصل کی اسی اہمیت کے پیش نظر یہ کہنا بجا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح عربی میں قصائد ہوتے ہیں اور ان کے نام ان کے اختتامی حروف کے اعتبار سے رکھے جاتے ہیں، جیسے قصیدہ نونیہ، قصیدہ لامیہ وغیرہ اسی طرح بعض قرآنی سورتوں کو بھی ان کے فواصل کے اعتبار سے اسی نوعیت کا کوئی نام دیا جاسکتا ہے۔ جیسے: سورۃ الرحمان، سورۃ الناس اور سورۃ التین میں ہر ایک کو "سورۂ نونیہ” کا نام دیا جاسکتا ہے۔
قرآنی سورتوں کے فواصل میں جو حروف زیادہ مستعمل ہوئے ہیں، ان میں الف، ی، نون اور میم ہیں اور حروف حلقی میں سے صرف گول (ۃ) بعض سورتوں کی بعض آیات میں وارد ہوئی ہے، مگر الف اور ی حروف علت میں سے ہیں اور زائد بھی استعمال ہوتے ہیں۔ان دو حروف علت کے بعد قرآنی آیات کے فواصل پر سب سے زیادہ جو دو حرف وارد ہوئے ہیں وہ نون اور میم ہیں۔یہ بات مصطفی صادق الرافعی نے بھی لکھی ہے: وتراها أكثر ما تنتهي بالنون والميم.’ (بحوالہ: اسلام ویب ، مضمون: من علوم القرآن) سورۂ فاتحہ کے فواصل میں نون اور میم کا امتزاج ہے۔ سورۂ بقرہ طویل سورت ہے اور اگرچہ اس کے فواصل کئی حروف پر مشتمل ہیں تاہم اس میں بھی سورۂ فاتحہ کی طرح نون اور میم کا امتزاج زیادہ ہے، اس سورت میں بھی زیادہ تر فواصل نون پر ختم ہوتے ہیں اور اس سے ذرا کم تر میم پر۔ سورۂ لہب میں با اور دال کا اور سورۂ فلق میں قاف، با اور دال کا امتزاج ہے۔ سورۂ اخلاص کے تمام فواصل دال پرگرتے ہیں۔ سورۃ النازعات، سورۃ الشمش اور سورۃ اللیل کے الف مقصورہ پر۔ سورۂ اسراء، کہف، مریم، طہٰ اور الانسان کے فواصل میں الف ہے۔
یہ دونوں حروف باقی پورے قرآن میں کم وبیش اسی تناسب سے ہیں جس تناسب سے سورۂ فاتحہ میں ہیں۔یعنی سورہ فاتحہ میں نون کا استعمال میم سے زیادہ ہے۔سورۂ فاتحہ کی سات آیات میں (اگر بسم اللہ کو آیت نہ مانیں تو) تین بار حرف میم استعمال ہوا ہے اور چار بار حرف نون اور اس شان سے کہ حرف نون کو حرف میم پر دوگونہ فوقیت حاصل ہے، ایک اس لحاظ سے کہ نون تعداد میں زیادہ ہے اور دوسرے اس اعتبار سے کہ سورہ کی ابتداء بھی نون سے ہے اور اختتام بھی نون پر ہی ہے۔مستزاد برآں یہ دونوں حروف یعنی نون اور میم جب مشدد ہوتے ہیں تو ان میں غنہ بھی کیا جاتا ہے اور پھر تنوین بھی نون ہی کی دوسری آواز ہے۔ پھر انہی حروف میں ادغام، غنہ اور اخفا کے تجویدی قواعد جاری ہوتے ہیں۔ شاید اس لیے یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہی وہ حروف ہیں جو متن ِقرآن میں غنائیت کو بڑھاتے ہیں اور لحن کو دلآویز بناتے ہیں۔ نون اور میم دونوں کی آواز میں ایک گونج سنائی دیتی ہے، دونوں حروف یرملون میں سے ہیں اور حروف اصلیہ میں سے ہیں۔
قرآنی بیانیے پر اگر اس طرح غور کریں تو یہ بار کسی حد تک قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ قرآنی سورتوں کی ایک ترتیب ردیفی ترتیب کی طرح بھی قائم کی جا سکتی ہے، جس طرح بعض دواوین میں غزلوں کو ردیفی ترتیب کے اعتبار سے جمع کیا جاتا ہے۔ اس وضاحت سے یہ مقصود نہیں ہے کہ قرآن کی کوئی ایسی ترتیب قائم کی ہی جائے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ قرآنی بیانے کی کتنی جہتیں ہیں اور قرآن میں غوروفکر کے کتنے پہلو ہیں۔
قرآنی بیانیے کا ایک طرز خاص یہ بھی ہے کہ قرآنی بیانیے میں شخصیات اور مقامات کے نام نہیں ہیں، اسی طرح وقت کی نشان دہی کرنے والے الفاظ بھی نہیں ہیں جن سے یہ معلوم ہوسکے کہ فلاں واقعہ جو قرآن میں مذکور ہوا ہے کب پیش آیا، کس مقام پر پیش آیا اور کیوں پیش آیا۔ قرآن میں مذکور واقعات کے وقوع پذیر ہونے کی علتیں بیان نہیں ہوئی ہیں یا بہت کم بیان ہوئی ہیں۔اسی لیے آیات کے شان نزول سے متعلق وضاحتیں احادیث میں تو ملتی ہیں مگر قرآن میں نہیں ملتیں۔ سورۂ فیل میں یک طرفہ جنگ کا ذکر ہے اور اس کے بعد سورۂ قریش میں قریش کے قبائل کے تجارتی اسفار کا بیان ہے مگر ان دونوں سورتوں میں مذکور دونوں وقوعوں کے نام، وقت اور مقام کا ذکر نہیں ہے۔ سورۂ یوسف میں دسیوں کردار ہیں مگر نام کے ساتھ صرف دو تین ہی کا ذکر ہے۔ بعض صفاتی اور نوعی نام ضرور ہیں مگر اسم علم نہیں ہیں، جیسے عزیز مصر، نسوۃ، اخوۃ وغیرہ۔ پوری سورہ ٔیوسف میں کہیں بھی یہ مذکور نہیں ہے اور شاید اشارہ بھی نہیں ہے کہ یہ واقعہ کس زمانے میں پیش آیا اور کس علاقے میں رونما ہوا۔ سورۂ کہف میں اصحاب کہف کا واقعہ ہے اور دو باغ والوں کا ذکر ہے مگر نام ندراد ہیں، مقام بھی ندارد ہے، اور وقتِ وقوع کا پتہ بھی دوسرے ذرائع سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ آگے چل کر اسی سورت میں خضر علیہ السلام کے سفر کا قصہ بھی ہے اور ذوالقرنین کے اسفار کا بھی ذکر ہے، تاہم ان دونوں سفری قصوں کی نوعیت بھی یہی ہے کہ زمان ومکان کا کوئی ادراک محض متن پڑھنے سے نہیں ہوتا۔
قرآنی بیانیے کا یہ انداز بتاتا ہے کہ قرآن کا بیانیہ ادبی وتخلیقی بیانیہ ہے۔بعض مقامات پر وہ جوابی اور الزامی ضرور ہے مگر وہاں بھی اس میں تخلیقیت اور ادبیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اور ایسا اس لیے ہے کہ دلوں پر اثر انداز ہونے کے لیے بیان میں ادبیت اور تخلیقیت کا ہونا از حد ضروری ہے۔ اگر قرآن کا یہ انداز نہ ہوتا تو قرآن کو حفظ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اگر قرآن کو کسی بیاض، دستاویز اور دستورکی طرح دفعات کی شکل میں لکھا جاتا یا اس کا اسلوب تاریخ کے اسلوب کی طرح ہوتا تو قرآن سے ادبیت حذف ہوجاتی اور قرآن کو پڑھنے اور یاد کرنے کا یہ ذوق وشوق باقی نہیں رہتا۔ قرآن میں تاریخی واقعات کثرت سے ملتے ہیں مگر ان کا اسلوب بیان تاریخی کتابوں کے اسلوب جیسا نہیں ہے۔ اسی طرح قرآن کا اسلوب و بیانیہ ناول اور افسانے کی طرز کا اسلوب وبیانیہ بھی نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ افسانوی اسلوب ابدی سچائیوں، اعلیٰ وارفع مضامین اور روحانی تقدس کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔
قرآنی بیانیے میں اسماء کا طریقۂ استعمال بھی دیگر تمام کتابوں سے مختلف اور الگ نوعیت کا ہے۔آپ دنیا کی کسی بھی کتاب کو اٹھالیں، خواہ مذہبی ہی کیوں نہ ہو، اس میں مذکور ہر ذات اور شئے کے لیے از اول تا آخرایک ہی اسم علم ہوگا۔ ناول، افسانوں، ڈراموں اور فلموں میں کردار وضع کیے جاتے ہیں اور ان کے فرضی نام رکھے جاتے ہیں اور جس کردار کے لیے جو نام متعین کرلیا جاتا ہے شروع سے آخرتک ہر مقام اور ہر موقع پر وہی نام رہتا ہے، البتہ اسم عَلم کے بدل کے طور پر اسم ضمیرکا استعمال ضرور کیا جاتا ہے، تاہم اسم ضمیر کی عمل داری بھی ایک خاص محدودیت رکھتی ہے، اسی لیے اگلے پیراگراف میں پھر سے اسی اسمِ عَلم کا اظہار کرنا پڑتا ہے، بے شک ضمیر اسم کا بدل ضرور ہوتی ہے تاہم کوئی بھی ضمیر اسمِ عَلم کے نعم البدل کے طور پر بہت دور تک اسم عَلم کی نمائندگی نہیں کرسکتی۔
مگر قرآن کا معاملہ مختلف ہے۔ قرآن میں ایک ہی شخصیت کے لیے دسیوں بلکہ سیکڑوں نام استعمال کیے جاتے ہیں۔ قرآن میں اللہ کے لیے دو اسم عَلم استعمال ہوئے ہیں، اللہ اور رحمان، پھر ان کے علاوہ اللہ کے لیے سیکڑوں صفاتی نام بھی استعمال ہوئے ہیں اور پھر ضمائر بھی۔ قرآن میں لفظ اللہ کم وبیش ڈھائی ہزار مرتبہ آیا ہے اور رحمان کم وبیش 48 مرتبہ، پھر قرآن میں اللہ کے کم وبیش ننانوے صفاتی نام آئے ہیں۔ اسی طرح قرآن میں محمد (ﷺ) کے لیے کم از کم دس نام ہیں اور پھر صفاتی نام تو سیکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ قرآن میں خود قرآن کے لیے پانچ نام وارد ہوئے ہیں، پھر ان کے علاوہ قرآن کے کئی صفاتی نام بھی مذکور ہوئے ہیں۔ قرآن کو کہیں روح کہا گیا ہے، کہیں ہادی، کہیں نور اور کہیں شفا بتایا گیا ہے۔ قرآن میں خود لفظ قرآن تقریباً ستر مرتبہ آیا ہے۔ بعض سورتوں کے کئی کئی نام ہیں، جنت اور جہنم کے لیے ایک ایک نام پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے، شیطان کا بھی ایک اصل نام ہے اور ایک صفاتی نام، ابلیس اسم عَلم ہے اور شیطان صفاتی نام ہے۔
قرآن میں قیامت اور جنت وبدوزخ کا ذکر بارببار آیا ہے اور اس کی علت خود قرآن نے ہی بیان کردی ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے: وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَهِ (ابراہیم: 5) اور دوسری جگہ ارشاد ہے: وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ ‎(الذاريات: 55) قرآن میں قیامت کے لیے درج ذیل الفاظ استعمال ہوئے ہیں: يوم القيامۃ، يوم الوقت المعلوم، يوم الحسرة، يوم الفصل، يوم البعث، يوم الحساب، يوم الطلاق، يوم الآزفة، يوم الدين، يوم الجمع، يوم الوعيد، يوم الخلود، يوم الخروج، يوم التغابن، يوم الفتح، يوم الحق، اليوم الموعود، يوم التناد۔
اسی طرح جنت کے لیے بھی مختلف نام وارد ہوئے ہیں، جیسے: جنۃ الفردوس، جنۃ النعیم، جنۃ الخلد، جنۃ المأوی، جنۃ عدن، دارالسلام، دارالمتقین وغیرہ۔
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ عربی زبان بہت وسیع اور زرخیز زبان ہے، اس زبان میں ایک ایک معنیٰ کے لیے ایک سے لے کر ڈھائی سو الفاظ تک آتے ہیں، مثلا اونٹ کے لیے عربی زبان میں 255 الفاظ ہیں،پانی کے لیے 170، سانپ کے 100، کنوئیں کے لیے 88، بارش کے لیے 64، سورج کے لیے 29، روشنی کے لیے 21 اور دودھ کے لیے 13 الفاظ ہیں۔
عربی زبان میں گرچہ ایک ایک چیز کے کئی کئی نام ہیں، مگر ان کا استعمال اس طرح ہے کہ ایک کتاب میں ایک چیز کے لیے ایک دو ناموں سے زیادہ استعمال میں نہیں لائے جاتے۔ آپ عربی زبان میں سیرت کی کوئی بھی کتاب اٹھالیں یا توحید کے بیان پر لکھی گئی کوئی بھی کتاب اٹھالیں ان میں اللہ اور اس کے رسول کے لیے بھی زیادہ سے زیادہ دو تین ناموں کا استعمال ہی تکرار کے ساتھ ملے گا۔ تو عربی میں بھی اگر کسی شے کے متعدد نام ہیں تو وہ متعدد مواقع پر ہی بولے جاتے ہیں۔ مگر اللہ کی کتاب کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔
قرآنی متن کی تشکیل کا یہ اسلوب اور یہ طریقۂ کار بھی آپ کو دوسری کتابوں میں نہیں ملے گا۔ یہ بھی قرآن کی خصوصی اور منفرد صفت ہے۔ اگر قرآن میں غور کریں تو وہ دنیا میں موجود ہر کتاب سے منفرد دکھائی دیتا ہے اور ہر پہلو سے مختلف دکھائی دیتا ہے۔ بظاہر قرآن کا بیانیہ بہت سادہ ہے، جملے عام فہم ہیں اور زمانۂ نزول کے وقت عرب کے قبیلے قریش میں جو زبان اور لہجہ رائج تھا قرآن اسی زبان اور اسی لہجے کی حامل کتاب ہے۔ اور نزول قرآن کے زمانے کے تمام لوگ جو عربی جانتے بولتے اورنسمجھتے تھے خواہ وہ بادیہ نشیں ہوں یا شہری بود وباش رکھنے والے، کم از کم قرآن کی آیات بینات کے معانی سب کے سب سمجھتے تھے۔
اس طرح کے اسلوب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس طرح کا اسلوب اختیار کرنے سے اسلوب میں خوبصورتی اور کشش پیدا ہوتی ہے اور بار بار ایک ہی نام کی تکرار سے سماعت کے لیے جو گرانی پیدا ہوتی ہے وہ جاتی رہتی ہے۔اور پھر دیگر کتابوں کی بہ نسبت قرآن میں بعض مضامین کی اور واقعات کے اجزاء کی تکرار ہے، اس لیے یہ اور بھی زیادہ ضروری تھا کہ اسماء کے استعمال میں تنوع اختیار کیا جائے تاکہ تکرار متن کا حسن غارت نہ کر دے۔
***

 

***

 قرآنی متن کی تشکیل کا یہ اسلوب اور یہ طریقۂ کار بھی آپ کو دوسری کتابوں میں نہیں ملے گا۔ یہ بھی قرآن کی خصوصی اور منفرد صفت ہے۔ اگر قرآن میں غور کریں تو وہ دنیا میں موجود ہر کتاب سے منفرد دکھائی دیتا ہے اور ہر پہلو سے مختلف دکھائی دیتا ہے۔ بظاہر قرآن کا بیانیہ بہت سادہ ہے، جملے عام فہم ہیں اور زمانۂ نزول کے وقت عرب کے قبیلے قریش میں جو زبان اور لہجہ رائج تھا قرآن اسی زبان اور اسی لہجے کی حامل کتاب ہے۔ اور نزول قرآن کے زمانے کے تمام لوگ جو عربی جانتے بولتے اورنسمجھتے تھے خواہ وہ بادیہ نشیں ہوں یا شہری بود وباش رکھنے والے، کم از کم قرآن کی آیات بینات کے معانی سب کے سب سمجھتے تھے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 نومبر تا 30 نومبر 2024