
!قرآن تمام نعمتوں سے بڑ ی نعمتہے
کتا ب اللہ میں انسانی ذہن میں ابھرنے والے تمام سوالات کے جواب موجود
ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد
امتِ مسلمہ کے پاس قرآن کی شکل میں وہ نسخہ موجود ہے، جو اسے بامِ عروج پر پہنچا سکتا ہے
ہم عارضی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں ہمیں ملنے والی تمام نعمتیں بھی عارضی ہیں۔ انسان کی مختصر زندگی میں جہاں عروج ہے، وہیں زوال بھی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب نعمتیں سامنے موجود ہوتی ہیں لیکن انسان اس کا متحمل نہیں رہتا کہ ان سے استفادہ کر سکے۔ موت آکر ساری نعمتوں کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ اسی لیے موت کو ’ھادم اللذات‘ (لذتوں کو ختم کرنے والی) کہا جاتا ہے۔ ان عارضی نعمتوں کے مقابلے میں قرآن ایسی نعمت ہے جو لازوال نعمتوں کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ لازوال نعمتیں اس عارضی دنیا میں نہیں مل سکتیں۔ لازوال نعمتوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک اور جہاں بنایا ہے، جہاں کی زندگی ابدی ہوگی۔ یہ زندگی آخرت کی زندگی ہے، جہاں کامیاب انسانوں کو نعمت بھری جنتوں سے نوازا جائے گا۔ یہ کامیابی ان کے حصے میں آئے گی جو قرآن پر ایمان لا کر اس کو سمجھ کر اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قرآن مجید حجت ہے تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف۔‘‘ (سنن نسائی ۲۴۳۹) یعنی قرآن یا تو ہمارے حق میں یومِ قیامت شفاعت کرے گا یا پھر ہمارے خلاف فریاد کرے گا۔ جو لوگ قرآن کے حقوق ادا کریں گے، ان کے حق میں قرآن شفاعت کرے گا۔ اور جو قرآن کو فراموش کر کے اس کے حقوق ادا نہیں کریں گے، ان کے خلاف قرآن شکایت کرے گا۔ اس شکایت کا ذکر قرآن میں اس طرح آیا ہے:
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (سورۃ الفرقان: ۳۰)
’’اور رسُول کہے گا کہ ’اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘
قرآن کو چھوڑنے کا مطلب ہے قرآن کے حقوق ادا نہ کرنا۔ قرآن کے حقوق یہ ہیں:
اس پر سچے دل سے ایمان لایا جائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو خاتم النبیین محمد ﷺ پر نازل ہوا ہے۔
اس کی صحت کے ساتھ تلاوت کی جائے۔
اس کے کچھ حصے کو حفظ کیا جائے تاکہ اس کی آیات کو نمازوں میں پڑھا جا سکے۔
قرآن کو ترجمہ و تفسیر کی مدد سے سمجھا جائے۔
اس کے احکامات پر عمل کیا جائے۔
اس کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچایا جائے۔
قرآن کتنی بڑی نعمت ہے، اس کو خود قرآن میں پیش کیا گیا ہے:
قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ (سورۃ یونس: ۵۸)
’’اے نبیؐ، کہو کہ ’یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔‘‘
اس آیت میں فرمایا جا رہا ہے کہ یہ ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جو لوگ دنیا میں جمع کرتے ہیں۔ دنیا میں لوگ مال و دولت، سونا چاندی، زیورات وغیرہ جمع کرتے ہیں۔ ان چیزوں کے علاوہ کچھ لوگ اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں، کچھ لوگ شہرت کے طالب ہوتے ہیں۔ قرآن خود اپنے بارے میں کہتا ہے کہ قرآن ان تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ قرآن کی خصوصیت یہ ہے کہ قرآن، قرآنی افکار پر عمل کرنے والی اقوام کو اٹھاتا اور عروج عطا کرتا ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ اقوام کو اس کتاب کے ذریعے اٹھاتا ہے اور اسی کتاب کے ذریعے گراتا ہے۔‘‘ (مسند احمد: ۲۳۲)
یعنی قرآن کی اتباع کا دنیا میں یہ صلہ ملتا ہے کہ اقوام کو اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ امامت و قیادت عطا کرتا ہے جس کے نتیجے میں دنیا کی نعمتیں بھی ان کے قدموں میں لا کر رکھ دی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ قرآن جیسی نعمت کے ملنے پر لوگوں کو خوشی منانی چاہیے۔ چنانچہ رمضان کے روزے رکھ کر قرآن کے نزول پر شکر ادا کیا جاتا ہے اور رمضان کے اختتام پر عید الفطر منائی جاتی ہے۔
چونکہ قرآن سب سے بڑی نعمت ہے، اس لیے عید الفطر دراصل نزولِ قرآن کی سالگرہ پر خوشی و جشن کا موقع ہے۔ رمضان کے روزے بھی اسی شعور کے ساتھ رکھے جائیں کہ نعمتِ قرآن کے ملنے پر یہ شکرانہ عبادت ہے اور عید الفطر بھی اسی شعور کے ساتھ منائی جانی چاہیے کہ امتِ مسلمہ کے پاس ایسی نعمت ہے جو کسی اور قوم کے پاس نہیں ہے۔ عربوں کے پاس عربی زبان کے سوا کچھ نہیں تھا، جس پر انہیں بہت فخر تھا۔ وہ غیر عرب کو عجمی کہتے تھے۔ قرآن کی بدولت رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں جزیرہ نمائے عرب میں ایسا انقلاب برپا ہوا جس نے ایک ایسی قوم کو دنیا کا قائد بنا دیا جو غیر مہذب اور غیر ترقی یافتہ تھی۔
کاش کہ امتِ مسلمہ کو قرآن جیسی نعمت کا شعور ہوتا۔ قرآن اتنی بڑی نعمت ہے کہ جو بھی اس سے وابستہ ہوا بامِ عروج پر پہنچ گیا۔ رسول اللہ ﷺ کے قلب پر قرآن کا نزول ہوا تو آپ رحمت للعالمین بن گئے۔ جس فرشتے کو مرسلِ قرآن بنایا گیا وہ تمام ملائکہ کا سردار بنا دیا گیا، جس کو روح الامین کا لقب ملا۔ جس امت کو حاملِ قرآن بنایا گیا، اس کو خیرِ امت اور امتِ وسط ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ جس ماہ میں قرآن نازل کیا گیا اس کو بابرکت بنایا گیا۔ جس رات میں قرآن کا نزول ہوا اس کو ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا۔
جب تک امتِ مسلمہ قرآن کے اصولوں سے چمٹی رہی اللہ تعالیٰ نے اس کو اقوامِ عالم کی سرداری عطا کی۔ اور جب تارکِ قرآن ہوئی تو ہر میدان میں پسپا ہوتی چلی گئی۔ سچی بات یہ ہے کہ امتِ مسلمہ نے قرآن کو محض خیر و برکت اور ثواب حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیا جبکہ قرآن دنیا میں امت کو قیادت و سیادت اور آخرت میں فرد کی سطح پر نعمت بھری جنتوں کی طرف رہنمائی کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔
قرآن تو ہمیں سمندر عطا کرنے کے لیے نازل ہوا اور ہم نے چند قطروں پر قناعت کی ہے۔ قرآن فرد کی زندگی سے لے کر معاشرہ اور معاشرہ سے ملک کے ملک بدلنے کے لیے بھیجا گیا تھا، لیکن ہم نے اس کو صرف ثواب و برکت تک محدود کر لیا۔ قرآن، قلبی سکون سے تہی دامن انسانیت کو اسرارِ حیات سے متعلق تمام سوالوں کے جواب دے کر اطمینانِ قلب سے مالا مال کرنے کے لیے نازل کیا گیا، اور ہم نے اس کو جھاڑ پھونک اور دم کرنے کے لیے کافی سمجھ لیا۔
رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا ماڈل ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ ایک فردِ واحد سے انقلاب کے سفر کا آغاز ہوتا ہے اور ۲۳ سال کے عرصے میں ایک عظیم الشان انقلاب برپا ہوتا ہے۔ یہ کمزوری سے قوت و شوکت کی طرف سفر کی مکمل روداد ہے، جو مظلوم امت کو یہ سبق دیتی ہے کہ آج بھی قرآن کی روشنی میں کمزوری سے عزت و سربلندی تک کا سفر طے کیا جا سکتا ہے۔ ایک طرف قرآن کی ہدایت ہے تو دوسری طرف رسول اللہ ﷺ کے قدم بہ قدم نقوشِ راہ ہیں، جو ایک کامیاب اسلامی انقلاب کے لیے ایک مکمل بلیوپرنٹ ہے، جو سیرتِ رسول کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ آج کوئی بھی اسلامی تحریک، اسلامی انقلاب کے نبوی ماڈل کی اتباع کرے اور قرآنی اصولوں اور ہدایات کی روشنی میں افراد کی تربیت کرے تو کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔ دعوت الی اللہ سے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ اتمامِ حجت کے بعد اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا فرماتا ہے جب تحریکِ اسلامی معاشرتی، معاشی اور سیاسی میدانوں میں رہنمائی کرتی ہوئی کامیابی کے سفر کو طے کرتے ہوئے تکمیلی مراحل تک پہنچ جاتی ہے۔ اسلامی انقلاب کے سفر میں دعوت الی اللہ کی بہت بڑی اہمیت ہے۔
دعوت الی اللہ میں بھی اللہ کی ہدایت یہ ہے کہ اس قرآن کی مدد سے دعوت الی اللہ کا فریضہ ادا کیا جائے:
فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ (سورۃ ق ۴۵)
’’بس تم اس قرآن کے ذریعے سے ہر اس شخص کو نصیحت کر دو جو میری تنبیہ سے ڈرے۔‘‘
جب مسلمان تعداد میں کم ہوں تو اس وقت اہلِ ایمان کے لیے سب سے بڑا ہتھیار قرآن ہوتا ہے، جو نظریاتی طاقت کا سرچشمہ ہے، جس سے باطل پر کاری ضرب لگائی جا سکتی ہے۔ اسی کو نظریاتی جہاد کہا جاتا ہے۔ اس جہاد کو جہادِ کبیر کہا گیا ہے:
فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (سورۃ الفرقان ۵۲)
’’پس اے نبیؐ، کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ جہادِ کبیر کرو۔‘‘
اس آیت میں انتہائی اہم بات کہی گئی ہے۔ اسلامی انقلاب میں فکری انقلاب کا مرحلہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اکثر انبیاء و رسل کی مبارک جدوجہد اسی جہادِ کبیر سے عبارت ہے۔ اور جب کفار و مشرکین پر دلائل کے ذریعے کفر و شرک کا ابطال کر دیا جاتا ہے تو ایک طویل دعوتی سفر کے بعد اتمامِ حجت کا مقام آجاتا ہے۔ اس کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق ہٹ دھرم قوموں پر عذاب کا کوڑا برسایا۔
آج کے سیکولر جمہوری دور میں دعوت الی اللہ کے بہت ہی وسیع مواقع موجود ہیں، جن کے ذریعے ذہنوں کو قائل کیا جا سکتا ہے، جس سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ پیاسی روحیں اسلام کی آغوش میں اطمینانِ قلب کی نعمت پا کر حق کو قبول کریں گی۔ داعیانِ حق کی بہت ہی محدود کاوشوں کے نتیجے میں آج اسلام مغربی ممالک میں پھیل رہا ہے۔ دعوت الی اللہ کا کام جتنی تیزی کے ساتھ کیا جائے، اسی تیزی کے ساتھ مسلمانوں کے حالات بدلیں گے۔
خلاصہ: قرآن کی چند خصوصیات
۱) قرآن ان تمام سوالوں کے جواب دیتا ہے جو کسی بھی انسان کے دل و دماغ میں پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً: کس نے ہمیں تخلیق کیا؟ ہماری تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ اور مرنے کے بعد کیا ہونے والا ہے؟ دنیا میں فوری سزا و جزا کیوں نہیں ملتی؟ ان سوالوں کے جوابات نہ ملنے کی صورت میں بہت سے انسان ذہنی اضطراب کے ساتھ پوری زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ جو جوابات مفروضات اور قیاس و گمان کی بنیاد پر مختلف مذاہب میں پائے جاتے
ہیں، ان کے مضبوط دلائل نہ ہونے کی وجہ سے انسانوں کو اپنے موقف پر کامل یقین حاصل نہیں ہوتا۔ قرآن زندگی سے متعلق تمام سوالات کے ایسے معقول جوابات دیتا ہے جن کے درمیان کوئی تضاد نہیں پایا جاتا اور ان جوابات کے مابین منطقی ربط موجود ہوتا ہے۔ قرآن کے جوابات پا کر انسان اطمینانِ قلب کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔
۲) قرآن تمام انسانی مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ اسلام ایسا نظامِ حیات پیش کرتا ہے جس میں روحانی، اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی پہلو آپس میں مطابقت رکھتے ہیں اور سارے نظام ہائے حیات اسلامی عقائد سے ماخوذ ہیں۔ اسلام کے روحانی نظام میں انسان کو ایسی روح کا حامل بتایا گیا ہے جو اللہ کی فطرت سے ماخوذ ہے (سورۃ الروم ۳۰)۔ انسان کی روحانی ترقی، اللہ تعالیٰ سے تعلق سے وابستہ ہوتی ہے۔ تعلق باللہ، اللہ سے محبت، اس کی اطاعت، شکر، اس کے لیے صبر اور اس پر توکل جیسی اعلیٰ صفات سے عبارت ہے۔ قرآن انسان کے اندر اعلیٰ صفات پیدا کرتا ہے اور انبیاء و رسل کی زندگیوں کو ان صفات کے عملی نمونوں کے طور پر پیش کرتا ہے۔
۳) قرآن جہاں اجتماعی احکامات دیتا ہے تاکہ ایک اسلامی معاشرہ وجود میں آئے، وہیں وہ فرد کو مخاطب کر کے اس کی ایسی رہنمائی کرتا ہے، گویا وہ انگلی پکڑ کر جنت کی طرف لے جاتا ہے۔ قرآن بار بار فہمائش کرتا ہے کہ انسان ایمان و عملِ صالح کی زندگی گزارے اور جہنم سے بچے۔ قرآن شیطان کی چالوں سے خبردار کرتا ہے تاکہ انسان شیطان کے وسوسوں، اکساہٹوں اور اس کی ترغیبات کے چکر میں نہ پھنسے۔
۴) چاہے امت کتنی ہی بدحالی کا شکار ہو اور باطل کے نرغے میں ہو، قرآن کہتا ہے کہ امتِ مسلمہ کے پاس قرآن کی شکل میں وہ نسخہ موجود ہے، جو اسے بامِ عروج پر پہنچا سکتا ہے۔ جس طرح اولین کو قرآن کے اصولوں نے دنیا میں عزت و شوکت کی راہ دکھائی، اسی طرح آج بھی وہی اصول، باطل کے علمبرداروں کی منصوبہ بند کوششوں کے باوجود اسلام کے غلبہ کی راہ کو ہموار کر سکتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ ایک طرف باطل کے پاس سب کچھ ہو اور دوسری طرف امت کے پاس کچھ نہ ہو، لیکن اگر قرآن موجود ہو، تو یہی ایک اتنی بڑی نعمت ہے جو حق کے غلبہ کے لیے کافی ہے۔
رمضان کے اس مبارک ماہ کی ساری برکتیں نزولِ قرآن سے وابستہ ہیں۔ ہم اس بابرکت مہینے میں قرآن سے شعوری تعلق پیدا کریں اور سال کے باقی مہینوں میں اس کو جاری رکھیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ قرآن سے ہمارا تعلق روایتی ہے نہ کہ شعوری؟ اسی لیے تراویح میں قرآن اتنی تیزی سے پڑھا جاتا ہے کہ اس سے قرآن کی بے حرمتی کا احتمال پیدا ہو جاتا ہے۔ قرآن کو اس طرح پڑھا جائے کہ ایک ایک لفظ واضح طور پر سنا جا سکے۔ قرآن پڑھا بھی جاتا ہے اور سنا بھی جاتا ہے، لیکن سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ یہ قرآن سے روایتی تعلق ہے، جس کا مقصد محض ثواب حاصل کرنا ہوتا ہے، لیکن اس سے قرآن کے نزول کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اس روایتی تعلق سے قرآن کا ہماری شخصیت پر کوئی اثر نہیں ہوتا، نہ ہمارا دل بدلتا ہے، نہ ہی ہماری سیرت۔ رمضان کے رخصت ہونے پر ہماری کیفیت ہوتی ہے: ’نکلے تھے کل جہاں سے، پہنچے اسی مقام پر‘۔
شعوری تعلق کا مطلب یہ ہے کہ ہم قرآن کو تراجم و تفاسیر کی مدد سے سمجھ کر پڑھیں اور اس پر تدبر کریں۔ قرآن کے سائے میں اور قرآنی افکار میں ہماری زندگی گزرے۔ ہم اس ماہِ مبارک میں ہر روز قرآن کا وہ حصہ جو تراویح میں پڑھا جائے اس کا ترجمہ پڑھ کر جائیں تاکہ دورانِ تراویح ایک ایک آیت کو سمجھ سکیں۔ اس سے نماز میں خشوع و خضوع حاصل ہوگا۔ رمضان کے ہر دن کم از کم ایک ایسی آیت کو حفظ کریں، جو تلاوت کے دوران ہمارے قلب کو متاثر کرے اور جو ہماری زندگی سے جڑی ہوئی ہو۔ ہر روز ایک چھوٹی سی دعا یا ذکر یاد کریں اور اس کو دن بھر دہراتے رہیں۔ اصحابِ علم کی صحبت میں بیٹھ کر قرآنی آیات پر تدبرانہ نظر ڈالیں۔
جس طرح ہم کھانے پینے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، اسی طرح قرآن بھی ہماری روح کی غذا بن جائے، جو ہماری روحانی ترقی کا ذریعہ بنے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 مارچ تا 15 مارچ 2025