قرآن کی رہنمائی میں تقویٰ کی زندگی رمضان کا حاصل

متقیوں کے لیے مغفرت اور جنّت کی بشارت ہے

ڈاکٹر ساجد عباسی ، حیدرآباد

ماہِ رمضان کا قرآن میں تعارف اس طرح سے پیش کیا گیا ہے کہ اس میں قرآن کا نزول ہوا ہے جس کو سارے انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے جس میں ایسی واضح نشانیاں (دلائل) موجود ہیں جو قرآن کے الہامی کلام ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور حق و باطل کا فرق کھول کر واضح کر دیتی ہیں۔(سورۃ البقرۃ 185)
مجرد انسانی اخلاقی حس انسانی ہدایت کے لیے کافی نہیں ہے۔اللہ کی طرف سے ایسی کتاب کی ہر وقت ضرورت ہے جو حق اور باطل کے فرق کو بالکل واضح کر دے تاکہ انسانی معاشرہ صحیح بنیادوں پر قائم ہو۔ چونکہ قرآن دنیا سے لے کر آخرت تک فلاح وفوز کا ضامن ہے اس لیے قرآن انسانیت کے لیے تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے۔ یہ ایسی نعمت ہے کہ جو دنیا کی عارضی نعمتوں سے اخلاقی حدود میں رہ کر استفادہ کرنے کا طریقہ بتلاتی ہے اور بالآخر آخرت کی ابدی نعمتوں تک پہنچانے والی ہے۔ انسان پر اس کی زندگی میں ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ ایسا بے بس ہو جاتا ہے کہ وہ سامنے موجود نعمتوں کو استعمال کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ موت آکر تمام لذتوں سے انسان کا رشتہ کاٹ دیتی ہے۔ موت کو ھادم اللذّات (لذّتوں کو ختم کرنے والی) کہا گیا ہے۔ قرآن ایسی ہدایت ہے کہ وہ انسان کو انگلی پکڑ کر ایسے راستے پر ڈال دیتا ہے جو جنت کی طرف لے جانے والا ہے اور جہنم سے نجات دلانے والا ہے۔ مزید یہ کہ قرآن میں تمام انسانی مسائل کا حل ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا:
’’لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے، یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبیؐ، کہو کہ “یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی ہے، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘(سورۃ یونس 57تا58)
قرآن کے نزول پر تو ہم کو خوشیاں منانے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ رمضان نزولِ قرآن کی سالگرہ ہے۔ عیدالفطر دراصل نزولِ قرآن کا جشن ہے۔ جو بھی ہستی یا چیز قرآن سے منسلک ہوجاتی ہے وہ عظیم ہوجاتی ہے۔رسول اللہ ﷺ پر قرآن کا نزول ہوا تو آپؐ رحمت للعالمین بن گئے۔ جس فرشتے کے ذریعے قرآن کی تنزیل ہوئی اس کو روح الامین کا لقب ملا۔ جس امّت کو حاملِ قرآن بنایا گیا اس کو خیرِ امّت بنا کر سارے انسانوں کے لیے نکالا گیا۔صحابہ کرام میں سب سے بہترین وہ قرار پائے جو قرآن سیکھتے اور سکھاتے تھے۔ جس ماہ میں اس کا نزول ہوا وہ افضل مہینہ قرار پایا۔ جس رات اس کا نزول ہوا وہ ہزار راتوں سے بہتر قرار پائی۔ اس اصول سے امتِ مسلمہ کو بھی چاہیے کہ وہ قرآن سے منسلک ہوکر سارے عالم کے لیے ایک بابرکت اور فیض رساں امت بن کر سارے انسانوں کی قیادت و امامت کرے۔
یہ کیا ماجرا ہے کہ ہم حاملِ قرآن ہو کر بھی دنیا میں بے وقعت، محکوم اور مظلوم ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن کا حق ادا نہیں کیا۔ قرآن کے حقوق کے اعتبار سے تین درجے ہیں۔ایک ہے اس کو سمجھتے ہوئے اس کی تلاوت کرنا، دوسرا اس سے ہدایت حاصل کر کے اس پر عمل کرنا اور تیسرا یہ کہ اس کو دعوت کا ذریعہ بنانا۔ ہم نے اس کو صرف ثواب حاصل کرنے کے لیے کتابِ تلاوت بنایا وہ بھی بغیر سمجھے لیکن اس کو کتابِ ہدایت نہیں بنایا۔ اور مزید یہ کہ اس کو کسی بھی درجے میں ہم نے کتابِ دعوت نہیں بنایا۔ چونکہ ہم نے قرآن کے ساتھ ظلم کا رویہ اختیار کیا تو یہ رویہ ہمارے لیے زوال کاسبب بن گیا۔ آج بھی قرآن ہمارے عروج کا ذریعہ بن سکتا ہے۔حدیث میں ہے کہ "بے شک اللہ اس کتاب (قرآن ) کے ذریعے (یعنی اس کے حقوق ادا کرنے) سے اقوام کو اٹھاتا ہے اور اسی کتاب (قرآن کو فراموش کرنے) سے گراتا (زوال دیتا) ہے”
قرآن کو قولِ فیصل بنایا گیا ہے ۔یہ اقوام اور امتوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے والا کلام ہے۔ اگر ہم قرآن کو کتابِ ہدایت بناکر اس سے ہدایت کی روشنی حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی کو منور کرتے ہیں اور اس کے بعد اس کو کتابِ دعوت بنا کر ساری اقوام کے اندر نظریاتی وفکری جہاد برپا کرتے ہیں تو اس کے بعد ہر میدان میں ہماری کامیابی کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے، جس طرح قرونِ اولیٰ میں ہمارے اسلاف نے انسانیت کی امامت کی۔ آج دنیا تاریکیوں میں بھٹک رہی ہے جبکہ ساری روشنی ہمارے پاس ہے ۔ ہم نے اس روشنی پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ اسی غفلت کی وجہ سے ہم عبادات کرتے ہوئے بھی اللہ کی نظرمیں مجرم قرار پائے۔ ہر روز ہمارے لیے محکومی و مظلومی کا ایک نیا دروازہ کھل رہا ہے جبکہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں،روزے رکھتے ہیں،زکوٰۃ و صدقات ادا کرتے ہیں اورحج و عمرہ کرتے ہیں۔
بڑے سخت مجرم ہیں وہ علماء و خطیب جو یہ کہتے ہیں قرآن کو سمجھنا عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے جبکہ اللہ کا فرمان ہے کہ نصیحت کے لیے قرآن بہت آسان ہے۔فتوے صادر کرنے کے لیے یقیناً قرآن آسان نہیں ہے۔ قرآن کا 95 فیصد حصہ تذکیر اور ان دلائل پر مشتمل ہے جو توحید، رسالت وآخرت کو سچ ثابت کرتے ہیں ۔صرف 5 فیصد حصہ احکام پر مشتمل ہے۔ اگر ہمیں قرآن کے کسی مقام پر اشکال ہو تو تفاسیر سے مدد لے سکتے ہیں اور اہلِ علم سے رجوع کر سکتے ہیں جیسا کہ ہم دیگر علوم کے معاملہ میں کرتے ہیں لیکن سرے سے قرآن کے ترجمہ و تفسیر سے اجتناب کرتے ہوئے محض ثواب کی نیت سے ناظرہ پڑھنا ثواب کا باعث تو ہوسکتا ہے لیکن ہم دنیا میں ذلیل و رسوا ہونے سے بچ نہیں سکتے جب تک کہ ہم اس کو کتابِ ہدایت و کتابِ دعوت نہ بنائیں۔
رمضان کی ساری فضیلت قرآن کے نزول سے ہے اور روزے اس میں اس لیے فرض کیے گیے ہیں کہ روزوں کے ذریعے ہم قرآن کے نعمتِ ہدایت کی صورت میں نزول پر شکر ادا کریں۔
’’لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس پر لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہویا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔‘‘ (سورۃ البقرۃ 185)
روزوں کو اسی لیے ماہِ رمضان میں فرض کیا گیا ہے۔ روزوں کا ایک اہم مقصد شکر گزاری ہے اس نعمت پر جو قرآن کی صورت میں محفوظ حالت میں ہمارے پاس موجود ہے۔
روزوں کا دوسرا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کر دیے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔(سورۃ البقرۃ 183)
تقویٰ سے مراد اللہ کی نافرمانی کے برے انجام سے ڈرتے ہوئے محتاط زندگی گزارنا ہے۔نافرمانی کا انجام دنیا میں نعمتوں کے چھن جانے کی صورت میں یا مصیبتوں کے نازل ہونے کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے اور آخرت میں جہنم کے عذاب کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔ تقوی سے مراد اللہ کے عذاب سے ڈر کر اللہ کی نافرمانی سے بچنا ہے۔ تقویٰ کے معنی ڈرنا بھی ہے اور بچنا بھی۔
ڈرنے اور بچنے کے معنوں میں :فاتقواالنار۔۔آگ سے ڈرو ۔۔آگ سے بچو۔
بچنے کے معنوں میں: فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِن كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا اگر تم ماننے سے انکار کرو گے تو اس دن کیسے بچ جاو گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔(سورۃ المزمل 17)
ڈرنے کے معنوں میں: فاتقوااللہ ۔۔اللہ سے ڈرو ۔۔تقویٰ اختیار کرو (بچنے کے معنوں میں نہیں)
جب بندہ اللہ سے ڈرتا ہے تو دراصل اللہ کی پکڑ سے ڈرتا ہے ۔اللہ سے ڈر کر ایک بندہ اللہ سے دور نہیں بلکہ اور قریب ہوتا ہے جیسے ایک چھوٹا بچہ اپنی ماں کی ڈانٹ سےڈرتا ہے لیکن ماں سے دور نہیں جاتا بلکہ اسی کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔ تقوی جہاں بچنے کے معنی میں آتا ہے وہاں اس سے مراد اللہ کی نافرمانی سے بچنا ہے۔
تمام رسولوں کی دعوت کا لبِ لباب اللہ کا تقویٰ اور رسول کی اتباع ہے۔ فاتقوااللہ و اطیعون رسولوں نے ساری کوشش اس بات پر صرف کی کہ افراد کے لوگوں کے دلوں کے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ جب تقویٰ پیدا ہوجائے گا تو انسان خود بخود معصیت سے بچنے لگیں گے۔ جب صحابہ کرام میں تقویٰ پیدا ہوچکا تو انہوں نے شراب کی ممانعت کو فوراً دل سے قبول کیا۔اسی طرح جب پردے کے احکام نازل ہوئے تو صحابیات نے فی الفور ان پر عمل کیا اور ذرا بھی تردّد نہیں کیا۔ لوگوں کو معصیت کے دنیوی نقصانات بتلاتے ہوئے اس سے روکنے کے لیے ان کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔اسلامی معاشرہ میں عقیدۂ آخرت کو مستحکم کرکے ان کے اندر تقویٰ پیدا کیا جاتا ہے تاکہ افراد اندر سے برائیوں سے بچیں جبکہ دوسرے معاشروں میں قانون اور قوتِ نافذہ کے زور پر قانون کو لاگو کیا جاتا ہے۔اس لیے وہاں پر قانون اور قوتِ نافذہ ہونے کے باوجود جرائم بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
جب انسان کے اندر تقوی پیدا ہوجاتا ہے تو وہ تنہائی میں بھی تقوی پر عمل پیرا ہوتا ہے ۔اس طرح جرائم کو روکنے کا ایسا داعیہ معاشرہ میں کام کرتا ہے کہ دنیا میں کسی بھی معاشرہ میں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔جو لوگ اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کرتے ہیں وہ معاشرہ کے انتہائی غیر ذمہ دار افراد ہوتے ہیں اور جو لوگ اللہ کی ذات میں شرک کرتے ہیں وہ اس امید پر گناہ پر گناہ کیے چلےجاتے ہیں کہ ان کے خود ساختہ یہ شریک ان کو بچالیں گے۔
روزہ تقویٰ پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے جس میں ایک ماہ کی مسلسل تربیت ہوتی ہے جس سے انسان کے اندر اللہ کے حاضر و ناظر ہونے کا گہرا احساس پیدا کرتا ہے۔ اللہ کو حاضر و ناظر جاننا ایسی صفت ہے جو انسان کو محتاط اور ذمہ دار بنا دیتی ہے۔تقویٰ علم و عمل کے درمیان ایک پل کا کام کرتا ہے۔ تقویٰ علم کو عمل میں تبدیل کرنے کا محرّک ہے۔ اس کیفیت کے پیدا ہونے کے بعد ہی بندہ احسان کی منزل میں داخل ہوتا ہے۔
انسانی وجود دو چیزوں سے مرکب ہے ۔ایک اس کا حیوانی وجود ہے اور دوسرا اس کا روحانی وجودہے۔ تقویٰ کی صفت ہمارے روحانی وجود کو حیوانی وجود پر غلبہ کی حالت میں رکھتی ہے جیسے گھوڑے کی لگام ہاتھ میں ہو تو گھوڑا ہمیشہ قابو میں رہے گا۔ تقویٰ گھوڑے کی لگام کی طرح ہے جو ہمارے نفس کو قابو میں رکھتا ہے ۔
رمضان کے روزوں کا تیسرا مقصد ہے مغفرت :
ہم گناہ گار بندے ہیں۔ جب ہم اپنے دامن پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمارے ناقص اعمال اس درجے کے محسوس نہیں ہوتے کہ اللہ کے ہاں شرفِ قبولیت پائیں۔اللہ تعالیٰ نے ہمارے گناہوں پر نیکیوں کو بھاری بنانے کا عظیم آفر دیا ہے جو ہر سال میں ایک مرتبہ ہمیں ملتا ہے۔ رمضان میں اللہ کی بے پایاں رحمت جوش میں ہوتی ہے کہ ہر گناہ گار کو اللہ معاف کردے جو معافی کا طالب ہو۔ اس لیے ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ کی لعنت ہے اس شخص پر جس کو رمضان کا مبارک مہینہ میسر آئے اور وہ مغفرت سے محروم رہے۔ اور رمضان میں ایسی رات رکھی گئی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ یعنی رمضان میں صیام و قیام کے ذریعے اور بالخصوص شبِ قدر میں قیام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسا عظیم موقع عطا فرمایا ہے کہ جس سے ہمارے نامہ اعمال میں نیکیاں بے پناہ بڑھ جاتی ہیں اور اس ماہ میں مغفرت کے ذریعے سارے گناہ نامہ اعمال سے مٹادی جاتی ہیں۔یہ نایاب موقع اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ہر رمضان عطا کرتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ بندہ گناہوں سے معافی کا سچے دل سے طالب ہو اور یہ عہد کرے کہ وہ ان گناہوں کا اعادہ نہیں کرے گا۔خلاصہ یہ ہے کہ روزوں کے تین مقاصدہیں۔
-1 تقویٰ کا حصول
-2 قرآن کی نعمتِ ہدایت پر شکر
-3 مغفرت کا سامان
ماہِ رمضان میں ہم منصوبہ بندی کرکے اپنے اوقات کو اس طرح ترتیب دیں کہ ہم اس ماہ سے حتی المقدور مستفید ہوں۔
روزوں کو جھوٹ، غیبت، لغو اور معصیت کے کاموں سے ضائع نہ کریں۔ دوسرے دنوں کے مقابلے میں رمضان میں گناہ کا وبال بھی بڑھ جاتا ہے۔
فرض نمازوں کا مستعدی سے اہتمام کریں ۔ ایک فرض نماز رمضان میں ستر فرائض کے برابر کا ثواب رکھتی ہے۔ نوافل کا بھی اہتمام کریں کیونکہ رمضان میں ایک نفل کا ثواب عام دنوں کے فرض کے ثواب کے برابر ہوتا ہے۔
رمضان نیکیوں کا موسم ہے۔ اس میں نیکی کے کاموں اور صدقہ وخیرات میں سبقت کریں۔ ہر نیکی رمضان میں ستر گنا بڑھ جاتی ہے۔
قرآن کی تلاوت کا اہتمام کریں۔ ہر روز کم از کم ایک پارہ ترجمہ سے پڑھیں تاکہ اس رمضان میں ہم پورے قرآن کے پیغام کو سمجھ سکیں۔ جب بھی ہم قرآن کی آیات پر ترجمہ و تفسیر کے ذریعے غور کرتے ہیں تو ہر دفعہ قرآن معنوں کی ایک نئی دنیا ہمارے سامنے لاتا ہے ۔قرآن ایک زندہ کتاب ہے۔صرف زندگی میں ایک مرتبہ اس کو پڑھ لینا کافی نہیں ہے۔زندگی بھر ہم ہر روز کچھ نہ کچھ قرآن کے حصہ کو سمجھ کر پڑھیں تاکہ قرآن کے ذریعے تعلق باللہ پیدا ہو۔ قرآن کو سمجھ کر پڑھنا گویا ایسا ہے جیسے اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہونا ۔قرآن کے جتنے حصے ہم یاد کرکے بھول گئے ہوں ان کو اس رمضان میں پکا یاد کرلیں۔
تراویح کا اہتمام کریں ۔قرآن کا جو حصہ تراویح میں پڑھا جائے اس حصہ کے ترجمہ کو پڑھ کر مسجد جائیں تاکہ نمازِ تراویح میں ہماری دماغی حاضری ہو اور خیالات منتشر نہ ہوں۔
آخری عشرے میں شبِ قدر کو پانے کے لیے ہر رات عبادت ،اذکار ،استغفار اور تلاوت کا اہتمام کریں ۔شبِ قدر سے محرومی بہت بڑی محرومی ہے۔
اگر اعتکاف کے لیے فرصت میسر ہو تو اس خاص عبادت کا اہتمام کریں جس کا موقع صرف سال میں ایک مرتبہ ملتا ہے۔ اس میں دنیا سے کٹ کر اللہ سے تعلق پیدا کرنے کا موقع ملتا ہے جس میں ہم قرآن پر تدبر کرتے ہوئے اعتکاف کی عبادت کو اپنے لیے بابرکت بنا سکتے ہیں۔ اگر فرصت میسر نہ ہو تو ایک دن کا بھی اعتکاف کیا جاسکتا ہے۔
***

 

***

 لوگوں کو معصیت کے دنیوی نقصانات بتلاتے ہوئے معصیت سے روکنے کے لیے ان کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔اسلامی معاشرہ میں عقیدہ آخرت کو مستحکم کرکے ان کے اندر تقویٰ پیدا کیا جاتا ہے تاکہ افراد اندر سے برائیوں سے بچیں جبکہ دوسرے معاشروں میں قانون اور قوتِ نافذہ کے زور پر قانون کو لاگو کیا جاتا ہے اس لیے وہاں پر قانون اور قوتِ نافذہ ہونے کے باوجود جرائم بڑھتے چلے جاتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اپریل تا 22 اپریل 2023