قرآن کریم سے دوری زوال امّت کی اصل وجہ

مسلمان قرآن سے وابستہ ہو کر ہی عظمت رفتہ کو پا سکتے ہیں

ڈاکٹر محمد کلیم محی الدین

’’عصر حاضر میں رجوع الی القرآن کی اہمیت‘‘ پر ماہر اقبالیات پروفیسر ایاز الشیخ کا لیکچر
قرآن مجید قیامت تک کے انسانوں کے لیے رہنمائی اور سرچشمہ ہدایت ہے۔ اس کی طرف رجوع کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کے اشعار کے حوالے سے اس جانب توجہ دلانے کے لیے ایک نشست حیدرآباد میں رکھی گئی تھی۔ یہ محفل اقبال شناسی لیکچر سیریز کے تحت 1094 ویں نشست تھی جو 2 نومبر 2022 کو جامع مسجد عالیہ، گن فاونڈری حیدرآباد کے کانفرنس ہال میں ’’عصر حاضر میں رجوع الی القرآن کی اہمیت و ضرورت، فکر اقبال کی روشنی میں‘‘ کے زیر عنوان منعقد کی گئی۔ مہمان مقرر ایاز الشیخ نے جو معروف اسلامی اسکالر، محقق، سینئر جرنلسٹ اور اقبال شناس ہیں اپنے لیکچر میں بتایا کہ قرآن منبع ایمان اور سر چشمہ یقیں ہے۔ یہ اللہ کی رسی ہے۔ اس کا فیضان زمانہ نزول سے آج تک جاری وساری ہے۔ قرآن پاک مکمل طور پر حیات انسانی کا احاطہ کیے ہوئے ہے اس پر عمل کر کے ہی ہر دور میں انسانیت ہدایت فلاح اور کامرانی حاصل کر سکتی ہے۔ ان هذا القرآن يهدى للتي هي اقوم (بنی اسرائیل) اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھی ہے ۔
قرآن سے تعلق کی مضبوطی کے بارے میں انہوں نے حضرت علی کی ایک روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ نے ایک فرمایا: آگاہ ہو جاو ایک بڑا فتنہ آنے والا ہے! میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ اس فتنہ کے شر سے بچنے اور نجات پانے کا ذریعہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: کتاب اللہ۔ اس میں تم سے پہلی امتوں کے سبق آموز واقعات ہیں اور تمہارے بعد کی اس میں اطلاعات ہیں اور تمہارے درمیان جو مسائل پیدا ہوں، قرآن میں ان کا حکم اور فیصلہ موجود ہے۔ وہ قول فیصل ہے وہ فضول بات اور یاوہ گوئی نہیں ہے۔ جو کوئی جابر وسرکش اس کو چھوڑے گا اللہ تعالی اس کو توڑ کے رکھ دے گا اور جو کوئی ہدایت کو قرآن کے بغیر تلاش کرے گا اس کے حصہ میں اللہ کی طرف سے صرف گمراہی آئے گی۔ قرآن ہی حبل اللہ المتین (یعنی اللہ سے تعلق کا مضبوط وسیلہ) ہے اور محکم نصیحت نامہ ہے اور وہی صراط مستقیم ہے۔
یہ وہی دین مبین ہے جس کی اتباع سے خیالات کفر سے محفوظ رہتے ہیں اور زبانیں اس کو گڑبڑا نہیں سکتیں اور علم والے بھی اس کے علم سے سیر نہیں ہوں گے اور یہ کثرت مزاولت (بار بار پڑھے جانے) سے بھی پرانا نہیں ہو گا اور اس کے عجائب کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ قرآن کی یہ شان ہے کہ جب جنوں نے اس کو سنا تو بے اختیار بول اٹھے: ہم نے قرآن سنا جو عجیب ہے رہنمائی کرتا ہے بھلائی کی، پس ہم اس پر ایمان لے آئے۔ جس نے قرآن کے موافق بات کہی اس نے سچی بات کہی اور جس نے قرآن پر عمل کیا وہ مستحق اجر وثواب ہوا اور جس نے قرآن کے موافق فیصلہ کیا اس نے عدل وانصاف کیا اور جس نے قرآن کی طرف دعوت دی اس کو صراط مستقیم کی ہدایت نصیب ہو گئی۔ امت مسلمہ میں بہترین شخص کون ہے؟ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا بخیر کم من تعلم القرآن وعلمه تم میں سے سب سے افضل اور برگزیدہ شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔
ہر دور کی طرح اس دور میں بھی قرآن ہی ہدایت کا ذریعہ ہے۔ امت مسلمہ کی ترقی اور فلاح کا لازمی تقاضا قرآن اور قرآنی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا ہے۔ قرآن کریم کے نزول کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اس کو پڑھیں، اسے سیکھیں، اس میں غور وفکر کریں، اسے سمجھنے کی کوشش کریں اور پھر اس پر عمل کر کے دنیا وآخرت کی کامیابی حاصل کریں۔ لیکن اس کے برعکس آج کے مسلمانوں کا قرآن کے ساتھ جو رویہ ہے وہ محتاج وضاحت نہیں۔ قرآن صرف حصول برکت یا تلاوت کی کتاب نہیں بلکہ یہ کتاب ہدایت بھی ہے جس سے زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ فی زمانہ ہمارے زوال و انحطاط کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ ہم نے قرآن مقدس کو طاق پر رکھا ہوا ہے۔ قرآن سے بے رغبتی کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس کی اہمیت وفضیلت سے بے خبر ہیں۔ جو بھی اسے مضبوطی سے تھام لیتا ہے تو اللہ تعالی اس کو بلند کر دیتا ہے۔ وہ دنیا میں بھی عزت حاصل کرتا ہے اور آخرت میں جنت۔ جو قرآن کی تلاوت اور تعلیمات سے دور ہوتے ہیں اور اپنی زندگی اپنی مرضی اور چاہت سے بسر کرتے ہیں تو پھر اللہ انہیں ذلیل وخوار کر دیتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ان الله يرفع بهذا الكتاب اقواما ويضع به آخرين (مسلم) اللہ تعالی اس کتاب (قرآن مجید) کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو سر بلند فرمائے گا اور دوسروں کو ذلیل کرے گا۔
رجوع الی القرآن کا مطلب ہے کہ ہم قرآن مجید کو غور سے پڑھیں اس کی تعلیمات کو سمجھیں ان پر عمل پیرا ہوں اور انہیں اپنی زندگی کے ہر سفر میں مشعل راہ بنائیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ قرآن مجید سے جیسے جیسے مسلمانوں کا رشتہ منقطع ہوتا گیا ویسے ویسے علوم وفنون، معاشرت، تہذیب اور دیگر معاملات میں امت پر زوال کی کیفیت طاری ہوتی چلی گئی۔ انیسویں صدی کا آغاز مسلمانوں کے پر آشوب زوال سے ہوا۔ مسلم امت کے مجموعی زوال میں ایک بہت بڑی وجہ قرآن کریم سے دوری ہے۔ جب روایتی علوم کو عصر جدید کے تقاضوں کے مطابق نور ہدایت کی شمع میں پرکھنے اور ارتقاء بخشنے کی بجائے جوں کا توں استعمال کیا جانے لگا تو امت جمود و تنزلی کا شکار ہوئی اور پھر دوبارہ اوج ثریا کی منہج نہ پا سکی۔ اسی اثناء میں ہمیں امید کی کرن اس کلام اللہ سے نظر آتی ہے جو اس تاریکی میں بھی روشنی عطا کرتا ہے اور اس بات کی نوید سناتا ہے کہ اسے تھامنے والا کبھی گمراہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی نظریاتی، فلسفیانہ یا روحانی میدان میں شکست کھا سکتا ہے۔ قرآن کی حقانیت جب تک اس امت کے سینے میں روشن رہی اور اس امت کا واسطہ قرآن کے دامن سے وابستہ رہا اس وقت تک یہ امت دنیا کا ہر وہ کارنامہ سرانجام دیتی رہی جو اہل حق کی ذمہ داری ہے کیونکہ مسلمان قرآن میں غور وفکر کر کے عصر حاضر کے اور قریب ہو جاتا ہے اور تقاضوں کو سمجھنے اور ان کا تجزیہ کرنے میں کسی مغالطہ کا شکار نہیں ہوتا۔
اقبال نے ساری عمر جو پیغام ہم کو سنایا وہ ان ہی دو مصرعوں کی شرح تھی
تیرے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
اقبال کی تمام زندگی کو ان کے والد کی اس نصیحت نے اثر رکھا۔ وہ قرآن مجید کو صرف ایک کتاب سمجھ کر یا نیکی کے حصول کے لیے نہیں پڑھتے تھے بلکہ وہ اس کا فہم پوری طرح رکھتے تھے۔ کلام الہی کو اپنے دل پر اترتا ہوا محسوس کرتے تھے۔ قرآن پاک کی معنویت اور اس کے الفاظ کا ان کے دل پر اس قدر اثر ہوتا تھا کہ وہ تلاوت کے دوران رو پڑتے تھے۔اس سلسلے میں اقبال کے معاصر مرزا جلال الدین کا بیان قابل غور ہے۔ لکھتے ہیں:
مطالب قرآن پران کی نظر ہمیشہ رہتی تھی۔ قرآن پاک کو پڑھتے تو اس کے ایک ایک لفظ پر غور کرتے، بلکہ نماز کے دوران میں جب وہ بآواز بلند پڑھتے تو وہ آیات قرآنی پر فکر کرتے اور ان سے متاثر ہو کر رو پڑتے۔
معاشرے میں مغربی تعلیم وتہذیب کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لیے ہی اقبال نے قرآن پاک سے رجوع کیا اور اسے اپنی شاعری کا موضوع بنایا، کیونکہ قرآن مجید میں گم ہو کر ہی مسلمان عافیت حاصل کر سکتے تھے ورنہ مغربی تہذیب کا سیلاب مسلم تہذیب کو بہا کے لے جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب کی اصلیت جان کر اقبال قرآن کے اور قریب ہو گئے۔
مولانا سید ابوالاعلی مودودی اس بارے میں رقم طراز ہیں: ’’مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ (اقبال) جتنا مسلمان تھا اس کے منجدھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان ہو گیا۔ اس کی گہرائیوں میں جتنا اترتا گیا اتنا ہی زیادہ وہ مسلمان ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اس کی تہہ میں جب پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہو چکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیں رہا۔ جو کچھ وہ سوچتا تھا قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا جو کچھ دیکھتا تھا وہ قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا۔۔‘‘
اقبال کے نزدیک سارے علوم کا سر چشمہ قرآن ہے۔ اقبال کی فکر اور فلسفہ پر اس کا گہرا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔ زندگی کے آخری دور میں تو اقبال صرف قرآن پاک کے مطالعہ میں مصروف رہے اور دیگر تمام کتب کا مطالعہ ترک کر دیا تھا۔ قرآن پاک کے سوا کوئی کتاب اپنے سامنے نہیں رکھتے تھے۔ اس کا ثبوت مولانا سید ابوالاعلی مودودی کے مضمون میں شامل اس واقعہ سے ملتا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ایک مرتبہ کسی شخص نے ان کے پاس فلسفہ کے چندا ہم سوالات بھیجے اور ان کا جواب مانگا۔ ان کے قریب رہنے والے لوگ متوقع تھے کہ علامہ اپنی لائبریری کی الماریاں کھلوائیں گے اور بڑی بڑی کتابیں نکلوا کر ان مسائل کا حل تلاش کریں گے مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ لائبریری کی الماریاں مقفل کی مقفل رہیں اور وہ صرف قرآن ہاتھ میں لے کر جواب لکھوانے بیٹھ گئے‘‘۔
مولانا عبدالسلام ندوی اپنی تصنیف اقبال نامہ صفحہ 17 پر اقبال کی قرآن پاک سے وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دوران تلاوت اقبال کے آنسوؤں کا تار بندھ جاتا تھا۔ تلاوت بہت رغبت اور ذوق وشوق سے کرتے تھے۔ ڈاکٹر اقبال کی وصیت کے مطابق جب ان کی کتابیں اسلامیہ کالج کی لائبریری کو دی گئیں تو ان میں قرآن پاک کا وہ نسخہ بھی تھا جو آنسوؤں سے تر تھا۔
مندرجہ بالا کتابچے میں ڈاکٹر اسرار احمد نے مولانا امین احسن اصلاحی کی گواہی بھی شائع کی ہے۔ کئی سال پہلے کا واقعہ ہے کہ مولانا آنکھوں کے آپریشن کے لیے خانقاہ ڈوگراں سے لاہور آئے ہوئے تھے اور آپریشن میں کسی وجہ سے تاخیر ہو رہی تھی۔ گھر سے باہر ہونے کی وجہ سے ان کا لکھنے پڑھنے کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ تاہم فرصت کے ان ایام میں مولانا نے علامہ اقبال کا پورا اردو اور فارسی کلام دوبارہ پڑھ لیا۔ اس کے بعد انہوں نے اس کے بارے میں مجھ سے دو تاثرات بیان کیے۔ مولانا کا پہلا تاثر تو یہ تھا کہ قرآن حکیم کے بعض مقامات کے بارے میں مجھے کچھ گمان سا تھا کہ میں نے ان کی تفسیر جس اسلوب سے کی ہے شاید کوئی اور نہ کر سکے۔ لیکن علامہ اقبال کے کلام کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ وہ ان کی تفسیر مجھ سے بہت پہلے اور مجھ سے بہت بہتر کر چکے ہیں۔ مولانا اصلاحی صاحب کا دوسرا تاثر یہ تھا کہ اقبال کا کلام پڑھنے کے بعد میرا دل بیٹھ سا گیا کہ اگر ایسا حدی خواں (یعنی ایسا آدمی جو قافلہ والوں میں جوش پیدا کرے اور عمل کی ترغیب دے) اس امت میں پیدا ہوا لیکن امت ٹس سے مس نہ ہوئی تو ہما شما کے کرنے سے کیا ہو گا جو قوم علامہ اقبال کے کلام سے حرکت میں نہیں آئی اسے کون حرکت میں لا سکے گا؟
اقبال کو ترجمان القرآن بھی کہا جا تا ہے اور یہ بات یوں ہی نہیں کہی جاتی۔ علی بخش کا بیان ہے کہ جب شعر کہنے ہوتے تو بیاض اور قلم دان کے ساتھ قرآن حکیم بھی منگواتے۔ اس طرح عمر بھر وہ قرآن کی تعلیمات و افکار کو اپنی شاعری میں سمو کر پیش کرنے کی سعی کرتے رہے۔ ان کی یہ کاوش ارادی اور شعوری تھی۔ یہ ایک مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قرآن میں غوطہ زن ہوکر تدبر کرے کیونکہ مسلماں قرآن میں غور و فکر کر کے عصر حاضر کے اور قریب ہو جاتا ہے۔ قرآن ایسی مذہبی کتاب نہیں جو کسی کو رہبانیت کی طرف لے جائے اور نہ ہی کسی ایسی روش کی طرف لے جائے جس کا تعلق عملی زندگی سے نہ ہو۔
آخر میں انہوں نے قرآن سے رجوع کرنے کے لیے اقبال کے فارسی اشعار اور اس کا ترجمہ بھی پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے قرآن پاک کی عظمت بیان کرتے ہوے کہا: (یہ کتاب حکیم) جب کسی کے باطن میں سرایت کر جاتی ہے تو اس کے اندر ایک انقلاب بر پا ہو جاتا ہے اور جب کسی کے اندر کی دنیا بدل جاتی ہے تو اس کے لیے پوری دنیا ہی اس انقلاب کی زد میں آ جاتی ہے۔ علم وحکمت قرآن ہے جو اگر کسی کے ذہن میں سرایت کر جائے اور قلب میں رچ بس جائے تو اس کے باطن میں ایک انقلاب برپا ہو جاتا ہے جو حاوی ہوتا ہے ظاہر کے انقلاب پر اور یہی وہ پھل ہے جو بالآخر ایک عالمی انقلاب کو جنم دے سکتا ہے۔
***

 

***

 علامہ اقبال کو جب شعر کہنے ہوتے تو بیاض اورقلم دان کے ساتھ ، قرآن حکیم بھی منگا تے ۔ اس طرح عمر بھر وہ قرآن کی تعلیمات و افکارکو اپنی شاعری میں سمو کر پیش کرنے کی سعی کرتے رہے ۔ ان کی یہ کاوش ارادی اور شعوری تھی ۔ یہ ایک مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قرآن میں غوطہ زن ہوکر تدبر کرے کیونکہ مسلماں قرآن میں غور و فکر کر کے عصر حاضر کے قریب ہوجاتا ہے۔ قرآن ایسی مذہبی کتاب نہیں جو کسی کو رہبانیت کی طرف لے جائے اور نہ ہی کسی ایسی روش کی طرف لے کر جائے جس کا تعلق عملی زندگی سے نہ ہو


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 نومبر تا 19 نومبر 2022