قرآن کا موضوع کیا ہے؟

انسان کی دنیوی واخروی رہنمائی مرکزی و بنیادی موضوع

ابوفہد ندوی، نئی دہلی

کلام الٰہی میں اخلاق وقانون سے لے کرادب و سائنس ، سیاست ومعاشرت ، اور فلسفہ اور علم الکلام تک ہر علم کی بنیادیں موجود
قرآن کے موضوع کے حوالے سے کوئی حتمی یک لفظی تعبیر ممکن نہیں، البتہ امکانی تعبیرممکن ہوسکتی ہے۔یوں تو کسی بھی کتاب کاموضوع متعین ہوتا ہی ہے،کوئی ادب کی کتاب ہوتی ہے کوئی تنقید کی، کوئی قانون کی اور کوئی منطق، فلسفے اورعلم کلام کی، مگر قرآن کے بارے میں یہ نہیں کہاجاسکتا کہ قرآن ادب کی کتاب ہے، قانون کی کتاب ہے یا قرآن محض ایک اخلاقی نوشتہ ہے۔ منطق اور فلسفے کو تو جانے دیں آپ قرآن کو علم التوحید اورعلم الکلام کی کتاب بھی نہیں کہہ سکتے۔ اس حوالے سے قرآن کے بارے میں کوئی یک لفظی تعبیر سرے سے ممکن ہی نہیں ہے۔ کیونکہ قرآن تو اُمّ الکتب اور اُمّ الفنون ہے، اخلاق وقانون سے لے کرادب و سائنس ، سیاست ومعاشرت ، اور فلسفہ و علم الکلام تک ہر علم کی بنیادیں قرآن میں مل جائیں گی۔اگر سورۂ فاتحہ اُمّ الکتاب ہے تو قرآن اُمّ الکتب اور اُمّ الفنون ہے۔
اسی طرح قرآن کے اسلوب کو کسی بھی زبان کے معروف اصنافِ سخن میں سے کسی بھی صنفِ سخن کے اصولوں اور پیمانوں نے نہیں ناپا جاسکتا، ہاں قریب قریب کوئی نسبت قائم کی جاسکتی ہے، مثلاً یہ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کا اسلوب اپنی صنف کے لحاظ سے اردو میں ’آزاد نظم‘ سے قریب ترہے۔ تاہم کلی طورپراسے ’آزاد نظم‘ نہیں کہا جاسکتا۔ قرآن کے بیانیے کو نہ شعر کہہ سکتےہیں اور نہ ہی نثر ، پھر شعر اور نثرمیں جتنی بھی اصنافِ سخن ہیں قرآنی بیانیے اوراسلوب کو ان میں سے کسی بھی نام سے معنون نہیں کیاجاسکتا ۔ کیونکہ نہ توقرآن ایسی کتاب ہے جسے ایک لفظ پر مشتمل تعبیر میں محیط کیا جاسکے اور نہ ہی قرآن کا اسلوب ایسی شئے ہے جسے ایک صنفِ سخن کا متعین نام دیا جاسکے۔
اہل علم کے یہاں اس حوالے سے مختلف رائے پائی جاتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ قرآن کا موضوع توحید ہےاورکوئی کہتا ہے کہ قرآن کا موضوع انسان ہے۔ حالانکہ یہ دونوں موضوعات ایک دوسرے کے متوازی ہیں، ایک دوسرے کے معاون اور ایک دوسرے کو مستلزم نہیں ہیں۔ قرآن کے موضوع کے حوالے سے اس درجے کی اختلافی رائے قابل قبول نہیں مانی جاسکتی۔ اگرتوحید قرآن کا بنیادی موضوع ہے توقرآن کا اصل مقصد اللہ کی تعریف بیان کرنا ہوا اوراگرانسان بنیادی موضوع ہے تو قرآن کا اصل مقصد انسان کی تعریف و افادیت کا بیان ہوا یا خود انسان کے سود وزیاں کا بیان ۔ اور یہ دونوں بیان باہم مختلف ہیں۔جبکہ اس کے بالکل برعکس یہ بھی ممکن ہے کہ قرآن کے کئی مرکزی موضوعات قرار دیے جائیں۔ توحید کوبھی قرآن کا بنیادی اور مرکزی موضوع قرار دیا جاسکتا ہےاور انسان کی دنیوی واخروی رہنمائی کوبھی مرکزی اور بنیادی موضوع کہا جاسکتا ہے،اسی طرح دنیا میں قیامِ امن وانصاف کوبھی قرآن کے بنیادی اورمرکزی موضوعات میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔
یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ قیامِ امن وانصاف آخر کس کے لیے ہے، توحید کا بیان کس کی افادیت کے لیے ہے اور دنیوی واخروی رہنمائی وبھلائی بھی آخر کس کے لیے ہے؟ اوراس کا لازمی جواب ہوگا کہ انسان کے لیے ہے۔ پھر پلٹ کر اس الزامی جواب سے جو استدلال کیا جائے گا وہ یہی ہوگا کہ پھر تو انسان ہی قرآن کا موضوع ہوا۔پھر مزید ایک معاون دلیل کا سہارا لے کر کہا جائے گا کہ جب قرآن کا مخاطب بھی انسان ہی ہے اور یقیناً ہے تو لازمی طورپر قرآن کا موضوع بھی انسان ہی ہوا؟ مگر یہ استدلال نتیجے کے اعتبارسے ممکن ہے درست ہو تاہم راست طورپر درست نہیں معلوم ہوتا۔
قرآن میں ’الانسان‘ نام کی ایک مختصر سورت بھی ہے۔ جس میں تمہیدکے طورپر انسان کی تخلیق سے ماقبل کے زمانے کی طرف اشارہ ہے اورتخلیقی مرحلے کاذکرہے۔ اس کے بعد سورت کا زیادہ تر حصہ اہل ایمان اور اہل تقویٰ کے لیے انعام واکرام کے بیان پر مشتمل ہے ساتھ ہی اہل کفرکے لیے ہولناک عذاب کی وعید بھی ہے۔ یہ سورت تمہید کے بعد کفار کے خلاف عذاب کی وعید سے شروع ہوتی ہے اور کفار کےخلاف عذاب کے ذکر پر ہی ختم ہوتی ہے۔ تاہم اس سورت میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ جس سے یہ سمجھا جائے کہ قرآن کا یا پھر خود اس سورت کا ہی اصل موضوع انسان ہی ہے۔ یہ سورت خود بھی انذار،تبشیر اور انعام وعقاب کے موضوعات پر مبنی ہے ۔
عمومی طورپر سورتوں کے نام متعلقہ سورتوں کے مضامین سے زیادہ ربط نہیں رکھتے، تاہم اگر اس سورت ’الانسان‘ کے نام کا اس کے مضامین سے رشتہ استوار کرنا چاہیں تو وہ یہ ہوگا کہ اس سورت میں انسان کے عدم،وجود اور پھراس کے اعمال کے انجام کے بارے میں بات کی گئی ہے، عدم اورعدم سے وجود میں آنے کا ذکراجمالی ہے جبکہ انسان کے اچھے برے اعمال کے نتیجے میں انسان کو جن اچھے برے نتائج سے روبرو ہونا پڑے گا اس کا ذکر تفصیلی ہے۔ پھرانعام یا جنت کا ذکر چونکہ مثبت بیانیہ ہے اورعذاب اورجہنم کا تذکرہ منفی بیانیہ ہے، تو مثبت بیانیے میں یعنی انعام اور جنت کے ذکر میں زیادہ وضاحت اورزیادہ تفصیل ہے جبکہ عذاب اور جہنم کا ذکراجمال اورتفصیل کے درمیان ہے۔جہنم کا ذکر نہ تو انسان کے عدم ووجود کےبیان کی طرح اجمالی ہے اور نہ ہی جنت وانعام کے ذکر کی طرح تفصیلی ۔
بعض اہل علم کی رائے ہے کہ قرآن کا بنیادی موضوع ’ہدایت‘ہے اورخود قرآن نے ہی اس کی وضاحت کردی ہے اور وہ بھی بالکل ابتدائی آیات میں ہی۔ ارشاد ہے: ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ‎(البقرہ:۲) قرآن کے مطابق قرآن اہل تقوی کے لیے ہدایت ہے۔پھرقرآن میں دوسری جگہ ’’ھدی للناس ‘‘بھی آیا ہے ۔ سورۂ بقرہ میں ہے: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ‎﴿البقرة: ١٨٥﴾‏ ۔ سورۂ تکویر میں قرآن کو تمام جہانوں کے لیے نصیحت کہا گیا ہے، ارشاد ہوا ہے: إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ ‎﴿التكوير: ٢٧﴾‏ ’’یہ قرآن تمام جہانوں کے لیے نصیحت ہے‘‘:اورپھر قرآن میں یہی بات دوسرے آسمانی صحائف کے لیے بھی کہی گئی ہے۔سورۂ مائدہ میں ہے: إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ‎﴿المائدة: ٤٤﴾‏ ہم ہی نے تورات بھی اتاری تھی جس میں ہدایت اورنور تھا‘‘
مگریہاں بھی وہی سوال ہے کہ ہدایت کس کے لیے ہے؟ اورجواب یقینا یہی ہوگا کہ اہل تقوی یعنی انسان کے لیے ہدات ہے۔ تو یہاں بھی نتیجے کے طورپر بالآخرانسان ہی کےقرآن کا موضوع قرار پانے کی امکانی بات سامنے آتی ہے۔
قرآن میں بیت اللہ کو بھی لوگوں کے لیے ذریعہ ہدایت قرار دیا گیا ہے ، ارشاد ہے: إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ ‎﴿آل عمران: ٩٦﴾‏ ’’اللہ کی عبادت کے لیے روئے زمین پر جو پہلا گھر تعمیر کیا گیا وہ وہی ہے جو مکہ میں ہے،جو بہت ہی بابرکت ہے اورسارے عالم کے لیے ہدایت ورہنمائی کا ذریعہ ہے۔‘‘
یہ تو مثبت پیرائے کی آیات تھیں، منفی پیرائے کی آیات بھی ہیں سورۂ بقرہ کی یہ دو آیات دیکھیں: وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ‎﴿البقرة: ٢٥٨﴾‏ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ‎﴿البقرة: ٢٦٤﴾‏ اللہ ظالم اور کافر اقوام کو نور ہدایت سے نہیں نوازتا۔
پھر اللہ کی یہ ہدایت تکوینی امور کے ذریعے بھی ہے اورتشریعی امورکے ذریعے بھی ۔ اللہ نے کائنات میں ایسے تکوینی اسباب مہیا فرمادیے ہیں کہ انسان ان سے رہنمائی حاصل کرتا رہتا ہے ۔ اللہ نے کائنات میں بے شمار قوتیں اور بے انتہا فوائد رکھ دیے ہیں اور خود انسان کو بھی عقل وخرد اور ہدایت حاصل کرنے کی دیگر قوتیں جیسے باصرہ وسامعہ وغیرہ بھی عطا کردی ہیں تاکہ انسان اپنی مادی ضروریات کی تکمیل کے لیے ہدایت حاصل کرسکے۔ انسان کی جتنی بھی تمدنی ترقیاں ہیں سب اسی ہدایت اورتکوینی یا فطری رہنمائی کی مرہون منت ہیں۔ ہدایت تشریعی اورتکوینی دونوں طرح کی رہنمائی کو جامع ہے۔
اس تکوینی ہدایت کے پہلو بہ پہلو تشریعی ہدایت ہے اور یہ قرآن کی اصل اور خصوصی ہدایت ہے، اسی لیے قرآن نے’هُدًى‘ کے بعد ’ لِّلْمُتَّقِينَ‘ کا اضافہ کیا۔ دوسرے مقام پر للمؤمنین کا لفظ ہے: وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ ‎﴿البقرة: ٩٧﴾‏ جو لوگ صاحب ایمان ہیں اورصاحب تقویٰ بھی ہیں وہ اپنے ظرف اور کسب کے مطابق دونوں طرح کی ہدایت سے فیضیاب ہوتے ہیں اورجو لوگ صاحب ایمان اور صاحب تقویٰ نہیں ہیں وہ صرف تکوینی امور سے متعلق ہدایت پاتے ہیں۔
قرآن میں مزید غوروخوض کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ از اول تا آخر ’ہدایت ‘ ہی قرآن کا مدعا اور خلاصہ ہے۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ قرآن میں جتنے بھی واقعات بیان ہوئے ہیں،اوامرونواہی بیان ہوئے ہیں اورانبیاء کرام کی سیرت بیان ہوئی ہے، ان سب کے بیان کا مقصودِ اصلی ہدایت ہی ہے۔ یعنی سرد وگرم حالات میں اور خوشی وغم کے مواقع پرانسان کی دنیوی اور اخروی رہنمائی کرنا ہی قرآن کا مقصودِ اصلی ہے۔ ہر واقعہ، ہر سورت اور ہر آیت کی انتہائی غایت یہی ہے کہ انسان اس سے ہدایت ورہنمائی حاصل کرے۔ نہ صرف احکام کی آیات سے اور پندونصائح اور اخلاقیات کے بیان سے بلکہ قصص وواقعات سے بھی یہی مقصود ہے ۔
قرآن میں مذکورسارے واقعات، قصص، نصائح اوراحکام سارے کےسارے یک رخی ،یعنی ہدایت رخی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں قرآن کے تمام واقعات، احکامات اور بیانات میں وحدتِ ارتکاز اور وحدت تأثر پایا جاتا ہے اور یہ ہدایت ہی کا ارتکاز وتاثر ہے۔
یہی وہ ہدایت ہے جس کا ذکر سورہ فاتحہ میں دعائیہ پیرائے میں آیا ہے۔ارشاد ہے: اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ‎﴿الفاتحۃ :٦﴾‏ ‏ ’’اے اللہ! ہمیں صراطِ مستقیم کی ہدایت نصیب فرما اوراس پرہمیشہ قائم رکھ ‘‘ یہی دعائیہ پیرایہ، اسلوب کی تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ سورۂ آل عمران میں بھی ہے، ارشاد ہے:
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ ‎
﴿آل عمران: ٨﴾‏
سورۂ فاتحہ کی ان آیات کے ذریعہ اللہ نے اہل ایمان کو سکھایا ہے کہ وہ صراط مستقیم پر چلنے کی کوشش بھی کریں اور اللہ سے اس کی ہدایت بھی مانگتے رہیں، پھر اللہ نے ہدایت مانگنے کے الفاظ بھی سکھادیے ، ظاہر ہے ہدایت طلب کرنے کے ان سے بہتر الفاظ انسان کو میسر نہیں ہوسکتے تھے ،پھر ہدایت مانگنے کا طریقہ بھی بتادیا۔ اور پھر ہدایت کے ان الفاظ کو سورہ فاتحہ میں رکھ کر یہ اہتمام بھی خود ہی فرمادیا کہ ہر مؤمن ہردن اور ہر رات کی ہر ساعت میں اللہ سے ہدایت طلب کرتا ہے۔اس طرح ہر صاحب ایمان اگر وہ پابند صوم وصلوۃ ہے تو اللہ کے خود کار ایمانی سسٹم کے تحت ہمہ وقت اللہ سے ہدایت طلب کرتا رہتا ہے۔اُسے اِس کے لیے خارج سے کچھ زیادہ اہتمام کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ، اسے ہدایت مانگنے کے لیے بہتر الفاظ کی تلاش میں سرگرداں ہونا بھی نہیں پڑتا، اُسے بس استحضار کی ضرورت ہوتی ہے۔
جس طرح حضرت آدمؑ کو دُعا واستغفار کے کلمات سکھائے گئے تھے: فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ‎﴿البقرة: ٣٧﴾‏ ’’آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھ لیے اوران کلمات کے ذریعے اللہ سے معافی طلب کی توااللہ نے آدم کی توبہ قبول فرمالی‘‘
اسی طرح اللہ کی طرف سے ہر مؤمن کو یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ وہ ہروقت صراط مستقیم پر قائم رہنے کی دعا کرتا رہے اوراللہ کے مقرب بندوں یعنی انبیاء، صدیقین اور شہداء کا اس طورپر حوالہ دے کر کرتا رہے کہ اللہ نے جس طرح ان لوگوں کو صراط مستقیم پر قائم رکھا اسی طرح اسے بھی صراط مستقیم پر قائم رکھے۔
پھراللہ نے جتنے بھی انبیاء اور رسول بھیجے ان سب کو راہ حق کی ہدایت کے ساتھ بھیجا۔ ارشاد ہے: وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ كُلًّا هَدَيْنَا وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَارُونَ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ‎﴿الأنعام: ٨٤﴾‏ ’’اور پھر ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب (بیٹے اور پوتے) سے نوازا اور انہیں راہ حق کی ہدایت دی، اسی طرح ان سے قبل نوح کو بھی ہدایت دی تھی اور نوح کی اولاد میں داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسی اور ہارون کو بھی ہدایت سے نوازا تھا۔ ہمارا طریق یہی ہے کہ ہم اپنے محسن /نیک بندوں کو ہدایت سے نوازتے ہیں۔‘‘
اس سے آگے کی جو آیات ہیں ان میں مزید انبیاء کرام کا ذکر ہے اور ان سب کے لیے ہدایت کی بات کہی گئی ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے الفوز الکبیر میں ’ھدایت‘ کے بجائے ’تذکیر‘ کا لفظ استعمال کیا ہے اور قرآن کے پانچ بنیادی مضامین (موضوعات) قراردئے ہیں،علم الاحکام،علم المخاصمہ،علم التذکیر بآالاء اللّٰہ،علم التذکیر بایام اللّٰہ،علم التذکیر بالموت ومابعدہ۔ بعض علماء نے قرآن کے موضوعات کی فہرست طویل بھی کردی ہے تو دراصل انہوں نے قرآن کے مضامین کے لیے موضوعات کی تعبیر استعمال کی ہے۔
اس پوری بحث کا خلاصہ یہی نکل کرسامنے آتا ہے کہ ’ہدایت‘ ہی قرآن کا اصل اور بنیادی موضوع ہے۔ اور یہ سب سے جامع لفظ بھی ہے۔ لفظ ’’هُدى ‘‘ اور اس کے مشتقات پورے قرآن میں جا بجا پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے برخلاف ’انسان‘ کو قرآن کا موضوع قراردینا درست معلوم نہیں ہوتا۔صحت وتعلیم سے لے کرسائنس و سماجیات اورسیاسیات تک علوم وفنون کے بہت سے شعبے ہیں اور سب کے سب انسانوں کے لیے ہی کام کررہے ہیں مگر پھر بھی کسی بھی علم وفن کا موضوع ’انسان‘ نہیں قرار دیا جاتا۔ جس طرح احادیثِ رسول کا موضوع انسان نہیں ہے حالانکہ ان میں بھی انسان ہی مخاطب ہے اوران میں بھی انسان ہی کی دنیاو آخرت بنانے کی تعلیمات ہیں ۔ بالکل اسی طرح قرآن کا موضوع بھی انسان نہیں ہے گوکہ قرآن انسان ہی سے مخاطب ہے اور انسان ہی کی فلاح وبہبود کی بات کرتا ہے۔
***

 

***

 ’ہدایت‘ ہی قرآن کا اصل اور بنیادی موضوع ہے۔ اور یہ سب سے جامع لفظ بھی ہے۔ لفظ ’’هُدى ‘‘ اور اس کے مشتقات پورے قرآن میں جا بجا پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے برخلاف ’انسان‘ کو قرآن کا موضوع قراردینا درست معلوم نہیں ہوتا۔صحت وتعلیم سے لے کرسائنس و سماجیات اورسیاسیات تک علوم وفنون کے بہت سے شعبے ہیں اور سب کے سب انسانوں کے لیے ہی کام کررہے ہیں مگر پھر بھی کسی بھی علم وفن کا موضوع ’انسان‘ نہیں قرار دیا جاتا۔ جس طرح احادیثِ رسول کا موضوع انسان نہیں ہے حالانکہ ان میں بھی انسان ہی مخاطب ہے اوران میں بھی انسان ہی کی دنیاو آخرت بنانے کی تعلیمات ہیں ۔ بالکل اسی طرح قرآن کا موضوع بھی انسان نہیں ہے گوکہ قرآن انسان ہی سے مخاطب ہے اور انسان ہی کی فلاح وبہبود کی بات کرتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 ستمبر تا 05 اکتوبر 2024