قرآن کا اندازتخاطب اورترجمۂ قرآن میں اس کی رعایت

جب اللہ جل شأنہ ساری کائنات کا بلا شرکت غیر خالق و مالک اور مدبر و منتظم ہے تو اس کی شان میں اور پھر شان خطابت میں بھی وہی عظمت و بلندی اور شان وشوکت ہوگی۔ خود پیغمبرانہ خطاب میں بلند آہنگی، عزم واستقلال اور علو شان پایا جاتا ہے تو اللہ کی شان خطابت کی عظمت کتنی بلند ہوگی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ابوفہدندوی

قرآن نے حضرت محمد (ﷺ) کو نبی اور رسول کہہ کر خطاب کیا اور اس کے علاوہ مزمل اور مدثر کہہ کر بھی پکارا ہے۔ یہ سارے خطابات رسول اللہ (ﷺ) سے اللہ کی بے پناہ محبت والفت کو بتاتے ہیں۔ انبیاء کرام اور خاص کر نبی (ﷺ) کے لیے اللہ کی محبت والفت کا اظہار الم نشرح، والضحیٰ اور سورہ کوثر و دیگر سورتوں اور آیتوں میں واضح طور پر ہوا ہے۔ سورہ کہف کی درج ذیل آیت میں اظہار محبت ملاحظہ کریں، ارشاد ہے: فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا ’تو کیا اے محمد! تم ان کے لیے اپنے آپ کو ہلاکت کر لو گے محض اس غم میں کہ یہ لوگ اس قرآن پر ایمان کیوں نہیں لاتے؟‘
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ
نبیؐ اور رسولؐ کے ذریعہ خطاب کی چند مثالیں دیکھیں:
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ … ‎﴿المائدة: ٤١﴾‏ ’اسے رسول! جو لوگ کفر کے لیے بڑی سرگرمی دکھا رہے ہیں، تم ان سے (کفر کے لیے ان کی سرگرمیاں دیکھ کر) کبیدہ خاطرنہ ہو‘
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ‎﴿المائدة: ٦٧﴾‏ ’اے رسول! تم تو بس اس پیغام کو لوگوں تک بے کم وکاست پہنچا دو جو تمہارے رب نے تم پر نازل کیا ہے‘
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ‎﴿٦٤﴾‏ ’ اے نبی! اللہ تمہارے لیے اور اہل ایمان کے لیے کافی ہے‘
قرآن میں تیرہ مقام پر يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ کے ذریعہ خطاب کیا گیا ہے۔ اور يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ کے ذریعہ صرف دو جگہ سورۂ مائدہ میں خطاب کیا گیا ہے۔
قرآنی بیانیے میں ’عبد‘ کا لفظ بھی اپنے اندر محبوبیت کا لب ولہجہ رکھتا ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ یہ لفظ آیا ہے اور نبی (ﷺ) کے علاوہ دیگر انبیاء کے لیے بھی آیا ہے، نیز اہل ایمان اور دیگر انسانوں کے لیے بھی عبد اور عباد کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ نبی (ﷺ) کے بارے میں فرمایا: ’’سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى‘‘ ‎﴿الاسراء:١﴾‏۔’’ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ الْكِتَابَ (الکہف:۱)۔ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا‘‘ (البقرہ:۲۳) حضرت نوح (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا: ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا ‎﴿٣﴾‏، حضرت زکریا (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا: ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا ‎﴿٢﴾ حضرت خضر (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا: فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا ‎﴿٦٥﴾‏
قرآنی بیانیے میں لفظ عبد کئی طرح کے استدلال کے طور پر آیا ہے، تین مستدلات تو بہت واضح ہیں۔ ایک تو وہی محبوبیت والاستدلال ہے دوسرے الٰہ کے مقابلے میں عبد ہے اور تیسرے ابن کے مقابلے میں عبد ہے۔ یعنی اس خطاب میں اس بات کی نفی ہے کہ انبیاء میں سے کوئی اللہ کا بیٹا ہے اور اس بات کی بھی نفی ہے کہ ان میں سے کوئی قابل پرستشش ہے۔
حضرت عیسی (علیہ السلام) کے بارے میں اس لفظ کی معنویت دیکھیں: إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ ‎
﴿ الزخرف: ۵۹﴾ ’عیسیٰ ابن مریم ہمارے بندہ ہی تو تھا، جس پر ہم نے انعام کیا تھا (نبوت سے نوازاتھا) اور اسے بنی اسرائیل کے لیے (اپنی قدرت کا) نمونہ اور مثال بنایا تھا‘
حالانکہ قرآن میں لفظ ’’عبد‘‘ دوسرے معنیٰ یعنی محکوم و ماتحت اور مجبور کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوا ہے۔ سورہ مریم میں ہے: إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَٰنِ عَبْدًا ‎﴿٩٣﴾‏ آسمان وزمین میں جتنے بھی فرشتے اور جن و انس ہیں قیامت کے دن سب کے سب اللہ کے دربار میں عاجز و درماندہ ہو کر حاضر ہوں گے۔ مگر یہ لفظ جب انبیاء کرام کے لیے آتا ہے یا کسی نیک بندے کے لیے آتا ہے تو اس کے معنیٰ میں محبوبیت ہوتی ہے۔ پھر قرآن میں یہ لفظ دوسری صفات کے ساتھ بھی آیا ہے، جیسے حضرت نوح (علیہ السلام) کے بارے میں گزرا، ’’انہ کان عبدا شکورا‘‘۔۔ حضرت داؤود اور حضرت سلیمان (علیہم السلام) کے بارے میں ہے: ’اصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُودَ ذَا الْأَيْدِ إِنَّهُ أَوَّابٌ ‎﴿ص: ١٧﴾‏ وَوَهَبْنَا لِدَاوُودَ سُلَيْمَانَ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ ‎﴿ص: ٣٠﴾‏ سورۂ زمرمیں نبی (ﷺ) کے بارے میں یہ پروٹوکول بیان کیا جارہا ہے۔أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۖ ۔ ’کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟‘ پھر قرآن کا یہ اسلوب جو ’’الم تر، أم حسبت اور ارأیت‘‘ کے پیکر میں استدلالی نوعیت میں ملتا ہے، یہ بھی محبوبیت کے لیے کافی استدلال ہے۔
حالانکہ قرآن میں نبی (ﷺ) اور دیگر انبیاء کے لیے زجر و توبیخ کا بیانیہ بھی ہے: إِذًا لَّأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا ‎﴿الاسراء: ۷۵﴾‏ ’اگر تم ایسا کرتے (یعنی کفار ومشرکین کی طرف مائل ہوجاتے) تو ہم تمہیں دنیا و آخرت دونوں جگہ دگنا عذاب کا مزہ چکھاتے، پھر تم ہمارے خلاف اپنا کوئی مددگار بھی نہ پاتے‘
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ‎،‏ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ‎،‏ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ، فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ﴿الحاقہ: ٤٤-٤٧﴾’ اگر اس نے اپنی طرف سے کوئی بات گڑھ کر ہماری طرف منسوب کردی ہوتی تو ہم اسے بھی سختی سے پکڑ لیتے، پھر اس کی شہہ رگ کاٹ ڈالتے اور تم میں سے کوئی بھی ہمیں ایسا کرنے سے روک نہیں سکتا تھا‘
مگر زجر و توبیخ والے اس بیانیے سے بھی محبت کے عنصر کو منہا نہیں کیا جا سکتا۔ان آیات میں اصل مقصود زجر و توبیخ نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے ہے، اس میں نبی (ﷺ) نے کوئی ایک بات بھی اپنی طرف سے شامل نہیں کی ہے اور نہ کر سکتے ہیں۔ دراصل یہ زور بیان کے لیے ہے اور اس بیان میں قطعیت و تاکید پیدا کرنا مقصود ہے کہ یہ قرآن کسی طرح سے بھی محمد (ﷺ) کی طرف سے بنایا ہوا کلام نہیں ہے۔ اول تو انہوں نے ایسا کیا نہیں اگر بفرض محال وہ ایسا کر بھی لیتے کہ کلام اللہ میں کچھ اپنی طرف سے شامل کر دیتے تو اللہ ان سے بھی باز پرس کرتا۔
یہ اسی طرح کا تاکیدی بیانیہ ہے جس طرح کا تاکیدی بیانیہ خود رسول اللہ (ﷺ) کے کلام میں ملتا ہے جب انہوں نے اپنی چہیتی بیٹی فاطمہؓ کی طرف منسوب کرکے ایک سخت بات کہی۔’’ وايْمُ اللَّهِ لو أنَّ فَاطِمَةَ بنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا‘(بخاري) اب ظاہر ہے کہ اس بیانیے میں حضرت فاطمہؓ کو سخت سست کہنا مطلوب نہیں ہے بلکہ کلام میں زور اور تاکید پیدا کرنے کے لیے ایسا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ اسلوب کی یہ شان اور نزاکت قرآن میں بھی ہے جو نبی (ﷺ) سے تخاطب کے وقت ظاہر ہوئی ہے، بلکہ اوپر مذکور دو حوالوں میں سے دوسرے حوالے یعنی سورہ الحاقہ کی آیات میں تو تخاطب بھی دراصل کفار و مشرکین سے ہے نہ کہ رسول اللہ (ﷺ) سے؟ البتہ سورہ اسراء آیت نمبر 75’ إِذًا لَّأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ۔۔۔الخ‘ میں اگرچہ خطاب رسول اللہ (ﷺ) سے ہے مگر اس سے کفار و مشرکین کو یہ جتانا مقصود ہے کہ جن وانس، فرشے اور شیاطین میں سے کسی بھی کی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ اللہ کے کلام میں اپنی باتیں شامل کر دے، یہاں تک کہ نبی بھی ایسا کچھ نہیں کر سکتا۔ پھر اس کے بعد والی آیات میں کفار ومشرکین کے خلاف رسول اللہ (ﷺ) کی حمایت آجاتی ہے اور ساتھ ہی کفار و مشرکین کے لیے دھمکی بھرا بیانیہ بھی اور یہ تاکید بھی کہ اللہ کی سنت ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ اس نے اپنے نبیوں اور رسولوں کی ان کے مخالفین کے مقابلے میں ہمیشہ مدد کی ہے اور مخالفین کو بدترین عذاب سے دوچار کیا ہے۔ سُنَّةَ مَن قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِن رُّسُلِنَا ۖ وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلًا ‎﴿الحاقہ:٧٧﴾‏
قرآن میں چار مرتبہ محمد اور ایک مرتبہ احمد کا نام آیا ہے۔ مگر ان ناموں سے خطاب کہیں نہیں ہے۔ خطاب کے لیے عموماً نبی اور رسول کے الفاظ ہی استعمال کیے گئے ہیں۔ قرآن میں یہ دونوں نام (محمد اور احمد) کسی مسئلے کی تفہیم کے لیے ہیں یا تاریخی حوالے کے طور پر آئے ہیں۔ اللہ نے ان ناموں سے براہ راست نبی (ﷺ) کو خطاب نہیں کیا ہے۔
رسول اللہ (ﷺ) کے لیے خود اللہ جل شأنہ کے انداز خطاب کے پیش نظر یہ کہنا صحیح معلوم ہوتا ہے کہ لفظ ’قل‘ وغیرہ کے ترجمے میں ان ناموں کے ساتھ ترجمہ کرنا درست ہے، جیسے: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ‎﴿الاخلاص:۱﴾‏ کا ترجمہ اس طرح کرنا درست ہے ’اے نبی! اے رسول! اے محمد! کہہ دو کہ اللہ ایک ہے‘۔ پھر اس میں تین پہلو آجاتے ہیں۔ ایک یہ کہ رسول اللہ (ﷺ) اپنی ذات کی سطح پر بھی اقرار کریں کہ اللہ ایک ہے، دوسرے یہ کہ لوگوں کو جتلا دیں کہ اللہ ایک ہے اور تیسرے یہ کہ اب قیامت تک جو بھی قرآن کی تلاوت کرے تو وہ اپنے دل میں گواہی دے کہ اللہ ایک ہے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے۔’قل‘ کے ذریعہ تخاطب اگرچہ رسول اللہ (ﷺ) سے ہے مگر امت دعوت کا ہر فرد بھی اس تخاطب میں شامل ہے۔
قرآن کا ترجمہ کرتے وقت مترجم کے لیے اپنے ذہن میں مخاطِب (اللہ) اور مخاطَب (رسول اللہ) دونوں کی جو انفرادی عظمت وشان ہے اس کا بھی لحاظ رکھنا ضروری ہے، پھر ان دونوں کے درمیان تعلق کی جو نوعیت ہے اس کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ اگر ہم قرآن کے بیانات اور اسلوب پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اللہ اور اس کے رسول کے مابین تعلق کی نوعیت بیک وقت خالق ومخلوق، عابد و معبود اور حبیب و محبوب کی ہے۔ نبی (ﷺ) اللہ کے بندے (انسان) ضرور ہیں مگر اس کے تمام بندوں میں سب سے افضل اور محبوب ہیں۔ اس نسبت میں محبت و اپنائیت خود بخود آجاتی ہے لیکن جب بات پروٹوکول کی آتی ہے تو اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے۔۔۔۔۔وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ ‎﴿آل عمران: ١٤٤﴾‏…اور بات جب اصولوں کی آجاتی ہے تو اللہ اپنے حبیب کو یوں بھی خطاب کرتا ہے۔۔عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ ‎،‏ أَن جَاءَهُ الْأَعْمَىٰ ‎﴿سورہ عبس:۲﴾‏اور۔۔ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ..الخ ﴿الحاقہ: ٤٤-٤٧﴾ جب نبی (ﷺ) کو پروٹیکشن دینے کی بات آتی ہے تو اللہ فرماتا ہے: مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ‎﴿الأحزاب: ٤٠﴾‏۔جب حوصلہ دینے کی بات آتی ہے تو فرماتا ہے: مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ ‎﴿الضحی:۳﴾اور جب اپنائیت کے اظہار کی بات آتی ہے تو ارشاد ہوتا ہے: أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ ‎﴿الشرح:۱﴾‏ ، پھر جب فرض یاد دلانے کی بات آتی ہے تو یوں خطاب ہوتا ہے: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ، قُمْ فَأَنذِرْ،وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ‎﴿المدثر:۱-٣﴾
لہذا دونوں (اللہ اور اس کے رسول) کی اپنی اپنی شان اور ان کے مابین تعلق کی نوعیت کی وجہ سے خطاب کا جو انداز ہوگا وہ انسانوں کے تمام طرح کے مخاطبہ اور انداز سے مختلف ہوگا۔ مثلا والدین اپنی اولاد کو، بچے اپنے والدین کو، اساتذہ اپنے شادگردوں کو اور شاگرد اپنے اساتذہ کو، مالک اپنے ملازمین کو اور بادشاہ اپنے وزراء اور خدام کو جس انداز میں خطاب کریں گے، ان سب کے انداز ایک دوسرے سے جداگانہ اور مختلف ہوں گے۔ پھر ان کا اختلاف ان لوگوں کا آپسی افہام اور آپسی میل محبت اور عداوت ورنجشوں کی بنیاد پر بھی مختلف ہوگا۔ اگر استاد اور طالب علم کے درمیان ذہنی ہم آہنگی ہوگی اور باہم محبت ہوگی تو ان کے درمیان گفتگو کا انداز دوسرا ہوگا، حتی کہ لب ولہجہ دوسرا ہوگا، اور اس کی مخالف صورت میں دوسرا انداز ہوگا۔ اسی طرح ناراضیوں اور خوشیوں کے مواقع پر خطاب اور گفتگو کا انداز مختلف ہوگا۔
بعض تراجم پڑھتے وقت محسوس ہوتا ہے کہ مترجم مخاطَب کے لیے اپنی محبت اور جذبات کو بھی درمیان میں لے آتا ہے اور مخاطب کے لب ولہجے اور زبان میں اپنی عقیدت اور مذہبی جوش وجذبے کو شامل کر دیتا ہے۔ پھر زبان کے اپنے لب ولہجے اور صوت وآہنگ کا بھی اثر پڑتا ہے، زبانوں کے درمیان حسن ولطافت اور حساسیت میں فرق ہوتا ہے، بعض زیادہ شائستہ اور شیریں ہوتی ہیں جبکہ بعض اتنی زیادہ شریں وشائستہ نہیں ہوتیں۔اس صورت حال میں جب قرآنی آیات کا اردو یا کسی اور زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے تو اسلوب کی سطح پر بہت کچھ بدل جاتا ہے۔
عربی میں کسی کو خطاب کرنے کے لیے ایک ہی صیغہ ہے ’انت‘ دوسرے صیغے ’انتما‘ اور ’انتم‘ تثنیہ اور جمع کے لیے ہیں، یعنی ایک سے زائد لوگوں کے لیے ہیں، پھر مذکر ومؤنث کے لیے الگ الگ صیغے ہیں، انتِ، انتما اور انتنَّ۔ البتہ کبھی کبھی بزرگی وشان کو بتانے کے لیے واحد کو بھی جمع کے صیغے سے مخاطب کر دیا جاتا ہے، ’’این انت‘‘ تم کہاں تھے، اب مخاطب چھوٹا ہویا بڑا سب کے لیے ایک ہی صیغہ ہے۔ مگر اردو میں اس کے لیے تین تین صیغے ہیں تو، تم اور آپ۔ پھر ان کے محل استعمال بھی الگ الگ ہیں۔ نبی (ﷺ) کے ساتھ خطاب کرتے وقت اللہ کا جو انداز، رویہ، اسلوب اور نفسیات ہوسکتی ہیں ان کا پورا پورا لحاظ ترجمے میں ہو تو بہت اچھا ہے۔ مترجم خود کو اپنے مزاج کو اور نبی (ﷺ) کے ساتھ اپنی عقیدت ومحبت کو ترجمے میں گھسانے سے پرہیز کرے۔
مترجم کو سب سے اہم بات جو پیش نظر رکھنی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے الفاظ، خطاب، اسلوب، پیار و محبت اور زجرو توبیخ کو دوسری زبان میں نقل کر رہا ہے، تو مترجم کو چاہیے کہ وہ ان تمام صفات، انفرادیت اور خصوصیات کو من وعن منتقل کرے۔ اپنی طرف سے اپنے مدعا، نظریے اور نرمی وسختی یا محبت وعقیدت کو ترجمہ میں شامل نہ کرے۔ مترجم اگر ان لوگوں کے حوالے سے کسی درجے میں متشدد ہے جن پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے، تو وہ لامحالہ ان کے تئیں اپنے ناپسندیدہ جذبات کو بھی ترجمے میں شامل کر دے گا یا پھر کسی مترجم کو اللہ کے نیک بندوں اور ولیوں سے حد درجے محبت اور عقیدت ہے تو وہ اپنی عقیدت و محبت کو ترجمے میں شامل کر دے گا۔ اس طرز اظہار سے حتی الوسع احتراز لازمی ہے۔ خود اللہ اپنے نبیوں کو، اپنے محبوب بندوں کو، منکرین حق کو یا اپنے یا اپنے نبی کے دشمنوں کو جس سطح سےخطاب کر رہا ہے، مترجم کو بھی چاہیے کہ وہ اس معنوی سطح کو برقرار رکھیں۔
جب اللہ جل شأنہ ساری کائنات کا بلا شرکت غیر خالق ومالک اور مدبر و منتظم ہے تو اس کی شان میں اور پھر شان خطابت میں بھی وہی عظمت وبلندی اور شان وشوکت ہوگی۔ خود پیغبرانہ خطاب میں بلند آہنگی، عزم واستقلال اور علو شان پایا جاتا ہے، تو اللہ کی شان خطابت کی عظمت کتنی بلند ہوگی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ایک شخص ہے جسے کسی چیز کے بارے میں حتمی علم نہیں ہے تو اس کا بیان، انداز اور اسلوب الگ ہوگا اور ایک دوسرا شخص ہے جو اسی چیز کے بارے میں یقین کے اعلی درجے پر ہے اس کا اسلوب، انداز اور بیان الگ ہوگا۔ آپ دیکھیں گے کہ ایک ہی چیز کی تعریف یا سراپا بیان کرنے میں دونوں کا جوش خطابت، اعتماد، تیقن اور پھر اظہار کی سطح پر الفاظ کا انتخاب جملوں کی بندش، لب ولہجے کی شان اور صوت و ردھم سب کچھ الگ اور مختلف ہوگا۔ آپ دیکھیں گے کہ پہلے شخص کے بیان میں اگر مگر، شاید واید، ممکن ہے، ہو سکتا ہے اور میں یقین سے نہیں کہہ سکتا جیسے الفاظ اور جملوں کی کثرت ہو گی، بیان مہمل، گنجلک اور بے اثر ہوگا، استدلال بودے ہوں گے، الفاظ اور ان کے مدلولات اور مصداقات میں تال میل کم ہوگا، وہ کوئی بات بھی مکمل صراحت اور کامل یقین کے ساتھ نہیں کہہ پائے گا جبکہ دوسرے شخص کے بیان میں یقین کی کیفت اعلی درجے پر ہوگی، اس کا لب ولہجہ پختہ اور مؤثر ہوگا، الفاظ خوبصورت ہوں گے،بات مختصر اور مکمل ہوگی، استدلال دل و نگاہ کو اپیل کرنے والا ہو گا، سب سے بڑھ کر اس کی جو قوت اظہار ہوگی وہ غیر معمولی ہوگی۔ ذرا ایک نظر قرآن کے بیانیے پر ڈالیے:
هُوَ اللَهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۖ هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِيمُ ‎،‏هُوَ اللَهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ،هُوَ اللَهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُالْحُسْنَىٰ ۚ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (‎الحشر:٢٤-٢٢﴾‏
دیکھیے کتنی رفعت وعظمت اور کس قدر پرشکوہ شان ہے اس بیانیے میں، نہ معانی میں کوئی شک ہے اور نہ اظہار میں کچھ لچک ہے۔ مختصر اور جامع ترین بیانیہ ہے، ایسا بیانیہ جو سورج اور چاند سے بھی زیادہ ظاہر وباہر معانی اور حقیقت کو واضح کر رہا ہے۔

 

***

 بعض تراجم پڑھتے وقت محسوس ہوتا ہے کہ مترجم مخاطَب کے لیے اپنی محبت اور جذبات کو بھی درمیان میں لے آتا ہے اور مخاطب کے لب و لہجے اور زبان میں اپنی عقیدت اور مذہبی جوش وجذبے کو شامل کر دیتا ہے، پھر زبان کے اپنے لب ولہجے اور صوت وآہنگ کا بھی اثر پڑتا ہے، زبانوں کے درمیان حسن و لطافت اور حساسیت میں فرق ہوتا ہے، بعض زیادہ شائستہ اور شیریں ہوتی ہیں جبکہ بعض اتنی زیادہ شریں وشائستہ نہیں ہوتیں۔ اس صورت حال میں جب قرآنی آیات کا اردو یا کسی اور زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے تو اسلوب کی سطح پر بہت کچھ بدل جاتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 جون تا 24جون 2023