ڈاکٹر ساجد عباسی
ارشادِ نبوی ہےان اللہ یرفع بھذا الکتاب اقواما و یضع بہ آخرین۔بے شک اللہ اقوام کو اس کتاب کے ذریعے اٹھاتا ہے اور اسی کتاب کے ذریعے گراتا ہے۔ (مسلم) اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جو قوم بھی حامل قرآن ہوگی اور حامل قرآن ہونے کا حق ادا کرے گی اللہ تعالیٰ اس قوم کو بامِ عروج پر پہونچا دیتا ہے اور جو قوم حاملِ قرآن ہوکر بھی اس کا حق ادا نہ کرے اس کو اللہ تعالی اقوام عالم میں پست کر دیتا ہے۔
اگر ہم امّتِ مسلمہ کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہمارے مسلم معاشرے میں قرآن پڑھنے پڑھانے والوں کی کمی نہیں ہے لیکن امّت مسلمہ کی حالتِ زارجوں کی توں ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم قرآن کو سمجھ کر نہیں پڑھتے اس کے نورِ ہدایت سے اپنی انفرادی زندگی کو اور معاشرے کو مزیّن و منوّر نہیں کرتے اور نہ ہی اس نور کو سارے عالم میں پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے کہ تاریکیوں میں بھٹکتی ہوئی انسانیت اس نورِ ہدایت سے فیض یاب ہوتی۔قرآن کتابِ ہدایت ہونے کے ساتھ کتاب دعوت بھی ہے۔ اسی بات کو قرآن میں اس طرح ارشاد فرمایا:فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا ۲۵:۵۲پس اے نبی کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ زبردست جہاد کرو۔ (سورۃ الفرقان ۵۲)
قرآن میں اسی ایک مقام پر جہادِ کبیر کا ذکر آیا ہے۔ جہاد کبیر سے مراد سب سے بڑا جہاد ہے۔ یہاں قرآن کے ذریعے جہاد کبیر کرنے سے مراد ہے قرآنی عقائد، افکار و نظریات کی اشاعت کرنا اور قرآنی دلائل کو مشرکانہ و ملحدانہ افکار کے مقابلے میں ان کے ابطال کے لیے پیش کرنا ہے۔ اس سے مراد وہ انتہائی جدوجہد بھی ہے جو فکری میدان میں کی جائے جس سے جہاں باطل عقائد و افکار سے دنیا میں فساد فی الارض رونما ہو چکا ہے ،انسانوں کے قلوب و اذہان میں دنیا و آخرت کی تعمیر کرنے والے افکار سے ایک صالح انقلاب برپا ہو۔ اسی طرح کا انقلاب عرب کی سرزمین میں قرآن کی تعلیمات کی بدولت برپا ہوا تھا جس کو حالی نے اس شعر میں یوں کہا ہے:
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
آج بھی قرآن دنیا میں ایک صالح انقلاب لانے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے لیکن ہم میں سے بیشتر نے اس کو بلا سمجھے ناظرہ پڑھنے اور بلا سمجھے حفظ کرنے پر اکتفا کرلیا ہے تاکہ اس سے ثواب حاصل کریں اور بس۔ لیکن قرآن صرف اسی لیے تو نازل نہیں ہوا تھا بلکہ اس مقصد کے لیے نازل ہوا تھا کہ اس نورِ ہدایت سے لما فی الصدور اور ساری دنیا کے امراض کا علاج کیا جائے اور دنیا کو قرآن کی روشنی میں جنّت نظیر معاشرے کا ایک نمونہ دکھلا دے۔ یہی وہ منصب ہے جس کا حق ادا کرنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ امّت مسلمہ کو بامِ عروج پر پہونچائے گا۔قرآن ایک ایسی بابرکت کتاب ہدایت و دعوت ہے کہ جو بھی اس سے وابستہ ہوا اس کو دنیا میں مقامِ بلند حاصل ہوا اور اس کو سرداری و سرفرازی سے نوازا گیا۔ لیکن آج دنیا کا منظر نامہ کچھ الگ ہی تصویر پیش کررہا ہے۔ آج امّت مسلمہ جہاں اقلیت میں ہے وہاں بھی اس کی خیر نہیں ہے اور جہاں اکثریت میں ہیں وہاں بھی وہ وسائل کی فراوانی کے باوجود اسلام دشمن عالمی طاقتوں کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے ۔اس صورتحال کی واحد وجہ یہی ہے کہ یہ امّت حامل قرآن ہوکر بھی کتمانِ حق کی مجرم ہوئی ہے۔ قرآن کے حقوق کی ادائیگی کو مقامِ عروج پر پہونچنے کا ذریعہ بتلاکر حقوقِ قرآن کو ناظرہ یا حفظِ سے محدود کر دیا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے امّت کےسارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ قرآن کس طرح ہمیں عزّت و سر بلندی عطا کرتا ہے اس کو سمجھنے کے لیے دور رسالت میں جاکر دیکھنا پڑے گا۔ اس دور میں قرآن کتاب ہدایت ہونے کے ساتھ کتابِ دعوت بھی تھا۔ قرآن کی آیات جیسے جیسے نازل ہوتی رہیں ویسے ویسے ان کو دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ لوگ قرآن کی آیات کو یاد کرتے اور اپنے دوست احباب میں حتیٰ کے دشمنوں میں بھی اس کو پیش کرتے۔ قرآن دعوت الی اللہ کا ایسا ہتھیار تھا جسے سن کر کفّار مکّہ لا جواب ہو جاتے تھے اور اس کا مقابلہ کرنا ان کے بس کی بات نہیں رہی تھی جبکہ دوسری طرف اسی قرآن کو سن کر سلیم الفطرت لوگ حلقہ بگوش اسلام ہو جاتے تھے۔قرآن دعوت الی اللہ کا بہترین ذریعہ اور ہتھیار بھی تھا اور اسلام کی طاقت میں اضافے کا ذریعہ بھی۔ چنانچہ آج بھی مسلمانوں کو عزّت اور طاقت قرآن کے ذریعے ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔ طاقت حاصل کرنے اور مضبوط بننے کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن کو کتاب دعوت بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ کیونکہ یہی وہ کتاب ہے جس میں دنیا کے تمام انسانوں کے دکھوں کا بھی حل ہے اور ان کی اخروی نجات کی ضمانت بھی۔ دورِ نبوّت کا یہ ماڈل جب تک اختیار نہیں کیا جائے گا وہ حقیقی پراسس شروع نہیں ہوگا جس سے مسلم امّت کی سربلندی کا آغاز ہوگا۔عام طور پر اٰل عمران کی یہ آیت امّت مسلمہ میں نئی امید پیدا کرنے کے لیے پیش کی جاتی ہے۔وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۳:۱۳۹دل شکستہ نہ ہو ، غم نہ کرو ، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔عام طور پر اس آیت کو پیش کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ امّت مسلمہ کے غلبے کو ایمان سے مشروط کیا گیا ہے۔ لیکن ایمان کے تقاضوں کو تفصیل سے بیان نہیں کیا جاتا۔ ایمان کے تقاضوں میں سے وہ تقاضے جو عمل صالح کے ساتھ دعوت الی اللہ سے متعلق ہیں وہ بیان نہیں کیے جاتے جس سے عام لوگ سمجھتے ہیں کہ جب ہم نیک بن جائیں گے تو غلبۂ اسلام ہمارا منتظر رہے گا۔قران میں اس کو قولِ فیصل اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ ایسا کلام ہے جس سے اقوامِ عالم کی قسمت جڑی ہوئی ہے۔ جس سے اس امّت کا عروج و زوال بھی وابستہ ہے۔ اب یہ امّت مسلمہ کا اختیار ہوگا کہ وہ اس دنیا میں عزّت و سر بلندی چاہتی ہے یا ذلّت و رسوائی؟ اگر عزّت و سربلندی مطلوب ہو تو چاہیے کہ قرآن کو اپنی زندگیوں کے لیے کتابِ ہدایت بنالیں اور اقوام عالم کےلیے کتابِ دعوت بنائیں اور اس کو لے کر دنیا پر چھاجائیں۔ لیکن آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم ساری دنیا کے مسائل کی کنجی اپنی جیب میں رکھ کر دنیا کے سامنے بھیک کا کٹورا لیے ہوئے کھڑے ہیں مسائل کا حل رکھنے والے دنیا والوں کے سامنے خود ایک مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔قوموں کے عروج و زوال کے سلسلے میں اللہ کی جو سنّت ہے وہ یہ ہے کہ دو قوموں میں فتح اس قوم کو ہوتی ہے جو بنیادی انسانی اخلاقیات میں دوسری قوم سے بہتر ہوتی ہے اگر دونوں فوجی و عسکری لحاظ سے یکساں ہوں۔ جنگی ساز و سامان کی کمی کی تلافی بھی اخلاقی تفوّق سے ہو سکتی ہے لیکن امّت مسلمہ کے سلسلے میں اللہ کی سنّت ذرا مختلف ہے۔ امّت مسلمہ کے لیے عروج و زوال کا سارا معاملہ اس بات پر ہے کہ یہ قرآن کے ساتھ کیا معاملہ کرتی ہے۔ اس کو اقوامِ عالم کے سامنے پیش کرتی ہے یا کتمانِ حق کی مرتکب ہوتی ہے۔ یہ امت جب تک اتمامِ حجّت کی حد تک دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام نہیں دیتی اللہ کے نزدیک مسئول ہوگی اور یہ اسی وقت بری ہوگی جب وہ کتمانِ حق کے بجائے شہادتِ حق کی راہ اپنائے گی۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 ستمبر تا 23 ستمبر 2023