
قرآن اوردینیات پڑھانے والے اہل علم کی اہمیت اور ذمہ داریاں
الحاد کے بڑھتے سائے میں علماء ،دعاۃ ،والدین اور سرپرست حضرات کی خصوصی توجہ لازمی
ابوفہد ندوی، نئی دہلی
موجودہ وقت میں مسلمانوں کے زیادہ تر بچے سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں اور صرف دو چار فیصد ہی مدارس کی طرف آتے ہیں، سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں انہیں اسلامی تعلیمات نہیں ملتیں، اس کے برعکس الحاد ودہریت کی باتوں اوراعمال سے ہی سابقہ زیادہ پڑتا ہے۔ دوسری طرف اب گھروں کا ماحول بھی اسلامی یا مذہبی نہیں رہا اور اگر کسی نہ کسی درجے میں گھروں کا ماحول اسلامی ہے بھی تو بچوں کو پڑھانے اورسکھانے کا ماحول تقریباًختم ہوگیا ہے کیونکہ والد کواپنے کام سے فرصت نہیں اور ماں کو اس کی گھرگرہستی گھیرے رکھتی ہے۔ اور جہاں تک گھر کے دوسرے افراد کی بات ہے جیسے بھائی بہن چاچا اور پھوپھی وغیرہ تو ان کے بھی اپنے اپنے کام ہیں اور فرصت ان کے لیے بھی عنقا ہے۔ فرصت تو خیر ان کے پاس بھی نہیں ہے جن کی زیادہ کمائیاں نہیں ہیں اور بڑے کاروبار نہیں ہیں۔ عدیم الفرصتی کا عذر تو ہر ایک کے پاس ہے۔
اور اب تو نیوکلیر فیملیز کا زمانہ ہے، خاص کرمیٹروپولیٹن شہروں میں نیوکلیر فیملیز کا چلن عام ہے،ایسی فیملیز میں بچوں کو دادا دادی، نانا نانی، خالہ وپھوپی اور چچا وغیرہ کی صحبتیں نہیں ملتیں، اور اگر ملتی بھی ہیں تو بے فیض ملتی ہیں، اب نہ تو گھر کے بڑے اپنی صحبتوں سے فیض پہنچانے والے رہے اورنہ ہی چھوٹے فیض پانے اور اٹھانے والوں میں سے ہیں، خاص طورپر دینی امورومعاملات میں۔ ع:
"نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں”
اوراب تو بیشترگھروں میں بچوں کو نانی ودادی بھی انہیں نبیوں اور بزرگوں کے قصے نہیں سناتیں، ایک تو اس وجہ سے کہ وہ ان کے ساتھ نہیں رہتیں، بلکہ دور دراز کے گاؤں میں رہتی ہیں اور دوسرے اس وجہ سے بھی کہ جب خود انہی کو اسلامی تعلیمات کا بہت زیادہ اتہ پتہ نہیں ہے تو وہ اپنے بچوں کو کہاں سے اورکیسے کچھ بتا اورسکھاپائیں گی۔
پھر آج کی دوڑتی بھاگتی دنیا میں بچوں کے پاس عصری تعلیم کا کافی زیادہ بوجھ ہے، بھاری بھرکم سلیبس ہے، کئی طرح کے کورسس ہیں، نئے نئے ہنر ہیں، پھر کمپٹیشن اور مقابلہ آرائی کے اس دور میں ان کے لیے ملٹی ٹیلینٹیڈ ہونے کی مجبوریاں ہیں،اس پر مستزاد شو بز کی دنیا کی رنگینیاں ہیں،ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے جلوے ہیں، پھر ذاتی اعتبار سے لڑکپن کی اٹکھیلیاں اورنوجوانی کی سرمستیاں ہیں۔ اس لیے آج کی ڈیجیٹلائز زندگی میں بچوں کے لیے دین وایمان اورصحت وعرفان کے مسائل پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔
پھرمستزاد برآں یہ کہ ایک طرف وقت میں کمی ہورہی ہے، کیونکہ انسان کی اوسط عمر گھٹ رہی ہے اوردوسری طرف کام کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے، چیلنجیز ٹف سے ٹف ہوتے جارہے ہیں، مہنگائی انسان کی قوتِ خرید سے آگے بھاگی جارہی ہے اور خواہشات اور آرزوئیں مہنگائی سے بھی آگے نکلی جارہی ہیں، گویا دونوں میں ہوڑ لگی ہوئی کہ کون کس سے آگے نکل جائے۔
ایسی ست رنگی اور نیرنگی دنیا میں دوڑتی بھاگتی اور گرتی پڑتی نئی جنریشن کے بچوں کو پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ جوانی کدھر گئی اور بڑھاپا اچانک کہاں سے آنکلا۔ بہت سارے مسلمان جب اپنے اعصاب پر بڑھاپے کی دھمک محسوس کرتے ہیں تب اچانک انہیں آگاہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے نقرئی خوابوں کی دنیا بنانے اور کمانے کی دوڑ دھوپ میں مسلمان ہونے کے فرائض اورتقاضوں سے بے خبر اور بے بہرہ رہ گئے ہیں، حتیٰ کہ بعض مسلمان توعمر کے آخری پڑاؤ پر جاکر ناظرہ قرآن پڑھنا سیکھتے ہیں۔ یہ جذبہ اور کوشش بہر کیف اچھی اور خوش آئند سہی مگراس سے مافات کی بھرپائی نہیں ہوسکتی۔ دنیا کمانا بھی بے شک غلط نہیں ہے لیکن اگر یہ دین وآخرت اور آپس کی بھلائی اور خیر خواہی کی قیمت پرہو تو بہرحال خسارے کا سودا ہے اور”ان الانسان لفی خسر” کے عملی اور یقینی انطباق کے مصداق ہے۔
ان حالات میں دینی تعلیم وتربیت کی ذمہ داریاں اٹھانے والوں اورچھوٹے بڑے شہروں میں قائم چھوٹے بڑے مدارس، مکاتب اور مساجد سے ملحق مکاتب کا نظام، گھر گھر جاکر قرآن ودینیات کی ٹیوشن دینے والے ائمہ مساجد اور دیگر علماء و حفاظ کرام اور پھرآن لائن دینی کورسس چلانے والے علماء وفضلاء کی اہمیت اور ذمہ داریاں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔
اور پھر جب آج کے مخصوص حالات میں دین کی نشرو اشاعت کا کام کرنے والے اداروں اور افراد پر میڈیا اور سرکار کی طرف سے مسلسل یلغار ہورہی ہے، بہت زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام اداروں کو حتی الوسع کمک پہنچائی جائے اور مال ودولت اور زبان وقلم ہر طرح سے ان کے لیے سہارا اور پشتیبان بننے کی کوشش کی جائے، انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی۔ کیونکہ انہی اداروں اور انہی افراد کی چھوٹی بڑی کوششوں پر دین وایمان کی بقاکا انحصار ہے۔
تاہم اس سے بھی آگے کی جو بات ہے وہ یہ ہے کہ دین کی نشرواشاعت کا کام کرنے والے ادارے اور ان اداروں کو چلانے والے علماء بھی وقت اور حالات کی نزاکتوں کو سمجھیں، اپنے آپ کو اعلیٰ اخلاق سے مزین کریں، علم میں رسوخ پیدا کریں اور امت کو مسلک ومشرب کی تفریق کی طرف نہ لے جائیں۔ جہاں تک ہوسکے اور جب تک زندہ رہیں تب تک اختلاف اور انتشار سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائے رکھنے کے جتن کرتے رہیں۔ جب علماء خود صحیح ہوں گے تو امت کا ان کے لیے رویہ اور رجحان بھی خود بخود صحیح ٹریک پر آجائے گا، ان شاء اللہ۔
(مضمون نگار سےرابطہ 9810757442:)
***
دین کی نشرواشاعت کا کام کرنے والے ادارے اور ان اداروں کو چلانے والے علماء بھی وقت اور حالات کی نزاکتوں کو سمجھیں، اپنے آپ کو اعلیٰ اخلاق سے مزین کریں، علم میں رسوخ پیدا کریں اور امت کو مسلک ومشرب کی تفریق کی طرف نہ لے جائیں۔ جہاں تک ہوسکے اور جب تک زندہ رہیں تب تک اختلاف اور انتشار سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائے رکھنے کے جتن کرتے رہیں۔ جب علماء خود صحیح ہوں گے تو امت کا ان کے لیے رویہ اور رجحان بھی خود بخود صحیح ٹریک پر آجائے گا، ان شاء اللہ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 مئی تا 24 مئی 2025