قیام عدل و قسط: پانچویں کل ہند اجتماعِ ارکان جماعت اسلامی ہند کا مرکزی موضوع
اقامتِ دین کا نصب العین، عدل و انصاف کی بنیاد
ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد
عالمی بصیرت، مقامی اقدام: صالح انقلاب کی مؤثر حکمت عملی
امتِ مسلمہ کا مقصدِ وجود جہاں دعوت الی اللہ ہے، وہیں عدل و قسط کا قیام اور ظلم کے خلاف مزاحمت بھی اس کا فریضہ ہے، جو اقامتِ دین کا حصہ ہے۔
۱۵ تا ۱۷ نومبر ۲۰۲۴ منعقد ہونے والے کل ہند اجتماعِ ارکان کے لیے شہر حیدرآباد میں وادی ہدیٰ میں ایک چھوٹی سی خوبصورت بستی بسانے کے تمام انتظامات مکمل ہو چکے ہیں۔ امید ہے کہ یہ تین روزہ پروگرام ارکانِ جماعت کے اندر ایمان افروز دروس و تقاریر کے ذریعے ایمان کو جِلا بخشنے اور ان میں تحریکی شعور پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔ یہ اجتماع ملک بھر سے آنے والے ارکان کو آپس میں ملنے، اپنے مقامی چیلنجوں کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے تجربات سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرے گا۔ عموماً تجارتی مقاصد کے لیے نمائشیں لگائی جاتی ہیں، جبکہ اس اجتماع میں ایک تحریکی نمائش کا اہتمام کیا گیا ہے جس کے ذریعے ارکان کی منفرد صلاحیتوں اور تجربات کو "ادراک تحریک شوکیس” کے نام سے پیش کیا جائے گا۔ ہر ریاست کی الگ خصوصیات کے لحاظ سے تحریکی اہداف کے حصول میں ہونے والی پیش رفت کو چارٹس اور ماڈلز کے ذریعے دکھایا جائے گا۔ اس اجتماع میں تقریباً اٹھارہ ہزار ارکانِ جماعت شرکت کریں گے جن کے لیے قیام و طعام کی سہولتوں کے ساتھ ایک بستی بسائی گئی ہے۔ غیر ارکان، شرکاء کے مخصوص پروگراموں کے علاوہ اس بستی کو دیکھ سکتے ہیں جہاں کھانے پینے اور کتابوں کے اسٹالز بھی ہوں گے۔ سولہ نومبر کو شام چھ بجے سے ساڑھے نو بجے شب کیڈر کنونشن منعقد ہوگا، جس میں شرکاء اسلامی نمائش (ادراک تحریک شوکیس) سے بھی مستفید ہو سکیں گے۔ اس طرح یہ ایک خوبصورت اسلامی میلہ ہوگا۔ بچوں کے کھیلنے کے لیے ایک باغ بنایا گیا ہے، پہاڑی ٹیلوں پر قرآنی آیات لکھی ہوئی نظر آئیں گی اور پہاڑوں سے آبشاریں بہتی دکھائی دیں گی۔ داخلے کے لیے تین گیٹ بنائے گئے ہیں۔
اس اجتماع کا مرکزی موضوع "عدل و قسط کا قیام” ہے۔ اس حوالے سے امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے بتایا کہ اس اجتماع کا مقصد ارکانِ جماعت میں عدل و قسط کا شعور پیدا کرنا ہے۔ جہاں امتِ مسلمہ کا مقصدِ وجود دعوت الی اللہ ہے، وہیں عدل و قسط کا قیام اور ظلم کے خلاف مزاحمت بھی اس کا فریضہ ہے، جو کہ اقامتِ دین کا حصہ ہے۔
اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ کائنات کی سچائیوں کو تسلیم کریں اور ان کے مطابق عملی رویہ اختیار کریں۔ دنیا کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق، مالک، حاکم اور رب ہے۔ اس سچائی کو تسلیم کرنے اور اللہ پر ایمان لانے کے بعد اس کی کامل اطاعت و فرماں برداری مطلوب ہے۔ اس اطاعت کے پیچھے روحانی اور اخلاقی جذبات ہوتے ہیں، جیسے اللہ کے کمالات پر اس کی تعریف، اس کی نعمتوں پر شکر، اس سے شدید محبت، اس کے فیصلوں پر اطمینان، صبر و توکل اور یہ یقین کہ اس کا ہر کام اعلیٰ حکمت پر مبنی ہے اور اس کی رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔ ان جذبات کے ساتھ کی جانے والی اطاعت کو عبادت سے تعبیر کیا گیا ہے، جو انسان کی تخلیق کا مقصد ہے۔
امتِ مسلمہ کے افراد کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ اللہ کے پیغام کو انسانوں کے سامنے پیش کریں اور اپنے عمل سے اسلام کی حقیقی نمائندگی کریں۔ اللہ کی عبادت، دعوت الی اللہ اور اقامت دین کی راہ میں کئی موانعات موجود ہیں۔ چونکہ دنیا میں انسانوں کو امتحان کے لیے فکر و عمل کی آزادی دی گئی ہے، اس آزادی کے غلط استعمال سے ظلم، سرکشی اور فتنہ و فساد کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ شر کے اس امکان کو اللہ کی تخلیقی اسکیم کا لازمی حصہ بنایا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے احکامات میں سے ایک یہ ہے کہ ظلم کو ختم کر کے عدل کو قائم کیا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا میں دو طرح کی قوتیں کام کر رہی ہوتی ہیں: ایک طرف حق کے علم بردار ہیں جو حق کی دعوت دیتے ہیں، نیکیوں کی تلقین اور برائی سے روکتے ہیں اور عدل و قسط کے قیام کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری طرف باطل کے علم بردار ہیں، جو اپنے مفادات کی خاطر ظلم اور فریب کے ذریعے دنیا میں ناانصافی اور استبداد قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اس طرح حق و باطل کی ان قوتوں کے درمیان مسلسل جدوجہد جاری رہتی ہے۔ حق کا غلبہ اصلاح کی ضمانت ہے، جبکہ باطل کا غلبہ فتنہ و فساد کا موجب بنتا ہے۔
اہلِ ایمان کے لیے قرآن میں دو محاذ متعین کیے گئے ہیں: فکری اور عملی۔ فکری محاذ پر حق کو مدلل طریقے سے پیش کرنے کو دعوت الی اللہ، شہادت علی الناس، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور تواصی بالحق سے تعبیر کیا گیا ہے۔ عملی محاذ پر جدوجہد کو اصلاح فی الارض، نفاذ شریعت و اقامت دین اور ظلم کے استیصال سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے انتھک جدوجہد، جسے اسلامی اصطلاح میں جہاد کہا جاتا ہے وہمطلوب ہے۔ ضرورت پڑنے پر قتال بھی کیا جا سکتا ہے، جس کا مقصد دنیا میں عدل و انصاف کا قیام ہے۔
انبیا و رسل کا مشن یہ تھا کہ جہاں وہ حق کو پیش کریں، وہاں وہ نظام عدل و قسط کو قائم کرنے اور اس کے محافظ بنیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ” (سورۃ الحدید:۲۵)
اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ رسولوں کو روشن نشانیوں کے ساتھ بھیجا گیا تاکہ وہ اللہ کی ہدایت کو لوگوں کے سامنے پیش کریں اور جو میزان یعنی شریعت ان کو دی گئی تھی، اس کی بنیاد پر عدل و انصاف قائم کریں۔ اللہ تعالیٰ نے لوہے کو بھی نازل کیا جس میں قوت اور انسانوں کے لیے بے شمار فوائد ہیں۔ لوہے سے جنگی آلات بنائے جاتے ہیں جو حق و باطل کے معرکوں میں استعمال ہوتے ہیں، اور صنعتی ترقی میں بھی اس کا بڑا کردار ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقصد یہ ہے کہ حق و باطل کی اس کشمکش میں یہ جانچ ہو کہ کون حق کے ساتھ ہے اور کون باطل کے ساتھ۔ چنانچہ فرمایا:
"وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الأَرْضُ وَلَـكِنَّ اللّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ” (سورۃ البقرہ: ۲۵۱)
اللہ تعالیٰ زمین پر فساد سے بچانے کے لیے انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے کے ذریعے ہٹاتا رہتا ہے، جو اس کا بڑا فضل ہے۔
اسلامی مملکت کے داخلی و خارجی معاملات میں عدل و قسط کے قیام کے لیے قرآن کا اصول یہ ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ لِلّهِ شُهَدَاء بِالْقِسْطِ وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ” (سورۃ المائدہ: ۸)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھرجاو۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈرکر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے‘‘۔
اہلِ ایمان کو حکم دیا جا رہا ہے کہ انفرادی سطح پر اور اجتماعی معاملات میں انصاف پر قائم رہیں، چاہے عدل و انصاف خود ہمارے مفاد کے خلاف ہو۔ کسی گروہ کی دشمنی ہمیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ ہم انصاف کا دامن چھوڑ بیٹھیں۔ (سورۃ النحل آیت نمبر ۹۰) جو ہر خطبہ جمعہ کے آخر میں پڑھی جاتی ہے، اس میں عدل و احسان کا حکم دیا گیا ہے: إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاء ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ۔ اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی اور بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو۔
جس زمانے میں کثرتِ ازدواج کی کوئی حد نہیں تھی، اسلامی شریعت میں اس کو چار کی تعداد سے محدود کیا گیا اس شرط پر کہ بیویوں کے درمیان عدل کیا جائے۔ اولاد کے ساتھ سلوک میں عدل و انصاف پر ابھارا گیا ہے۔
مکی دورِ نبوت میں محمد رسول اللہ ﷺ کا کارِ رسالت دعوت الی اللہ تک محدود تھا۔ اسی دعوت کے نتیجے میں مدینہ کی طرف ہجرت کے امکانات پیدا ہوئے، جب مکہ میں رسول اللہ ﷺ اور اصحابِ رسول کا رہنا ناممکن ہوگیا تھا۔ مکی دورِ نبوت سخت آزمائش کا دور تھا، لیکن اہلِ ایمان کو انتقام سے روکا گیا اور صبر کی تلقین کی گئی تاکہ دعوت کے لیے فضا سازگار رہے۔ ان صبر آزما حالات میں ایک واقعہ پیش آیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جرأت و پامردی کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص ابوجہل کے پاس آیا اور اپنا حق مانگنے لگا۔ ابوجہل نے اس سے بڑی بدتمیزی سے پیش آیا اور اس کو اس کا حق دینے سے انکار کردیا۔ وہ شخص کعبۃ اللہ کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے مدد مانگنے لگا۔ لوگوں نے مشورہ دیا کہ تمہاری مدد اس وقت ایک ہی شخص کر سکتا ہے جس کا نام محمد (ﷺ) ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کو ابوجہل سے بھڑا دیا جائے اور وہ دور سے تماشا دیکھ کر لطف اندوز ہوں۔ چنانچہ وہ شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر اپنا مسئلہ پیش کیا۔ آپ اس کو ساتھ لے کر ابوجہل کے پاس پہنچے اور اس سے کہا کہ اس کا حق ادا کرے۔ اس پر ابوجہل خاموشی کے ساتھ اٹھا اور اپنے گھر سے مال لا کر اس شخص کو دے دیا۔ اس پر ان تماشائیوں کو بہت تعجب ہوا کہ وہ تو انتظار میں تھے کہ ایک دلچسپ مڈبھیڑ ہونے والی ہے، لیکن معاملہ توقع کے خلاف ہوا۔ اس پر ان لوگوں نے ابوجہل کو شرم دلائی اور سخت سست کہا کہ تم کو کیا ہوا کہ تم محمد سے اس قدر ڈر گئے۔ ابوجہل نے اس پر کہا کہ میں نے وہ دیکھا ہے جو تم نے نہیں دیکھا۔ اس واقعہ سے یہ معلوم ہوا کہ عدل و انصاف کے قیام کے لیے اعلیٰ درجہ کی جرأت، شجاعت اور ہمت درکار ہے۔ اسلام اپنے پیروؤں کو جرأت و پامردی پر ابھارتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے آرام و آسائشوں اور جان و مال کی قربانیوں کو پیش کرتے ہوئے عدل و قسط کے لیے کھڑا ہونا سکھاتا ہے۔
ہجرت کے بعد مدینے میں اسلامی ریاست کے قیام کا مقصد بھی یہی تھا کہ ایک ایسی مثالی ریاست قائم کی جائے جس کی بنیاد عدل و قسط پر ہو۔ دورِ نبوت کے بعد خلفائے راشدین کے دور میں بھی عدل و قسط اور انصاف کی خاطر اعلیٰ معیار پر اسلام کے سیاسی، معاشرتی، معاشی اور اخلاقی نظام کو قائم کیا گیا۔
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ جب مسلمانوں سے خطاب کرنے کے لیے اٹھے تو ایک بدو اٹھا اور کہا "میں نہ آپ کی بات سنوں گا اور نہ ہی اطاعت کروں گا۔” حضرت عمرؓ نے پوچھا، کیوں؟ وہ بولا، "یمن سے جو چادریں آئی تھیں ان میں سے صرف ایک ایک چادر سب کے حصے میں آئی تھی۔ اور اس چادر سے آپ کی قمیص نہیں بن سکتی، مگر آپ نے اس چادر کی قمیص زیب تن کی ہوئی ہے۔ یقیناً آپ نے اپنے حصہ سے زائد کپڑا لیا ہے۔” حضرت عمرؓ نے فرمایا، "اس کا جواب میرا بیٹا عبداللہ دے گا۔” یہ سن کر حضرت عبداللہ بن عمر اٹھے اور کہا، "واقعی میرے ابا جان کی قمیص ایک چادر میں نہ بنتی تھی (کیونکہ آپ خاصے قد آور تھے) میں نے اپنے حصے کی چادر انہیں دے دی تھی، اس طرح ان کی یہ قمیص بنی ہے۔” یہ سن کر بدو پھر اٹھا اور کہنے لگا، "اب میں آپ کی بات سنوں گا اور اطاعت کروں گا۔” عدل و انصاف میں اظہارِ خیال کی آزادی کے حق کی حفاظت بھی شامل ہے۔
حضرت عمرؓ عدل و انصاف کے معاملے میں اتنے حساس تھے کہ آپ مدینہ اور اس کے اطراف میں گھوم پھر کر لوگوں کے حالات معلوم کیا کرتے تھے کہ رعایا کس حال میں ہے۔ ایک مرتبہ رات کو گشت کرتے ہوئے مدینہ سے تقریباً تین میل دور نکل گئے۔ دیکھا کہ ایک عورت کچھ پکا رہی ہے اور اس کے اردگرد بیٹھے اس کے بچے رو رہے ہیں۔ فاروقِ اعظم نے بچوں کے رونے کا سبب پوچھا تو عورت نے بتایا کہ کئی دنوں سے بچے بھوکے ہیں، گھر میں کچھ پکانے کے لیے نہیں ہے، ان کو بہلانے کے لیے کنکریوں سے بھری ہنڈیا آگ پہ چڑھا دی ہے۔ یہ سن کر آپ رنجیدہ ہوئے اور اسی وقت مدینہ واپس تشریف لائے بیت المال سے ضروری اشیاء لیں اور اپنے غلام سے کہا کہ "اس سامان کو میری پیٹھ پر لاد دو۔” غلام نے عرض کیا "یہ سامان میں اٹھا کر لے چلتا ہوں۔” آپ نے فرمایا: "روزِ قیامت میرا یہ بار کیا تم اُٹھاؤ گے؟” چنانچہ سامان خود اپنی پیٹھ پر لاد کر اس عورت کے پاس لے گئے اور جب تک اس عورت نے کھانا تیار کرکے بچوں کو کھلایا نہیں، وہیں تشریف فرما رہے۔ عورت اس حسن سلوک سے بہت متاثر ہوئی اور کہا کہ "امیر المومنین ہونے کے تو آپ قابل ہو۔”
اس عورت کو کیا خبر تھی کہ یہی تو وہ عمرؓ ہیں کہ جو دریائے نیل کے کنارے اگر ایک بکری بھی بھوکی مر جائے تو اس کی ذمہ داری بھی اپنے سر لیتے ہیں۔ آپ کی سرکاری مہر پر لکھا تھا ’’عمر! نصیحت کے لیے موت ہی کافی ہے‘‘
ذوالقرنین کو جب کہا گیا کہ تم کو اختیار ہے کہ چاہے تو اپنی رعایا کو تکلیف دو یا راحت دو۔ اس نے جواب دیا: قَالَ أَمَّا مَن ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلَى رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَابًا نُّكْرًا۔ اس نے کہا، "جو ان میں سے ظلم کرے گا ہم اس کو سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف پلٹایا جائے گا اور وہ اسے اور زیادہ سخت عذاب دے گا۔” (سورۃ الکہف ۸۷)
اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ جو کفر کرے گا ہم اس کو سزا دیں گے بلکہ یہ کہا گیا کہ جو ظلم کرے گا اس کو سزا دی جائے گی۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ظالموں کو سزا دے اور مظلوموں کو انصاف دلائے۔ دین (کفر و اسلام) کے معاملے میں زبردستی نہیں ہے لیکن ظلم کو دفع کرنے کے لیے قوت کا استعمال ناگزیر ہو جاتا ہے ورنہ ظلم بڑھتا ہی جائے گا۔
بھارت میں صدیوں تک مسلم بادشاہوں نے حکومت کی، لیکن اس طویل مدت میں نچلی قوموں پر اعلیٰ ذات والوں کا بدترین ظلم ہوتا رہا جبکہ ظالم اقلیت میں تھے اور مظلوم بھاری اکثریت میں۔ اگر اس وقت مظلوموں کی دادرسی کی جاتی تو اج بھارت کی شکل ہی بدل چکی ہوتی۔
اس وقت ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ فرقہ پرست نفرت کا ماحول پیدا کر کے مسلمانوں پر ہر طرح کے ظلم کو روا رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ماب لنچنگ کے ذریعے قتل، مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کر دینا، جھوٹے الزامات لگا کر نوجوانوں کو جیل میں ڈال دینا اور اہم شخصیتوں کو قتل کر کے یا قید کر کے انہیں راستے سے ہٹا دینا معمول بنا دیا گیا ہے۔ ظلم کی اس فضا میں مسلمانوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے۔ ایک طرف ان کو داعیانہ فریضہ ادا کرنا ہے تو دوسری طرف اپنے عمل سے اسلام کی سچی تصویر پیش کرنا اور عدل و انصاف کا علم بردار بن کر کھڑا ہونا ہے۔
فلسطین کی غزہ پٹی میں ناقابلِ تصور ظلم کیا جا رہا ہے۔ دنیا کا سوپر پاور امریکہ بھی اس ظلم میں اپنا بدترین کردار ادا کر رہا ہے۔ خدا کرے کہ امریکہ کے نئے صدر کے انتخاب سے غزہ کے حالات کا رخ بدلے۔
یہ اجتماع، اپنے ارکان کی کس طرح فکر سازی کرنا چاہتا ہے؟ ارکان کے اس اجتماع سے ارکان کی ہمہ جہتی تربیت مقصود ہے۔ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ اسلام کے کسی ایک پہلو کو بھی نظرانداز کر کے جو تربیت کی جائے، وہ امت کو اس کے مقصدِ وجود کو پورا کرنے کے لیے تیار نہیں کر سکتی۔ اسلام جہاں امتِ مسلمہ کو دعوت الی اللہ، شہادت علی الناس اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر جیسے فرائض ادا کرنے کا حکم دیتا ہے، وہیں وہ عدل و انصاف کا علم بردار و محافظ بنا کر کھڑا کرتا ہے۔ جماعتِ اسلامی اپنے ارکان و کارکنان کی ان عظیم فرائض کے شایانِ شان تربیت کرنا چاہتی ہے۔ یہ اجتماع بھی اس ہمہ گیر تربیت کا ایک حصہ ہے۔
جماعت اسلامی کا نصب العین اقامتِ دین ہے۔ دین کی جب اقامت ہوگی تو عدل و انصاف کا قیام بھی ہوگا اس لیے کہ اسلام ہی عدل و انصاف کی ضمانت دے سکتا ہے۔ اقامتِ دین کے بارے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ دین کا قیام ہر سطح پر مطلوب ہے۔ انفرادی زندگی میں ہر انسان مکلف ہے کہ دین کو اپنی ذات پر قائم کرے۔ اس کے بعد گھر کے سربراہ کے طور پر اپنے گھر کی چار دیواری میں اہل و عیال کی تربیت کرتے ہوئے دین کے احکام کو نافذ کرے۔ اس کے بعد معاشرے میں دین کے قیام کے ضمن میں پہلا قدم یہ ہے کہ محلے کی سطح پر اسلامی اقدار کے حق میں افہام و تفہیم کے ذریعے لوگوں کی ذہن سازی کرے۔ ہر رکن یا کارکن کی صلاحیتوں کے لحاظ سے ذمہ داری بھی طے ہوتی ہے اور عنداللہ مسئولیت بھی۔ اگر اقامتِ دین کو محض ملک کی سطح پر نفاذ کے معنوں تک محدود کر لیا جائے تو پھر ہماری نظر ہمارے قرب و جوار سے ہٹ جائے گی۔ یہ صورتحال ہماری توجہات کو خود سے غافل کر کے خارج کی طرف لگا دیتی ہے۔ ہمارا رویہ ہونا چاہیے: Think Globally, Act Locally۔ ہماری سوچ تو وسیع ہو لیکن ہماری نظر اس دائرہ کار پر ہو جس میں ایک صالح انقلاب و تبدیلی کے ہم مکلف بھی ہیں اور مسئول بھی۔
***
جماعت اسلامی کا نصب العین اقامتِ دین ہے۔ دین کی جب اقامت ہوگی تو عدل و انصاف کا قیام بھی ہوگا اس لیے کہ اسلام ہی عدل و انصاف کی ضمانت دے سکتا ہے۔ اقامتِ دین کے بارے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ دین کا قیام ہر سطح پر مطلوب ہے۔ انفرادی زندگی میں ہر انسان مکلف ہے کہ دین کو اپنی ذات پر قائم کرے۔ اس کے بعد گھر کے سربراہ کے طور پر اپنے گھر کی چار دیواری میں اہل و عیال کی تربیت کرتے ہوئے دین کے احکام کو نافذ کرے۔ اس کے بعد معاشرے میں دین کے قیام کے ضمن میں پہلا قدم یہ ہے کہ محلے کی سطح پر اسلامی اقدار کے حق میں افہام و تفہیم کے ذریعے لوگوں کی ذہن سازی کرے۔ ہر رکن یا کارکن کی صلاحیتوں کے لحاظ سے ذمہ داری بھی طے ہوتی ہے اور عنداللہ مسئولیت بھی۔ اگر اقامتِ دین کو محض ملک کی سطح پر نفاذ کے معنوں تک محدود کر لیا جائے تو پھر ہماری نظر ہمارے قرب و جوار سے ہٹ جائے گی۔ یہ صورتحال ہماری توجہات کو خود سے غافل کر کے خارج کی طرف لگا دیتی ہے۔ ہمارا رویہ ہونا چاہیے: Think Globally, Act Locally۔ ہماری سوچ تو وسیع ہو لیکن ہماری نظر اس دائرہ کار پر ہو جس میں ایک صالح انقلاب و تبدیلی کے ہم مکلف بھی ہیں اور مسئول بھی۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 نومبر تا 23 نومبر 2024