قطر کا تناظر اور جاسوسی کے دلچسپ قصے
8بھارتیوں کی سزائے موت تبدیل لیکن جاسوسی کے سنگین الزامات برقرار
ڈاکٹر سلیم خان
اگنی ویر اسکیم فوج میں ٹھیکے داری کی عمدہ مثال ہے۔ سرمایہ دارانہ استعماریت میں ہر کام کنٹریکٹ پر ہوتا ہے تو ایسے میں جاسوسی کو ٹھیکے پر اٹھانے میں کیا حرج ہے؟ اس سوال کا جواب اسرائیل کے لیے مبینہ جاسوسی کے الزام میں قطری جیل کے اندر قید ہندوستانی بحریہ کے سابق آٹھ اہلکار ہیں۔ ان لوگوں کو پہلے موت کو سزا سنائی گئی تھی مگر اسے اپیلی قطری عدالت نے منسوخ کر دیا۔ اس فیصلے کو مودی حکومت کی بہت بڑی سفارتی کامیابی بتایا جارہا ہے۔ مگر ملزمین کے اہل خانہ اس بات سے سخت ناراض ہیں کہ ان پر عائد جاسوسی کے الزامات کو ہٹایا کیوں نہیں گیا ہے؟ ہندوستانی وزارت خارجہ کے مطابق کپتان نوتیج گل اور سینیئر کمانڈز سوربھ وششٹھ، پرنیندو تیواری، امیت ناگپال، سنجیو گپتا، بریندر کمار ورما، سنگاکر پکالا اور سیلر راگیش (تمام سبکدوش) کی سزا کو کم تو کر دیا گیا ہے تاہم اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی البتہ غیر مصدقہ ذرائع سے مختلف لوگوں کو دی جانے والی سزا کی مدت دس سے تیس سال کے درمیان بتائی جارہی ہے۔
ان ملزمین کے اہل خانہ جاسوسی کے الزامات کی برقراری سے اس لیے فکر مند ہیں کیونکہ وہ انہیں بے قصور مانتے ہیں اور ان کو بے گناہ ثابت کرنے کی لڑائی جاری رکھنے کے لیے اس فیصلے کے خلاف قطر کی اعلیٰ عدالت سے رجوع کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ لواحقین کا اپنے لوگوں کو بے قصور سمجھنا فطری ہے اور عدالت میں انہیں چھڑانے کی کوشش کرنا بھی ان کا بنیادی حق ہے لیکن یہ سوال تو ہے کہ قطر کے اندر رہنے والے آٹھ لاکھ ہندوستانیوں میں سے صرف چند افراد پر ایسا سنگین الزام کیوں لگایا گیا؟ ہندوستانی وزارت خارجہ نے قطری عدالت کے فیصلے پر قدرے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ گرفتار شدہ آٹھوں افراد کی قانونی ٹیم کے علاوہ ان کے اہل خانہ کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے تاکہ اگلے اقدامات کے بارے میں فیصلہ کیا جاسکے۔ سزا کی تخفیف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وزیر اعظم مودی کی قطر کے شیخ تمیم بن حمادالثانی سے دبئی میں اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی سربراہی کانفرنس کے دوران ملاقات کا نتیجہ ہے۔
امسال مارچ میں قطری عدالت نے ضمانت کی درخواستیں مسترد کرکے مقدمہ شروع کیا تھا اور 26؍ اکتوبر کو موت کی سزا سنائی تھی۔ یکم دسمبر کو وزیر اعظم مودی کی امیر قطر سے ملاقات کے بعد دوحہ میں ہندوستانی سفیر نے تین دسمبر کو جیل کے اندر جاکر آٹھوں افراد سے ملاقات کی تھی۔ 2015 میں ہندوستان اور قطر کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت دونوں ممالک کے سزا یافتہ شہریوں کو واپس ان کے ملک لایا جاسکتا ہے جہاں وہ اپنی سزائیں پوری کرسکتے ہیں لیکن موت کی سزا پر یہ معاہدہ نافذ نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ ایک رکاوٹ یہ ہے کہ حکومتِ ہند نے تو اس معاہدے کی توثیق کردی ہے مگر قطر کی جانب سے یہ نہیں ہوا۔ اس لیے وہ معاہدہ ہنوز نافذالعمل نہیں ہے۔ ہندوستانی فوج کے سابق اہلکاروں کے ملوث ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ انتہائی حساس نوعیت کا بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتِ ہند انتہائی محتاط انداز میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے۔
ہندوستان اور قطر کے درمیان تعلقات بھی خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ لاکھوں ہندوستانیوں کی وہاں ملازمت کے سبب سے ہر سال اربوں ڈالر غیر ملکی زرمبادلہ ہندوستان آتا ہے۔ جون 2022 میں بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما کے متنازعہ تبصرہ پر قطری حکومت نے ہندوستان سے عوامی طور پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے بعد اگست 2022 میں دوحہ میں ان آٹھ اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے والے سابق افسران کو جاسوسی کے الزام گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ افراد خلیجی کمپنی الضحرہ کے ملازم تھے جو ایرو اسپیس، سیکیورٹی اور دفاعی شعبوں میں فعال ہے۔ اس وقت ٹائمز آف ہندوستان نے ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ ’ان پر اسرائیل کے لیے جاسوسی کا الزام لگایا گیا ہے‘۔ ان میں سے ایک شخص کی بہن میتو بارگھوا نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میرے بھائی کی عمر تریسٹھ برس ہے۔ وہ اسرائیل کے لیے جاسوسی کیوں کریں گے؟ کیا وہ اس عمر میں کوئی ایسا عمل کر سکتے ہیں؟‘‘ ایک بہن کا یہ سوال فطری ہے مگر عدالت کے فیصلے ایسی منطق کی بنیاد پر نہیں بلکہ موجود شواہد کی روشنی میں کیے جاتے ہیں۔
مذکورہ بالا سوال سے قطع نظر ہندوستانی فوجیوں اور سرکاری اہلکاروں کا پاکستان کے لیے جاسوسی کرنا کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے گزشتہ دو سالوں کے اندر ایسی کئی خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت بن چکی ہیں۔ مئی 2013 میں ہندوستان کے دفاعی ادارے ڈیفینس ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) کے ایک سائنسدان کو مبینہ طور پر جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔اس پر ایک پاکستانی ایجنٹ کو حساس معلومات فراہم کرنے کا سنگین الزام تھا۔ اتفاق سے یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی تھی جب پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو ہندوستان میں ایس سی او اجلاس میں شرکت کے لیے موجود تھے۔ ڈی آر ڈی او کے اس سینئر سائنسدان کا نام پردیپ کورولکر بتایا گیا تھا ۔ 1985 میں الیکٹریکل انجینئرنگ کی بیچلر ڈگری لینے کے بعد 1988 میں وہ ڈی آر ڈی او سے منسلک ہوئے۔ اس دوران انہوں نے ڈرائیوز اور ایپلی کیشنز پر کام کرنے کے ساتھ آئی آئی ٹی کانپور سے اعلی درجے کا پاور الیکٹرانکس کورس بھی مکمل کیا تھا۔
پردیپ کرولکر کو دفاعی شعبے میں سب سے زیادہ قابل سائنسدان سمجھا جاتا ہے اور نومبر میں وہ ریٹائر ہونے والے تھے مگر ریاستِ مہاراشٹر کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کے ہتھے چڑھ گئے۔ شیوسینا نے ان پر آر ایس ایس سے تعلق کا بھی الزام لگایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اپنے ہی ملک میں جاسوسی کرنے والے کو گرفتار کرنا اور باہر اسی جرم کا ارتکاب کرنے والے کو چھڑانے کی کوشش کرنا کیسا ہے؟ کیونکہ قطر کے لیے اسرائیل ویسا ہی دشمن ہے جیسا ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دشمنی ہے۔ جون 2022 میں مہاراشٹر کی پڑوسی ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں پولیس نے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ لیبارٹری میں کام کرنے والے ایک انجینیئر کو حساس معلومات فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ پولیس کے مطابق 29 سالہ ملک ارجن ریڈی ڈی آر ڈی ایل میں ایک کنٹریکٹ ملازم کے طور پر فروری 2020 سے کام کر رہا تھا، اس دوران وہ جاسوسی میں ملوث ہوگیا۔
ملک ارجن کو پھنسانے کا طریقہ نہایت دلچسپ تھا۔ مارچ 2020 میں ریڈی کو فیس بک پر ایک خاتون کی طرف سے فرینڈ ریکویسٹ موصول ہوئی۔ دوستی کا ہاتھ بڑھانے والی خاتون نے جس کا نام نتاشا راو ہے، دفاعی امور کے ایک جریدے کی ملازم کی حیثیت سے اپنا تعارف کرایا تھا۔اس نے بتایا کہ وہ ہندوستانی فضائیہ کے سابق افسر کی بیٹی ہے جو بعد میں برطانیہ منتقل ہو گئے تھے۔اس کے بعد مبینہ جاسوسہ نے ہندوستان کے جوہری صلاحیت سے بھرپور بین البر اعظمی بیلسٹک میزائل اور آبدوز سے مار کرنے والے میزائلوں کے بارے میں معلومات طلب کی۔اس بابت ملک ارجن ریڈی نے خود تسلیم کیا کہ اس نے شادی کے وعدے پر زمین سے زمین پر مار کرنے والے اگنی میزائلوں میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کی معلومات شیئر کی تھیں۔ ’کے سیریز‘ کے 3500 کلومیٹر سے 6000 کلومیٹر رینج تک کے انڈین نیوی کی جوہری صلاحیت کے حامل بیلسٹک میزائل آبدوزوں کی تفصیلات اس نے اپنی فیس بُک دوست کو بھیجی تھیں۔ اس کے جرم کا یہ جواز بھی اخبارات میں چھپا کہ وہ بے چارہ غیر شادی شدہ تھا۔ تنہائی کے کرب نے اسے یہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے ہندو ہونے نے اسے ہمدردی کا مستحق بنا دیا ورنہ اگر سکھ ہوتا تو خالصتانی اور مسلم ہوتا تو ملک کا ازلی دشمن قرار دے دیا جاتا۔
مندرجہ بالا دو واقعات تو سائنسدانوں کے تھے مگر فوج کے اہلکار بھی اس بیماری سے محفوظ نہیں ہیں۔ مئی 2022 میں ہندوستان کی شمالی ریاست راجستھان میں ایک فوجی کو حکام نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے ایک مبینہ ایجنٹ کو خفیہ معلومات فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ذرائع کے مطابق مشترکہ تفتیشی مرکز، جے پور میں مختلف ایجنسیوں کی جانب سے پوچھ گچھ کے دوران 24 سالہ پردیپ کمار نے اعتراف کرلیا کہ وہ کرشنا نگر، اتراکھنڈ کا رہائشی ہے اور تین برس قبل فوج میں بھرتی ہوا تھا۔ ٹریننگ کے بعد اس کی تعیناتی بندوقچی کے طور پر ہوئی تھی مگر بعدمیں ملزم کا جودھ پور کے انتہائی حساس ریجمنٹ میں تبادلہ ہوگیا تھا۔ تقریباً چھ، سات مہینے قبل اسے ایک خاتون کا فون آیا۔ اس کے بعد وہ دونوں واٹس ایپ، وائس کال اور ویڈیو کال کے ذریعے آپس میں بات کرنے لگے۔پولیس کے مطابق چھدم نامی خاتون نے خود کو گوالیار، مدھیہ پردیش کی رہائشی بتا کر پردیپ کمار کو اپنے دام میں پھنسالیا نیز دلی آکر شادی کرنے کا وعدہ بھی کردیا۔
چھدم نے پردیپ کمار سے کہا کہ وہ بنگلور میں ایم این ایس نامی کمپنی میں زیر ملازمت ہے۔ تفتیش کے بعد پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ آگے چل کر اس خاتون نے کئی خفیہ دستاویز اور تصاویر کا مطالبہ کیا۔ ملزم پردیپ کمار چونکہ ’ہنی ٹریپ میں پھنس چکا تھا اس لیے وہ فوج سے متعلق خفیہ دستاویزات کی فوٹو کھینچ کر چوری چھپے اپنے موبائل سے اس خاتون کو بھیجنے لگا ۔ پردیپ کمار سے تفتیش کے دوران یہ انکشاف بھی ہوا کہ ملزم نے مذکورہ خاتون کو اپنے موبائل کی سِم اور واٹس ایپ کے لیے او ٹی پی بھی شیئر کیا جس کی مدد سے وہ ایجنٹ دیگر لوگوں اور فوجیوں کو بھی اپنا شکار بنا سکتی ہے۔مذکورہ بالا معاملات میں تو کم ازکم یہ کہا جاسکتا ہے کہ پردیپ کمار، ملک ارجن ریڈی یا پردیپ کورولکر نادانستہ طور پر ہنی ٹریپ میں پھنس گئے تھے لیکن اگر قطر میں گرفتار شدہ ملزمین پر جان بوجھ کر جاسوسی کرنے کے شواہد مل جائیں تو وہ معاملہ ان سے مختلف اور پیچیدہ و سنگین ہوجائے گا۔
جولائی 2022 میں ہندوستان کی ملٹری انٹلیجنس کے تین کرنلوں اور ایک لیفٹننٹ کرنل پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے ایک مبینہ پاکستانی جاسوس کے واٹس ایپ گروپ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ تحقیقات کے دوران ان کے فون اور لیپ ٹاپ ضبط کر کے انہیں معطل کر دیا گیا۔ ان لوگوں کے خلاف تحقیقات میں ہندوستانی فوج کو معلوم ہوا تھا کہ وہ مبینہ طور پر نامعلوم غیر ملکی شہریوں کے ایک واٹس ایپ گروپ میں شامل تھے اور اس میں جنسی نوعیت کا غیر اخلاقی رویہ اختیار کیا جا رہا تھا۔ اسی لیے انہیں فوج سے معطل کر دیا گیا تھا یعنی یہاں معاملہ کوئی خفیہ معلومات کی فراہمی کا نہیں بلکہ محض ایک ایک پاکستانی جاسوس کے گروپ میں شمولیت کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اپنا مقدمہ لے کر سپریم کورٹ تک پہنچ گئے تاہم ان افسران کو عدالت نے ریلیف دینے سے انکار کردیا۔ ان چار فوجی افسران نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ ان کے رازداری کے حق کی حفاظت یقینی بنائی جائے لیکن سپریم کورٹ نے ان کے دلائل مسترد کر دیے تھے۔ حالانکہ اس مقدمہ میں ان کی پیروی کرنے والے سابق کرنل امِت کمار تھے جو اب پیشے سے وکیل ہیں ۔
معطل افسران نے اپنی درخواست میں سوال کیا تھا کہ آیا انہیں ہندوستان کے آئین کے تحت باقی شہریوں کی طرح بنیادی حقوق حاصل ہیں یا نہیں؟ درخواست گزاروں کا دعویٰ تھا کہ انہیں اس گروپ میں کسی پاکستانی جاسوس کی موجودگی کا علم نہیں تھا۔ اس پر سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں لکھا تھا کہ ’ہم معطل فوجی افسران کی درخواستیں وصول نہیں کرتے۔ ان فوجیوں کے وکیل ایڈووکیٹ امت کمار نے سپریم کورٹ میں تحقیقات شروع ہونے سے قبل ان افسران کی معطلی کو غیر قانونی بتایا اور ان کی ذاتی گفتگو کے ذریعہ انہیں بلیک میل کرنے اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا مگر عدالت نے کہا کہ درخواست گزاروں کو تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے بھی معطل کیا جا سکتا ہے، اس لیے وہ کسی ریلیف کے مستحق نہیں ہیں۔‘ مذکورہ بالا معاملہ قدرے کم سنگین ہے اس کے باوجود مقدمہ کے وکیل نے یہ تسلیم کیا تھا کہ ’اگر وہ چاروں فوجی قصوروار پائے جاتے ہیں تو انہیں پھانسی دی جانی چاہیے۔‘ ملک کے اندر ملزم کے وکیل کا یہ مطالبہ اگر درست ہو سکتا ہے تو باہر کیسے غلط ہو جائے گا؟ جبکہ دونوں مقامات پر فوجیوں پر جاسوسی کا الزام ہے۔
جاسوسی کے ان واقعات میں چونکہ غیر مسلمین ملوث تھے اس لیے ہندوتوا نواز میڈیا اس پر ہنگامہ آرائی نہیں کرسکا مگر ستمبر 2022 میں ایک مسلمان جاسوس کا معاملہ بھی منظر عام پر آیا اور اس پر بھی ذرائع ابلاغ گونگا بہرہ ہوکر بیٹھ گیا۔ اس منفرد اور غیر معمولی کیس میں ایک جاسوس کو سپریم کورٹ نے 10 لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان ہمسایہ ممالک میں ایک دوسرے کے لیے جاسوسی کے الزامات کے تحت گرفتاریاں عام ہیں مگر عدالت کی جانب سے کسی شخص کو بطور جرمانہ معاوضہ ادا کرنے کا حکم پہلی بار ہوا تھا۔ اسے میڈیا میں زیر بحث آنا چاہیے تھا مگر وہ بے چارہ مدن موہن تیواری کے بجائے محمود انصاری نکل گیا ورنہ اس کی خوب پذیرائی ہوتی۔ مسلمان ہونے کے سبب وہ کہانی دب گئی۔ محمود انصاری کو 1970 کی دہائی میں ایک ہندوستانی خفیہ ایجنسی نے جاسوسی کی غرض سے پاکستان بھیجا تھا جہاں وہ پکڑے گئے اور انہیں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ فی الحال جس طرح قطر سے مبینہ جاسوسں کو واپس لانے کی کوشش ہورہی ہے ویسا معاملہ محمود کے ساتھ نہیں ہوسکا۔ ویسے ان کی کہانی خاصی دلچسپ ہے۔
محمود انصاری کے ذریعہ سپریم کورٹ میں دائر مقدمہ کے مطابق جس وقت وہ ریلوے پوسٹل سروس میں ملازم تھے انہیں اسپیشل بیورو آف انٹلیجینس نے پاکستان جا کر جاسوسی کرنے کی دعوت دی اور اس مقصد کے لیے حکومت کے خفیہ محکمے کی درخواست پر وہ کوٹہ سے جے پور منتقل کردیے گئے۔ 1976 میں دو مرتبہ پاکستان کے ’خفیہ مشن‘ میں انہوں نے کامیابی حاصل کی مگر تیسرے سفر سے لوٹتے ہوئے گرفتار ہوگئے کیونکہ ان کا گائیڈ غالباً ڈبل ایجنٹ تھا۔ 1978 میں محمود کو جاسوسی کے الزام میں ان کو سزا ہو گئی۔ گرفتاری کے بعد تقریباً دو سال تک ان کے اہل خانہ سمجھتے رہے کہ وہ کسی حادثے کا شکار ہو گئے ہیں۔اس وقت مدد کے لیے افسران سے گہار لگائی گئی تو انہوں نے ہاتھ کھڑے کر دیے مگر اشارے میں کہا کہ وہ واپس آجائیں گے۔ اس دوران سارا سازو سامان بک گیا اور ان کی اہلیہ سلائی کر کے یا سبزی بیچ کر گھرچلاتی رہیں۔
محمود انصاری نے قید کے دوران موقع پاکر پوسٹل سروس، خفیہ محکمہ اور اپنی اہلیہ کو اپنے حالات سے مطلع کر دیا ۔درمیان میں کویت میں مقیم ان کے ایک رشتہ دار نے لاہور ہائی کورٹ میں بے گناہی کا دعویٰ کرکے رہائی کی درخواست دائر کی اور 1987 میں انہیں رہا کر دیا گیا۔ 1989 میں وطن واپسی تک وہ ہندوستانی سفارت خانے میں مقیم رہے۔ کوٹہ پہنچنے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ ان کو ’26 نومبر 1976 سے طویل غیر حاضری کے الزام میں‘ ملازمت سے برخاست کیا جاچکا ہے۔ کافی مشقت کے بعد ان کو دو صفحات پر مشتمل ملازمت کے خاتمے کا جو کاغذ ملا اس پر درج تفصیلات پڑھی نہیں جاتی تھیں۔اس دوران خفیہ ادارے کا وہ افسر فوت ہوگیا جو محمود کے رابطے میں تھا۔ مختلف محکموں میں مقدمہ بازی کے بعد 2017 میں انہوں نے راجستھان ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو ان کی درخواست ’دائرہ اختیار اور مقدمہ دائر کرنے میں تاخیر‘ کی بنیاد پر خارج کر دی گئی۔اس کے بعد وہ سپریم کورٹ پہنچے جس نے تین ہفتے کے اندر انصاری کو 10 لاکھ روپے کی رقم ادا کرنے کا حکم تو دیا مگر ان کے جاسوسی کی غرض سے پاکستان جانے کے دعوے کو مسترد بھی کیا۔ محمود انصاری نے اس فیصلے کو انصاف کی جیت قرار دیا تھا لیکن قطر میں گرفتار ہونے والے مبینہ جاسوسوں کے ساتھ یہ کرم نوازی بھی نہیں ہوسکتی کیونکہ ان پر اپنے ملک کے لیے جاسوسی کا الزام نہیں ہے۔ فی الحال تو صیہونی ریاست نے ان سے نظریں پھیر لی ہیں اور ہندوستانی وزارت خارجہ انہیں بچانے کے لیے تگ و دو کر رہا ہے۔ لیکن رہائی کے بعد اگر وہ اسرائیل پہنچ جائیں تو انعام و اکرام سے نوازے جاسکتے ہیں۔
***
***
2015 میں ہندوستان اور قطر کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت دونوں ممالک کے سزا یافتہ شہریوں کو واپس ان کے ملک لایا جا سکتا ہے جہاں وہ اپنی سزائیں پوری کرسکتے ہیں لیکن موت کی سزا پر یہ معاہدہ نافذ نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ ایک رکاوٹ یہ ہے کہ حکومتِ ہند نے تو اس معاہدے کی توثیق کردی مگر قطر کی جانب سے یہ نہیں ہوا۔ اس لیے وہ معاہدہ ہنوز نافذالعمل نہیں ہے۔ ہندوستانی فوج کے سابق اہلکاروں کے ملوث ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ انتہائی حساس نوعیت کا بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتِ ہند انتہائی محتاط انداز میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جنوری تا 13 جنوری 2024