پنجاب: امرت پال سنگھ پر ’اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی؟‘

پولیس اسٹیشن پر مسلح افراد کا حملہ اور حکمرانوں کی پُر اسرار خاموشی؟

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

ایس آئی ٹی کی جانچ سے قبل ہی ملزم کو رہا کردیا جائے تو پھرخصوصی ٹیم کی ضرورت ہی کیا ہے؟
وزیر اعظم نریندر مودی کی چھاتی اگر چھپنّ انچ کی ہے تو وزیر داخلہ امیت شاہ کا سینہ ساٹھ انچ سے کم نہیں ہے۔ ان کی زبان بھی وزیراعظم سے دوچار انچ لمبی ہی ہے اسی لیے انہوں نے ایوان پارلیمان میں اعلان کردیا تھاکہ کشمیر کے لیے جان دے دیں گے اور یہ کہ اکسائی چین ہمارا حصہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چین نے گلوان پر حملہ کرکے اپنی ناراضی کا عملی اظہار کردیا ۔ شاہ جی نے گجرات میں جاکر سبق سکھانے کی بات تو کی مگر خود سبق نہیں سیکھا ورنہ پنجاب میں امور وزیر داخلہ کو امرت پال سنگھ کھلے عام یہ دھمکی نہ دیتا کہ ’’پانچ سو سال ہمارے آباو اجداد نے اس سرزمین پر اپنا خون بہایا ہے۔ قربانی دینے والوں کو انگلیوں پر گنا نہیں جاسکتا‘‘۔ اپنی تمہید کے بعد وہ کہتا ہے’’ اس سرزمین کے دعویدار ہم ہیں۔ اس دعویٰ سے کوئی ہمیں پیچھے نہیں ہٹا سکتا۔ نہ اندرا ہٹا سکی تھی اور نہ ہی مودی یا امیت شاہ ہٹا سکتا ہے۔ دنیا بھر کی فوجیں آجائیں ، ہم مرتے مرجائیں گے لیکن اپنا دعویٰ نہیں چھوڑیں گے‘‘ ۔
وزیر داخلہ امیت شاہ کو یہ دھمکی محض یہ کہنے پر ملی تھی کہ پنجاب میں خالصتان کے حامیوں پر ان کی نظر ہے ۔اس کے جواب میں اس نے کہا تھا کہ شاہ کو کہہ دو کہ پنجاب کا بچہ بچہ خالصتان کی بات کرتا ہے۔ جو کرنا ہے کرلے ۔ ہم اپنا راج مانگ رہے ہیں کسی دوسرے کا نہیں۔ اس اشتعال انگیز بیان کے جواب میں بھی وزیر داخلہ نے کوئی اقدام تو دور ایک ٹویٹ تک نہیں کیا اس لیے وہ مکالمہ یاد آگیا’آخر اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی؟‘ وزیر داخلہ کے علاوہ ’گھر میں گھس کر مارنے والے‘ وزیر اعظم بھی بالکل خاموش ہیں۔ چہار جانب پسرے اس پر اسرار سناٹے نے پھر سے ثابت کردیا کہ جو گرجتے ہیں وہ برستےنہیں۔اجنالا میں پچھلے دنوں جو واقعہ رونما ہوا اس کی مثال تو اس وقت بھی نہیں ملتی جب پنجاب خالصتانی تشدد کی آگ میں جل رہا تھا۔ اس بار خالصتان کی حامی تنظیم’ وارث پنجاب دے‘سےتعلق رکھنے والےہزاروں افرادنے امرتسر کے اجنالا پولیس اسٹیشن پرحملہ کردیا۔ان کے ہاتھوں میں بندوقیں اور تلواریں تھیں۔
اپنی تنظیم کے سربراہ امرت پال سنگھ کی قیادت میں مسلح بھیڑ بیریکیڈ توڑ کر تھانے میں گھس گئی۔ دھکم پیلی میں چھ پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ اس پرامرت پال سنگھ نے کہا’’پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کی جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہےکہ وہ گر کر زخمی ہوئے تھے۔ ہمارے دس تا بارہ لوگوں کوچوٹیں آئی ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ لوپریت سنگھ طوفان کوایک دن کےاندر رہا کیا جائے‘‘۔ اس حیرت انگیز واقعہ کے بعد’دہشت گردی پرصفر برداشت‘ کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے پولیس کمشنر جسکرن سنگھ نے اعلان کیا کہ ’’طوفان کورہا کیا جارہا ہے۔ ان کے حامیوں نےان کی بے گناہی کے کافی ثبوت دیے ہیں۔معاملے کی جانچ کے لیے ایس پی تیج بیر سنگھ ہنڈل کی قیادت میں ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی گئی ہے‘۔ اس بیان کے کئی دلچسپ پہلو ہیں۔ اول تو یہ کہ معاملے کی تفتیش کے لیے ایس آئی ٹی کی تشکیل کی گئی ہے لیکن اس کی جانچ سے قبل ہی طوفان چھوٹ گیا تو خصوصی ٹیم کی ضرورت ہی کیا ہے؟
اس بیان کا دوسرا مضحکہ خیز پہلو یہ کہ ایک ملزم کے حامیوں سے مطمئن ہوکر پولیس نے اسے چھوڑ دیا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا پولیس تھانے کا محاصرہ کرنا، اس پر قبضہ کرکے اہلکاروں کو یرغمال بنا لینا اور بدلے میں اپنے آدمی کو چھڑوانا کوئی جرم نہیں ہے؟ اس کی تفتیش اور سزا کسی کو ہوگی بھی یا نہیں؟ اس سوال کا جواب وزیر اعظم کو دینا ہوگا۔ کیونکہ یہ محض صوبائی نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے۔اجنالا پولیس تھانے پر حملہ اچانک نہیں ہوا بلکہ ایک دن قبل امرت پال نے متنبہ کردیا تھا کہ اگر اس پر اور ساتھیوں پر دائر ایف آئی آر ایک دن کے اندر رد نہ کی گئی تو وہ اپنے حامیوں سمیت پولیس اسٹیشن کا گھیراؤ کرنے پہنچے گا۔ اعلان کے مطابق دو دن بعد امرت پال تھانے پہنچا اور اس کے بعد وہاں بھیڑ جمع ہوگئی۔اس اعلان کے پیش نظر امرتسر میں پولیس انتظامیہ نے سیکورٹی کا سخت انتظام کیا تھا۔ الگ الگ راستوں سے اجنالا پولیس اسٹیشن میں پہنچنے والے مقامات پر خصوصی ناکہ بندی کی گئی تھی اور زبردست پولیس فورس کی تعیناتی ہوئی تھی۔ اس کے باوجود امرت پال کے حامی بڑی تعداد میں تھانہ اجنالا کے باہر پہنچ گئے جہاں پہلے سے تعینات پولیس فورس نے انہیں حراست میں لے لیا لیکن بعد میں امرتسر دیہات کے ایس ایس پی نے حراست میں لیے گئے نوجوانوں کو چھوڑ دیا ۔
اس ہنگامہ آرائی کی اطلاع ملتےہی امرت پال بھی اجنالا تھانے پہنچ گیا اور اس نے ایس ایس پی ستیندر سنگھ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا یہ نتیجہ نکلا کہ انہوں نےامرت پال سنگھ کےساتھ معاہدہ طے پانے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ لوپریت طوفان موقع واردات پر موجود نہیں تھا اس لیے اگلے دن عدالت میں درخواست دے کراسےرہا کر دیا جائے گا۔یہاں سوال یہ ہے کہ کیا عدلیہ کا کردار معطل ہوچکا ہے اور سارے اختیارات انتظامیہ کو سونپ دیے گئے ہیں؟ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اگر طوفان بے قصور تھا تو اسے گرفتار کیوں کیا گیا اور قصوروار تھا تو چھوڑا کیوں گیا؟ایک طرف تو انتظامیہ یہ نرمی دِکھا رہا تھا مگر اس کے جواب میں امرت پال سنگھ اعلان کررہا تھا کہ جب تک پولیس تحریری بیان نہیں دیتی وہ پیچھے نہیں ہٹیں گےاورتحریری یقین دہانی کےبعد تھانہ تو خالی کر دیا جائے گالیکن مقدمہ ختم ہونے تک اجنالا میں ڈٹے رہیں گے۔
انتہا پسند امرت پال سنگھ اپنے جس معاون لوپریت سنگھ طوفان کو بزورِ قوت رہا کروانے میں کامیاب ہوگیا اس پر دیگر الزامات کے علاوہ اغوا کا بھی الزام تھا۔ اس معاہدے کے ایک دن بعد وہ ٹھاٹ باٹ کے ساتھ جیل سے باہر نکل آیا کیونکہ پولیس کی درخواست پر عدالت کو رہائی کا حکم دینا پڑا۔ اجنالاکے اس واقعہ نے پنجاب کی سیاست، حکمرانی اور امن و امان پر بے شمار سوالات کو جنم دیا ہے ۔اس کے ساتھ ماضی کی وہ یادیں بھی تازہ ہوگئی ہیں جب ریاست میں عسکریت پسندی اور خونریزی کا بول بالا تھا۔اس دور کا خاتمہ چھ جون 1984 کو بدنام زمانہ آپریشن بلیو اسٹار سے ہوا جس میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ یہ آپریشن ہندوستانی فوج نے گولڈن ٹیمپل میں انجام دیا تھا کیونکہ اس میں خالصتانی جنگجو پناہ لیے ہوئے تھے۔ حالیہ ہنگامہ آرائیوں کا مرکز تیس سالہ امرت پال سنگھ اپنا تعارف سنت جرنیل سنگھ بھنڈران والے کے پرجوش پیروکارکی حیثیت سے کراتا ہے۔بھنڈران والے کی بابت سبھی جانتے ہیں کہ وہ خالصتان کے کٹر حامی عسکریت پسند رہنما تھے۔
امرت پال سنگھ محض چھ سات مہینوں کے اندر پنجاب میں خالصتان کےحامی بنیاد پرست مبلغ کے طور پر شہرت حاصل کر چکا ہے۔ وہ بھاری ہتھیاروں سے لیس نہنگ سکھوں کی فوج کے ساتھ گھومتا ہے۔اس سے قبل وہ دبئی میں ایک اکسپورٹ کمپنی میں کام کرتا تھا لیکن واپسی کے بعد اسے ’’وارث پنجاب دے‘‘ کا سربراہ مقرر کردیا گیا ۔ اداکار دیپ سدھو نے یہ تنظیم قائم کی تھی۔ یہ وہی دیپ سدھو ہے جس نے 2021 میں اپنے کسان ساتھیوں کے ساتھ لال قلعہ پر سکھوں کا پرچم نشان صاحب لہرا دیا تھا۔ دیپ سدھو کی تصاویر وزیر اعظم اور بی جے پی رکن پارلیمان سنی دیول کے ساتھ شائع ہوچکی تھیں اس لیے مختلف قسم کے شکوک و شبہات نے جنم لے لیا تھا ۔ اس کی ایک وجہ بھی تھی کہ کسان تحریک کے رہنماوں نے اس سے دوری بنائی ہوئی تھی اور دوسرے دلی میں کسی فرد کا یوم جمہوریہ کے دن کچھ کرکے بحفاظت نکل جانا ایک حیرت انگیز امر تھا۔ عوام کو اس پر بھی حیرانی ہے کہ معمولی باتوں پر این ایس اے لگانے والی مرکزی حکومت نے نہ تو دیپ سدھو کو اور نہ امرجیت کو اس قانون کے تحت گرفتار کرنے کی ہمت کی؟
دیپ سدھو نے ابتداء میں اس بات پر زور دیا تھا کہ ’’وارث پنجاب دے‘‘ نامی تنظیم کی تشکیل کا مقصد پنجابی عوام کے حقوق کی خاطر مرکز کے خلاف آواز اٹھاناہے۔پچھلےسال فروری میں ایک سڑک حادثے میں وہ ہلاک ہو گیا۔ اس کے بعد امرت پال سنگھ کو پر اسرار طریقہ پر ’وارث پنجاب دے‘ کا سربراہ مقرر کیا گیاحالانکہ اس نے دیپ سدھو سے کبھی ملاقات نہیں کی تھی۔ ان کے درمیان اختلاف کے سبب دیب نے امرجیت سے رابطہ توڑ لیا تھا ۔ امرت پال کی تقرری بھنڈران والے کے آبائی گاؤں میں کی گئی ۔ اس موقع پر امرجیت نے عسکریت پسند لیڈر کی طرح لباس پہن کر یہ پیغام دیا کہ وہ کس کی نمائندگی کررہا ہے۔اس تقریب میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی تھی۔ تب سے امرت پال سنگھ نے پنجاب کی سیاست میں قدم جما لیے۔
امرجیت سنگھ سکھ مذہب کو فروغ دینے کے لیے ’’پنتھک وہیر‘‘ جیسے لانگ مارچ کرتا رہا ہے اور اشتعال انگیز تقریروں کے ذریعہ مختلف تنازعات پیدا کر چکا ہے۔اس کو عیسائی مشنریوں پر حملے کرنے اور ریاست میں منشیات کی لعنت کے خلاف بولتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے لیکن حالیہ مظاہرے نے اس کو عالمی سطح پر مشہور کردیا ہے۔امرت پال سنگھ امرتسر کے جلوپور کھیرا کا رہنے والا ہے۔ اس ماہ کے اوائل میں اس نے اپنے آبائی گاؤں کے اندر ایک سادہ سی تقریب میں برطانیہ میں مقیم کرن دیپ کور سے شادی کی۔ اس موقع پر اس سے پوچھا گیا کہ وہ تو نوجوانوں کے بیرون ملک جانے کی حوصلہ شکنی کرتاہے تو کیا شادی کے بعد بھی اپنی این آر آئی بیوی کے ساتھ امرتسر میں رہے گا؟ اس کے جواب میں اس نے کہا تھا کہ ان کی شادی ریورس مائیگریشن کی مثال ہے۔ وہ اور اس کی بیوی پنجاب میں ہی رہیں گے۔
امرجیت چونکہ عسکریت پسند بھنڈران والے کی طرح مسلح افراد کے ساتھ گھومتا ہے اس لیے عام لوگ بھی اس کو ’’بھنڈران والا 2.0‘‘ کہنے لگے ہیں۔ ویسے خالصتان کی بابت وہ اپنے گرو سے مکمل اتفاق کرتا ہے۔ امرت پال سنگھ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ خالصتان کے لیے ہمارے مقصد کو غلط طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ اسے فکری نقطہ نظر سے دیکھیے کہ اس کے جیو پولیٹیکل فائدے کیا ہو سکتے ہیں؟ یہ ایک نظریہ ہے اور نظریہ کبھی نہیں مرتا۔
امرت پال کوپنجاب کے مسائل کا ادراک ہے اسی لیے معروف صحافی امن دیپ سندھو سے ریاستی مسائل پر بات کرتے ہوئے اس نے کہاتھا کہ پنجاب کی سرزمین مسائل سے گھری ہوئی ہے۔ اس میں بے روزگار نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد رہتی ہے۔ امرت پال سنگھ جانتاہے کہ یہی لوگ اس کے انتہا پسند نظریات کی راہ ہموار کریں گے۔پنجاب میں یہ خیال عام ہے کہ امرت پال سنگھ جیسے لوگوں کی تیز رفتار مقبولیت کے لیے متعدد حکومتوں کی مختلف مسائل کو حل کرنے میں تاریخی ناکامی ذمہ دار ہے ۔
ریاست میں پائی جانے والی اس بے چینی کا اظہار کا مختلف انتخابات کے دوران ہوچکا ہے۔ آپریش بلیو اسٹار کے بعد ناراض سکھوں نے کانگریس کو سبق سکھانے کی خاطر قومی انتخاب سمرنجیت سنگھ مان کے شدت پسند اکالی دل کو زبردست کامیابی سے نوازا۔ اس کے بعد مایوس ہوکر ان کا ساتھ چھوڑ دیا مگر تقریباًچالیس سال بعد پچھلے سال پھر سے انہیں سنگرور سے کامیاب کرکے ایوان پارلیمان میں پہنچایا۔ آپریشن کے بعد اکالی دل کو ریاستی الیکشن میں کامیاب کرتے رہے لیکن وہ ایک خاندان کی پارٹی بن کر رہ گئی۔ اس نے بی جے پی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا اور یہ سوچنے لگی کہ اسے کامیاب کرنا سکھوں کی مجبوری ہے کیونکہ وہ کانگریس کے ساتھ کبھی نہیں جائیں گے۔ بالآخر عوام نے پرکاش سنگھ بادل کو سبق سکھا کر کیپٹن امریندر سنگھ کی قیادت میں کانگریس کو اقتدار پر فائز کردیا۔ کسان تحریک کے سبب اکالی دل نے بی جے پی کا ساتھ چھوڑ دیا۔گزشتہ الیکشن میں کانگریسی سوچ رہے تھے کہ ان کی واپسی یقینی ہے مگر پنجابیوں نے اس کو بھی دھول چٹا دی اور عام آدمی پارٹی کو ایسی کامیابی سے نوازا جو اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھی۔
پچھلےالیکشن میں سکھوں کی بیزاری بامِ عروج پر تھی اس لیے انہوں نے وزیر اعلیٰ چنیّ کے ساتھ سدھو کو بھی ہرایا اور پورے بادل خاندان کا صفایا کردیا۔ عام آدمی پارٹی کو بڑی امیدوں سے اقتدار میں لایا گیا لیکن اس نے تو ایک سال کے اندر لوگوں کو مایوس کردیا۔ اس کی ایک وجہ تو اس کی ناتجربہ کاری ہے کیونکہ دلی کی حکومت میونسپلٹی چلانے جیسا ہے جہاں نظم و نسق مرکز کے تحت ہوتا ۔ اس کے برعکس پنجاب ایک سرحدی صوبہ ہے اور اس میں دہشت پسندی کی تاریخ رہی ہے۔ منشیات اور بیروزگاری نے وہاں کے نوجوانوں میں زبردست مایوسی پھیلا رکھی ہے۔ پنجاب سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ وہاں کسانوں کی سالانہ آمدنی زیادہ تو ہے مگر گھٹ رہی ہے۔ باہر کے مزدوروں کا مسئلہ موجود ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے بجائے عام آدمی پارٹی کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان کبھی سستی شہرت کے تماشے کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی شراب کے نشے میں دھت ہوائی جہاز سے اتار دیے جاتے ہیں۔ ایسے میں جو خلاء پیدا ہوا ہے اس کو امرت پال سنگھ پورا کررہا ہے۔
اجنالا سانحہ کو امرت پال سنگھ کے اس چیلنج کی روشنی میں دیکھنا چاہیے کہ جس میں انہوں نے کہا تھا وزیراعلیٰ میں ہمت ہے تو ان کے خلاف مقدمہ درج کر کے دکھائیں۔ وہ بولے پولیس بار بارٹٹولتی ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ہم یہاں یہ دکھانے کے لیے آئے ہیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ یہ کوئی ریاستی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ امرت پال سنگھ کہا ہے کہ ہم خالصتان کے مطالبے کو بے حد پُرامن طریقے سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ کہتا ہے کہ ’ وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ خالصتان تحریک کو آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔ میں نے کہا تھا کہ اندرا گاندھی نے بھی ایسا ہی کیا تھا اور اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ کو بھی نتائج بھگتنے ہوں گے۔ اپنے اس بیان کے بعد امرت پال نے ایک ایسی بات کہہ دی جس نے پورے سنگھ پریوار کو آئینہ دکھا دیا۔ وہ کہتا ہے کہ اگر وزیر داخلہ ’ہندو راشٹر‘ کا مطالبہ کرنے والوں سے یہی کہتے ہیں تو میں دیکھوں گا کہ کیا وہ وزیرداخلہ بنے رہتے ہیں؟ اس طرح امرت پال نے خالصتان کے مطالبے کو ہندو راشٹر کے برابر والے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔
اتر پردیش کے بھگوا دھاری وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ بھارت ایک ہندوراشٹر ہے اور یہاں کا ہر شہری ہندو ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہندو کوئی مذہب یا فرقہ نہیں ہے۔ یہ ایک ثقافتی اصطلاح ہے جو ہر شہری کے لیے موزوں ہے۔ اب اگر یوگی میں ہمت ہے تو پنجاب جاکر امرت پال کو سمجھائیں کہ بھیا یہ ریاست بھی ہندو راشٹر کا حصہ ہے۔ ہندوستان ایک ہندو راشٹر تھا ہے اور رہے گا۔ اس کے علاوہ یہ بھی بتائیں کہ بیٹا امرت پال تم بھی سکھ نہیں بلکہ ہندو ہی ہو۔ اس کے بعد انہیں آٹے دال کا بھاو پتہ چل جائے گا، اس لیے کہ اپنی گلی میں تو ہر کوئی شیر ہوتا ہے۔ امرت پال تو ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ کو دھمکی دے چکا ہے کہ ’اندراگاندھی نے دبانے کی کوشش کی تھی، دیکھ لیں کیا حشر ہوا؟ اب امیت شاہ اپنی خواہش پوری کرکے دیکھ لے‘۔اس کے باوجود وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کوشمال مشرق کی ننھی منی ریاستوں میں فینسی ڈریس شو کرکے انتخابی مہم چلانے سے فرصت نہیں ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ملک کا شمال مغربی صوبہ سنگین مسائل سے دوچار ہے اور حکمرانوں کو شمال مشرق میں انتخابی کامیابی کی فکر ستا رہی ہے۔ ایسی صورتحال پر علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 کیا پولیس تھانے کا محاصرہ کرنا، اس پر قبضہ کرکے اہلکاروں کو یرغمال بنا لینا اور بدلے میں اپنے آدمی کو چھڑوانا کوئی جرم نہیں ہے؟ اس کی تفتیش اور سزا کسی کو ہوگی بھی یا نہیں؟ اس سوال کا جواب وزیر اعظم کو دینا ہوگا۔ کیونکہ یہ محض صوبائی نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے۔اجنالا پولیس تھانے پر حملہ اچانک نہیں ہوا بلکہ ایک دن قبل امرت پال نے متنبہ کردیا تھا کہ اگر اس پر اور ساتھیوں پر دائر ایف آئی آر ایک دن کے اندر رد نہ کی گئی تو وہ اپنے حامیوں سمیت پولیس اسٹیشن کا گھیراؤ کرنے پہنچے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مارچ تا 11 مارچ 2023