پنکچر جوڑنے والا طنز وزیراعظم پر پڑا بھاری، اپوزیشن کا مودی کی شخصیت پر جوابی حملہ

متنازعہ وقت ترمیمی قانون کے تحت بریلی میں پہلا مقدمہ درج ، فرضی وقف ٹرسٹ میں غیر مسلم بھی شامل

محمد ارشد ادیب

یو پی اتراکھنڈ میں بی جی پی کی وقف بیداری مہم،غریب خواتین اور پسماندہ طبقوں کو جھانسے میں لینے کی کوشش
یوپی میں رشوت اور بدعنوانی کے معاملوں میں اہم انکشافات، ریاستی حکومت کے دعوؤں کا پردہ فاش
خواتین کے جنسی جرائم کی انوکھی کہانیاں، بیویاں بنی قاتل حسینہ، مردوں کو اب جان بچانا بھی مشکل
متنازعہ وقف ترمیمی قانون پر شمال سے جنوب تک مسلمانوں میں بے چینی اور ہیجان برپا ہے۔ سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے سے انہیں تھوڑی راحت اور امید ضرور ملی ہے لیکن وزیر اعظم مودی کے ایک بیان نے ان کی پھر دل آزاری کی ہے جب انہوں نے ہریانہ کے ضلع حصار میں ایک عوامی ریلی کے دوران مسلمانوں کو پنکچر جوڑنے والا بتا کر ان کی معاشی حالت پر طنز کیا۔ ان کے اس متنازعہ بیان پر سوشل میڈیا میں شدید نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ کانگریس کے راجیہ سبھا رکن عمران پرتاب گڑھی نے وزیر اعظم کے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ زبان تو سوشل میڈیا میں ٹرولز یعنی گالی گلوچ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص کو یہ زبان زیب نہیں دیتی۔ انہوں نے مسلم نوجوانوں کی بے روزگاری کے لیے بی جے پی حکومت کو ذمہ دار ٹھیراتے ہوئے پارٹی پر مسلمانوں کو درکنار کرنے کا الزام لگایا۔ عمران پرتاپ گڑھی نے کہا کہ پارٹی کے پاس ایک بھی مسلم رکن پارلیمنٹ نہیں ہے جو وقف ترمیمی بل کو پیش کر سکتا۔
کانگریس ترجمان سپریہ سرینیت نے کہا کہ 11 سال اقتدار میں رہنے کے باوجود وزیر اعظم کانگریس کو کوس رہے ہیں۔ دراصل وزیر اعظم نے پنکچر جوڑنے والے بیان کے ذریعے کانگریس کی سابقہ دور حکومت کو نشانہ بنایا تھا لیکن اپوزیشن کے ساتھ سوشل میڈیا انہی پر حملہ آور ہو گئی۔ ایکس پر ایک ہیش ٹیگ ٹرینڈ ہو چکا ہے جس میں مختلف پیشوں سے وابستہ مسلمان اپنے فن اور ہنر کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھ رہے ہیں# کچھ نہیں بھائی بس پنکچر بنا رہا ہوں۔
وقف ترمیمی قانون کے بعد بریلی میں پہلا مقدمہ درج ہوا ہے۔ متنازعہ وقف ترمیمی ایکٹ پر سپریم کورٹ کے سخت رخ کے باوجود اتر پردیش کے شہر بریلی میں وقف ایکٹ کے تحت پہلا مقدمہ درج ہو گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق موضع سرنیا کے پتن شاہ نے ایس ایس پی آفس میں شکایت کی کہ سبزے علی نامی شخص نے فرضی ٹرسٹ بنا کر سرکاری قبرستان کی زمین پر قبضہ کر لیا ہے اور ایک مزار بنا کر جھاڑ پھونک کا کام کر رہا ہے۔ پولیس کے مطابق ریوینیو جانچ میں قبرستان سرکاری زمین پر پایا گیا جس کے بعد سی بی گنج تھانے میں سبزے علی سمیت 11 افراد پر مقدمہ درج ہو گیا ہے۔ اس سازش کا ماسٹر مائنڈ منیش کمار نام کا غیر مسلم شخص ہے جسے وقف کی زمین بتا کر ٹرسٹی بنایا گیا ہے۔ سبزے علی کے مطابق قبرستان کی زمین کو فرضی طریقے سے ٹرسٹ کی زمین بتا کر سنی سنٹرل وقف بورڈ یو پی میں درج کرایا گیا۔ مقامی باشندوں کے مطابق ایسے ہی لوگ وقف کو بدنام کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
متنازعہ وقف قانون پر بی جے پی کی بیداری مہم
وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ پورے ملک میں وقف بچاؤ مہم چلا رہا ہے۔ بی جے پی نے عوامی سطح پر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بیداری مہم چلانے کا اعلان کیا ہے اور یو پی میں 19 اپریل سے اس کا آغاز ہو چکا ہے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر کنور باسط علی نے اس کی جانکاری دیتے ہوئے بتایا کہ اس مہم کے تحت بی جے پی کے عوامی نمائندے، کارکنان، پارٹی عہدے دار اور حکومتی نمائندے گھر گھر جا کر مسلمانوں کو نئے (متنازعہ) وقف ترمیمی قانون کے فائدے سمجھا رہے ہیں۔ ان کے مطابق ترمیمی قانون کے تعلق سے عوام میں جو ابہام ہے اسے افہام سے دور کیا جائے گا۔ یو پی کے مملکتی وزیر برائے اقلیتی فلاح و بہبود دانش آزاد انصاری نے لکھنو میں صحافیوں سے بات چیت میں دعویٰ کیا کہ نئے ترمیمی قانون سے غریب اور پسماندہ مسلمانوں کو فائدہ ہو گا اس کے لیے ٹاؤن ہال پروگرام منعقد کیے جائیں گے اور ان میں پیغامِ مودی سنایا جائے گا۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے متنازعہ کسان بلوں کے موقع پر بھی بی جی پی کسانوں میں اسی طرح کی مہم چلا چکی ہے لیکن کسان سرکاری پروپگنڈے کے جھانسے میں نہیں آئے مجبوراً سرکار کو تینوں کسان بل واپس لینے پڑے تھے۔ متنازعہ وقف قانون کے معاملے میں بھی سرکار پھر وہی پروپگنڈا دہرانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن مسلم پرسنل لا بورڈ و دیگر ملی تنظیمیں کھل کر واضح کر چکی ہیں کہ متنازعہ ترمیمی ایکٹ کسی قیمت پر منظور نہیں ہے اور اس قانون کی واپسی تک وہ عدلیہ سے لے کر سڑک تک ہر جگہ اس کے خلاف جدوجہد کریں گے۔ دراصل حکم راں جماعت اس قانون کے بہانے ایک بار پھر پسماندہ مسلمانوں اور خواتین کے نام پر مسلمانوں کے ملی اتحاد کو منتشر کرنا چاہتی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بوہرا سماج کے مسلمانوں کے ساتھ ملاقات کا فوٹو سیشن کروا کے اپنے ارادے واضح کر دیے ہیں۔ یو پی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ بھی کہہ چکے ہیں کہ وقف کی زمینیں خالی کروا کے غریبوں اور دلتوں کو دی جائیں گی۔ مسلمانوں کی ساری امیدیں اب عدالت عظمیٰ سے وابستہ ہیں۔
بی جے پی، یو پی کے علاوہ اتر اکھنڈ کے عوام کو بھی سبز باغ دکھا رہی ہے کہ وقف بورڈ سے زمین آزاد کروا کے غریب اور مسلم خواتین کو مکانات دیے جائیں گے۔ پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری دشینت گوتم نے گزشتہ دنوں دہرادون کے ایک ورکشاپ میں اس بات کا دعوی کیا۔ انہوں نے پی ایم آواس یوجنا کے علاوہ ہسپتال اور اسکول بنانے کا بھی وعدہ کیا۔ یاد رہے کہ اتر اکھنڈ میں کافی عرصے سے اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جا رہی ہے۔ ریاست کے باشندوں کو بہاری بتا کر پہاڑی علاقہ چھوڑنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ حال ہی میں مدرسوں کی اجازت کے نام پر کئی دینی اداروں کو بند کر دیا گیا۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کہہ رہے ہیں کہ اتر اکھنڈ میں موجود 57 ہزار اوقاف جائیدادوں کی از سر نو تصدیق کی جائے گی۔ شاید انہیں نہیں معلوم کہ وقف بورڈ کے ضابطے کے مطابق کسی بھی جائیداد کی مکمل تصدیق کے بعد ہی بورڈ میں اندراج ہوتا ہے ۔
دلی میں درد ناک حادثہ
مصطفی آباد میں ایک پانچ منزلہ عمارت گرنے سے تقریباً ایک درجن افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ملبے میں دبنے سے کئی افراد زخمی ہیں۔ حکومت نے مہلوکین کو دو دو لاکھ روپے کی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ دلی کی وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا نے مرنے والوں کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ پارٹی کے دیگر لیڈر حادثے کے لیے عام آدمی پارٹی کی سابقہ حکومت کو ذمہ دار بتا رہے ہیں۔ جبکہ عآپ لیڈروں نے اسے موجودہ حکومت کی ناکامی بتایا ہے۔ حاجی تحسین نام کی ملکیت والی اس عمارت میں ان کے بیٹوں اور کرایہ داروں سمیت کل 22 افراد رہتے تھے جن میں صرف چند ہی صحیح سلامت بچ سکے۔ حکومت کو اس طرح کے تنگ علاقوں میں کثیر منزلہ عمارتیں بنانے پر سختی برتنا چاہیے۔
یو پی میں بد عنوانی کا بڑا معاملہ
اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ ایمان داری اور شفافیت کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن ان کے محبوبِ نظر ایک آئی اے ایس افسر نے رشوت اور بد عنوانی کا اتنا بڑا کھیل کر دیا کہ سبھی انگشت بدنداں ہیں۔ دراصل ابھشیک پرکاش نام کا یہ آئی ایس افسر لکھنو سمیت کئی ضلعوں میں ڈی ایم کے عہدے پر فائز رہا۔ اس دوران اس نے رشوت سے بے حساب دولت جمع کی اور تقریباً 700 بیگھہ زمین خرید لی اس کے باوجود یو پی حکومت اسے اہم ذمہ داریاں دیتی رہی۔ ڈیفنس کاریڈور سے لے کر سولار پاور پلانٹ بنانے کی ذمہ داری بھی اسی افسر کو ملی۔ ان دونوں پروجیکٹوں میں رشوت کی پول کھلنے کے بعد اس افسر کو تمام ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا۔ اس کا ایک قریبی دلال نکانت جین پولیس کی تحویل میں ہے۔ ابھیشیک پرکاش کو معطل کر دیا گیا ہے اور اس کے خلاف ایس آئی ٹی جانچ کے علاوہ ویجلینس اور ای ڈی کی بھی جانچ چل رہی ہے۔ عدالت نے نکانت اور ابھیشیک پرکاش کے درمیان فون کالس کی تفصیلات کو تفتیش میں شامل کرنے کا حکم دیا ہے۔ فون کی بات چیت اور ثبوتوں سے کئی سیاست دانوں اور اعلیٰ افسروں کے چہرے بے نقاب ہو سکتے ہیں۔ دراصل اتنے بڑے رشوت خور اور بے ایمان افسر پر کارروائی کرنے میں سرکار کے سامنے ملائی دار اور کمائی والے عہدوں پر فائز کرنے والے افسروں کو بچانا سب سے بڑا مسئلہ ہے جن کی مہربانی سے ابھی تک ابھیشیک پرکاش کا نام بدعنوانی سے متعلق ایف آئی ار میں شامل نہیں ہو پایا ہے۔ فی الحال یہ پورا معاملہ زیر تفتیش ہے۔ اپوزیشن لیڈر اکھلیش یادو بھی کہہ چکے ہیں کہ اس بدعنوانی میں صرف افسر نہیں بلکہ بڑے بڑے اثر و رسوخ والے بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
ایودھیا میڈیکل کالج میں خود کشی کا معاملہ
ایودھیا میڈیکل کالج کے جز وقتی ملازم پربھو ناتھ مشرا کی خود کشی معاملے میں سازش کا پردہ فاش ہو گیا ہے حیدرآباد کی سی ڈی ایف ڈی نے ڈی این اے جانچ میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ڈی این اے اور لکھنؤ میڈیکل کالج کے مورچری سے بھیجے گئے آلائش کے نمونے میں کوئی مطابقت نہیں ہے یعنی کسی سازش کے تحت مرنے والے کے بدلے کسی دوسری لاش کے الائش کے نمونے بھیجے گئے۔ یو پی کے نائب وزیر اعلی اور وزیر صحت برجیش پاٹھک نے اس معاملے کی جانچ کا حکم دیا ہے۔ یاد رہے کہ پربھو ناتھ مشرا نے ایودھیا میڈیکل کالج کے پرنسپل اور اسٹاف کی مار پیٹ اور بد سلوکی سے تنگ آ کر خود کشی کے ارادے سے زہر پی لیا تھا۔ اس کی جان بچانے کے لیے گھر والے لکھنو کے لوہیا ہسپتال لے گئے لیکن علاج کے دوران ہی اس کی موت واقع ہو گئی۔ گھر والوں کا الزام ہے کہ ایودھیا میڈیکل کالج کے پرنسپل نے خود کو اور اپنے اسٹاف کو بچانے کے لیے رپورٹ بدلوا دی۔ ڈی ایف ڈی کی رپورٹ سے اس کی تصدیق ہو رہی ہے لیکن پربھو ناتھ کے گھر والے ابھی بھی انصاف کے لیے در در بھٹک رہے ہیں بیں۔
بے قصور منی ہوئی بدنام
بریلی میں بجلی چوری کے ایک معاملے میں بے قصور منی کو جیل بھیج دیا گیا۔ دراصل سی بی گنج تھانے کے بنڈیا گاؤں میں منی شاہ نام کے شخص پر بجلی چوری کا مقدمہ درج ہوا لیکن پولیس نے منی دیوی نام کی خاتون کو پکڑ کر جیل بھیج دیا جبکہ دونوں کا مذہب اور پتہ بھی الگ ہے۔ اب منی دیوی کے گھر والے انہیں جیل سے رہا کرانے کے لیے کورٹ کچہری کے چکر لگا رہے ہیں۔ پولیس کپتان نے اس معاملے میں جانچ کا حکم دیا ہے۔
شمالی بھارت خاص طور پر یو پی میں ان دنوں جنسی جرائم کافی بڑھ گئے ہیں، ہر روز خواتین کے ذریعے اپنے مردوں کو دھوکہ دینے یا ان کے قتل کی سازش رچنے کی خبریں آرہی ہیں۔ میرٹھ کی نیلے ڈرم والی قاتل حسینہ مسکان کے بعد میرٹھ سے ہی ایک اور خبر وائرل ہوئی ہے جس کے مطابق رویتا نامی خاتون نے اپنے شوہر کو مارنے کے لیے زہریلے سانپ سے کٹوایا لیکن اتفاق سے سپیرا سانپ کے زہریلے دانت پہلے ہی توڑ چکا تھا، لہٰذا رویتا نے اپنے عاشق سے مل کر اپنے زندہ بچ جانے والے شوہر کا گلا دبا کر قتل کر دیا اور سانپ کے کاٹنے کا شور مچا دیا۔ تاہم پوسٹ مارٹم رپورٹ سے سچائی سامنے آگئی۔ نتیجے میں رویتا اب سلاخوں کے پیچھے ہے۔ اسی طرح بریلی کے فتح گنج کی ریکھا نے اپنے عاشق کی مدد سے شوہر کو مار ڈالا اور اس کی لاش کو پھانسی پر چڑھا دیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ انکشاف ہوا کہ گلا دبا کر مارنے کے بعد لاش کو پنکھے سے لٹکایا گیا۔
علی گڑھ میں اس سے بھی دلچسپ اور حیران کن واقعہ پیش آیا جب ایک خاتون اپنی بیٹی کی شادی سے صرف دس دن پہلے اپنے ہونے والے داماد کے ساتھ فرار ہو گئی اور واپس آنے کے بعد بھی اپنے شوہر کے بجائے اپنے عاشق کے ساتھ زندگی گزارنے پر بضد ہے۔ اب اس کا شوہر اپنی بیٹی کے ساتھ اکیلا رہ گیا ہے۔ دراصل اس طرح کی خبروں کا گہرائی سے جائزہ لینے پر اندازہ ہوتا ہے کہ بیویوں کی جنسی خواہشات اتنی بڑھ چکی ہیں کہ ان کو رشتوں کے تقدس کو پامال کرنے پر بھی کوئی عار محسوس نہیں ہوتا۔ شوہروں کی مار پیٹ اور خواتین کی توقعات پوری نہ کر پانا بھی اس طرح کے جنسی جرائم کی وجہ ہو سکتے ہیں۔ مردوں کو اس سلسلے میں مزید محتاط اور حساس ہونے کی ضرورت ہے کہ معلوم نہیں کب کوئی بیوی ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کوئی ترکیب کھوج نکالے۔ دانشوروں کے مطابق اس سے تو طلاق ہی اس کا متبادل ہے کہ کم سے کم جان تو بچ جائے گی۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال، آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اپریل تا 03 مئی 2025