سپریم کورٹ نے مرکز سے کہا کہ جموں و کشمیر کی ریاست کا درجہ بحال کرنے کے لیے ایک مقررہ وقت بتائیں
نئی دہلی، اگست 29: سپریم کورٹ نے منگل کو مرکز سے کہا کہ وہ ایک ٹائم فریم بتائے، جس کے اندر وہ جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کرے گا۔
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کا بنچ 20 سے زیادہ ایسی درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے جس میں مرکزی حکومت کے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے اور سابقہ ریاست کو 2019 میں دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے فیصلوں کو چیلنج کیا گیا ہے۔
منگل کو اس معاملے پر روزانہ کی سماعت کے بارہویں دن سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے اگست 2019 کو دیے گئے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے اس بیان کا حوالہ دیا کہ جموں اور کشمیر کا ریاست کا درجہ مقررہ وقت پر بحال کر دیا جائے گا۔
مرکزی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے مہتا نے عدالت کو بتایا کہ جموں و کشمیر کی بطور یونین ٹیریٹری کی حیثیت مستقل نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے جواب میں پوچھا ’’یہ کتنی غیر مستقل ہے؟ آپ الیکشن کب کروانے جا رہے ہیں؟‘‘
دن کے آخر میں مہتا نے کیس پر حکومت کے موقف کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے بعد اپنے موقف کو دہرایا۔ تاہم انھوں نے کہا کہ لداخ ایک مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہی رہے گا۔
مہتا نے کہا ’’میں پرسوں ایک مثبت بیان دوں گا۔‘‘
چیف جسٹس چندرچوڑ نے سوال کیا کہ کیا قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے مرکز کے لیے کسی ریاست کو عارضی طور پر یونین ٹیریٹری میں تبدیل کرنا ممکن ہے؟
سالیسٹر جنرل نے اس کا اثبات میں جواب دیا اور مثال کے طور پر آسام، تریپورہ اور اروناچل پردیش کا حوالہ دیا۔
چیف جسٹس چندرچوڑ نے تسلیم کیا کہ اس کیس میں قومی سلامتی کے خدشات متعلقہ ہیں، لیکن کہا کہ خطے میں جمہوریت کی بحالی ضروری ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ قومی سلامتی کے معاملات ہیں… قوم کا تحفظ ہی سب سے اہم ہے۔۔۔۔۔ لیکن آپ اور اے جی [اٹارنی جنرل آر وینکٹ رامانی] اعلیٰ سطح پر ہدایات حاصل کر سکتے ہیں۔ کیا کوئی ٹائم فریم نظر میں ہے؟‘‘
کیس کی اگلی سماعت 31 اگست کو ہوگی۔