’’احتجاج نے ہی ہندوستان کو آزادی دلوائی ہے‘‘: کسان یونینوں نے وزیر اعظم کے ’’آندولن جیوی‘‘ تبصرے کے جواب میں کہا
نئی دہلی، فروری 9: کسان یونینوں نے پیر کے روز راجیہ سبھا میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے احتجاج کرنے والے افراد کو ’’آندولن جیوی‘‘ سے تعبیر کرنے کے تبصرے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ پیر کو پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ’’آندولن جیویوں‘‘ کی شناخت کرنا اور ان سے قوم کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔
اس تبصرہ کے جواب میں 40 کسان یونینوں کی ایک مشترکہ تنظیم سمیکت کسان مورچہ نے کہا یہ تبصرہ کسانوں کی توہین ہے۔ کسان تنظیم نے ایک آفیشیل بیان میں کہا ’’وہ احتجاج ہی ہے جس نے ہندوستان کو نوآبادیاتی حکمرانوں سے آزاد کرایا ہے اور اس وجہ سے ہمیں ’آندولن جیوی‘ ہونے پر فخر ہے۔‘‘
کسان یونین نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور دعویٰ کیا کہ یہ تاریخی طور پر ہمیشہ سے ہی احتجاج کے خلاف رہی ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق سمیکت کسان مورچہ نے کہا ’’وہ بی جے پی اور اس کے پیش رو ہی ہیں جنھوں نے کبھی بھی انگریزوں کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کیا … وہ ہمیشہ تحریکوں کے خلاف تھے اور وہ عوامی تحریکوں سے اب بھی خوفزدہ ہیں۔ اگر حکومت ہمارے جائز مطالبات کو قبول کرتی ہے تو کسان کاشتکاری میں واپس آکر زیادہ خوش ہوں گے۔ یہ حکومت کا اٹل رویہ ہے جو بہت زیادہ اضطراب پیدا کر رہا ہے۔‘‘
کسانوں نے وزیر اعظم کی جانب سے کم سے کم سپورٹ پرائس نظام کے بارے میں یقین دہانی کو قبول نہیں کیا اور انھوں نے نشان دہی کی کہ اس وقت زرعی پیداوار پر معاوضے کی ضمانت دینے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔
بھارتی کسان یونین کے راکیش ٹکیت نے ہندوستان ٹائمز کو بتایا ’’کوئی قانون نہیں ہے، لہذا کاروباری افراد کسانوں کو لوٹتے ہیں۔ حکام نے مختلف ذرائع سے اس تحریک کو داغدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس تحریک کی قیادت سیاسی رہنماؤں کے ذریعہ نہیں کی جارہی ہے، بلکہ اس قانون کی منسوخی کا مطالبہ کرنے والے کسان ہیں۔‘‘
بھارتیہ کسان یونین (دوآبہ) کے جنرل سکریٹری ستنم سنگھ ساہنی نے کہا کہ وزیر اعظم کو مرکز اور کسانوں کی تنظیموں کے مابین اگلے دور کے مذاکرات میں موجود ہونا چاہیے۔ واضح رہے کہ مودی نے اپنی تقریر میں کسان تنظیموں سے کہا تھا کہ وہ اس معاملے میں تعطل کو حل کرنے کے لیے حکومت سے مذاکرات کا آغاز کریں۔
ساہنی نے ہندوستان ٹائمز سے کہا ’’اگر وزیر اعظم مذاکرات کا اگلا دور چاہتے ہیں تو ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ لیکن ہم وزیر اعظم سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ خود ہم سے ملاقات کریں، کسانوں کے تحفظات کو سمجھیں اور اس تعطل کو ختم کریں۔‘‘