فرقہ وارانہ تشدد کے بعد کولکاتا کے کچھ حصوں میں امتناعی احکامات نافذ

نئی دہلی، اکتوبر 10: اے این آئی کی خبر کے مطابق مغربی بنگال پولیس نے پیر کو کولکاتا کے کچھ علاقوں میں 12 اکتوبر تک چار یا اس سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی لگا دی۔ یہ پیش رفت شہر میں فرقہ وارانہ تشدد کی اطلاع کے ایک دن بعد ہوئی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق کولکاتا کے مومن پور علاقے میں ہفتہ کی رات مسلمانوں کے تہوار عید میلاد النبی کے موقع پر جھنڈوں کو لے کر جھڑپیں ہوئیں۔ اگلی رات پڑوسی میوربھنج علاقے میں کئی گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور کاروں کو تباہ کر دیا گیا۔

ایک ہجوم نے اکبالپور پولیس اسٹیشن میں بھی توڑ پھوڑ کی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے 10 افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ تشدد کی وجہ سے علاقے میں ہندوؤں کے کئی کاروبار اور املاک کو نقصان پہنچا ہے۔

اپوزیشن لیڈر سووندو ادھیکاری نے کہا کہ انھوں نے وزیر داخلہ امت شاہ اور گورنر لا گنیشن کو تشدد کے بارے میں خط لکھا ہے اور علاقے میں مرکزی فورسز کی تعیناتی کی مانگ کی ہے۔

بی جے پی لیڈر سوپن داس گپتا نے کہا کہ علاقے میں تشدد تشویش ناک ہے۔

دریں اثنا مغربی بنگال بی جے پی کے صدر سکنتا مجمدار کو بھی پولیس نے اس وقت حراست میں لے لیا، جب انھوں نے پیر کو تشدد سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کی کوشش کی۔

حراست میں لیے جانے سے پہلے مجمدار نے الزام لگایا کہ تشدد پر قابو پانے میں پولیس کا کردار افسوس ناک تھا۔

ترنمول کانگریس کے جنرل سکریٹری کنال گھوش نے بی جے پی پر ’’گدھ کی سیاست‘‘ میں ملوث ہونے کا الزام لگایا اور کہا کہ پولیس صورت حال کو قابو میں لائی ہے۔

انھوں نے کہا ’’بی جے پی بھڑکا رہی ہے اور اسے الگ رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ کچھ جھڑپیں ہوئیں، لیکن اب سب کنٹرول میں ہے۔‘‘