پروفیسر محسن عثمانی کی وانی

دعوت کے لیے داعی کو مدعو کی زبان پر درک لازمی

ابو فہد ندوی، نئی دلی

ابھی حال ہی میں پروفیسر محسن عثمانی ندوی صاحب نے ایک کتابچہ شایع کیا ہے، جو دراصل ایک مقالہ ہے جو انہوں نے ہمدرد یونیورسٹی میں مئی 2024 میں پڑھا تھا۔ پھر نظرثانی کے بعد اسے کتابچے کی صورت میں شائع کیا۔ اس کتابچے کا نام ’’لسانِ قوم کی اہمیت‘‘ ہے۔ اور اس میں روئے سخن اہل مدارس کی طرف ہے، کیونکہ وہی اس تخاطب کے زیادہ اہل ہیں اور کیونکہ دل کے داغ انہی کو دکھانے میں زیادہ عقلانیت ہے جو دوائے دردِ دل رکھتے ہیں اور داغِ دل کا مداوا کر پانے کے زیادہ اہل ہیں۔
یہ نام قرآن کی آیت ’’وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِهٖ لِيُبَيِّنَ لَهُمۡ‌‘‘ )ابراهيم4:‏) سے ماخوذ ہے۔ آیت میں ایک وضاحت یا اعلان ہے اور پھر اس کی ایک علت ہے، وضاحت یا اعلان یہ ہے کہ اللہ نے کسی بھی قوم میں جب بھی کبھی کوئی رسول بھیجا وہ اس اعلیٰ صلاحیت کے ساتھ بھیجا کہ وہ نہ صرف یہ کہ اپنی قوم کی زبان جانتا، سمجھتا اور بولتا تھا بلکہ دوسروں سے زیادہ فصیح بھی تھا۔
اور اس وضاحت کی علت یہ ہے کہ اللہ نے ایسا تاکید کے ساتھ اس لیے کیا تاکہ وہ رسول اپنی قوم کے سامنے اللہ کے کلام وپیام کی خوب خوب وضاحت کرسکے، بطور خاص زبان کا حجاب کسی بھی صورت میں خود اس رسول کے لیے اور اس قوم کے لیے کسی بھی قسم کی مشکل کا باعث نہ ہو اور دعوت میں ابلاغ و ترسیل کی سطح پر کوئی مانع نہ ہو، نہ رسول کی طرف سے ترسیلِ معانی میں اور نہ قوم کی طرف سے تفہیمِ معانی میں۔
یہی شان آخری نبی محمد ﷺ کی بھی رہی ،آپ عربوں میں مبعوث کیے گئے اور آپ نہ صرف یہ کہ عربی جانتے، سمجھتے اور بولتے تھے بلکہ آپ افصح العرب تھے۔ اس حوالے سے ذرا تکوینی انتظامات بھی دیکھیے، آپ اس قبیلے میں پیدا کیے گئے جو عربوں میں اپنی زبان دانی کے لیے سب سے زیادہ معروف تھا، یعنی قبیلہ قریش۔ اس قبیلے کا ادب تمام عرب قبائل میں سب سے اعلیٰ معیار کا تھا، اگرچہ آپ نے کبھی کسی مکتب کا منہ نہیں دیکھا مگر پھر بھی آپ کی زباں دانی کا عالم یہ تھا کہ آپ کی زبان اپنے پورے قبیلے میں سب سے زیادہ معیاری اور ادبی تھی۔ مشہوربات ہے: ’’ أدَّبَنِي رَبِّي فأحسَنَ تأدِيبي‘‘ علما کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ بات رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں تاہم معنیٰ کے اعتبار سے درست ہے۔
آیت سے معلوم ہوا کہ زبان دانی تبلیغ دین کے لیے اور اللہ کے پیام کی وضاحت کے لیے سب سے پہلا وسیلہ ہے، کوئی بھی عالم دین اس وسیلے کو اختیار کرنے میں جتنا زیادہ فکر مند، مشاق اور طاق ہوگا وہ تبلیغ وترسیل کا حق اتنا ہی زیادہ ادا کرنے کی صلاحیت حاصل کر پائے گا۔
اس لیے یہ کہنا شاید درست ہو کہ اگر کسی بھی عالم دین کو تبلیغ دین کا کام کرنا ہے اور اسے آخری وحی اور سنت رسول کی توضیح کرنی ہے تو اسے سب سے پہلے عربی زبان کے اسرار ورموز سے واقفیت حاصل کرنی پڑے گی، ادب پڑھنا پڑے گا اور تمام طرح کے پیرائے اور اسالیب کی سمجھ پیدا کرنی ہوگی تب کہیں جاکر وہ تبلیغ وترسیل کا حق ادا کر پائے گا۔ اگر کوئی طالب علم دین کا مبلغ اور داعی بننا چاہتا ہے تو اس کے لیے سب سے پہلی ضروری چیز یہی ہے کہ وہ زبان پر عبور حاصل کرے، زبان اپنے تمام ابعاد کے ساتھ اور تمام اسرار ورموز کے ساتھ اسی طرح اس کے بس میں ہو جس طرح بس (Bus) ایک مشاق ڈرائیور کے بس میں ہوتی ہے۔ اگر کسی عالم نے ترسیل وابلاغ کے اسرار و رموز عربی زبان کے بجائے اپنی مادری زبان میں سیکھے اور سمجھے ہوں تو یہ چیز بھی اسے کفایت کر جائے گی پھر عربی زبان سے تھوڑی سی واقفیت بھی اس کے لیے بہت ہوگی۔
یہ تو فی نفسہ زبان کی اہمیت کی بات ہوئی، مگر آیت میں دراصل ایک دوسری واضح بات یہ ہے کہ ’لسانِ قوم‘ کو دعوت اور تبلیغ وترسیل کا ذریعہ بنایا جائے، جیسا کہ خود اللہ نے کیا کہ ہر قوم میں اسی کی قومی زبان پرعبور رکھنے والا رسول بھیجا، جو زبان وہ قوم جانتی، بولتی اور سمجھتی تھی۔ اور یہ چیز دعوت وتبلیغ کی کامیابی کی ضمانت ہے، برخلاف اس کے کہ دعوت اگر اس قوم کی اپنی زبان میں نہیں ہے جس قوم کو دعوت دی جا رہی ہے تو دعوت کے میدان میں کامیابی کی اتنی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
پروفیسر صاحب نے اسی دوسری بات کو قرآن کی پچاسوں آیات کے حوالے سے اور دیگر تاریخی شواہد سے ثابت کیا ہے اور بتایا ہے کہ خاص طور پر برصغیر میں تبلیغ دین میں جو کوتاہی ہوئی ہے وہ اسی راہ سے ہوئی ہے کہ ہم مسلمانوں نے اور مسلمانوں میں سے بھی علماء نے اور علماء میں سے بھی خاص طورپر دُعاۃ اور مبلغین نے اپنے ملک اور قوم کی زبانیں نہیں سیکھیں اور اہل وطن کے ساتھ خود ان کی زبان میں ہم کلام نہیں ہوئے۔ ڈائیلاگ نہیں کیے اور استدلال نہیں رکھے۔ ابتدائی زمانے میں غیر مسلموں کے درمیان دعوت دین کی جو کاوشیں ہوئی تھیں اور جن کے بہتر نتائج دیکھنے کو ملے تھے، بعد کے زمانے میں ان کوششوں کا رخ صرف اصلاح بین المسلمین، ردِّبدعات اور زیادہ سے زیادہ حفاظتِ دین کی کاوشوں کی طرف پھر گیا اور پھر اس روش میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔اللہ جانے کیوں؟ اس کا بھی نفسیاتی اور واقعاتی تحلیل وتجزیہ ضروری ہے۔
پروفیسر موصوف کے زیر نظر کتابچے سے ایک مختصر پیراگراف ملاحظہ کریں:
’’بلاشبہ ہندوستان مسلمانوں کی دعوتی تجدیدی اوراصلاحی کوششوں کا مرکز رہا ہے۔ ہندوستان کی اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں کاروانِ اہلِ دل نے اسلام کی اشاعت کا کام کیا اور ہزاروں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ مسلم سلاطین کی سرپرستی میں یہ ملک مسلمانوں کے لیے گلشنِ بے خار بن گیا۔ یہ داستانِ فصلِ گل راقم سطور نے اپنی کتاب ’’دعوت اسلام: اقوام عالم اور برادرانِ وطن کے درمیان‘‘ میں بڑی خوش دلی اور فرحت وانبساط کے ساتھ بیان کی ہے۔ ہندوستان میں مشائخ روحانی اور علمائے ربانی کے ذریعہ اور ان سے پہلے مسلمان تاجروں کے ذریعہ یہ کام انجام پایا۔
ایک عرصہ کے بعد علمائے دین نے محسوس کیا کہ ہندوستان کے قدیم مذاہب اور تہذیبوں کے خیالات وعادات بھی مسلمانوں پراثر انداز ہو رہے ہیں، اس لیے دعوتی اور تبلیغی کام کا رخ حفاظتِ دین اور تطہیرِ عقائد، ردِّ بدعات واصلاح رسوم کی طرف مڑگیا۔ یعنی اب دفاعی نوعیت کے کام کی طرف مسلمان علماء متوجہ ہوگئے، دعوتی کام یا اقدامی نوعیت کا کام پسِ پشت چلا گیا۔
اس وقت سے لے کر اب تک بہ حیثیت ِمجموعی مسلم علماء اور قائدین کے کام کا رخ یہی رہا ہے، یعنی اشاعت دین کے بجائے صرف حفاظت دین۔ بعد میں سیاسی تحریکیں بھی مسلمانوں میں اٹھیں لیکن برادارنِ وطن کے درمیان دعوتی فکر کا زمانہ واپس ہی نہیں آیا۔ اللہ کا دینِ متین موجود لیکن اس کی جانب کوئی دعوت دینے والا نہیں۔ آہ! وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف‘‘ (صفحہ نمبر 4)
یہی باعث ہوا کہ وطن کے طول وعرض میں تبلیغ دین میں کوتاہی ہوئی اور اس کوتاہی کا نتیجہ آج ہمیں زندگی کے ہر محاذ پر بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ہم نے تبلیغ دین کے لیے بے شک مدارس قائم کیے مگر ایسے افراد بہت کم پیدا کیے جو ’لسان قوم‘ میں بات کرسکیں اور برادرن وطن کے پڑھے لکھے طبقات کے ساتھ ڈائیلاگ کرسکیں۔ مسلمانوں کا المیہ یہ بھی ہے کہ ان میں اکثر و بیشتر جو زبان جانتے ہیں وہ دین نہیں جانتے یا تبلیغ ان کا مشغلہ نہیں ہے اور جو دین جانتے ہیں اور تبلیغ ان کا مشغلہ بھی ہے تو وہ زبان یعنی لسانِ قوم سے آشنا نہیں ہیں، اگر کسی نہ کسی درجے میں آشنا ہیں بھی تو اس درجے پر تو بالکل نہیں ہیں جس درجے پر ہونا اصلاً مطلوب ہے اور اتنی تعداد میں بھی نہیں ہیں جتنی تعداد میں ہونا لازمی ہے۔
بے شک عربی میں اور خاص طور پر اردو میں تو بہت سےداعیانِ دین کو مہارتیں حاصل ہیں مگر وطن عزیز میں جو بڑی اور معروف زبانیں رائج ہیں جیسے انگریزی، ہندی، ملیالم، تمل، بنگالی اور کنڑ وغیرہ، ان میں تو بہت ہی کم داعیانِ دین کو مہارتیں حاصل ہیں، اور جو معروف و مشہور دُعاۃ اور علماء ہیں ان کی لسانِ قوم کمزور ہے. دعوت وتبلیغ کے میدان میں ان علماء و دُعاۃ کی جو لسانیاتی تیاریاں ہیں، استعداد ہے اور ترسیل و ابلاغ کی سطح پر جو کرشمہ سازیاں ہیں وہ عربی، فارسی اور اردو زبانوں کے حوالے سے ہیں۔ فارسی تو اب زمانہ ہوا کہ اس کے دن لد گئے، فارسی زبان تو مغلوں کے زوال کے ساتھ ہی فارس کے قلعوں کی طرف لوٹ گئی، تاہم عربی میں کسی حد تک مہارتیں ہیں، مگر وہ اس لیے ہیں کہ یہ قرآن کی زبان ہے، ورنہ اِن علماء و دُعاۃ کی فی الواقع جو لسانیاتی تیاری ہے اور استعداد ہے وہ اردو زبان کے حوالے سے ہی ہے۔ اردو سے عشق اپنی جگہ، اس کے لیے تگ ودو بھی بجا اور اس کے لیے قربانیاں بھی مقبول، مگر جب تبلیغ دین اور توضیح دین میں ہی کوتاہی ہو رہی ہو جو اصل الاصول ہے اور مقصود اول ہے تو اردو زبان سے ایسا عشق، ایسی تمام تگ ودو اور ساری قربانیاں کما حقہ فائدہ نہیں پہنچا سکتیں۔ پروفیسر ندوی صاحب کا یہ اقتباس دیکھیں:
’’.. بلا شبہ علماء نے عظیم علمی خدمت انجام دی جس کا اعتراف کرنا چاہیے بلکہ شکر گزار بھی ہونا چاہیے، لیکن اس سے یہ حقیقت بھی آشکارا ہو جاتی ہے کہ دعوت کی گاڑی ایک بار جو پٹری سے اتری ہے دوبارہ پٹری پر نہیں آسکی ہے…. جس دینی مدرسہ میں جائیے افتاء کی ٹریننگ کا کورس موجود ہے جس میں انبوہ در انبوہ طلبا داخلہ لے رہے ہیں، لیکن کہیں لسان قوم میں اور انگریزی زبان میں دین کی دعوت کے لیے کوئی شعبہ قائم نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لسانِ قوم کی تعلیم لازمی ہوتی اور کم از کم سو عنوانات پر انگریزی میں اور لسان قوم میں دینی مدارس میں تقریرو تحریر کی مشق کرائی جاتی اور اس میں کامیاب ہوئے بغیر مدرسہ کی سند نہیں دی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا.. ‘‘ (صفحہ نمبر21)
پھر انہوں نے لکھا ہے کہ نبی ﷺ کی یہ پیشن گوئی کہ اسلام ہر گھر میں داخل ہو گا، یہ معجزے کے طور پر پوری ہوگی یا اسباب کی سطح پر پوری ہوگی؟ ظاہر ہے کہ اسباب کی سطح پر ہی پوری ہوگی، کیونکہ اب ما بعد پیغمبر کے زمانے میں معجزے رونما ہونے سے رہے، الا یہ کہ اللہ محض اپنی شان وقدرت سے امت کے لیے کچھ اور مقدّر فرما دے، کچھ ایسا جو امت کو نہال کردے اور پرانے سارے غم بھلا دے کہ ’’لِکُل یَومٍ ھُو فِی شَأنٍ‘‘ اللہ کی ہر لحظہ الگ شان ہوتی ہے اور اللہ جب چاہے حالات بدل سکتا ہے’’: لعَل اللہ یُحدثُ بَعد ذَلک امراً۔
پھر جب اس پیشن گوئی کو اسباب کی سطح پر ہی پورا ہونا ہے تو اس کے لیے انسانی کاوشوں، تیاریوں، استعداد اور ذہانتوں کی ضرورت ہوگی، اس کے لیے میدان تیار کرنے ہوں گے اور جا بجا پیادے اور سوار کھڑے کرنے ہوں گے، محض تمناؤں اور دعاؤں سے کچھ نہیں ہونے والا۔
پھر یہ کام کچھ زیادہ مشکل بھی نہیں ہے، ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے مدارس میں تخصص کے شعبے قائم ہیں، بس کرنا اتنا ہی ہے کہ انہی شعبہ جات میں تقابلِ ادیان کے ایک شعبے کا اضافہ کرنا ہے، یا جن مدارس میں پہلے سے ہی دعوت کے شعبے قائم ہیں انہیں بس موڈیفائی کرنا ہے، نصاب بدلنا ہے اور طریقۂ تدریس بدلنا ہے اور اس کے لیے چند ایسے طلبا کو جمع کرنا ہیں جو ذہین ہوں، انہیں پڑھنے لکھنے کا شوق ہو اور ان کی ذہنی افتاد اور گھر کے حالات ایسے ہوں کہ وہ اپنے آپ کو اس میدان میں لگا سکیں اور اپنی زندگی کو اس کام کے لیے وقف کرسکیں، بغیر کسی لالچ اور خوف کے اور بغیر کسی رکاوٹ اور تردد کے۔ جن طلبا میں یہ دو تین خصوصیات ہوں، ان کو لے کر انہیں خاص طور سے تین زبانیں سکھانی ہیں ایک سنسکرت، دوسری انگریزی اور تیسری ہر طالب علم کی اپنی مقامی زبان۔یعنی ہندی بیلٹ کے طلبا کو ہندی سکھانی ہے، جنوبی ہند کے طلبا کو تمل، کنڑ اور ملیالی وغیرہ سکھانی ہے اور بنگالی ونآسامی علاقوں کے طلبا کو بنگالی وآسامی زبان سکھانی ہے۔ بس مذکورہ طلبا کو ان تینوں زبانوں پر عبور حاصل کرانا ہے۔ اور یہ کوئی مشکل ٹاسک نہیں ہے کیونکہ جب پہلے سے انفراسٹرکچر موجود ہے، اسباب مہیا ہیں تو اس ٹاسک کو پورا کرنے میں کچھ زیادہ دقت اور پریشانی کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔
کہنے کو تو یہ تین چار زبانیں ہوں گی مگر فی الواقع سکھانا تو ایک ہی زبان پڑے گی یعنی سنسکرت، کیونکہ انگریزی اور مقامی زبان سے تو ان طلبا کی واقفیت تھوڑی بہت ہوگی ہی، بس ان کی اس تھوڑی واقفیت کو مہارت میں تبدیل کرنا ہے۔ باقی سکھانا تو دراصل سنسکرت ہی ہے۔ دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ ملک کی اکثریت کا جو مذہب ہے یعنی سناتن دھرم اس کے بارے میں جانکاری دینا ہے، اس کی بنیادی کتابیں پڑھانی ہیں اور پھر جب یہ طلبا میدان میں اترنے کے لیے پوری طرح تیار ہو جائیں تو انہیں کام کا میدان دینا ہے، زمین فراہم کرنی ہے اور اسباب مہیا کرانے ہیں اور بس۔
دوران ٹریننگ مذکورہ زبانوں کے ماہرین اور سناتن دھرم کے جانکاروں کو ان طلبا کے لیے دستیاب کرانا بھی ضروری ہے۔ اس کے لیے اگر کسی سناتنی کی خدمات بھی لی جائیں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ اور پھر آپ دیکھیں گے کہ صرف چار پانچ سال کے عرصے میں دُعاۃ ومبلغین کی ایسی بڑی کھیپ تیار ہوجائے گی جو وطن کی اکثریت کو ان کی اپنی زبانوں میں تبلیغ کرسکے گی اور ملک کے طول وعرض میں کرسکے گی۔ اور پھر اس کا جو خوشگوار نتیجہ ظاہر ہوگا وہ وہی ہوگا جو پہلے بھی ظاہر ہو چکا ہے۔ یعنی کعبے کو خود صنم خانوں سے پاسباں مل جائیں گے۔
پھر یہ کام ضروری نہیں ہے کہ صرف اہل مدارس ہی انجام دیں، ملک گیر سطح پر اثر ورسوخ رکھنے والی مسلم تنظیمیں بھی اپنے اپنے پلیٹ فارموں سے یہ کام کر سکتی ہیں اور زیادہ بہتر طریقے پر کر سکتی ہیں کیونکہ کچھ نہ کچھ کام تو وہ کرہی رہی ہیں، پھر انہیں اہل وطن کے ساتھ سماجی کام کرنے کے تجربات بھی حاصل ہیں۔ ان کے علاوہ اہل ثروت بھی اپنے طور پر اس میدان کے ماہرین کے تعاون سے خصوصی ادارے قائم کرکے یہ کام بڑی آسانی سے کرسکتے ہیں۔ پھر جو شخصیات ہیں، جو فی الوقت میدان میں ہیں اور جنہیں اس میدان میں تجربات حاصل ہیں وہ بھی اپنے طورپر ادارے قائم کرکے باقاعدہ یہ کام کرسکتی ہیں، بعض علماء جو آن لائن تعلیمی پروگرام چلا رہے ہیں، وہ بھی اپنے آن لائن پروگراموں میں اس چیز کو شامل کر سکتے ہیں، جو یوٹیوبر ہیں وہ بھی اپنے پلیٹ فارم سے کم از کم اس کام کی اہمیت اجاگر کرسکتے ہیں، غیر مسلمین میں کام کرنےوالے افراد کے انٹرویوز کرکے اور ان کے پیغامات نشر کرکے وہ بھی اس کار خیر میں حصہ لے سکتے ہیں۔ مدارس سے تعلق رکھنے والے بعض یوٹیوبر جنہیں بھارتی ادیان کی تھوڑی بہت جانکاری ہے وہ ایسا بھی کر سکتے ہیں کہ بھارت کے مختلف ادیان کے ماہرین سے ان کے مذہب کے متعلق سوال جواب کرکے اس میدان میں کام کرنے والے طلبا کے لیے کافی مواد جمع کرسکتے ہیں۔
بے شک ایسا نہیں ہے کہ یہ میدان سرے سے خالی ہے اور کوئی بھی کچھ بھی نہیں کر رہا ہے، آج بھی چند ہستیاں ایسی موجود ہیں جو زمین پر کام کر رہی ہیں اور پھر ہر علاقے کے جو علماء ہیں وہ اپنی اپنی مادری زبان میں کسی نہ کسی درجے میں یہ کام کر ہی رہے ہیں، مگر چونکہ یہ کام منظم طریقے پر نہیں ہو رہا ہے اور منصوبہ بندی نہیں ہے اس لیے دعوت وتبلیغ کا یہ کام برگ وبار نہیں لا رہا ہے۔ اور اس طرح نہیں ہو رہا ہے جس طرح سے انبیاء کرام نے ایک مشن کے طور پر یہ کام کیا تھا اور ترجیحی طور پر کیا تھا۔
قرآن وسنت کے طلبا کو یہ بات سمجھانا از خود سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے کہ یہی وہ کام ہے جسے بروئے کار لا کر اسلام نے دنیا کے بت کدے میں اپنی جگہ بنائی تھی اور آج بھی یہی وہ کام ہے اور تقریباً یہی وہ طریقہ کار ہے جسے بروئے کار لانے سے سارے مسائل حل ہوں گے ان شاء اللہ۔ سیاسی مسائل بھی حل ہوں گے سماجی بھی اور اقتصادی بھی۔ اسی سے فرقہ واریت بھی ختم ہوگی، مسلکی عصبیتیں بھی ماند پڑ جائیں گی اور ارتداد کی لہر کی روک تھام بھی ہوگی۔ بھلے ہی آج یہ کام کرنے والے خود کو تنہا اور اکیلا محسوس کریں مگر آنے والے کل میں وہ تنہا نہیں ہوں گے، ان کے ساتھی ہوں گے، جو ان کے دست وبازو ہوں گے۔ ان شاءاللہ۔
یہ کیسا المیہ ہے کہ ہمارے علماء وفضلاء کے یہاں ہر ماہ اور ہر سال کے لیے مضامین مقرر ہیں اور ان پر دھواں دھار تقریریں ہورہی ہیں، مضامین لکھے جا رہے ہیں اور پندو نصائح کے انبار لگائے جا رہے ہیں۔ آج کل محرم کی گہما گہمی ہے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ محرم کے حوالے سے مضامین اور بیانات کی کیسی باڑھ آئی ہوئی ہے، جیسے کوئی باندھ ٹوٹ گیا ہو یا سونامی آگئی ہو۔ ابھی محرم ختم بھی نہیں ہونے پائے گا کہ ربیع الاول سر پر آپہنچے گا اور پھر اس کے لیے بھاگ دوڑ اور اٹھا پٹخ شروع ہوچجائے گی۔ مفتیان کرام کیل کانٹوں سے لیس ہوکر میدان کار زار میں اتر آئیں گے، کچھ اقدام کرنے والے ہوں گے اور کچھ دفاع کرنے والے ہوں گے، تیسرے وہ ہوں گے جن کا دعویٰ یہ ہوگا کہ وہ تو اصلاح کے لیے میدان میں ہیں اور ان سب چیزوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، مگر ہنگامہ آرائی میں حصہ داری ان کی بھی برابر سرابر کی ہوگی، الا ماشاء اللہ۔ ربیع الاول کے ہنگامے ابھی ختم بھی نہیں ہو پائیں گے کہ شعبان کا چاند مشرقی افق سے نمودار ہو جائے گا اور پھر وہی شب برأت سے متعلق برسوں پرانے مضامین اور تقریریں اوراق پارینہ اور کرم خوردہ ہارڈ ڈسک سے نکل نکل کر آموجود ہوں گی اور رسائل واخبارات سے لے کر انٹرنیٹ تک کے سارے اسپیس کو بھر دیں گی، بالکل ایسے ہی جیسے غیر ابر آلود آسمان ستاروں اور سیاروں سے بھرا دکھائی دیتا ہے، پھر رمضان اور عیدین آجائیں گی اور وہی قومی فخر کا نشان یعنی ہلال ہمارا منہ چڑھانا شروع کردے گا، پھر وہی ’’صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته‘‘ جیسے استدلال موبائل اور لیپ ٹاپ کی اسکرینوں پر چھا جائیں گے اور بہت دور سے کہیں سے حبیب جالب کی آواز آتی ہوئی سنائی دے گی، ’’اے چاند یہاں نہ نکلا کر‘‘
کبھی کبھی یہ سب دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ہم بکری کی طرح رسی سے بندھے ہوئے ہیں اور ہم چاہ کر بھی رسی کے دائرے سے باہر نہیں جا پا رہے ہیں، ماہ و سال کی مناسبتوں پر مشتمل یہ مضامین ہمارے پاؤں کی زنجیر ہیں اور ہم ان کا بوجھ اٹھائے صدیوں سے اسی طرح دائرے میں گھوم رہے ہیں، تصفیہ کبھی ہوا ہے اور نہ کبھی ہوگا، شاید۔
جب حالات یہ ہیں تو محسن عثمانی جیسا جہاں دیدہ شخص کیوں نہ تڑپ اٹھے گا اور گہار لگائے گا؟ اب تو ویسے بھی وقت کم ہی بچا ہے، زندگی وفا کرے نہ کرے، پھر خود اس کام کے لیے بھی وقت زیادہ نہیں بچا ہے، پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے اس لیے گہار لگانا ضروری ہے، وقت باقی ہے تو امید باقی ہے، شاید کہ اتر جائے کسی دل میں مری بات۔
پروفیسر محسن عثمانی کی وانی محض لن ترانی نہیں ہے بلکہ یہ ایک جہاں دیدہ شخص کی زبانی ایک جہانِ دیدہ کی کہانی ہے۔ انہوں نے دنیا دیکھی ہے، قوموں کے عروج و زوال کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا ہے، قرآن وسنت کے سمندروں میں غوطہ زنی کی ہے اور مشرق و مغرب کے فلسفہ و ادب کے دریاؤں میں بھی تیراکی کی ہے، مدرسے اور خانقاہیں بھی ان کے لیے جہانِ دیدہ ہیں اور کالج ویونیوسٹیوں بھی اسی طرح ہیں، وہ دونوں جہانوں کے لیے محرمِ رازِ درونِ مے خانہ ہیں۔ اس لیے جو انہوں نے کہا ہے وہ کوئی چلتی ہوئی یا اڑتی اڑاتی بات نہیں ہے، اس کی اپنی جگہ خاص اہمیت ہے اور اس کا ایک وزن ہے۔
اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ اہل مدارس خاص طور پر اور دیگر اہل علم وثروت عمومی طور پر جتنا جلد ممکن ہو سکے اسی ڈگر پر آ جائیں جو تمام انبیاء کرام کی مشترکہ سنت رہی ہے۔ بلکہ سب نے اس کام کو فرض و واجب کی طرح انجام دیا ہے۔ دن رات کی محنت میں خون پسینہ ایک کرکے اور بے غرض اور بے نفس ہوکر اور اس اعلان کے ساتھ: أُبَلِّغُكُمْ رِسَٰلَٰتِ رَبِّى وَأَنَا۠ لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ ‎﴿الاعراف: ٦٨﴾‏
***

 

***

 پروفیسر محسن عثمانی کی وانی محض لن ترانی نہیں ہے بلکہ یہ ایک جہاں دیدہ شخص کی زبانی ایک جہانِ دیدہ کی کہانی ہے۔ انہوں نے دنیا دیکھی ہے، قوموں کے عروج و زوال کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا ہے، قرآن وسنت کے سمندروں میں غوطہ زنی کی ہے اور مشرق و مغرب کے فلسفہ و ادب کے دریاؤں میں بھی تیراکی کی ہے، مدرسے اور خانقاہیں بھی ان کے لیے جہانِ دیدہ ہیں اور کالج ویونیوسٹیوں بھی اسی طرح ہیں، وہ دونوں جہانوں کے لیے محرمِ رازِ درونِ مے خانہ ہیں۔ اس لیے جو انہوں نے کہا ہے وہ کوئی چلتی ہوئی یا اڑتی اڑاتی بات نہیں ہے، اس کی اپنی جگہ خاص اہمیت ہے اور اس کا ایک وزن ہے۔ اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ اہل مدارس خاص طور پر اور دیگر اہل علم وثروت عمومی طور پر جتنا جلد ممکن ہو سکے اسی ڈگر پر آ جائیں جو تمام انبیاء کرام کی مشترکہ سنت رہی ہے۔ بلکہ سب نے اس کام کو فرض و واجب کی طرح انجام دیا ہے۔ دن رات کی محنت میں خون پسینہ ایک کرکے اور بے غرض اور بے نفس ہوکر اور اس اعلان کے ساتھ: أُبَلِّغُكُمْ رِسَٰلَٰتِ رَبِّى وَأَنَا۠ لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ ‎﴿الاعراف: ٦٨﴾‏


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 اگست تا 10 اگست 2024