پرینکا گاندھی کا فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی ، بھارت کے تاریخی موقف کی عکاسی

سیاست صرف اقتدار کے لیے نہیں ہوتی بلکہ انسانی حقوق اور حصول انصاف کی خاطر جدوجہد بھی اس کا حصہ ہے

عطاءاللہ

کانگریس کی جنرل سکریٹری اور وائناڈ سے منتخب رکن پارلیمنٹ، پرینکا گاندھی واڈرا، پہلی بار پارلیمانی اجلاس میں شریک ہوئیں اور آئین کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر ایوان میں زور دار تقریر سے سب کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔ تاہم ان کی پارلیمنٹ میں موجودگی کے دوران ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی جس نے دنیا بھر میں ہلچل مچائی۔ اس تصویر میں وہ فلسطین تحریر کردہ ایک ہینڈ بیگ کے ساتھ ایوان میں داخل ہوتی نظر آئیں، جس پر امن کی علامت سفید کبوتر اور تربوز کا سرخ ٹکڑا بھی تھا۔ یہ تصویر فلسطین کی حمایت کا ایک نیا پیغام بن گئی اور ایک بار پھر فلسطین بھارتی سیاست میں زیر بحث آ گیا۔
حکم راں جماعت اور دائیں بازو کی حامی جماعتوں نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ بی جے پی نے اسے مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کا سیاسی ہتھکنڈا قرار دیا، جب کہ کئی حلقوں نے اس قدم کو سراہا۔ پرینکا گاندھی کے اس ایک قدم نے ایک بار پھر یہ پیغام دیا کہ بھارت فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔
بھارت کا فلسطینی جدوجہد کے ساتھ تاریخی تعلق ہے جو 1947 میں اقوام متحدہ کی قرارداد 181 سے شروع ہوتا ہے، جس میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ 1988 میں ہندوستان نے فلسطین کو ایک آزاد ریاست تسلیم کیا اور تبھی سے اس نے فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کی ہے۔
بی جے پی کی حکومت میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوششیں جاری ہیں، تاہم فلسطین کے ساتھ بھارت کا قدیم موقف ابھی تک برقرار ہے۔ پرینکا گاندھی نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے واضح پیغام دیا ہے کہ ملک فلسطینیوں کے ساتھ ہے اور ان کا یہ قدم کانگریس کے اس دیرینہ موقف کی عکاسی کرتا ہے۔
اس دوران بی جے پی نے بنگلہ دیش میں اقلیتیوں کے حقوق کی صورت حال پر سوالات اٹھائے جس پر پرینکا گاندھی نے اپنے منفرد انداز میں جواب دیا اور دوسرے دن بنگلہ دیش کے اقلیتیوں کی حمایت والے ہینڈ بیگ کے ساتھ پارلیمنٹ میں نظر آئیں۔ اس کے ذریعے انہوں نے ایک اور پیغام دیا کہ انصاف کی جدوجہد اور مظلوموں کے ساتھ یکجہتی کا مقصد ہمیشہ ایک رہنا چاہیے۔
یہ پہلی بار نہیں تھا کہ پرینکا گاندھی نے فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھائی ہو۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے فلسطین کے سفیر سے ملاقات کی اور غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت کی۔ ان کا یہ موقف اس ماحول میں اور بھی اہم ہو جاتا ہے جب ملک میں فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانا یا فلسطینی پرچم لہرانا بھی ایک جرم کے مترادف بن چکا ہے۔
پرینکا گاندھی کی اس ثابت قدمی اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کو سراہا گیا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر فواد حسن چودھری نے سوشل میڈیا پر ان کی تعریف کی اور کہا کہ جواہر لال نہرو کی پوتی سے ہم اور کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔ ان کے اس اقدام نے ایک نئی سیاسی گونج پیدا کی ہے۔
اسلامی تعلیمات بھی یہی سکھاتی ہیں کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے، چاہے ظالم اپنے مذہب اور عقیدہ کا ہی کیوں نہ ہو، اور مظلوم چاہے کسی دوسرے مذہب کا ہو۔ پرینکا گاندھی نے اس پیغام کو عملی طور پر پیش کیا ہے، جس پر دنیا بھر میں تعریف کی جا رہی ہے۔
پرینکا گاندھی کی جانب سے فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنا ایک اہم سیاسی اقدام سمجھا جا رہا ہے جو نہ صرف انہیں سیاست میں ایک مضبوط مقام دے گا بلکہ ان کے موقف کو مزید مستحکم کرے گا۔ ان کے اس عمل نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ سیاست صرف اقتدار کے لیے نہیں ہوتی بلکہ یہ انسانی حقوق اور انصاف کی خاطر جدوجہد کا اہم حصہ بھی ہوتی ہے۔

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 دسمبر تا 04 جنوری 2024