سی اے اے کے اصول سری لنکا کے ہندو تملوں پر لاگو ہوسکتے ہیں، مدراس ہائی کورٹ نے کہا

نئی دہلی، اکتوبر 16: مدراس ہائی کورٹ کی مدورائی بنچ نے مشاہدہ کیا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے اصولوں کا اطلاق ہندو تملوں پر کیا جا سکتا ہے جنھیں سری لنکا سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا تھا۔

عدالت ایک 29 سالہ خاتون ایس ابیرامی کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی، جو اپنی پیدائش کے بعد سے ہندوستان میں رہ رہی ہے۔ اس کے والدین، جو سری لنکا کے شہری تھے، سری لنکا میں نسلی تنازعات کی وجہ سے اس کی پیدائش سے قبل بھارت آ گئے تھے۔

ابرامی کی پیدائش تروچیراپلی میں ہوئی تھی اور اس نے اپنی اسکولی تعلیم تمل ناڈو میں مکمل کی۔ اس کے پاس آدھار نمبر بھی ہے۔ اپنی درخواست میں اس نے تروچیراپلی کے ضلع کلکٹر کو ہدایت کی ہے کہ وہ ہندوستانی شہریت کے لیے اپنی درخواست تمل ناڈو حکومت کو بھیجے، جو اسے مرکز کو بھیج سکتی ہے۔

جسٹس جی آر سوامی ناتھن نے نوٹ کیا کہ ابیرامی کبھی بھی سری لنکا کی شہری نہیں تھی، اس لیے سری لنکا کی شہریت ترک کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر اس کی درخواست قبول نہیں کی گئی تو اس کی وجہ سے وہ بے وطن ہو جائے گی۔

ہائی کورٹ نے تروچیراپلی کے کلکٹر کو ہدایت کی کہ وہ اس کی درخواست تمل ناڈو حکومت کو بھیجے اور ریاست سے بھی کہا کہ وہ اسے مرکز کو بھیجے۔ عدالت نے مرکزی حکومت کو اس معاملے پر 16 ہفتوں کے اندر فیصلہ کرنے کی ہدایت دی۔

جسٹس سوامی ناتھن نے نوٹ کیا کہ شہریت ترمیمی قانون پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کی مظلوم اقلیتوں کو ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ انھوں نے کہا ’’اگرچہ سری لنکا مذکورہ ترمیم کے اندر نہیں آتا، لیکن وہی اصول یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے۔ کوئی اس حقیقت کا عدالتی نوٹس لے سکتا ہے کہ سری لنکا کے ہندو تامل نسلی جھگڑوں کا بنیادی شکار تھے۔‘‘

تاہم اس قانون پر عمل درآمد ہونا باقی ہے کیوں کہ کورونا وائرس وبائی امراض کی وجہ سے اس کے قواعد وضع نہیں کیے گئے ہیں۔ مئی میں وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ وبا ختم ہوتے ہی قانون نافذ کر دیا جائے گا۔