پوار پریوار: گول مال ہے بھائی سب گول مال ہے

مہاراشٹر میں’ کلون سیاست‘۔ دوعدد این سی پی اور دوعدد شیوسینا

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

حیرت اس پر نہیں ہے کہ ڈارون نے یہ اعلان کر کے ساری دنیا کو چونکا دیا ’’انسان تھا پہلے بندر ‘‘ بلکہ تعجب کی بات یہ ہے کہ بڑے بڑے نام نہاد دانشور اس احمقانہ دعویٰ پر ایمان لے آئے۔ امسال کتوں کے عالمی دن پر تویہ تحقیق بھی سامنے آگئی کہ تقریباً 20ہزار سال قبل کتا دراصل بھیڑیا تھا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسانوں کےاس سب بڑے دشمن کو کس چیز نے اس کا سب سے وفادار جانور بنادیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ تقریباً 30 ہزار سال سے10 ہزار سال پہلے کے درمیان جب برف سے ڈھکی زمین کے اوپر گرمی بڑھی تو بھیڑیوں کو شکار کے لیے چھوٹے جانوروں کا ملنا مشکل ہوگیا۔ اس وقت گوشت کی تلاش کچھ بھیڑیوں کو انسانوں کی بستی میں لے آئی ۔ وہاں انہیں انسانوں کا پھینکا ہوا گوشت اور ہڈیاں ملنے لگیں۔ اس طرح یہ دشمن ایک دوسرے سے رابطے میں آگئے۔ وقت کے ساتھ اس جانی دشمن کو اس کی ایک ضرورت یا ہوس نے انسانوں کا وفادار محافظ بنا دیا ۔ اس سائنسی تحقیق کو پڑھ کر اگر کسی ذہن میں اجیت پوار کا خیال آجائے تو اس کی کوئی غلطی نہیں ہے لیکن بھیڑیے کو جس کام کے لیے کئی ہزار سال لگے اس سفر کو ہمارے سیاستداں چند ماہ میں مکمل کرلیتے ہیں ۔
مہاراشٹر کی علاقائی جماعت این سی پی کا انتخابی نشان گھڑی ہے لیکن اگرکسی گھڑی کا ایک کانٹا کلاک وائز اور دوسرا کانٹا اینٹی کلاک وائز گھومنے لگے تو اس سے ٹائم دیکھنے والے کی کیادرگت ہوگی ؟ ظاہر ہے اس کا دماغ گھوم جائے گا ۔ این سی پی کی گھڑی دیکھنے والوں کا آج کل یہی حال ہے۔ اس گھڑی کے دو کانٹے شرد پوار اور اجیت پوار ہیں ۔ ان میں سے ایک اپنی کبرسنی کی وجہ سے چوبیس گھنٹے میں ایک چکر پورا کرپاتا ہےاور دوسرا تیز طرار کا نٹا ایک گھنٹے کے اندر گھوم پھر کر وہیں آجاتا ہے جہاں سے چلا تھا۔ رفتار سے قطع نظر دونوں کانٹوں کا طواف اقتدار کے ارد گرد جاری رہتا ہے۔ جولائی تک دونوں چاچا بھتیجے کلاک وائز گھوم رہے تھے مگر پھر اچانک بھتیجے نے اپنی سمت بدل کر اینٹی کلاک وائز گھومنا شروع کردیا ۔ اس وقت چاچا کو بہت غصہ آیا اور انہوں نے خوب کھری کھوٹی سنائی ۔ 20 جولائی کو شرد پوار نے اپنے بھتیجے کو کھوٹا سکہ قرار دے کر کہا’ انہوں نے پارٹی کا بہت نقصان کیا ہے۔ ان کی باتیں سن کر کافی افسوس ہوا۔ پارٹی توڑنے سے قبل اجیت پوار کو بات کرنی چاہیے تھی‘۔
ہندوستانی سیاست میں بھیشما پتامہ کہلانے والے شرد پوار کا آخری مطالبہ نہایت نامعقول اور مضحکہ خیز تھا۔ اس لیے کہ بکرے کو ذبح کرنے سے قبل اس سے رائے مشورہ نہیں کیا جاتا ۔ این سی پی نامی بکرے کی ملکیت پر جتنا بڑا دعویٰ شرد پوارکا ہے ، اس کے اتنے ہی بڑے دعویدار اجیت پوار بھی ہیں۔2 جولائی 2023 کو این سی پی کے 8 ارکان اسمبلی کے ساتھ انہوں نے بی جے پی کی حکومت میں شمولیت اختیار کرکے خود نائب وزیر اعلیٰ بنے اور سارے باغیوں کو وزیر بنوادیا ۔ اس کے تین دن بعد5 جولائی ایک خطاب عام میں اجیت پوار نے کمال احسان فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سارے ادب و احترام کو بالائے طاق رکھ کر اپنے چچا کو اتنا برا بھلا کہا کہ جس کی جرأت ان کے دشمن بھی نہیں کرسکتے ۔ مثلاً وہ بولے :’شرد پوار کی عمر ہوگئی ہے اور انہیں سیاست سے سنیاس لے لینا چاہیے ۔ ان میں اب پہلے جیساولولہ اور جوش نہیں ہے ۔ وہ پارٹی کی صحیح انداز میں قیادت نہیں کرسکتے ۔
چاچا بھتیجے کی اس نوک جھونک کے 50 دن بعد 25؍ اگست 2023 کو شرد پوار نے اپنے گڑھ بارا متی میں پینترا بدل کر فرمایا :’’ پارٹی میں کوئی پھوٹ نہیں ہوئی ۔ مہاراشٹر کے ڈپٹی وزیر اعلیٰ اجیت پوار این سی پی کے رہنما بنے رہیں گے ۔ کچھ رہنماوں نے الگ سیاسی موقف اختیار کرکے این سی پی چھوڑی ہے مگر اسے ٹوٹ نہیں کہہ سکتے‘۔ اس تبدیلی کے پیچھے اجیت پوار کی چار بار اپنے چاچا سے ملاقات کا رفرما ہے۔ پہلے وہ تنہا اپنی چاچی کی عیادت کے لیے گھر گئے ۔ اس کے بعد اپنے چاچا سے ان کے دفتر میں جاکر ملاقات کی اور آشیرواد لیا ۔ اس پر من نہیں بھرا تو سارے باغیوں کے ہمراہ ملنے پہنچ گئے اور پھر پونے شہر کے اندر وزیر اعظم نریندر مودی کے ایک طرف چاچا اور دوسری جانب بھتیجا بیٹھا ہوا نظر آیا۔ اس قربت کی وجہ صرف ملاقات نہیں ہے۔ شرد پوار نے شیوسینا کے انجام سے سبق سیکھ لیا ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ اگر وہ اجیت پوار سے بھڑ جائیں گے تو ادھو ٹھاکرے کی مانند اپنے ارکان اسمبلی ، پارٹی اور اس کے نشان سے محروم ہوجائیں گے ۔ شرد پوار کا سیاسی قد اجیت پوار کے چاچا کے خلاف محاذ کھولنے میں مانع ہے ۔ ایکناتھ شندے جس طرح ادھو ٹھاکرے کی کھلے عام مخالفت کرتے ہیں ایسا کرتے رہنا اجیت پوار کے لیے بہت مشکل ہے۔
اس من مٹاو کی سب سے بڑی وجہ وہ ہڈی ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ پچھلے 40 برسوں نے چاچا اور بھتیجے نے مل کر ایک بہت بڑا ایمپائر کھڑا کرلیا ہے۔ پوار خاندان کے8 لوگوں کے نام پر20 سے زیادہ کمپنیاں چل رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ریوتی بلڈکون نامی تعمیراتی کمپنی میں شرد پوار کی زوجہ پرتِبھا پوارکے ساتھ اجیت پوار کی بیوی سونیترا اور بیٹا پارتھ حصے دار ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ٹرسٹ ایسے ہیں جن میں وہ دونوں موجود ہیں مثلاً بارامتی ودیا پرتشٹھان کے تحت 29 تعلیمی ادارے چلتے ہیں۔ شرد پوار اس کے انتظامی امور کی کمیٹی کے صدر ہیں ۔ اجیت پوار، سونیترا پوار اور سپریا سولے منیجمنٹ کمیٹی کے ارکان ہیں۔ عصرِ حاضر میں تعلیمی ادارے عوامی فلاح بہبود کے لیے نہیں بلکہ منافع خوری کی خاطر کھولے جاتے ہیں ۔ ان سے ہونے والی کمائی فی الحال شکر کارخانوں سے زیادہ ہے۔ ملک میں تعلیم کا بیوپار ہزاروں کروڑ کا کاروبار بن گیا ہے۔ بائی جو جیسا تعلیمی ادارہ ہزاروں کروڑ خرچ کرکے آئی پی ایل کو اسپانسر کرتا ہے۔ ایسے میں ان تعلیمی اداروں کا بٹوارہ بھلا کون برداشت کرسکتا ہے۔ اس لیے سارے سر پھٹول کے باوجود ان لوگوں کو مالی مفاد کا فیویکول ایک دوسرے سے چپکائے ہوے ہے۔
حزب اختلاف کئی بار اجیت پوار اور شرد پوار پر ہزاروں کروڑ کی بے نامی ملکیت کا الزام لگاتا رہا ہے ۔ بی جے پی کے بڑ بولے رہنما کریٹ سومیا نےنومبر2021 میں انکشاف کیا تھا کہ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے اجیت پوار کی مہاراشٹر ، گوا اور دہلی کے اندر ایک ہزار کروڑ کا اثاثہ ضبط کیا ہے۔ اس میں ایک شکر کا کارخانہ بھی شامل ہے۔ اس کارروائی کا آغاز 184 کروڈکی غیر اعلانیہ آمدنی کے منظر عام پر آنے سے ہوا تھا۔ ویسے 2019 کے انتخاب سے قبل داخل کردہ اپنے حلف نامہ میں اجیت پوار کی ملکیت 105 ؍ کروڑ روپیوں کے علاوہ 3 گاڑیاں ،2 ٹریکر50 کروڑکی زمین اور 13.90 لاکھ روپیوں کے زیور تھے۔ اسی طرح 2020 میں جب ایوان بالا کا انتخاب ہوا تو شرد پوار نے اپنے حلف نامہ میں 32.73 کروڑ کے اثاثے کا اعلان کیا ساتھ میں ایک کروڑ کے قرض کا بھی انکشاف کرڈالا۔ 2014 میں شردپوار نے اپنی ملکیت 32.13 کروڑ بتائی تھی یعنی 6 سالوں میں صرف 60 لاکھ کا اضافہ اور ایک کروڑ کا قرض تو ایسے میں کسی انکم ٹیکس کا تو سوا ل ہی پیدا نہیں ہوتا۔
پوار پریوار سے ہٹ کر پارٹی کی بات کریں تو این سی پی کا ایک گروہ ہمیشہ سے بی جے پی کے ساتھ دوستی کا خواہشمند رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہندوتوا سے محبت نہیں بلکہ بدعنوانی کے سبب جیل جانے کا خوف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2014 کے اسمبلی انتخاب کے بعد پرفل پٹیل نے بی جے پی کی باہر سے حمایت کا اعلان بھی کردیا تھا ۔ چھگن بھجبل اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ شردپوار نے بی جے پی کے ساتھ مل حکومت سازی کی بات چلائی تھی ۔2017 اور 2019 میں بھی اس کا امکان پیدا ہوگیا تھا بلکہ ایک بار تو اجیت پوار نے نائب صدر کا حلف بھی لے لیا لیکن وہ کوشش ناکام ہوگئی۔ فی الحال ایکناتھ شندے اور بی جے پی کی حکومت بالکل مستحکم تھی اس کے باوجود اجیت پوار کی شمولیت حیرت انگیز ہے۔اس کی سیاسی وجہ یہ ہے کہ مغربی مہاراشٹر کی جملہ 85؍ارکان اسمبلی میں صرف 16کا تعلق بی جے پی سے ہے ، باقی 34 شیوسینا اور 35 این سی پی کے لوگ ہیں ۔ اس علاقہ میں بی جے پی کی دال نہیں گلتی اس لیے وہ چاہتی ہے کہ شیوسینا اور این سی پی کی یہ نشستیں شندے اور پوار کی مدد سے اس کی جھولی میں آجائیں ۔ اسی لیے یہ اٹھا پٹخ چل رہی ہے اور صوبے کے عوام اس تڈبیو ڈبلیو ایف کی کشتی سے لطف اندوز ہورہے ہیں ۔
مہاراشٹر کی سیاست ٹھنڈی آنچ پر چلتی رہتی اگر درمیان میں ’ انڈیا‘ نام کا سیاسی وفاق عالمِ وجود میں نہیں آتا ۔ انڈیا کا پہلا اجلاس پٹنہ میں ہوا۔ اس وقت شرد پوار نے اپنی بیٹی سپریا سولے اور دوسرے نائب صدر پرفل پٹیل کے ساتھ پٹنہ کے اجلاس میں شرکت کی ۔وہاں ان کی خوب پذیرائی ہوئی لیکن واپسی کے بعد یہ ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوگیا۔ شرد پوار سے دوسری نشست کے مقام کی شملہ سے بنگلورو منتقلی کا اعلان کروا کر یہ پیغام دیا گیا کہ وہ اب بھی بی جے پی کے خلاف ’انڈیا‘ کے ساتھ ہیں۔ اس کے بعد بی جے پی نے انہیں بنگلورو جانے سے روکنے کی ذمہ داری ان کےبھتیجے کو سونپی اور اجیت پواراپنے چاچا پر ڈورے ڈالنے لگے لیکن وہ کوشش ناکام رہی ۔ اس کے باوجود سمجھانے منانے یا رجھانے اور ڈرانے کا سلسلہ جاری رہا ۔ اس کے لیے وزیر اعظم کو اعزاز سے نوازنے کی تقریب میں مہاراشٹر کی سیاست کے بھیشما پتامہ کو دعوت دی گئی۔ کل یگ ہو یا ست یگ بھیشما پتامہ ہوں یا گرو درونا چار، ان دونوں کی نظر میں دریودھن اور دشاسن کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ وہ حق و باطل کی تفریق کیے بغیر کورو اور پانڈو دونوں کو اپنا آشیرواد دیتے ہیں۔ شرد پوار نے بھی اسی روایت کو آگے بڑھایا اور انڈیا کے اندر رہتے ہوئے مودی کی پذیرائی کے تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہوگئے جہاں ان کا باغی بھتیجا بھی موجود تھا اور دونوں کے درمیان کباب میں ہڈی کی مانند مودی جی براجمان تھے۔
این سی پی کی جانب سے اس معاملے کی لیپا پوتی میں کہا گیا کہ مودی جی کسی ایک پارٹی کے نہیں بلکہ پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ اس دعویٰ کی تردید تو خود ان کاطریقۂ کار کرتا ہے۔ وہ سارے ملک کےلوگوں کو اور یہاں کام کرنے والی سیاسی جماعتوں کو اپنا نہیں سمجھتے۔ ان کا ای ڈی حزب اختلاف کے وزرائے اعلیٰ پر تو چھاپہ مارتا ہے مگر بی جےپی کے کسی وزیر اعلیٰ کی جانب نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا ۔ مدھیہ پردیش سے الگ ہوکر بننے والے چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل کے دفتر پر ان کی سالگرہ کے دن چھاپہ پڑتا ہے لیکن بغل میں مدھیہ پردیش کے اندر ویاپم جیسے نہ جانے کتنی بدعنوانیوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ مودی سرکار کی سی بی آئی مہاراشٹر میں سابق وزیر داخلہ انل دیشمکھ ،سنجے راوت اور نواب ملک جیسے حزب اختلاف کے رہنماوں کو تو جیل میں ڈال دیتی ہے مگر اس کو کریٹ سومیا اور منگل پرساد لودھا جیسے بے شمار لوگوں کی بدعنوانی دکھائی نہیں دیتی۔مودی سرکار کے اسپیکر اوم بڑلا ایوان پارلیمان سے اعظم خان اور راہل گاندھی کی رکنیت تو بڑی جلدی رد کردیتے ہیں مگر برج بھوشن سرن سنگھ پرکارروائی نہیں ہوتی بلکہ اجئے مشرا ٹینی جیسے قتل کے ملزمین کو وزیر مملکت برائے داخلہ بنائے رکھاجاتا ہے ۔
مودی جی کے اس امتیازی سلوک سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنے وزراء کی کونسل کے سربراہ ہیں ۔ ان کی سرکار مقصد و نصب العین صرف اپنی سیاسی جماعت اور اپنے سنگھ پریوار کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے اس لیے انہیں پورے ملک کا رہنما کہنا درست نہیں ہے۔ ویسے آئینی طور پر ملک کی قیادت عزت مآب صدر مملکت محترمہ درپدی مرموکے ہاتھوں میں ہے اور مودی سرکار کو اپنے سارے فیصلوں کی توثیق انہیں سے کرانی پڑتی ہے۔ یہ پارلیمانی نظام کی کمزوری ہے کہ اس نے صدر مملکت کے عہدے کو مفلوج کردیا ہے اور عوام کی مانند صدر مملکت کو بھی مجبور و لاچار بنا دیا ہے۔ اجیت پوار کی مثال لیں تو جب تک وہ بی جے پی کے مخالف تھے مودی ان کواپنا دشمن سمجھ کر جیل بھیجنے کی دھمکی دیتے تھے مگر جب پالا بدل کر ساتھ آگئے تو ان سے میل ملاپ کرکےاپنی صوبائی حکومت میں نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے سے نواز دیا۔ اس طرح تفریق وامتیاز کرنے والا پردھان سیوک کبھی بھی پورے ملک کا قائد نہیں ہوسکتا ہے۔شرد پوار کو اس کا علم ہے مگر وہ اپنے حامیوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔
این سی پی کی گھڑی کے الگ الگ کانٹے پہلے تو مخالف سمتوں میں گھومتے رہےمگر اب ایک ہی کانٹا وقت کی نزاکت دیکھ کر اپنی سمت بدل دیتا ہے۔ ایوان پارلیمان کے اندر انڈیا نامی سیاسی وفاق کی جانب سے پیش ہونے والے منی پور پر عدم اعتماد کی تحریک کے حق میں این سی پی کی نائب صدر سپریا سولے خوب جم کر بولیں ۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح پچھلے نو سالوں میں مودی سرکار نے نو منتخبہ سرکاروں کو غیر آئینی طور پر دولت کے سہارے گرادیا لیکن دہلی سے واپس آکر وہ فرماتی ہیں کہ اجیت پوار این سی پی کےسینئررہنما ہیں مگر اجیت پوار تو بی جے پی کی سرکار میں شامل ہیں یعنی وہ مودی کو اپنا قائد مانتے ہیں۔ وہ ببانگ دہل کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بھی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سپریا سولے کا رہنما شرد پوار ہیں یا مودی ؟ اگر پوار ہیں تو کیا اجیت پوار کی مانند ان کے قائد بھی مودی ہیں۔ شرد پوار بھی کہتے ہیں کہ اجیت پوار نے پارٹی نہیں چھوڑی تو سوال یہ ہے کہ پھر این سی پی میں رہتے ہوئے وہ ’انڈیا ‘ کی مخالف مودی سرکار میں کیسے شامل ہوگئے؟ شرد پوار کی حکمت عملی تو گویا اس شعر کی مصداق ہے کہ ؎
اے چمن والو چمن میں یوں گزارا چاہئے
پاسباں بھی خوش رہے ، راضی رہے صیاد بھی
اس طرح کے منافقانہ رویہ میں عارضی طور پر باغباں اور صیاد کی خوشنودی مل جاتی ہے مگر جب اس سے چمن والے ناراض ہو کر اپنا منہ موڑ لیتے ہیں تو باغباں اور صیاد دونوں ایسے بے مصرف بوجھ سے پیچھا چھڑا نے میں وقت نہیں لگاتے۔ شردپوار کی ابن الوقتی کے سبب ان کے اوپر سے عوام کا اعتماد ختم ہوسکتا ہے۔ مہاراشٹر میں ویسے بھی کلون سیاست چل رہی ہے ۔ یہاں دو عدد این سی پی اور دو عدد شیوسینا ہے ۔ این سی پی کی گھڑی کس کے پاس ہے یہ کوئی نہیں جانتا مگرشیوسینا کا تیر کمان تو فی الحال ایکناتھ شندے کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ اس کےتیر کا نشانہ مخالف کے بجائے خود اپنی سمت ہے یعنی جب بھی یہ تیر چلے گا اس سے خود اپنے ہی لوگوں کا خون بہے گا ۔ مودی جی کےسورن کال (طلائی دور) میں آگے چل کر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہاتھ کے پنجے میں پیر کی انگلیاں نکل آئیں اور وہ دن بھی دور نہیں کہ کمل کی ٹہنی پر گلاب کے پتےّ اور کانٹے نظر آئیں ۔
اقتدار کی ہوس میں سنگھ پریوار نے سیاست کے جسم میں خود غرضی کا زہر گھول دیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں سیاسی رہنماوں کی زندگی کا واحد مقصد سرکاری خزانے کو لوٹ کر عیش کرنا ہو گیا ہے۔ یہ فطری عمل ہے کیونکہ جو جیسا ہوتا ہے ویسا ہی دوسروں کو بنا دینا چاہتا ہے ۔سنگھ پریوار چاہتا ہے کہ سارے سیاسی رہنما اس کی طرح بدعنوان اور اقتدار کے بندے بن جائیں تاکہ عوام کے لیے اس میں اوردوسروں میں فرق کرنا مشکل ہوجائے ۔ اس طرح سنگھ کو کچھ دن اور حکومت کرنے کی مہلت تو مل سکتی ہے مگر جسدِ سیاسی کھوکھلا ہوجائے گا ۔ یہ عمل آر ایس ایس کے حق میں عارضی طور پر بہتر ہے لیکن قوم کے لیے نقصان دہ ہے۔ ملک کو اس کی بہت بڑی قیمت چکا نی ہو گی اور اس کے لیے یہ فسطائی پریوار ذمہ دار ہوگا۔ آر ایس ایس نے سو سال محنت کرکے دس سال کے لیے حکومت حاصل کی اور ایسے کارنامے انجام دیئے کہ اب کوئی ایک ہزار سال تک ہندوتوا کا نام نہیں لے گا۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 سنگھ پریوار چاہتا ہے کہ سارے سیاسی رہنما اس کی طرح بدعنوان اور اقتدار کے بندے بن جائیں تاکہ عوام کے لیے اس میں اوردوسروں میں فرق کرنا مشکل ہوجائے ۔ اس طرح سنگھ کو کچھ دن اور حکومت کرنے کی مہلت تو مل سکتی ہے مگر جسدِ سیاسی کھوکھلا ہوجائے گا ۔ یہ عمل آر ایس ایس کے حق میں عارضی طور پر بہتر ہے لیکن قوم کے لیے نقصان دہ ہے۔ ملک کو اس کی بہت بڑی قیمت چکا نی ہو گی اور اس کے لیے یہ فسطائی پریوار ذمہ دار ہوگا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 ستمبر تا 09 ستمبر 2023