
پورنیہ میں ایک قبائلی خاندان توہم پرستی کی آگ کی نذر
ترقی کے شور میں دبی جہالت: 21ویں صدی کا المیہ
پورنیہ، بہار (دعوت نیوز ڈیسک)
بہار کے ضلع پورنیہ کے گاؤں ٹیٹگاما میں 8؍ جولائی کی رات ایک دلخراش واقعہ پیش آیا جہاں ایک بچے کی موت کے بعد گاؤں کی پنچایت نے ایک خاندان کو ڈائن قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا فیصلہ سنایا جس کے تحت بابو لال اوراؤ (50) اس کی بیوی سیتا دیوی (48) ماں کاتو دیوی (65) بیٹا منجیت کمار (25) اور بہو رانی دیوی (23) کو نہ صرف بے رحمی سے مارا پیٹا گیا بلکہ ان پر پٹرول چھڑک کر زندہ جلا دیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد ان کی لاشوں کو گھر سے دو کلومیٹر دور ایک تالاب میں پھینک دیا گیا۔
یہ سب کچھ اس وقت شروع ہوا جب گاؤں کے رام دیو اوراؤ کے بچے کی بیماری کے بعد موت ہو گئی۔ بچہ کچھ دنوں سے بیمار تھا اور اسے علاج کے لیے بابو لال اوراؤ کے گھر لایا گیا تھا، جو جھاڑ پھونک کا کام کرتا تھا۔ جھاڑ پھونک کے تین دن بعد بچے کی موت نے گاؤں والوں کے غصے کو بھڑکا دیا۔ اتوار کی رات تقریباً 250 سے 300 دیہاتیوں نے پنجایت بلائی اور اس خاندان کو ڈائن قرار دے کر موت کی سزا سنا دی۔
بابو لال کا بیٹا سونو کمار نے، جو اس واقعے کا واحد عینی شاہد ہے، بتایا کہ رات 10 بجے کے قریب غنڈوں کی بھیڑ ان کے گھر پر چڑھ آئی۔ انہوں نے سب سے پہلے بابو لال کو پکڑ کر بے رحمی سے پیٹا، پھر خاندان کے دیگر افراد کو نشانہ بنایا۔ رات ایک بجے تک یہ ظلم جاری رہا۔ خاندان کے پانچوں افراد کو باندھ کر ان پر پٹرول چھڑکا گیا اور آگ لگا دی گئی۔ سونو نے بتایا کہ ایک خاتون نے اسے وہاں سے فرار ہونے کا مشورہ دیا اس لیے وہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا ورنہ اسے بھی جلا دیا جاتا۔
واقعے کی اطلاع ملتے ہی ضلعی مجسٹریٹ انشول کمار، ایس پی سویٹی سہراوت اور تین تھانوں کی پولیس موقع پر پہنچ گئی۔ پولیس نے لاشوں کو تالاب سے نکالا اور تین ملزمین کو گرفتار کر لیا۔ اس ٹریکٹر کو بھی ضبط کیا گیا جس پر لاشوں کو لاد کر تالاب تک لے جایا گیا تھا۔ سدر ایس ڈی پی او پنکج کمار نے بتایا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی گئی ہے اور ایف ایس ایل اور ڈاگ اسکواڈ ٹیم کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ باقی ملزموں کی گرفتاری کے لیے چھاپہ ماری جاری ہے۔
دیہی علاقوں کی پنجایتوں کی طاقت اور ان کے غیر قانونی فیصلوں کی بھیانک تصویر اس واقعے سے عیاں ہوتی ہے۔ یہ واقعہ صرف ایک خاندان کی تباہی کی داستان نہیں بلکہ ایک معاشرتی زوال کی عکاسی کرتا ہے جو توہم پرستی، جہالت اور تشدد کے دلدل میں پوری طرح دھنسا ہوا ہے۔
سماجی و ثقافتی زاویہ
دیہی بھارت میں توہم پرستی کی جڑیں گہری ہیں۔ جھاڑ پھونک جیسے طریقوں پر انحصار اور ڈائن کے الزامات جیسے عقائد آج بھی معاشرے کے پسماندہ طبقات کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔ اس واقعے میں ایک بچے کی موت کو ڈائن کی کارستانی سمجھ کر ایک پورے خاندان کو موت کی سزا دی گئی۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ تعلیم اور سائنسی شعور کی کمی کس طرح انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالتی ہے۔ پنچایت جیسے غیر رسمی اداروں کا اس طرح کے غیر انسانی فیصلے صادر کرنا قانون کی حکم رانی پر سوالیہ نشان ہے۔
سیاسی و مذہبی کردار
کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ سیاسی رہنما اور مذہبی گروؤں کی طرف سے کرشموں اور پاکھنڈ کی ترویج توہم پرستی کو ہوا دیتی ہے۔ اگرچہ یہ ایک سیاسی تناظر ہو سکتا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سائنسی سوچ کو فروغ دیں۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل A51(K) اور (H) ہر شہری سے سائنسی سوچ اور انسانی نقطہ نظر کو اپنانے کا تقاضا کرتا ہے۔ جب اثر و رسوخ رکھنے والے افراد اس کے برعکس غیر منطقی عقائد کی حمایت کرتے ہیں تو اس کا سب سے زیادہ نقصان غریب اور کمزور طبقات کو ہوتا ہے جو حل کی تلاش میں توہم پرستی کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔
کمزور طبقات کی حالت
یہ واقعہ قبائلی اور پسماندہ طبقات کی کمزوری کو عیاں کرتا ہے۔ معاشی غربت اور سماجی پسماندگی انہیں غیر سائنسی طریقوں پر انحصار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ جب یہ طریقے ناکام ہوتے ہیں تو تشدد اور بدلے کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ اس واقعے میں اوراؤ برادری کے اندرونی تنازع نے بھی اہم کردار ادا کیا جو سماجی ہم آہنگی کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
سائنسی شعور کی ضرورت
اس سانحے سے واضح ہوتا ہے کہ دیہی علاقوں میں سائنسی تعلیم اور آگاہی کی کتنی ضرورت ہے۔ اگر لوگوں کو بیماریوں اور ان کے علاج کے بارے میں سائنسی معلومات دی جاتیں تو وہ جھاڑ پھونک جیسے طریقوں پر انحصار نہ کرتے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی پنجایتوں کے غیر قانونی فیصلوں کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ صحت کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ دیہی علاقوں میں لوگوں کو قابل اعتماد طبی سہولتیں میسر ہوں۔
انتظامیہ کا ردعمل
پولیس کی فوری کارروائی، جیسے کہ ملزمین کی گرفتاری اور تحقیقات کے لیے خصوصی ٹیم کی تشکیل قابل تحسین ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے طویل مدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے، مثلاً دیہی علاقوں میں تعلیمی مہمات، توہم پرستی کے خلاف آگاہی پروگرامس اور سماجی اصلاحات وغیرہ۔
غرض، پورنیہ کا یہ واقعہ ایک خاندان کی تباہی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ معاشرے کی جہالت، توہم پرستی اور غیر انسانی رسومات کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ سانحہ ہمیں خبردار کرتا ہے کہ سائنسی سوچ اور تعلیم کے بغیر ہم اپنے ہی لوگوں کو کھو دیتے ہیں۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی رہنماؤں کو اپنی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی اور معاشرے کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔ قانون کی حکم رانی، تعلیم اور شعور ہی اس طرح کے واقعات کو روک سکتے ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں اپنانا ہوگا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 جولائی تا 27 جولائی 2025