پولیس حراست میں نوجوان کی موت، چار غیرسرکاری اداروں کی چونکا دینے والی رپورٹ
چنّاگیری واقعہ میں پولیس کا مشکوک کردار!۔ من مانے مقدمات اور گرفتاریاں
بنگلورو، (دعوت نیوز ڈیسک)
عادل کے خاندان کو انصاف دلانے کا مطالبہ
ریاست کرناٹک کے ضلع داونگیرے کے گاؤں چنّاگیری میں حال ہی میں پولیس حراست میں ایک نوجوان کی موت اور اس کے بعد پیش آنے والے حالات کا جائزہ لینے کے لیے چار معروف غیر سرکاری اداروں نے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی تھی۔ کمیٹی نے متاثرہ مقامات پر پہنچ کر متاثرین، ان کے اہل خانہ اور دیگر ذمہ داروں سے ملاقات کی اور فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ تیار کی ہے۔
بنگلورو پریس کلب میں اخبارنویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے، چار اہم تنظیموں ایسوسی ایشن فور پروٹیکشن آف سول رائٹس (APCR) آل انڈیا لائرس ایسوسی ایشن برائے جسٹس (AILAJ) بہوتوا کرناٹک اور پیپلز یونین فور سِول لبرٹیز کرناٹک (PUCL) کے ذمہ داران نے مشترکہ پریس کانفرنس میں جو فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش کی وہ کافی پریشان کن ہے اور پولیس کے کردار پر سوال اٹھاتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 24 مئی 2024 کو پولیس نے جوا کھیلنے کے الزام میں عادل نامی نوجوان کو حراست میں لیا، جس کی پولیس حراست میں موت واقع ہوگئی۔ پوسٹ مارٹم مکمل ہونے تک عادل کے گھر والوں کو اس کی موت کی اطلاع نہیں دی گئی۔ پولیس کی مبینہ بربریت کے باعث نوجوان کی موت کی خبر پھیلتے ہی عوام نے پولیس اسٹیشن کے باہر احتجاج کیا اور پولیس کی بربریت کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔اس دوران کچھ مظاہرین نے پولیس کی گاڑیوں پر پتھراؤ بھی کیا۔ احتجاج کے بعد پولیس نے 300 افراد کے خلاف 6 ایف آئی آر درج کیں اور 47 افراد کو من مانی طریقے پر گرفتار کیا۔ رپورٹ کے مطابق تمام ملزمین پر غیر قانونی اجتماع، فسادات برپا کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات عاید کیے گئے ہیں۔ احتجاج کے بعد پولیس حراست میں عادل کی موت کی تفتیش کا معاملہ سی آئی ڈی کو سونپا گیا ۔
پریس کانفرنس میں ضلع داونگیرے کے اے پی سی آر سکریٹری نظام الدین نے عادل کی گرفتاری اور موت کے معاملے میں متضاد معلومات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ عادل کے اہل خانہ کو اس کی گرفتاری اور موت کے بارے میں کافی تاخیر سے آگاہ کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ متوفی کے اہل خانہ کو نہ تو اس کی گرفتاری کی خبر دی گئی اور نہ ہی رات دیر گئے تک گرفتاری کی وجہ بتائی گئی۔ مزید بتایا کہ جس پولیس اسٹیشن میں عادل کو حراست میں رکھا گیا، وہاں سی سی ٹی وی کیمروں کی عدم موجودگی نے صورتحال کو مزید مشکوک کردیا ہے، جس سے اٹھنے والے بہت سے سوالات کے جوابات ابھی تک نہیں مل سکے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس حراست میں ہونے والی نوجوان کی موت اور اس کے بعد کے حالات سے چنّاگیری کے رہائشیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، جس کے نتیجے میں کئی لوگوں نے علاقے کو چھوڑ کر روپوش ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
آل انڈیا لائرس ایسوسی ایشن فور جسٹس (AILAJ) کے رکن عامیہ بوکل نے حیرت انگیز طور پر اس بات کا انکشاف کیا کہ متوفی عادل کو جس جرم کے تحت گرفتار کیا گیا، وہ قابل گرفت ہی نہیں تھا۔ ان کے مطابق، اگر گرفتار کرنا تھا تو پہلے وارنٹ جاری کرنا ضروری تھا۔ بوکل نے بتایا کہ پولیس اسٹیشن میں سی سی ٹی وی کیمرے نہ ہونا سپریم کورٹ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے، اور اگر کسی قیدی کی حراست میں موت ہو جاتی ہے تو قانون کے مطابق مجسٹریٹ کی طرف سے انکوائری کرائی جانی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ آگے بتایا کہ اگرچہ عادل کی موت غیر فطری موت کے طور پر درج کی گئی ہے، لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس کی موت بیماری کی وجہ سے ہوئی یا پولیس کی بربریت کی وجہ سے۔ ہماری جانچ کے دوران معلوم ہوا کہ واقعہ کے تین ماہ گزرنے کے بعد بھی عادل کی موت کے سلسلے میں ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔
پیپلز یونین فور سِول لبرٹیز کرناٹکا (پی یو سی ایل) کے رکن کشور گووندا نے گرفتاری کے بعد کے واقعات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ پولیس حراست میں عادل کی موت کی اطلاع کے بعد تقریباً دو ہزار لوگ پولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہوگئے، یہ لوگ جاننا چاہتے تھے کہ پولیس تھانے میں نوجوان کی موت کیسے ہوئی، لیکن بعد میں پولیس نے تھانہ کے باہر جمع ہوکر ہنگامہ برپا کرنے اور توڑ پھوڑ کرنے کے الزام میں 47 افراد کو گرفتار کیا، جن میں سے بہت سے لوگ مظاہرہ کے وقت علاقے میں موجود ہی نہیں تھے۔ کشور نے بتایا کہ گرفتار 47 افراد کے اہل خانہ سے کی گئی پوچھ گچھ کے دوران معلوم ہوا کہ پولیس نے ان تمام کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا تھا۔ بعض خاندانوں کو اپنے رشتہ داروں کی گرفتاری کا علم تک نہیں تھا۔ اہل خانہ کی دی ہوئی معلومات کے مطابق، پولیس نے گرفتار شدگان میں سے بعض کو حراست میں بے دردی سے مارا بھی ہے۔ کشور نے بتایا کہ گرفتار کیے گئے بہت سے لوگوں کا تعلق غریب اور مالی طور پر کمزور خاندانوں سے ہے، جن کی گرفتاری کاان کے خاندانوں پر گہرا اثر پڑا ہے۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی طرف سے آخر میں پی یو سی ایل کی ایشوریہ روی کمار نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ عادل کے خاندان کو مالی امداد فراہم کی جائے، اس کے بچوں کی تعلیم کے لیے مدد فراہم کی جائے، خاندان کے افراد کے لیے فوری طور پر روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ انہوں نے اس بات کا بھی مطالبہ کیا کہ عادل کی پولیس حراست میں ہوئی موت کی صاف اور شفاف انکوائری کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی موت کی وجہ سے پولیس نظام میں کئی خامیاں نمایاں ہوئی ہیں، جنہیں دیکھتے ہوئے حکومت کو چاہیے کہ فوری کارروائی کرے۔ انہوں نے اس بات کا بھی مطالبہ کیا کہ عادل کی موت کے بعد پولیس اسٹیشن کے باہر ہو کر احتجاج کرنے والے جن بے گناہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا، ان کے خلاف مقدمات واپس لیے جائیں۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 ستمبر تا 14 ستمبر 2024