زعیم الدین احمد، حیدرآباد
جس ٹرسٹ کا صدر وزیر اعظم ہو اور جس کے ٹرسٹی حکومت کے وزیر ہوں وہ پرائیویٹ کیسے ہوسکتا ہے؟
27 مارچ 2020 کو مودی حکومت نے ایک عوامی خیراتی ٹرسٹ بنایا، حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سرکاری ٹرسٹ نہیں ہے بلکہ یہ فنڈز اکھٹا کرنے والا ایک خانگی ٹرسٹ ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس فنڈ ریزنگ ٹرسٹ کا جو نشان ہے وہ بھارت کا ایمبلم ہے اوراس کا نام بھی پرائم منسٹر کیئرس فنڈ رکھا گیا ہے، لیکن پھر بھی یہ پرائیویٹ ٹرسٹ ہے۔ اس کے چیئرمین ہمارے ملک کے مکھیا مودی ہیں، اس کے باوجود یہ پرائیویٹ ہے، اس کے ٹرسٹیز بھاچپا کے وہ لوگ ہیں جو حکومت چلانے والے ہیں یعنی وزیر داخلہ امیت شاہ، وزیر فینانس نرملا سیتارمن، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ ، لیکن پھر بھی یہ پرائیویٹ ہے۔ ان کے علاوہ ملک کے جانے مانے انڈسٹریل اسٹیٹ رتن ٹاٹا، ریٹائرڈ جج کے ٹی تھامس اور کرپا منڈا کو ٹرسٹ کے چیئرمین نے بطور ٹرسٹیز نامزد کیا ہے، لیکن پھر بھی یہ پرائیویٹ ٹرسٹ ہے۔ نامی گرامی شخصیتوں کو شاید اس لیے لیا گیا ہے تاکہ ملک کے عوام اس پرائیویٹ ٹرسٹ پر بھروسا کریں۔
اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ اگر ملک میں کسی بھی قسم کی ہنگامی یا ایمرجنسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس سے نمٹنے کے لیے اس خیراتی ٹرسٹ میں جمع فنڈ کو استعمال کیا جائے، جیسا کہ 2019 میں کوویڈ وبائی مرض پھیلا تھا، اس جیسی اگر صورت حال پیدا ہوتی ہے تو اس ٹرسٹ سے متاثرین کو ریلیف فراہم کیا جائے گا، پی ایم کیئرس فنڈ کو پبلک چیریٹیبل ٹرسٹ کے طور پر رجسٹر کیا گیا ہے۔ پی ایم کیئرس فنڈ کا ٹرسٹ ڈیڈ رجسٹریشن ایکٹ 1908 کے تحت نئی دہلی میں 27 مارچ 2020 کو رجسٹر کیا گیا ہے۔
آئیے جانتے ہیں اس کے مقاصد کیا ہیں:
صحت عامہ کی ہنگامی صورتحال یا کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال میں چاہے وہ آفت انسانی ہو یا قدرتی، اس سے نمٹنے کے لیے امداد مہیا کرنا، صحت کی دیکھ بھال یا دوائیں بنانے ہو، پبلک ہیلتھ کے اپ گریڈیشن یا انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کے لیے اس فنڈ کو استعمال کیا جائے گا۔
ایسی آبادی کو مالی امداد فراہم کی جائے گی جو آفت سے متاثر ہوئی ہے، اگر بورڈ آف ٹرسٹیز ضروری سمجھتے ہوں تو ان کے لیے گرانٹ فراہم کی جائے گی۔
کسی دوسری سرگرمی کے لیے بھی یہ فنڈ استعمال کیا جاسکتا ہے جو اوپر دیے گئے مقاصد سے ہٹ کر نہ ہوں۔ یہ ہیں اس ٹرسٹ کے مقاصد۔
ٹرسٹ کا دستور:
وزیر اعظم پی ایم کیرس فنڈ کے چیئرمین ہیں اور وزیر دفاع، وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ، اس فنڈ کے ٹرسٹیز ہیں۔
وزیر اعظم نے پی ایم کیئرس فنڈ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے چیئرپرسن کے طور پر، بورڈ کے لیے تین ٹرسٹیز کو نامزد کیا ہے: جسٹس کے ٹی تھامس (ریٹائرڈ) شری کریا منڈا، شری رتن این ٹاٹا۔
جس کسی کو بھی اس کا ٹرسٹی مقرر کیا گیا ہے وہ ایک خصوصی حیثیت میں اس ٹرسٹ کا کام کرے گا۔
آئیے اس کی دیگر تفصیلات پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں:
اس ٹرسٹ میں جو کوئی بھی فنڈ جمع کرے گا چاہے وہ فرد ہو یا پھر تنظیم وہ مکمل طور پر رضاکارانہ عطیات یعنی والینٹری ڈونیشنس ہوں گے۔ فنڈ کو اوپر بیان کردہ مقاصد کے تحت ہی استعمال کیا جائے گا۔
پی ایم کیئرس فنڈ میں دیے گئے ڈونیشنس کو جی 80 فوائد حاصل کرنے کے لیے انکم ٹیکس ایکٹ، 1961 کے تحت صد فیصد چھوٹ دی گئی ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ پی ایم کیئرس فنڈ میں جو ڈونیشنس دیے جائیں گے اسے کمپنیز ایکٹ، 2013 کے تحت سماجی ذمہ داری یعنی کارپوریٹ سوشل ریسپانس بیلیٹی (سی یس آر) کے اخراجات کے طور پر شمار کیا جاسکتا ہے۔
تیسرا فائدہ، پی ایم کیئرس فنڈ کو ایف سی آر اے قانون سے الگ رکھا گیا ہے، یعنی بیرون ملک سے جو پیسہ آتا ہے اس کے لیے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے یعنی ایف سی آر اے قانون اس پر لاگو نہیں ہوگا، اور فارین فنڈنگ کے لیے ایک الگ اکاؤنٹ کھولا گیا ہے، تاکہ دیگر ممالک میں رہنے والے افراد یا تنظیموں سے عطیے حاصل کیے جاسکیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا اس سے قبل پرائم منسٹر نیشنل ریلیف فنڈ تھا۔ یہ وہ تفصیلات ہیں جو عوام کے سامنے ہیں لیکن اس کے علاوہ اور بھی جاننا ہمارے لیے ضروری ہے، کیوں کہ اس میں عوام کا پیسہ جمع ہے۔
اس ٹرسٹ میں اور کتنے ٹرسٹیز ہیں معلوم نہیں اور کتنے بورڈ ممبران ہیں یہ بھی معلوم نہیں۔
جو کوئی بھی اس میں ڈونیشن دیتا ہے اس کا نام ظاہر نہیں کیا جائے گا، اس نے کتنی رقم جمع کی ہے اس کا بھی انکشاف نہیں کیا جائے گا، اگر آپ جاننا بھی چاہیں تو معلومات نہیں دی جائیں گی۔
پی یم کیرس فنڈ میں جمع رقم اور اس کے حسابات، گورنمنٹ کے تحت نہیں آتے کیوں کہ یہ ایک پرائیوٹ ٹرسٹ ہے، بھلا وہ حکومت کے تحت کیسے آئے گا؟ اس کی آڈیٹنگ بھی گورنمنٹ کے حسابات کی جانچ کرنے والا ادارہ سی اے جی یعنی کنٹرولر آف آیڈیٹر جنرل آف انڈیا سے نہیں ہوتی ہے، کسی پرائیویٹ آڈیٹر سے اس کی آڈیٹنگ کرائی جاتی ہے۔ آپ اس طرح کی کسی بھی قسم کی معلومات حاصل نہیں کرسکتے، کیوں کہ اسے آر ٹی آئی یعنی رائیٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ دسمبر 2020 میں اس کی حیثیت کو معلوم کرنے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا، ٹرسٹ نے جواب دیا کہ یہ ایک پرائیویٹ ٹرسٹ ہے جو آر ٹی آئی کے تحت نہیں آتا، اس لیے ہم کسی بھی قسم کی معلومات فراہم نہیں کرسکتے ہیں۔
اس ٹرسٹ میں پبلک سیکٹر بینکوں سے، یونیورسٹیوں سے، ہاسپٹلوں سے یہاں تک کے آرمی سے بھی پیسے لیے گئے ہیں۔ یہی نہیں فارین فنڈ بھی اس میں آیا ہے، جیسے روس سے، امریکہ سے اور دیگر ممالک سے اس ٹرسٹ میں پیسہ جمع ہوا ہے۔ ایس بی آئی، سنٹرل بینک اور یونین بینک سے اس میں ڈونیشن کے نام پر پیسے لیے گیے، یہاں تک کے ایل آئی سی سے بھی فنڈس لیے گیے ہیں۔ سپریم کورٹ میں کام کرنے والوں کی تین دن کی تنخواہ لی گئی ہے، فوج نے تقریباً دو سو کروڑ روپے اس ٹرسٹ میں ڈونیشن دیا ہے۔
دہلی کا ایمس، صفدر جنگ ہاسپٹل، رام منوہر لوہیا ہاسپٹل جیسے بڑے بڑے اداروں کو ایک سرکلر جاری کیا گیا کہ اس میں کام کرنے والے تمام ہی لوگ اس ٹرسٹ میں اپنی ایک دن کی تنخواہ بطور عطیے دیں۔ لیکن جب ان سب نے مل کر سخت احتجاج کیا تو کھسیانی بلی کی طرح کہا گیا کہ آپ رضاکارانہ طور پردے سکتے ہیں کوئی لازمی نہیں ہے۔ جب یہ بات تھی تو پھر سرکلر کیوں جاری کیا گیا؟
2019-20 میں جب اس ٹرسٹ کا قیام عمل میں آیا اس وقت چند ہی دنوں میں تقریباً تیس ارب یعنی تین ہزار چھہتر کروڑ روپے جمع ہوگئے، جس میں ویلنٹری کانٹریبیوشن ہی تین ہزار پچھتر کروڑ روپے تھا، باقی فارین فنڈنگ کے ذریعے اور دیگر ذرائع سے جمع ہوا۔
2020-21میں اس ٹرسٹ میں مزید بہتر ارب روپے جمع ہوئے یعنی سات ہزار دو سو کروڑ روپے، جس میں ویلنٹری کانٹریبیوشن سے ایکھتہر ہزار تریاسی کروڑ روپے اور فارین فنڈنگ سے پانچ سو کروڑ روپے ، باقی اس پر جمع سود و دیگر ذرائع سے جمع ہوئے۔
اسی مالی سال میں تقریباً چار ہزار کروڑ روپے کوویڈ وبا کے ضمن میں خرچ کیے گیے، اخرات کی تفصیل کچھ اس طرح ہے: سرکاری ہاسپٹلس میں پچاس ہزار وینٹیلیٹرس فراہم کیے گیے، جو انڈیا میں ہی بنے تھے، اس پر ایک ہزار تین سو گیارہ کروڑ روپے خرچ کیے گیے۔ ایک ہزار کروڑ روپے ریاستوں اور یونین ٹریٹریس کو مائیگرینٹس ری ہیبلیٹیشن کے لیے دیے گئے۔ مظفر نگر اور پونے میں دو پانچ سو بستری کوویڈ میک شفٹ ہاسپٹلس بنائے گیے، نو ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں سولہ آر ٹی – پی سی آر ٹیسٹنگ لیبس بنائے گئے جس کے لیے پچاس کروڑ روپے خرچ کیے گیے۔ پبلک ہیلتھ یونٹس میں ایک سو باسٹھ پریشر سوینگ ایڈزوربشن (پی یس اے) میڈیکل آکسیجن جنریشن پلاینٹ انسٹالیشن یا ریپیر پر دو سو کروڑ روپے خرچ کیے گیے۔ 6.6 کروڑ کوویڈ ویکسین ڈوزیس کی خریدی کے لیے ایک ہزار چار سو کروڑ روپے خرچ کیے گیے۔ کوویڈ ویکسین کے ٹسٹ اور ان کی ریلیز کے لیے دو لیبارٹریوں کو بیس کروڑ بیالیس لاکھ روپے دیے گیے۔ سارے اخراجات کے بعد ٹرسٹ کے پاس اس مالی سال میں سات ہزار چودہ کروڑ روپے باقی بچے ہوئے ہیں۔
ان ساری چیزوں کا معیار یعنی کوالیٹی کیا ہے اس پر آگے گفتگو کریں گے، یہاں صرف کتنا خرچ کیا گیا ہے وہ بتایا گیا ہے۔
اسی طرح 2021-22میں ٹرسٹ کی رپورٹ کے مطابق ایک ہزار نو سو کروڑ روپے ویلنٹری کانٹریبیوشن کے ذریعے جمع ہوئے، اکتالیس کروڑ روپے فارین فنڈنگ سے جمع ہوئے، ایک سو پینتالیس کروڑ روپے ویلنٹری کانٹریبیوشن پر سود کے ذریعے جمع ہوئے، اسی طرح ایک سو چھیاسی کروڑ روپے فارین فنڈنگ پر سود کے ذریعے جمع ہوئے۔ پچھلے سال کا کیری فارورڈ اور اس سال کی جمع رقم ملا کر جملہ نو ہزار ایک سو بتیس کروڑ روپے اس میں جمع ہیں۔
اس سال کے اخراجات کا حساب کتاب یہ ہے: سرکاری ہاسپٹلس کو اس سال بھی پچاس ہزار وینٹیلیٹرس فراہم کیے گیے، جس کے لیے آٹھ سو پینتیس کروڑ روپے خرچ کیے گیے۔ پانچ سو بیڈیڈ آئی سی یو سردار ولبھ بھائی پٹیل کوویڈ ہاسپٹل دہلی کنٹ کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے اڑسٹھ کروڑ روپے خرچ کیے گیے۔ مزید پریشر سوینگ ایڈزوربشن (پی یس اے) میڈیکل آکسیجن جنریشن پلاینٹ انسٹالیشن پر ایک سو بہتر کروڑ روپے خرچ کیے گیے۔ ایک لاکھ آکسیجن کنیکشنس کے لیے پانچ سو کروڑ روپے خرچ کیے گیے۔ ڈیڑھ لاکھ ایس پی او ٹو والے آکسیجن کنٹرول سسٹم وہ بھی نان ری بریتھر ماسک (ین آر یمس) اور دس لاکھ مزید ین آر یمس خریدی کے لیے تین سو تیئیس کروڑ روپے خرچ کیے گیے۔ جموں و کشمیر میں دو پانچ سو بیڈیڈ میک شفٹ ہاسپٹلس بنانے کے لیے تراسی کروڑ روپے خرچ کیے گیے۔ انڈین آئیل کارپوریشن سے لیکوئیڈ آکسیجن خریدنے کے لیے ایک سو نوے کروڑ روپے خرچ کیے گیے۔ ڈی آر ڈی او لکھنؤ اترپردیش میں اٹل بہاری واچپائی کوویڈ میک شفٹ ہاسپٹل نصب کرنے کے لیے تیرہ کروڑ دس لاکھ روپے خرچ کیے گیے۔
2022 کی آڈیٹ رپورٹ کے مطابق جملہ تین ہزار سات سو سولہ کروڑ روپے خرچ کیے گیے ہیں، باقی پانچ ہزار چار سو سولہ کروڑ روپے جمع ہیں۔ یہ تو اس کا حساب کتاب رہا۔
لیکن اب ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ جو رقم خرچ کی گئی ہے، چاہے وہ ویکسین کی تیاری کے لیے ہو یا خریدی کے لیے ہو یا وینٹیلیٹرس کی بات ہو، یا پھر آکسیجن فراہم کرنے کا معاملہ ہو، یہ ساری چیزیں کس کمپنی نے اور کس ادارے نے فراہم کیے اور وہ کس معیار کے تھے؟ یہ سوال بڑا اہم ہے۔
دی ٹریبیون کے مطابق کوویڈ کے سیکنڈ ویو میں چندی گڑھ کو پی ایم کیرس فنڈ سے جو ونٹیلیٹرس سپلائی کیے گیے تھے، وہ خراب کوالٹی کے تھے، وہ کام ہی نہیں کر رہے تھے۔ ہاسپٹلس نے حکومت کو اس کی شکایت بھی کی۔ بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے مراٹھواڑہ کے علاقے میں پی ایم کیئرز فنڈز کے ذریعے جو وینٹیلیٹرس سپلائی کیے تھے وہ ’’خراب‘‘ تھے جس کا سخت نوٹس لیا اور مرکزی حکومت کے وکیل کو ہدایت دی کہ وہ سپلائی کرنے والے کے خلاف کارروائی کرے اور اس بارے میں مطلع کرے۔ یہ وینٹیلیٹرس گجرات کی جیوتی سی ین سی آٹومیشن نے تیار کیے تھے۔ اس کمپنی کے تعلقات بھاجپا والوں سے بڑے گہرے ہیں۔ ایک اور کمپنی ہے جسے وینٹیلیٹرس تیار کرنے کا کنٹراکٹ ملا تھا وہ ہے ٹری ویٹران، یہ چنائی میں قائم کمپنی ہے، اس نے ہافنگٹن پوسٹ کو دیے انٹرویو میں کہا کہ ہمیں پی ایم کیرس فنڈ کی جانب سے دس ہزار وینٹیلیٹرس تیار کرنے کا کنٹراکٹ ملا، سات ہزار بیسک ماڈیول اور تین ہزار اڈوانس ماڈیول کے، جب کہ ہمیں وینٹیلیٹرس بنانے کا کوئی تجربہ ہی نہیں ہے، اس کے لیے انہیں تین سو تہتر کروڑ روپے دیے گیے۔ ایک ایسی کمپنی جسے وینٹیلیٹرس بنانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے اسے کنٹریکٹ دے دیا گیا۔
کتنا عجیب معاملہ ہے کہ ہنگامی صورت حال میں بھی اسے کنٹریکٹ ملا لیکن اس کو ڈیلیوری ڈسپیچ نہیں ملا، یہ مودی حکومت کی خریداری کی مبہم پالیسی، من مانی اور گمراہ کن کوششوں کی ایک چھوٹی مثال ہے۔ اٹھاون ہزار آٹھ سو پچاس وینٹیلیٹرس بنانے کے لیے پی ایم کیئرس فنڈ سے تقریباً دو ہزار کروڑ روپے خرچ کیے گیے، جس میں پبلک سیکٹر انٹرپرائز بھارت الیکٹرانکس لمیٹڈ کو تیس ہزار وینٹی لیٹرس بنانے کا کام براہ راست سونپا گیا تھا، باقی آرڈرز کی خریداری ایچ ایل ایل کو دی گئی تھی۔ مودی حکومت کا وینٹلیٹرس خریدنے کا یہ سارا عمل بے ضابطگیوں سے بھرا ہوا ہے۔
13 مئی 2020 کو وزیر اعظم کے دفتر نے پریس انفارمیشن بیورو (PIB) کی ویب سائٹ پر ایک سرکاری اطلاع جاری کی، اس میں کہا گیا تھا کہ کوویڈ، ویکسین کے ڈیزائنرز اور ڈیویلپرز کی مدد کے لیے سو کروڑ روپے پی ایم کیئرس فنڈ سے ویکسین کی تیاری کے لیے بطور مدد دیے جائیں گے، جو پرنسپل سائنٹیفک ایڈوائزر کی نگرانی میں تیار کیے جائیں گے۔ مگر انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر)، کوویڈ 19 ویکسین ایڈمنسٹریشن سیل سے آر ٹی آئی کے ذریعے معلومات حاصل کی گئیں کہ حکومت نے سو کروڑ روپے کس کو منتقل کیے؟ تو ان اداروں نے کہا کہ انہیں تو فنڈز ملے ہی نہیں تو پھر وہ فنڈز کس کو دیے گیے؟ کہاں گئے وہ پیسے؟ مزید یہ کہ پرنسپل سائنٹیفک ایڈوائزر کے دفتر نے یہ بھی بتایا کہ وہ اس پروجیکٹ کی نگرانی میں سرے سے شامل ہی نہیں ہیں، جب کہ پی یم او نے کہا تھا کہ وہ اس پروجیکٹ کا حصہ ہیں، ان ہی کی نگرانی میں یہ کام ہو رہا ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ حکومت یہ کیسے کہ سکتی ہے کہ حکومت کا پی ایم کیرس سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ یہ پبلک اتھارٹی نہیں ہے، لیکن پھر اس سے فنڈز مختص کرنے کا اعلان وزیر اعظم کے دفتر سے کیا جا رہا ہے اور پریس انفارمیشن بیورو، جو کہ حکومت کا ادارہ ہے اس کی ویب سائٹ پر کیوں پوسٹ کیا گیا تھا؟
مرکز کی جانب سے ویکسین کی پہلی لاٹ جو پی ایم کیئرس فنڈز کے ذریعے خریدی گی تھی وہ بعد میں خریدے گیے ویکسینوں سے مہنگی تھی۔ وزارت صحت کے مطابق کووشیلڈ کی 5.6 کروڑ خوراکیں جو پہلے خریدی گئیں تھیں وہ دو سو روپے میں خریدی گئی اور ٹیکس الگ سے اور کوویکسین کی ایک کروڑ خوراک دو سو پچانوے روپے میں خریدی گئی تھیں۔ لیکن اس کی اصلی قیمت ایک سو پچاس روپے ہی تھی، کیوں کہ اسے بعد میں جب مرکز نے سرکاری طور پر خریدا تو ایک سو پچاس روپے میں ہی خریدا، یعنی پی ایم کیرس سے جو ویکسینس خریدے گیے وہ پچاس روپے تا سو روپے زیادہ قیمت پر خریدے گیے۔
ایک اور دل چسپ بات جانیے، جب کوویڈ کی دوسری لہر چلی تو ویکسین کی مانگ بھی بڑھ گئی، ایسے نازک وقت میں ویکسین بنانے والی کمپنیوں نے ریاستی حکومتوں اور پرائیویٹ ہاسپٹلس کو فی خوراک تین سو تا بارہ سو روپے میں فروخت کیا۔ اس لحاظ سے قیمتوں پر نہ حکومت کا کوئی کنٹرول رہا اور نہ ہی کمپنیوں میں کوئی حیا۔ اتنی ایمرجنسی صورتحال میں من مانے داموں پر ویکسین بیچے گئے۔ بھارت بائیوٹیک کے ایک ترجمان نے کہا کہ مرکزی حکومت نے ہمیں پچپن لاکھ ویکسین بنانے کا آرڈر دیا تھا، کمپنی نے مرکز کو دو سو پچانوے روپے فی یونٹ کے حساب سے ساڑھے اڑتیس لاکھ خوراکیں فروخت کیں ہیں اور کمپنی نے ساڑھے سولہ لاکھ خوراکیں مفت میں ہی دیں ہیں، اسی لیے یہ سارا حساب ملا کر فی یونٹ دو سو چھ روپے آیا ہے، ورنہ رقم اور زیادہ ہوتی۔
اب ان ویکسین پر بھی سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے ہیں، اس کی لیبارٹری میں صحیح طریقے سے جانچ کی گئی یا نہیں یہ بھی معلوم نہیں، اس پر عوام کو شک ہے۔ کس بنیاد پر ویکسین بنانے والی کمپنیوں کو اڈوانس میں ہزاروں کروڑ روپے دیے گیے، برطانوی دوا ساز کمپنی آسٹرا زینیکا، دنیا بھر میں اپنی کوویڈ ویکسین کو واپس لے رہی ہے، اس نے عدالت میں پہلی بار اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس ویکسین سے خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ آسٹرا زینیکا اور آکسفورڈ یونیورسٹی نے مل کر اس ویکسین کو تیار کیا ہے اور اسے سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا نے کووشیلڈ کے نام سے مارکٹ میں بیچا۔ آسٹرا زینیکا نے عدالت میں کہا کہ اس ویکسین سے تھوم بوسیس تھومبوسیس وتھ تھرومبوسائٹوپینیا سنڈروم یعنی ٹی ٹی ایس ہوسکتا ہے۔ تھومبوسیس وتھ تھرومبوسائٹوپینیا سنڈروم کیا بلا ہے؟ تھرومبوسس وتھ تھرومبوسائٹوپینیا سنڈروم یعنی ٹی ٹی یس ایک ایسی سنگین اور خطرناک حالت ہے جس میں خون جم جاتا ہے، کلاٹ ہوجاتا ہے اور اس میں پلیٹلیٹس بھی کم ہو جاتے ہیں۔
یعنی انسانی جانوں کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے، مودی حکومت نے کسی شعبے کو نہیں چھوڑا، پی ایم کیرس فنڈ جو کہ ایک پرائیویٹ ٹرسٹ ہے، عوام کے سامنے اسے حکومتی ادارے کے طور پر باور کرایا، لوگوں سے اندھا دھند فنڈز جمع کیے گئے، اس کی کوئی سرکاری آڈیٹنگ بھی نہیں کرائی گئی، کاگ اس کی آڈیٹ نہیں کرسکتا، جب پوچھا جاتا ہے کہ آخر پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ تو کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ تو پرائیویٹ ٹرسٹ ہے، سوال یہ ہے ایک پرائیویٹ ٹرسٹ میں وزیراعظم کیسے رہ سکتا ہے؟ کیسے ہوم منسٹر، فینانس منسٹر، ڈفینس منسٹر اس میں رہ سکتے سکتے ہیں؟ اس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیوں اس میں پیسے جمع کرنے پر زور دیا گیا؟ کتنے پیسے آئے اس کا بھی کوئی خلاصہ نہیں ہے، جب کہ پرائم منسٹر ریلیف فنڈ کے نام سے ایک سرکاری فنڈ کا اکاؤنٹ ہوتا ہے، پیسہ اس میں جمع کیا جانا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سوالات ہیں جو آگے ظاہر ہوتے جائیں گے۔ بہر حال ہم ان اندھ بھکتوں سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اصل سوالات یہ ہیں کہ پی ایم کیئرس ٹرسٹ پرائیویٹ ٹرسٹ کیوں ہے؟ اب تک اس میں کتنا پیسہ جمع ہوا ہے؟ کہاں خرچ کیا گیا ہے؟ کاگ سے اس کی آڈیٹ کیوں نہیں ہوتی؟ وغیرہ وغیرہ۔ اپنے مکھیا سے پوچھو، اگر تمہیں جواب مل جائے تو ہمیں بھی بتانا۔
***
***
مودی حکومت نے کسی شعبے کو نہیں چھوڑا، پی ایم کیرس فنڈ جو کہ ایک پرائیویٹ ٹرسٹ ہے، عوام کے سامنے اسے حکومتی ادارے کے طور پر باور کرایا، لوگوں سے اندھا دھند فنڈز جمع کیے گئے، اس کی کوئی سرکاری آڈیٹنگ بھی نہیں کرائی گئی، کاگ اس کی آڈیٹ نہیں کرسکتا، جب پوچھا جاتا ہے کہ آخر پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ تو کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ تو پرائیویٹ ٹرسٹ ہے، سوال یہ ہے ایک پرائیویٹ ٹرسٹ میں وزیراعظم کیسے رہ سکتا ہے؟ کیسے ہوم منسٹر، فینانس منسٹر، ڈفینس منسٹر اس میں رہ سکتے سکتے ہیں؟ اس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیوں اس میں پیسے جمع کرنے پر زور دیا گیا؟ کتنے پیسے آئے اس کا بھی کوئی خلاصہ نہیں ہے، جب کہ پرائم منسٹر ریلیف فنڈ کے نام سے ایک سرکاری فنڈ کا اکاؤنٹ ہوتا ہے، پیسہ اس میں جمع کیا جانا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سوالات ہیں جو آگے ظاہر ہوتے جائیں گے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مئی تا 1 جون 2024