گجرات فسادات پر بی بی سی کی دستاویزی فلم کو بلاک کرنے کے مرکز کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی داخل
نئی دہلی، جنوری 29: پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق 2002 کے گجرات فسادات میں وزیر اعظم نریندر مودی کے مبینہ کردار کے بارے میں بی بی سی کی دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم پر پابندی کے مرکز کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ کی عرضی دائر کی گئی ہے۔
ایڈووکیٹ ایم ایل شرما نے اپنی درخواست میں الزام لگایا ہے کہ مرکز کا فیصلہ ’’من مانا اور غیر آئینی‘‘ ہے اور انھوں نے حکومت کے حکم کو منسوخ کرنے کی مانگ کی ہے۔
20 جنوری کو حکومت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی رولز 2021 کے تحت دستیاب ہنگامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یوٹیوب اور ٹوئٹر کو ہدایت جاری کی تھی کہ وہ ’’انڈیا: دی مودی کویشچن‘‘ کے عنوان سے شیئر کیے جانے والے دستاویزی فلم کے کلپس کو بلاک کردیں۔ وزارت خارجہ نے اس دستاویزی فلم کو ’’ایک خاص بدنام بیانیہ کو آگے بڑھانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ایک پروپیگنڈا‘‘ قرار دیا تھا۔
17 جنوری کو ریلیز ہونے والی دستاویزی فلم کی پہلی قسط میں الزام لگایا گیا ہے کہ برطانوی حکومت کی طرف سے بھیجی گئی ایک ٹیم کو پتہ چلا ہے کہ مودی، جو فسادات کے وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، فسادات کے ماحول کے لیے براہ راست ذمہ دار تھے۔
دستاویزی فلم کا دوسرا حصہ منگل کو جاری کیا گیا۔
اپنی درخواست میں شرما نے پوچھا کہ کیا مرکزی حکومت صحافت کی آزادی پر پابندی لگا سکتی ہے، جو آئین کی دفعہ 19(1)(a) کے تحت ایک بنیادی حق ہے۔
انھوں نے پوچھا ’’کیا صدر کی طرف سے آئین ہند کی دفعہ 352 کے تحت ایمرجنسی کا اعلان کیے بغیر مرکزی حکومت کی طرف سے ہنگامی دفعات کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے؟‘‘
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بی بی سی کی دستاویزی فلم میں ایسے حقائق پیش کیے گئے ہیں جو ثبوت کا درجہ رکھتے ہیں اور فسادات کے متاثرین کو انصاف کی فراہمی کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
اگرچہ دستاویزی فلم ہندوستان میں دستیاب نہیں ہے، تاہم فلم کے پائریٹڈ لنکس کو آن لائن پلیٹ فارمز پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا ہے۔
دستاویزی فلم کی اسکریننگ دہلی یونیورسٹی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، امبیڈکر یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی، ممبئی میں ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز اور کولکتہ میں پریزیڈنسی یونیورسٹی میں تنازعات کا سبب بنی۔