مذہبی تبدیلی کے خلاف درخواست کو سپریم کورٹ نے مسترد کیا، کہا کہ 18 سال سے زیادہ عمر کے افراد اپنے مذہب کا انتخاب کرنے کے لیے آزاد ہیں
نئی دہلی، اپریل 10: لائیو لا ڈاٹ اِن کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے جمعہ کو مشاہدہ کیا کہ 18 سال سے زیادہ عمر کا شخص آزادانہ طور پر اپنی پسند کا مذہب منتخب کرسکتا ہے۔
عدالت نے یہ تبصرے دھمکی یا تحائف کے ذریعہ مذہبی تبدیلی اور کالے جادو اور توہم پرستی پر پابندی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کیے۔
جسٹس آر ایف نریمن نے عدالت میں کہا ’’مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ 18 سال سے زیادہ عمر کا کوئی شخص اپنے مذہب کا انتخاب کیوں نہیں کرسکتا ہے۔ آئین میں لفظ ’’پروپیگنڈا‘‘ کرنے کی ایک وجہ ہے۔‘‘ اس بینچ میں جسٹس بی آر گوائی اور ہریشیکیش رائے بھی شامل تھے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق درخواست گزار بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اشونی اپادھیائے کے وکیل کو بھی عدالت نے کھری کھوٹی سنائی۔ جج نے پوچھا ’’یہ آرٹیکل 32 کے تحت کس طرح کی رٹ پٹیشن ہے؟ ہم آپ پر بھاری جرمانہ لگائیں گے۔ آپ اپنے ہی خطرے پر بحث کرتے ہیں۔‘‘
عدالت نے یہ بھی کہا کہ یہ درخواست ’’تشہیراتی مفادات کے لیے قانونی چارہ جوئی‘‘ کی طرح ہے۔
پی ٹی آئی کے مطابق عدالت کے تبصرے کے بعد درخواست گزار کے وکیل ایڈوکیٹ گوپال شنکرانارائن نے درخواست واپس لینے اور مرکز اور قانون کمیشن کے سامنے پیش کرنے کی اجازت مانگی۔ تاہم عدالت نے اس کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔
اس پٹیشن میں ’’مذہب کے غلط استعمال‘‘ پر قابو پانے کے لیے ایک تبدیلیِ مذہب قانون نافذ کرنے کے لیے ایک کمیٹی مقرر کرنے کی بھی درخواست کی گئی۔
عدالت نے مزید کہا کہ مرکزی حکومت اور ریاستیں آرٹیکل 51 اے (بنیادی فرائض) کے دائرے میں رہنے کے باوجود ’’کالے جادو، توہم پرستی اور دھوکہ دہی سے مذہبی تبادلوں‘‘ پر قابو پانے میں ناکام رہی ہیں۔ درخواست میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ مرکز نے ان مسائل کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا ہے۔