پہلی قسط: رمضان: برکتوں اور شخصیت کی تعمیر کا مہینہ

شخصیت سازی کے چاراہم پہلو

ایس امین الحسن، نئی دہلی
نائب امیر جماعت اسلامی ہند

رمضان المبارک جب قریب ہوتا ہے تو اکثر یہ دعا کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک اور رمضان عطا فرمائے تاکہ ہم اس مبارک مہینےکی برکتوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔ مگر رمضان المبارک سے کیسےاستفادہ کیا جائے اس موضوع پر کم ہی غور کیا جاتا ہے، حالانکہ یہاں ایک اہم موقع ہے جس کے ذریعے انسان اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتاہے۔ یہ مہینہ ہمارے گناہوں کی معافی طلب کرنے، اللہ تعالیٰ سے دعاکرنے اپنے اعمال کو بہتر بنانے کا اور شخصیت کی کایا پلٹpersonality transformation کرنے کا ایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔
مومن کی یہ بھی  دعا ہوتی ہے کہ جب وہ دنیا سے سفر مکمل کرکے خدا کی طرف لوٹے  تو وہ پاک صاف ہو کر اللہ کے حضور پیش ہو۔ رمضان اس تیاری کا ایک اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس مہینے کے ہر لمحے کو شعوری طور پر گزاریں اور اسےاپنی شخصیت اور اعمال کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کریں۔
رمضان: گناہوں سے پاکیزگی اور روحانی تجدید کا مہینہ
امام غزالیؒ نے اپنی مشہور کتاب ’’مکاشفۃ القلوب‘‘ میں رمضان کی وجہ تسمیہ پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ’’رمضان‘‘ لفظ ’’رمضاء‘‘ سے مشتق ہے، جو شدت اور گرمی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ جب عرب میں مہینوں کے نام رکھے جا رہےتھے، تو روزہ ان ایام میں آیا جو سب سے زیادہ شدید گرمی کا تھا، اس لیے اس مہینے کو ’’رمضان‘‘ کہا گیا۔ اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ رمضان مختلف موسموں میں آتا رہا، لیکن اس کا اصل نام اس وقت کے شدید گرمی کے مہینے کی مناسبت سے رکھا گیا۔
امام غزالیؒ مزید بیان کرتے ہیں کہ عرب میں ’’رمضان‘‘ اس گرم چٹان کو بھی کہا جاتا تھا جس پر کپڑے دھونے کے بعد ڈالےجاتے تھے، تاکہ اس چٹان کی گرمی سے وہ کپڑے جراثیم سے پاک ہوجائیں۔ یہ چٹان اپنی گرمی کے ذریعے جراثیم کو ختم کر دیتی تھی۔ رمضان کے نام کے انتخاب کی ایک وجہ اس کے روحانی اثرات کی عکاسی بھی ہے۔ جس طرح چٹان جراثیم کو جلا کر کپڑوں کو پاک کرتی ہے، اسی طرح رمضان بندے کے گناہوں کو جلا کر اسے روحانی طور پر پاک اور صاف کرتا ہے۔
رمضان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ مومن کے دل میں ایمان کی حرارت پیدا کرتا ہے اور روحانی طور پر اسے مضبوط کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فیوض و برکات جو اس مہینے میں نازل ہوتے ہیں، وہ مومن کے دل میں جذب ہوتے ہیں اور کئی دنوں تک اس کی روحانی تاثیرباقی رہتی ہے۔ رمضان مومن کے گناہوں کو ایسے جلا دیتا ہے جیسےالٹرا وائلٹ شعاعوں کے ذریعے جسم کے دھبے اور داغ صاف کر دیےجاتے ہیں۔ یہ مہینہ بندے کو پاک صاف کر کے گناہوں سے دھو دیتاہے اور اس کی روحانی زندگی کو نکھار دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رمضان کو ایمان کو بڑھانے اور گناہوں سے معافی طلب کرنے کا مہینہ کہا گیا ہے ۔ یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سےایک عظیم نعمت ہے، جس کے ذریعے انسان اپنی ایمانی حرارت کو بڑھا سکتا ہے اور اپنی زندگی کو گناہوں سے پاک کرنے کے لیے تدابیر اختیار کر سکتا ہے۔
رمضان: عظمت اور صبر کا مہینہ
رمضان المبارک کے کئی نام ہیں جو اس مہینے کی مختلف خصوصیات کو نمایاں کرتے ہیں۔ اسے ’’رمضان‘‘ کہا گیا، ’’شہرالعظیم‘‘ کہا گیا، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ اللہ کاعظمت والا مہینہ ہے۔ اسے ’’شہر مواساۃ‘‘ بھی کہا گیا، یعنی ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ۔ یہ مہینہ ہمیں دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنے اور ان کے ساتھ نرمی برتنے کا درس دیتا ہے۔ مزیدبرآں، رمضان کو ’’شہر الصبر‘‘ بھی کہا گیا، کیونکہ یہ صبر کا مہینہ ہے—اپنے موقف پر ثابت قدم رہنے، مشکلات کو برداشت کرنے اور اپنی خواہشات پر قابو پانے کی تربیت کا زمانہ ہوتا ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ ’’یہ صبر کا مہینہ ہے، اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ مواساۃ(ہمدردی) کا مہینہ ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
رمضان: برکتوں اور شخصیت کی تعمیر کا مہینہ
رمضان کا ایک اور اہم نام ’’ہر مبارکۃ‘‘ ہے، یعنی برکتوں سے بھراہوا مہینہ۔ برکت کے معنی صرف اضافے اور بڑھوتری تک محدود نہیں ہیں، بلکہ یہ خوشحالی، فراخی، خوشی اور مسرت کو بھی شامل کرتےہیں۔ رمضان میں برکت کی عملی مثالیں ہمیں کئی جگہ دیکھنے کوملتی ہیں۔ جیسے، نبی کریم ﷺ نے سحری کے کھانے کو برکت والا عمل قرار دیا۔
’’سحری کیا کرو، کیونکہ سحری میں برکت ہے۔‘‘ (بخاری)
 رمضان کی برکت کو محسوس کرنے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہےکہ یہ صرف کھانے پینے یا مال و دولت میں اضافے کا نام نہیں، بلکہ یہ وہ روحانی نعمت ہے جو انسان کی زندگی کو بہتر بناتی ہے۔ یہ نعمت خوشحالی، دلی سکون اور اللہ کی قربت کی شکل میں ظاہرہوتی ہے۔ رمضان کا ہر پہلو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ یہ مہینہ ہماری زندگی میں نہ صرف برکت اور رحمت لاتا ہے بلکہ ہماری ایمانی کیفیت کو بلند کرنے کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔
رمضان المبارک کا مہینہ برکتوں سے بھرپور ہے۔ یہ ہماری زندگی میں روحانی، جسمانی اور نفسیاتی تبدیلیاں لانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ رمضان کی برکت کا دائرہ زندگی کے ہر پہلو کو محیط ہے، جو ہماری عبادات، اعمال، رزق اور تعلقات کو بہتر بناتا ہے۔
رمضان کی برکت کو مختلف زاویوں سے سمجھا جا سکتا ہے:
-1 غذا میں برکت:
عام دنوں میں ہم کھانے کے بغیر چند گھنٹوں میں بے صبر ہو جاتےہیں، لیکن رمضان کی سحری اور افطاری کی برکت یہ ہے کہ وہ ہمیں دن بھر کی توانائی فراہم کرتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’سحری کیا کرو، کیونکہ سحری میں برکت ہے۔‘‘ (بخاری)
یہ ایسی برکت ہے کہ ہر روزے داروں سے محسوس کرتا ہے۔ یہ برکت جسمانی توانائی دیتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون بھی فراہم کرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم پورے دن کی عبادات اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے قوت پاتے ہیں۔
-2رزق میں برکت:
رمضان میں اللہ تعالیٰ مومن کے رزق میں اضافہ کر دیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
رمضان میں ہر گھر میں دسترخوان وسیع ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ غریبوں کے لیے بھی رزق کا انتظام فرماتا ہے۔
-3قرآن کی برکت:
اس مہینے کے عظیم ترین برکت تو نزول قران کی ہے۔ اللہ تعالی کافرمان ہے کہ قران خود برکت والی کتاب ہے
وَهَٰذَا كِتَٰبٌ أَنزَلۡنَٰهُ مُبَارَك فَٱتَّبِعُوهُ وَٱتَّقُواْ لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُونَ (سورۃ الانعام: 155)
ترجمہ: اور یہ (قرآن) لہٰذا اس کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم پر رحم کیاجائے۔
قرآن مجید ایک بابرکت کتاب ہے جو انسان کی زندگی کے ہر پہلو کوبرکتوں سے ہم کنار کرتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف دلوں کے سکون کاذریعہ ہے بلکہ برکت اور ہدایت کا ذریعہ بھی ہے۔ قرآن کا مطالعہ، اس پر غور و فکر اور اس کی تعلیمات پر عمل انسان کی ذاتی اورسماجی زندگی کو  روحانی، اخلاقی، اور مادی برکتوں سے مالا مال کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو ’’مبارک‘‘ قرار دیا ہے، کیونکہ اسکے ذریعے انسان کو صراطِ مستقیم کی رہنمائی ملتی ہے۔برکت کےمفہوم میں یہ سب باتیں شامل ہیں۔  قرآن کی برکت یہ بھی ہے کہ یہ دنیاوی اور اخروی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ اس کی پیروی کرنے والےتقویٰ کے راستے پر گامزن ہو کر اللہ کی رحمت کے مستحق بن جاتےہیں۔ یہ کتاب ہمیں سکھاتی ہے کہ زندگی کو کس طرح بہتر اوربامقصد بنایا جائے۔
4. رمضان اور شب قدر کی برکت
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نےفرمایا:
حٰمٓۚ وَٱلۡكِتَـٰبِ ٱلۡمُبِينِ إِنَّآ أَنزَلۡنَـٰهُ فِی لَیۡلَةࣲ مُّبَـٰرَكَةٍ إِنَّا كُنَّامُنذِرِینَ
(سورۃ الدخان: 1-3)
ترجمہ: حٰم، قسم ہے اس روشن کتاب کی، یقیناً ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں نازل کیا، کیونکہ ہم (لوگوں کو) خبردار کرنے والےتھے۔
نہ صرف قرآن اور شب قدر دونوں کو برکت والی قرار دیا گیا ہے، بلکہ وہ مہینہ بھی بابرکت قرار پایا جس میں قران نازل ہوا۔  قرآن سےتعلق انسان کی زندگی کو خوشحالی اور سکون سے بھر دیتا ہے اورزندگی میں یہ برکت تمام مادی برکتوں سے بلند تر ہے۔
5. اعمال میں برکت:
رمضان میں عبادات کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’جو رمضان میں ایک نفل عبادت کرے، اسے فرض کا ثواب ملتا ہے، اور جو فرض عبادت کرے، اسے ستر گنا اجر ملتا ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مہینے کی عبادتوں میں بھی برکت رکھی گئی ہے۔ عام دنوں میں جو نفل عبادت کی جاتی ہے، رمضان میں وہ فرض کے برابر ہو جاتی ہے، اور فرض کا اجر کئی گنابڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ مومن کو زیادہ سے زیادہ اعمال صالحہ کی ترغیب دیتا ہے اور اعمال میں اخلاص پیدا کرتا ہے۔
ذہن کی پروگرامنگ
 اوپر کی گفتگو میں ایک نفسیاتی پہلو کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔  وہ یہ کہ رمضان شب قدر قران روزہ اور اس کے اجر سے متعلق جواحادیث آئی ہیں وہ ہمارے ذہن کی پروگرامنگ کرتی ہیں کہ کس طرح ہم  اپنے ذہن کو مثبت پیغامات دے کر اپنی زندگی کو منظم کر سکتےہیں اور ایک مثبت شخصیت کی تعمیر کی جانب پیش قدمی کر سکتےہیں۔  سحری اور افطاری کے مقررہ اوقات کے ذریعے ہم اپنے ذہن کوایک ایک میسج بھیجتے ہیں اور ہم اپنے اپ کو ایک نظام کا عادی بناتے ہیں۔ یہ پروگرامنگ ہمیں بے صبری اور اضطراب سے بچاتی ہے۔ روزے کے دوران جسمانی کمزوری کے باوجود ذہن کو یقین دلایا جاتاہے کہ افطار کے وقت قوت بحال ہو جائے گی، اور یہی یقین ہمیں دنبھر توانائی فراہم کرتا ہے۔
اعمال کا بڑھا ہوا اجر مومن کو اپنے اعمال میں زیادہ اخلاص اورمحنت پر آمادہ کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ رمضان المبارک میں عبادات کے لیے کمر کس لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان میں عام مومن بھی عبادات کے لیے جوش و خروش دکھاتا ہے، خدا کی طرف زیادہ رجوع کرتا ہے، قرآن سے رہنمائی حاصل کرتا ہے اور اپنی زندگی کوایسے بناتا ہے جس میں سکون اور وقار کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ یہ درحقیقت ذہنی سکون اور روحانی تقویت کا مظہر بھی ہے۔
رمضان سے شخصیت سازی کے چار پہلو
دنیا میں انسانوں کی ایک قسم وہ ہے جن کی شخصیت کھوکھلی ہوتی ہے۔ ان کی ذات میں گہرائی کا فقدان ہوتا ہے۔ وہ صبح شام ایک روٹین کی زندگی گزارتے ہیں، جہاں پیٹ اور خاندان ان کی زندگی کامحور ہوتے ہیں۔ خالی اوقات کو وہ گپ شپ یا عادتوں کی لت کےذریعے گزار دیتے ہیں۔ دوسری قسم کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی تکمیل ذات پر محنت کرتے ہیں۔
انسانی ذات کی تکمیل کے لیے کچھ چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگر یہ ضروریات پوری نہ ہوں تو انسان خود کو خالی اور نامکمل محسوس کرتا ہے، اور ذات کے اندر ایک خلا باقی رہ جاتا ہے۔ پہلی قسم کے لوگ اس خلا کو محسوس بھی نہیں کرتے، جب کہ دوسریقسم کے لوگ اس خلا کو شدت سے محسوس کرتے ہیں اور اسےبھرنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔ پہلی قسم کے لوگ اپنی محدودشخصیت سے مطمئن رہتے ہیں اور عارضی طور پر جزوی تکمیل سےخوش بھی ہو جاتے ہیں۔
لیکن چاہے ہم ان ضروریات کو شعوری سطح پر تسلیم کریں یا نہکریں، ہماری گہرائی میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ موجود ہیں اورانتہائی اہم ہیں۔ ہم انہیں اپنے ذاتی تجربات، دوسروں کے تجربات، اوردنیا بھر کے اجتماعی تجربات سے تسلیم کر سکتے ہیں، جو زمانے کیتاریخ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان ضروریات کو ہمیشہ سے حکمت کی تحریروں میں انسانی تکمیل کے لیے ضروری عناصر کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
تکمیل ذات کی یہ وہی بنیادی ضروریات ہیں جنہیں ذیل میں درج کیاجا رہا ہے:
1. روحانی ارتقا 2. علمی ارتقا 3. سماجی ارتقا
4. جذباتی توازن
 رمضان کے ذریعے اپنی شخصیت کو بہتر بنانے کے لیے اور تکمیل ذات کی ان بنیادی ضروریات پر توجہ دینے کے سلسلے میں ذیل میں کچھ نکات پیش کیے جا رہے ہیں۔
رمضان: روحانی ارتقا کا موسم
روحانی ترقی اور روحانیت کے نام پر اس وقت دنیا جو آئیڈیا bestselling ہے اس کا مرکز محور انسان خود ہے۔ ہم اس کی چمک دمک سے دھوکا کھا جاتے ہیں اور ہم اس دھوکے کو قبول کر لیتےہیں جو معاشرہ ہمیں بیچتا ہے۔ اسے ہم سیکولر روحانیت کہتے ہیں جس کی تمام تر تعلیم خود پر مرکوز ہونے میں ہے—خود اعتمادی، خود ترقی، خود بہتری—یہ "میں کیا چاہتا ہوں”، "مجھے اپنا کام کرنےدو”، "میں نے یہ اپنے طریقے سے کیا” جیسی باتوں میں ہے۔ لیکن نہ صرف اسلام بلکہ ہزاروں سالوں کی تاریخ کی حکمت پر مبنی تحریریں بار بار اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہیں کہ اپنی ذات کو بہتربنانے میں سب سے بڑی تکمیل اس وقت حاصل ہوتی ہے جب ہم اپنےپیدا کرنے والے کو پہچانیں، اس سے رہنمائی طلب کریں، سارےانسانوں کو خدا کا کنبہ سمجھیں،  دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ پروان چڑھائیں ۔ روحانیت کے معنی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم دوسروں کے لیے کردار ادا کریں اور خود سے بلند کسی مقصد کےلیے جیئیں۔ جدید دنیا نے روحانیت پیدا کرنے کے بہت سے طریقےایجاد کے لیے ہیں۔ ان میں فوری اور عارضی تسکین تو ملتی ہے لیکن وہ ایک ایک فوری دھوکہ ہے۔ وہاں بنیادی اور دیرپا ضروریات پر توجہ نہیں دی جاتی۔ مگر دنیا کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو وقتی تسکین اور سطحی خوشی کے پیچھے بھاگتے ہے۔
تو پھر ہم زندگی کے ان حقیقی اصولوں کو کیسے دریافت کریں جوہمیں سچی روحانیت سے متعارف کرائے؟  اور ہم  اپنی زندگی کو ان کے مطابق کیسے ہم آہنگ کریں جو زندگی کے اعلی معیار کو قائم کرنے میں مدد دیتے ہوں ؟ ہمارے نزدیک قران ہی وہ واحد اور مستندذریعہ ہے جس سے ہم حقیقی روحانیت کو پا سکتے ہیں۔ اور رمضاناس کے لیے ایک سازگار موسم اور ماحول فراہم کرتا ہے۔
روحانی ترقی کے لیے رمضان المبارک جیسا کوئی مناسب مہینہ نہیں۔ رمضان قران اور روحانیت کے سلسلے میں  مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے کھا ہے
"گویا اس حکمت قرآنی کی ترتیب یوں ہوئی کہ قرآن حکیم کا حقیقی فیض صرف ان لوگوں کے لیے خاص ہے جن کے اندر تقوی کی روح ہواور اس تقویٰ کی تربیت کا خاص ذریعہ روزے کی عبادت ہے اس وجہ سے رب کریم و حکیم نے اس مہینے کو روزوں کے لیے خاص فرما دیاجس میں قرآن کا نزول ہوا۔ دوسرے لفظوں میں اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن اس دنیا کے لیے بہار ہے اور رمضان کا مہینہ موسم بہار اور یہ موسم بہار جس فصل کو نشوونما بخشتا ہے وہ تقوی کی فصل ہے…..” (تدبر قرآن)
اس سے معلوم ہوا کہ ہر چیز کے لیے ایک مخصوص موسم ہوتا ہے۔ جیسے فصل بونے اور کاٹنے کا ایک وقت مقرر ہے، اسی طرح رمضان مومن کے لیے روحانی ترقی کا بہترین موسم ہے۔ اگر کوئی کاشتکارفصل بونے کے موسم کو نظر انداز کر دے تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا، اسی طرح رمضان کو نظر انداز کرنے والا اپنی روحانی زندگی میں ترقی نہیں کر سکتا۔
رمضان المبارک کا مہینہ مومن کے لیے روحانی ترقی اور گناہوں کی معافی کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ مہینہ نہ صرف گناہوں کودھونے کا ذریعہ ہے بلکہ اللہ کے قربت کے راستے بھی کھولتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کو نیکیوں کے موسم کے طور پر عطا کیا ہے، جہاں نفل عبادات کا اجر فرض کے برابر اور فرض کا اجر کئی گنازیادہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو لوگ رمضان کو ایک عام مہینے کی طرح گزار دیتے ہیں اور اس کے بعد بھی اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لاتے، وہ اس موسم کی برکتوں سے محروم رہتے ہیں۔
(جاری)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 فروری تا 22 فروری 2025