پہلی قسط:بھارت میں مساجد اور مسلم شناخت : مذہبی، سماجی اور تاریخی تناظر میں

عبادت و روحانی سکون کے ساتھ ساتھ سماجی ہم آہنگی اور خدمت خلق کے مراکز

0

(دعوت دلی بیورو):

منافرت اور منفی پروپگنڈے سے نمٹنے کے لیے مساجد کے متنوع تاریخی کردار کو اجاگر کرنے کی ضرورت
بابری مسجد کا مسئلہ دہائیوں تک سپریم کورٹ میں زیر سماعت رہا۔ طویل انتظار کے بعد بالآخر 2019 میں اس کا فیصلہ آیا۔ یہ فیصلہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے دعوے اور عام مسلمانوں کی توقعات کے بالکل برعکس تھا۔ اس فیصلے نے مسلمانوں میں بے چینی پیدا کردی اور انہیں مایوسیوں کا شکار بنا دیا۔ چونکہ فیصلہ سپریم کورٹ کا تھا اور مسلمان ہمیشہ سے عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے رہے ہیں لہٰذا بادل نخواستہ اس فیصلے کو قبول کرلیا۔ البتہ اس فیصلے کے بعد ملک بھر میں ایک نئے رجحان نے جنم لیا۔ ٹویٹر پر خوبصورت مساجد کی تصویریں دکھائی جانے لگیں۔ لوگ مساجد کے حسین مناظر کو، خاص طور پر وہ مساجد جو مسلم ثقافتی وراثت اور عظمت رفتہ کی نمائندگی کرتی ہیں، بڑے ذوق و شوق سے دکھانے لگے۔
جب تک بابری مسجد کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت تھا ، ہندوتوا حامیوں کی جانب سے ملک کی چند دیگر مساجد پر دبی زبان میں ملکیت کا دعویٰ کیا جاتا تھا مگر فیصلہ آجانے کے بعد (جس میں بابری مسجد کو دوسری جگہ منتقل کرکے مسجد کی جگہ پر مندر کی تعمیر کی اجازت دی گئی ) مندر کا ’ پران پرتھیستھا‘ کیا گیا۔ اس کے بعد جو دعوے دبی زبان میں کیے جا رہے تھے وہ کھلے عام ہونے لگے ۔ انہی دعوؤں کی ایک کڑی ہے ’ گیان واپی مسجد‘، جس پر مندر ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ عدالت نے بھی اس (مسجد گیان واپی) کے تہہ خانے میں پوجا کرنے کی اجازت دے دی۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد تو ہندوتوا حامیوں کے حوصلے مزید بلند ہوگئے ۔ انہوں نے پورے ملک میں تقریبا 40 ہزار مساجد کواپنے نشانے پر لے لیا اور ان پر مندر ہونے اور اپنی ملکیت میں لینے کے لیے آواز بلند کرنے لگے۔ اپنے اس دعوے کو مضبوط کرنے اور عوامی رائے اپنے حق میں کرنے کے لیے مضامین اور نئی نئی کتابیں لکھی جانے لگیں۔ ابھی حال ہی میں وکرم سمپت کی ’’ ویٹنگ فار شیوا: کاشی کے گیان واپی کی سچائی کا پتہ لگانا ‘‘ نامی ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے۔ اس میں مسلم سلاطین کے دور حکومت میں مندروں کی تباہی کی داستان کو نئی سمت دے کر لکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف نے تاریخ بیانی میں کویندر اڈ ایلسٹ اور سیتا رام گوئل (Koenrad Elst and Sita Ram Goel) جیسے ماہرین تعلیم کا طرز تحریر اختیار کیا ہے جنہوں نے اپنے مباحث ( polemics ) میں انتہائی مبالغہ آرائی کے ساتھ ہندوتوا فکر کی نمائندگی کی ہے۔
ہندوتوا ذہنیت کے حاملین نے غیر مسلموں کے ذہن میں مسجد و مدرسہ کے تئیں منفی رائے عامہ ہموار کرنے کے عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مساجد و مدارس کے حوالے سے خوب پروپیگنڈہ کیا اوران کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے تشہیری مہم چلائی، مختلف ذرائع کا استعمال کرکے ذہن سازی کی گئی کہ یہ مدارس دہشت گردی کی افزائش کا مرکز ہیں، یہاں نفرت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ مساجد و مدارس کی راہ میں نت نئے طریقوں سے رخنے ڈالے گئے۔ کبھی کورونا وبا کے پھیلاؤ کا سبب بتا کر تو کبھی لاؤڈ اسپیکر پر اذان کو موضوع بحث بنا کر، کبھی مسجد سے باہر خالی جگہوں پر نماز پڑھنے کو لے کر بالخصوص نماز جمعہ کے موقع پر جب نمازیوں کی تعداد مسجد کی گنجائش سے زیادہ ہوجاتی ہے تو سڑکوں پر نمازکی ادائیگی کو تو کبھی غیر قانونی تعمیرات کے نام پر۔ ان کی نفرت کی انتہا یہیں پر نہیں رکی، بلکہ کئی مساجد کے خلاف غیر قانونی ہونے کی جھوٹی افواہیں پھیلائی گئیں ۔ ان افواہوں کو بنیاد بنا کر حکام نےتجاوزرات کے نام پر کئی مسجدیں منہدم کردیں۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ دہلی میں عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انتظامیہ نے صدیوں پرانی ایک مسجد کو مسمار کردیا ۔
مسلم معاشرے میں مساجد کا کردار بہت اہم ہے۔ یہاں صرف عبادتیں ہی نہیں ہوتی ہیں بلکہ یہ مختلف طبقات کے درمیاں سماجی ہم آہنگی پیدا کرنے کا مرکز بھی ہوتی ہیں ۔ مساجد اپنا یہ کردار صدیوں سے ادا کرتی چلی آرہی ہیں۔ یہی وہ پہلو ہے جو اسلاموفوبیا کا پروپیگنڈہ کرنے والی مشینری پر شاق گزرتا ہے اور وہ اسے بدنام کرنے کی نت نئی راہیں تلاش کرتی رہتی ہیں۔ وہ نہ صرف غیر مسلموں میں مساجد
کے تئیں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں بلکہ مسلمانوں کو بھی مساجد سے دور رکھنے کی سازشیں رچتے ہیں۔ امت مسلمہ مساجد کی مذہبی اہمیت اور معاشرے میں ان کے کردار کی افادیت کو جانتی اور سمجھتی ہے۔ وہ ان عبادت گاہوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز اور ان کے تحفظ کو تمام مال و متاع پر مقدم رکھتی ہے۔ ہاں کچھ ایسے مسلمان بھی ہیں جو عوامی زندگی میں مساجد کی اہمیت کے بارے میں کم سمجھ رکھتے ہیں مگر اجمالی طور پر وہ بھی مساجد کی حرمت و تقدس کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔
مساجد اور ان کا متنوع کردار
مسجد صرف ایک عبادت گاہ ہی نہیں بلکہ مسلم معاشرے کی ایک اہم ضرورت بھی ہے۔ یہ اسلامی شناخت کو اجاگر کرنے اور دینی ثقافت کو ظاہر کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ یہاں سماجی اصلاح، معاشرتی تربیت، تعلیم و تعلم ، درس و تدریس اور بے سہاروں کو سہارا دینے کا عمل بھی انجام دیا جاتا ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں تعمیر ہونے والی مسجد نبوی میں عبادت و ریاضت کے علاوہ یہ تمام امور انجام پاتے تھے۔ مساجد کو اجتماعی مراکز بنانے کا تصور، اسلامی فلسفہ اور دینیات کا ایک جزو ہے جسے کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دین اسلام میں اس کی حیثیت ایک ایسے ادارے کی ہے جہاں معاشرے کی اصلاح و ترقی، تعلیم و تدریس، علم و حکمت کی آبیاری سمیت ایک رب کی عبادت کی جاتی ہے۔
مساجد کے یہ اہداف کسی مخصوص نسل یا علاقے کے ساتھ مختص نہیں ہیں۔ دنیا کے جس گوشے میں بھی مسجد کا وجود ہے، اس کی غرض وغایت وہی ہے جو مسجد نبوی کی تعمیر کی تھی۔ جب ہندوستان میں مسلمان آئے تو یہاں بھی انہی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی تعمیر کی گئی۔ آج ملک میں لگ بھگ تین لاکھ سے زیادہ مسجدیں ہیں جہاں سے ان عظیم مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے دعوت و تبلیغ کا کام کیا جاتا ہے ۔ اہل اسلام اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تمام بنی نوع انسان بنیادی طور پر ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں ، لہٰذا تمام انسانوں کے ساتھ برادرانہ تعلق اور باہمی ہمدری اجتماعی زندگی کا فطری تقاضا ہے ۔ ان مساجد نے ہندوستانی ثقافتوں اور قومی روایات کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ برتنے کی اعلیٰ مثالیں پیش کی ہیں۔
مسجد، صرف اینٹوں اور پتھروں سے بنی ہوئی کسی عمارت کا نام نہیں ہے، نہ ہی یہ عمارت تاریخ بیانی یا قصہ گوئی کے لیے تعمیر کی جاتی ہے۔ شرعی نقطہ نظر سے دنیا بھر میں جہاں بھی مسجد بنائی جاتی ہے، اس کا استعمال عبادتوں اور لوگوں کی بھلائی کے لیےہوتا ہے جس میں ثقافتوں کا تنوع جھلکتا ہے۔ یہاں روحانیت سے لے کر سماجی آہنگی اور معاشرتی مسائل سے لے سیاسی حالات تک کے گوناں گوں معاملات کو زیر بحث لایا جاتا ہے تاکہ انسانی سماج میں بھلائیاں پروان چڑھیں اور برائیوں کا خاتمہ ہو۔چونکہ مساجد قوم و معاشرے کی ثقافتی نمائندگی کا بھی ذریعہ ہیں، اس لیے جنوبی ہندوستان سے شمالی و مغربی ہندوستان تک کا ثقافتی تنوع، ان مذہبی عمارتوں کو انفرادیت، خصوصیت اور تاریخی امتیاز و تنوع عطا کرتا ہے۔ اس مقدس و پاکیزہ گھر کی رعنائیاں شاعروں، فنکاروں ، سیاسی رہنماؤں اور عام لوگوں کے تخیلات میں خوب نظر آتی ہیں ۔ ان فن پاروں کو کچھ لوگوں نے اپنے اسکیچ پیڈز، اشعار، سفر ناموں، خطوط اور پوسٹ کارڈوں میں بڑی اہمیت کے ساتھ محفوظ کیا ہے۔ ان ریکارڈوں سے پتہ چلتا ہے کہ مساجد تنوع کی بہترین مثال ہیں۔مختلف فکرو نظر کے لوگ ان کی زیارتیں کرتے ہیں اور اپنے اپنے تاثرات کا اظہار اپنے شعور کے مطابق کرتے ہیں۔ اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ مساجد مقامی طور طریقوں اور روحانیت کے بارے میں بصیرت آمیز نقطہ نظر پیش کرتی ہیں ۔
گزشتہ 1400 برسوں میں مساجد کی عمارتوں اور ان کے طرز تعمیر نے بڑی ترقی کی ہے جس سے مساجد کی تعمیری شکلوں اور اس کے احاطوں کے طرز و اسلوب کے تئیں مسلمانوں کے نظریے میں بدلاؤ آیا اور اس کے ڈھانچے میں جدت پسندی کی جھلک نظر آنے لگی۔ ماضی میں مساجد کے فن تعمیر میں روحانی ابعاد (spiritual dimension) کی کارفرمائی نظر آتی تھی۔ اس کے احاطے میں باغوں اور فواروں کا وجود، جنت کے باغات اور جنتی نہروں کا احساس دلاتا تھا۔ آج سب کچھ بدل چکا ہے۔ یقیناٌ ایک مسلمان مسجد میں داخل ہوتا ہے تو اس کا دل ایمانی احساس سے سرشار ہوتا ہے مگر مساجد کے درو دیوار میں اس احساس کو تازہ کرنے کا پہلو دب سا گیا ہے جو ماضی کی تعمیرات میں نمایاں ہوتا تھا۔ اب ان کے در و دیوار پر نقش فن کاری کا رد عمل بالکل مختلف ہوچکا ہے۔
دور حاضر میں بہت سے مسلم اسکالرز، انفرادی و اجتماعی زندگی میں مساجد کے متنوع کردار کے بارے میں خوب لکھ رہے ہیں۔ یقیناً مساجد ہمارے لیےہمیشہ سے ایک سائبان کی طرح رہی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گی۔ ہم جب مسجد کے احاطے میں بیٹھ کر کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو فیصلہ کرنے کا یہ ایک ایسا طریقہ ہوتا ہے جسے برسوں پہلے سے اپنایا جاتا رہا ہے۔
مسجد امن و سلامتی کی جگہ
تقسیم کے بعد کے فسادات:
ہندوستان کی تقسیم ہندوستانی تاریخ کا ایک اندوہناک واقعہ ہے۔ اس نے دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کی جانیں لے لیں۔ اس تقسیم کا اثر یوں تو پورے ملک پر پڑا مگر اس کے گہرے اثرات دہلی اور اطراف میں زیادہ پڑے کیوں کہ یہ خطہ تقسیم کا محور و مرکز تھا۔ نقل مکانی کرکے آنے والوں کا یہاں کی معاشرتی زندگی و تجارتی سرگرمیوں پر گہرا اثر پڑا۔ اس کی وجہ سے شہر کے حدود میں تیزرفتار وسعت آئی۔ جغرافیائی پھیلاؤ نے شہر کا نقشہ ہی بدل دیا۔ نقل مکانی کرکے آنے والوں نے زیادہ تر اسلامی ثقافتوں کی علامت مساجد و مزارات اور مسلم محلوں میں بود و باش اختیار کی۔
گجرات فسادات:
اے ایس آئی واگھیلا، ان پولیس اہلکاروں میں شامل ہیں جنہوں نے 2002 کے گجرات فسادات کے متاثرین کو بچایا۔ انہوں نے مسجد میں نماز بھی پڑھی۔واگھیلا نے 18 سال کی عمر میں گجرات پولیس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ وہ اپنے خاندان میں دوسری نسل کے پولیس آفیسر ہیں۔ ان کے والد آر کے واگھیلا احمد آباد میں پولیس سب انسپکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
اے ایس آئی واگھیلا، ان پولیس اہلکاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے 2002 کے گجرات فسادات کے دوران متاثرین کو بچانے میں قابل قدر کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے احمد آباد کے نروڈاپاٹیا میں نورانی مسجد کا دورہ بھی کیا اور وہاں نماز ادا کی۔ یہ مسجد اسی علاقے میں واقع ہے جہاں فسادات کے دوران سب سے زیادہ قتل عام ہوا تھا۔ واگھیلا ایک ہندو ہیں مگردوسرے مذاہب کا بھی احترام کرتے ہیں۔ انہیں اسلامی تعلیمات کو جاننے اور سمجھنے میں بڑی دلچسپی ہے۔ انہی دلچسپیوں کی وجہ سے وہ اپنے مسلم دوستوں سے جانکاری لیتے رہتے ہیں ۔ ان سے ہی نماز پڑھنے کا طریقہ سیکھا، پھر نورانی مسجد میں آ کر نماز ادا کی۔ حالانکہ نماز ان کے عقیدے اور مذہب کا حصہ نہیں ہے مگر فسادات کے دوران وہ ڈیوٹی پر مامور آفیسر تھے، اس لیے انہوں نے نماز ادا کرکے اپنے طور پر فسادات کے دوران مارے گئے مسلمانوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ مسٹر واگھیلا نے اپنےتاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس اندوہناک واقعہ کو 20 برس گزر چکے ہیں، ان بیتے ہوئے برسوں نے میرے اندر بڑی تبدیلیاں پیدا کردی ہیں۔ میں نماز ادا کرکے اپنی زندگی کو ایک نئی سمت اور نئے انداز سے شروع کرنا چاہتا ہوں۔ اس طرح کے واقعات، فرقہ وارانہ فسادات اور تنازعات کے دوران اور بعد میں بھی مساجد کے مثبت اور امن و آشتی پر مبنی کردار کو اجاگر کرتے ہیں۔ جب بھی کہیں کوئی فرقہ وارانہ فساد یا ذات برادری کے نام پرنفرت کا ماحول پیدا کیا گیا تو یہ مساجد انسانوں کے لیے بہترین پناہ گاہ ثابت ہوئیں۔ جب حالات پُرسکون ہوجاتے ہیں اور سب کچھ نارمل ہوجاتا ہے تو اس وقت یہی مساجد ایسی روحانی جگہ بن جاتی ہیں جہاں بیٹھ کر انسان انتہائی یکسوئی کے ساتھ اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور سماجی امور پر غورو خوض بھی کرتا ہے۔
(جاری)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 فروری تا 01 مارچ 2025