اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
بھارت کے مسلمانوں کی تاریخ میں وانم باڑی کا نام اس اعتبار سے غیر معمولی ہے کہ آزادی سے پہلے مسلمانانِ ہند کے درمیان اٹھنے والی سب سے بڑی تحریک ”تحریکِ خلافت” کی ابتداء یہیں سے ہوئی تھی اور اس تحریک کو یہ نام بھی یہیں کے دور اندیش، ملت کا درد رکھنے والے مجاہدین آزادی نے دیا تھا۔ ریاستِ تمل ناڈو کے اس شہر وانم باڑی سے کئی نابغہ روزگار شخصیتیں پیدا ہوکر ملک و ملت کے افق پر مثل شمس و قمر چمکیں اور اپنی تابناکیوں سے چار دانگ عالم میں اس کا نام روشن کیا۔
موجودہ دور میں جن شخصیات کی وجہ سے شہر کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوا ان میں سے ایک نام جناب پٹیل محمد یوسف صاحب کا بھی آتا ہے۔ پٹیل محمد یوسف صاحب کا شمار شہرِ وانم باڑی کے ایسے دور اندیش دانشوروں اور تعلیم یافتہ لوگوں میں ہوتا ہے جن کی چھاپ یہاں زندگی کے ہر شعبے میں دیکھی جا سکتی ہے، اس کے علاوہ وہ بحیثیت ایک سماجی مصلح ریاست بھر میں اور جماعت اسلامی سے وابستگی کی وجہ سے ملک بھر میں قابلِ قدر پہچان رکھتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے ساتھ آپ کی رفاقت پینتیس سال پرانی ہے۔طالبِ علمی کے زمانے میں اسٹوڈنٹس اسلامک سرکل سے وابستہ رہے، ایس آئی او بننے کے بعد اس میں شمولیت اختیار کی۔ پھر اس کے مقامی صدر، علاقائی ذمہ دار اور پھر ریاستی صدر کا عہدہ بھی سنبھالا۔ تین میقات جماعت اسلامی کے امیرِ مقامی رہے، ایک میقات میں مرکزی مجلس نمائندگان کے رکن رہے، گزشتہ کئی میقاتوں سے ریاستی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی سے منسلک ادارے اسلامک سنٹر ویلور، اسلامک فاونڈیشن چنئی، کریٹیو کمیو نکیشن چنئی، اسلامی بیت المال وانم باڑی، میں ٹرسٹی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
شہر کے اور ریاست کے اکثر ملی تعلیمی اداروں سے بھی کسی نہ کسی حیثیت سے وابستہ ہیں جن میں بطور نائب صدر، وانم باڑی مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی، بحیثیت جنرل سکریٹری، الھدیٰ میٹریکولیشن اسکول، قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ انجمن خدام الاسلام اور گریجویٹس گلڈ وانم باڑی کے بھی نائب صدر ہیں، یہ ادارے شہر میں عصری تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔
پٹیل محمد یوسف صاحب تجارت میں بیالیس سالوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ آج ان کا شمار ریاستِ تمل ناڈو کے گنے چنے چمڑے کی مصنوعات تیار کرنے والے ایکسپورٹرس میں ہوتا ہے۔ تجارت کی خاطر دنیا کے کئی ممالک کا سفر کر چکے ہیں اور خاص کر مغرب اور اس کی تہذیب کو قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کے انہیں بہت مواقع ملے ہیں جس کی وجہ سے ان کی فکر و نظر میں بڑی گہرائی اور گیرائی در آئی ہے، جس کا اندازہ ان سے گفتگو کرتے ہوئے ہرجہاں دیدہ شخص بآسانی لگا سکتا ہے۔ تجارت سے جڑے شہر اور ریاست کے کئی تنظیموں کے اعلیٰ عہدوں میں موصوف کی موجودگی اس میدان میں ان کی ذہانت کی دلیل ہے۔
پٹیل محمد یوسف صاحب بیک وقت کامیاب تاجر، ماہر تعلیم، سماجی مصلح، کثیر المطالعہ دور اندیش ملی رہنما اور مبلغ کی حیثیت سے قابلِ قدر پہچان رکھتے ہیں۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے قارئین ہفت روزہ دعوت کے لیے ہم نے ان سے ان کے تجربات کی روشنی میں کئی زاویوں سے مفصل گفتگو کی جو یہاں آپ کے ملاحظہ کے لیے پیش ہے۔
سوال: ملک کے موجودہ سیاسی حالات مسلمانوں کے لیے مشکل ترین ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک طرف کچھ نام نہاد سماجی تنظیموں کی وجہ سے عوام میں مسلمانوں کے تئیں تیزی سے نفرت میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف مرکزی اور ریاستی حکومتیں روز نئے نئے قوانین بنا کر کبھی ان کے تشخص کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو کبھی ان کے وجود پر ہی زمین تنگ کر دی جاتی ہے، مثلاٌ نئی ایجوکیشن پالیسی اور حالیہ وقف ترمیمی بل جو اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، ان کے تعلق سے آپ کیا سوچتے ہیں؟
جواب: سب سے پہلے میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے وقت لیا اور یہاں آکر مجھ سے کچھ باتیں سننے کی زحمت گوارا کی۔ آج کے حالات تو سب کے سامنے ہیں، خاص کر ہندوستان میں فسطائی طاقتوں کی جو سو سالہ کوشش رہی ہے وہ رنگ لا رہی ہے اور یہ لوگ چونکہ مسلمانوں اور اسلام کے تعلق سے ساری معلومات رکھتے ہیں اور وہ بھی منفی زاوئے سے، اس کے علاوہ مسلمانوں کی جو کمزوریاں ہیں وہ بھی ان کے سامنے کھل کر آگئی ہیں۔ مسلمانوں میں دو بڑی کمزوریاں اہم ہیں پہلی تعلیم کی کمی دوسری معاشی کمزوری، ان دو کمزوریوں کا یہ لوگ بھر پور استعمال کر رہے ہیں۔ تعلیم کے تعلق سے انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ مسلمانوں کے اندر تعلیم تقسیم ہوچکی ہے، ایک دینی تعلیم،ایک دنیاوی تعلیم۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد مسلمانوں کے اندر ایک قسم کا شعور بیدار ہوا کہ ہم کو تعلیمی طور پر ابھرنا چاہیے اور ہم لوگ بہت دنوں سے خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، یہ بات ان کے ذہنوں میں کھٹک رہی ہے کہ مسلمان کہیں پھر سے جاگ نہ جائیں، اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع جہاں جہاں انہیں حاصل ہیں ان سب کو بند کیا جائے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ ریزرویشن کے سخت ترین مخالف ہیں، صرف مسلمانوں کے ہی نہیں بلکہ دوسرے پچھڑے اور پسماندہ طبقات کے بھی مخالف ہیں۔
ہمارے پاس جو سب سے بڑا سورس آف ایجوکیشن ہے وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے، یہ آج سے نہیں ایک زمانے سے ان کی نظروں میں کھٹک رہی ہے، اس کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی کوشش ہوتی رہتی ہے، مگر ان کے آنے کے بعد اس پر قانونی اور سیاسی طور پر کیا کیا دباؤ ڈال سکتے ہیں، اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں، اس کے بعد لے دے کر ایک جامعہ ملیہ ہمارے پاس ہے، اس میں بھی کسی حد تک یہ ڈالیوشن کر چکے ہیں،اپنے آدمیوں کو اس کے اندر بٹھاتے ہیں، ان کا کہنا کہ یہ سب ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت ہے تو یہ سب کے لیے بنایا گیا ہے، یہ صرف مسلمانوں کے لیے کیسے ہو سکتا ہے، جب کہ بہت سارے ثبوت اس بات کے لیے دیے جاسکتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کے لیے ہی بنایا گیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے دیکھا کہ مختلف جگہوں پر ان کے تعلیمی ادارے بنے ہوئے ہیں تو اب ان اداروں کو ختم کرنا چاہیے۔ اب وہ باقاعدہ اس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ یوپی اور بہار میں تو جنہوں نے تعلیمی ادارے بنائے ان کے اوپر خوامخواہ کے مقدمات قائم کر کے کئی لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے کردیا گیا ہے اور کئی لوگ ہندوستان چھوڑ چکے ہیں۔ کئی یونیورسٹیوں کو انہوں نے لنگڑے لولے بہانوں کے تحت، لینڈ اکیویزیشن کے تحت یا رجسٹریشن میں کوئی کمزوری ہو تو ان چیزوں کو پکڑ کر انہیں بند کیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے جب دیکھا کہ جنوب کے اندر یہ کافی مضبوط ہیں تو یہاں بھی وہ مختلف طریقوں سے اپنے پنجے پھیلا رہے ہیں۔ ان کا یہاں سب سے بڑا حربہ،جو درحقیقت مرکزی حکومت کے ایما پر ہی ریاستی حکومتیں کر رہی ہیں یہ ہے کہ جو ایڈڈ کالجس ہیں، جنہیں حکومت کی طرف سے امداد ملتی ہے جو بہت بڑی مدد ہوتی ہے، اس کے بغیر آج کالج چلانا بہت مشکل ہے، اس کے لیے انہوں نے جو نیو ایجوکیشنل پالیسی لائی ہے اس کے تحت مختلف انداز سے جو سہولتیں دی جارہی تھیں انہیں ختم کررہے ہیں، ایسا عام طور پر سارے پرائیویٹ کالجس میں کیا جارہا ہے مگر زد میں اصل مسلم ادارے ہیں۔اور پھر اس کے اندر بھی تعلیمی نصاب میں بہت ساری تبدیلیاں لائی جارہی ہیں، اس کے اچھے پہلو بھی ہیں، ایسا نہیں کہ سارے کے سارے خراب ہیں مگر جیسا کہ مشہور ہے کہ دودھ کے اندر اگر ذرا سا بھی گند پڑ جائے تو سارا دودھ خراب ہوجاتا ہے تو یہ اسی قسم کے قوانین آرہے ہیں جنہیں ہم آنکھ بند کرکے مان نہیں سکتے۔
اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ وقف کا معاملہ آتا ہے، وقف کے بارے میں، بہار آنے سے پہلے خزاں چلی آئی کا معاملہ پوری طرح صادق آتا ہے، ہندوستان آزاد ہونے کے بعد وقف کی جو جائیدادیں اور املاک تھیں ان سے کوئی فائدہ مسلمانوں کو نہیں پہنچا اور اگر کہیں پہنچا بھی ہے تو بہت ہی کم یا برائے نام، تو اس کو جب قانونی شکل دے کر اس طرح بنایا گیا کہ مسلمانوں کے کچھ کام آئے تو خاص طور پر سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد مسلمانوں کے اندر یہ بھی ایک شعور جاگا کہ ہماری اتنی جائیدادیں پڑی ہیں،ہمیں اس کا بھر پور فائدہ نہیں مل رہا ہے اور اس کا فائدہ حاصل کرنے لیے جب یہ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تو یہ بات ان کی نظروں میں کھٹکنے لگی کہ اگر مسلمان مضبوط ہو کر کام کرنے لگیں گے تو ان کے اندر معاشی بہتری آسکتی ہے، یہی بات اصل میں ان کے ذہنوں میں پوشیدہ ہے یعنی وقف کا سارا معاملہ یہی ہے کہ مسلمانوں کو معاشی طور پر کمزور کیا جائے۔
سوال: کیا اس وقف ترمیمی بل سے مسلمانوں کو راست نقصان پہنچ سکتا ہے؟
جواب: وقف کے جو املاک اور جائیدادیں ہیں وہ وقف بورڈ کے تحت ہیں، یوں وقف کی جائیدادوں کا مالک وقف بورڈ ٹھیرا، اب یہ اس کے اندر بدلاؤ چاہتے ہیں، وقف بورڈ تو برائے نام رہے گا مگر جب تک یہ چاہیں گے، جیسا کہ اس کے اندر سروے کا ایک سسٹم ہوتا ہے جس سے کسی جائیداد کے بارے میں یہ معلوم کرنا کہ وہ وقف کی ہے یا نہیں۔ پہلے یہ ہوا کرتا تھا کہ یہ معاملہ حکومت کے افسروں کے ذریعے طے کیا جاتا تھا چونکہ یہاں ہر طرف رشوت کا دور ہے تو اس کے تدارک کے لیے ایک طریقہ یہ بنایا گیا کہ اس کو وقف بورڈ کے تحت ہی کیا جائے گا اور اس بات کو اس کے سروئیر ہی طے کریں گے تو اس سسٹم کو یہ ختم کر رہے ہیں اور ڈسٹرکٹ کلکٹر کو اس کا ذمہ دار بنا رہے ہیں تو اس کے تحت سروے کیا جائے گا۔ یہاں ہر کوئی اچھی طرح سمجھ سکتا ہے اگر یہ ہوگیا تو کیا کیا ہوسکتا ہے، برائے نام ہی سہی مسلمانوں کاجو قبضہ اس کے اوپر ہے وہ بھی چلا جائے گا۔
دوسرا بڑا خطرہ یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں اس میں غیر مسلم احباب بھی شامل ہوں، ٹرسٹیوں کی حیثیت سے انہیں بھی لایا جائے، یہ ایک بڑی عجیب سی بات ہے، خاص طور پر تمل ناڈو میں اگر دیکھا جائے تو یہاں کی فرقہ پرست طاقتیں گزشتہ تیس چالیس سال سے اس بات کی بھر پور کوشش کر رہی ہیں کہ یہاں کے جتنے بھی منادر ہیں وہ سب حکومت کے تحت ہیں انہیں حکومت سے چھڑایا جائے اور انہیں نجی اداروں کے حوالے کیا جائے، اس مسئلے میں انہوں نے کورٹ میں مقدمات بھی دائر کر رکھے ہیں تو ایک طرف اپنے لیے پرائیویٹ بنانا چاہتے ہیں اور جب مسلمانوں کا معاملہ آتا ہے تو سب حکومت کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔ دراصل یہ نیت کا کھوٹ ہے کہ کسی بھی طرح اس کو ختم کیا جائے، اس کے پیچھے ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ وقف کی جائیدادوں پر زیادہ قبضہ حکومت کا ہی ہے، بڑی بڑی جائیدادیں ان کے پاس ہیں یا کارپوریٹ کمپنیوں کے پاس ہیں۔آج جو حکومت کے پاس ہے اور جو کارپوریٹ کمپنیوں کے پاس ہے انہیں نکال کر جو بچا کچھا ہے اس کا صحیح استعمال کیا جائے تو یہ بھی بہت بڑی بات ہوگی۔
سوال: یوں سمجھیے اگر وقف کا یہ قانون بن گیا، جیسا ان کا معمول رہا ہے کہ وہ کابینہ میں ایسے متنازعہ بل پاس کرالیتے ہیں اور اسے آگے بڑھاتے رہتے ہیں تو ایسے میں اس کے کیااثرات ہم پر مرتب ہوں گے اور ہمیں اس قانون سے بچنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کرنی ہوں گی خاص کر ریاست تمل ناڈو کے تناظر میں؟
جواب: حکومت نے وقف ایکٹ امینڈمنٹ بل جو پیش کیا ہے وہ اگر خدانخواستہ پاس ہوگیا تو اس کی زد میں ساری ریاستیں آئیں گی،تمل ناڈو اسٹیٹ وقف بورڈ بھی اس کے تحت ہی کام کرے گا، وہاں جو ترمیمات ہوں گے وہ انہیں بھی اپنے ہاں پاس کرنے پڑیں گے۔ اس میں ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ لیڈر، لیڈر ہوتا ہے، چاہے کہیں کا بھی ہو، اس کی نظریں ان بڑی بڑی جائیدادوں پر ہوتی ہے، بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان میں فوج اور ریلوے کے بعد سب سی بڑی جائیداد وقف کے پاس ہے حالانکہ یہ بھی ایک مغالطہ ہے، بہر حال اس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ وقف کے پاس اچھی خاصی جائیدادیں ہیں۔اگر مندروں کا معاملہ دیکھا جائے تو اس سے کئی زیادہ ان کے پاس ہیں جس کا ذکر کبھی کسی اخبار میں نہیں آتا اور اسی طرح عیسائیوں کے پاس بھی ہر جگہ بڑی بڑی جائیدادیں ہیں، اس پر نہ کوئی قانون ہے نہ وقف کی طرح کا محکمہ، سب پرائیویٹ ٹرسٹ کے تحت ہیں، خیر سے وہ بھی ایک اقلیت ہیں اور اقلیتوں کے لیے کام کرتے ہیں،جس طرح سے ان کے یہاں کام چلتا ہے اس طرح ہمارے ہاں بھی بنایا جائے تو بہتر ہو گا۔ بہر حال جب دوسری ریاستوں کے سیاستداں اس سے فائدہ اٹھائیں گے تو یہاں تمل ناڈو کے سیاستدان دھلے ہوئے لوگ تو نہیں ہیں، وہ بھی فائدہ اٹھانا چاہیں گے اور مسائل ہرجگہ پیدا ہوں گے۔
اس سے بچاؤ کا طریقہ یہ ہے کہ قانونی طور پر اسے چیلنج کریں اور یہ کام ہمارے مختلف ادارے کر رہے ہیں، دوسری بات جو ہمیں کرنی ہے وہ یہ ہے کہ سنجیدگی سے بیٹھ کر اس کے جو مثبت نکات ہیں مثلاً وقف بورڈ میں آج جس طرح کا کرپشن ہو رہا ہے اس کی اصلاح کے لیے جو منصوبے ہیں، اس کا استقبال کرنا چاہیے۔ باقی چیزیں جیسے ہماری ملکیت پر حملہ ہوتا ہے تو اس کا سختی سے دفاع کیا جانا چاہیے۔ لیڈر چاہے وہ کتنا ہی فسطائی ذہنیت رکھتا ہو اس کے پاس پہنچ کر اسے یہ باتیں بتائی جائیں کہ یہ مسئلہ بات چیت سے یا قانون سے ہی حل ہوسکتا ہے زور زبردستی سے نہیں۔
ایک اور بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ وقف کو جو نقصان پہنچا ہے وہ غیروں سے زیادہ اپنوں سے پہنچا ہے، ہم میں سے جسے وقف بورڈ کا ممبر بنایا جاتا ہے وہ خود بھی اسے بیچ کھا لیتا ہے۔ آج عدالتوں میں ایسے معاملات کے کئی کیسسز پڑے ہوئے ہیں اور انہیں جواز اسی سے مل رہا ہے۔ پہلے ہمارے لوگوں کی اصلاح ہونی چاہیے کہ جو مال اللہ کے نام پر وقف کیا گیا ہے اس کے ایک پیسہ کا بھی ذاتی استعمال حرام ہے یہ شعور ہمارے لوگوں میں بیدار کیا جانا چاہیے۔
سوال: اگر یہ قانون لاگو ہوجاتا ہے تو ابھی تک جو وقف جائیدادیں ہیں وہ اس کے تحت آئیں گے، مگر آئندہ کے لیے اگر ہم کچھ وقف کرنا چاہتے ہیں تو وقف بورڈ ایکٹ سے ہٹ کر بھی کوئی ایسی شکل ہے جس کے ذریعے ہم امت کی فلاح کے لیے انہیں محفوظ کر سکتے ہیں؟
جواب: ضرور کرسکتے ہیں، آپ کے لیے ٹرسٹ ایکٹ ہے۔ ٹرسٹ ایکٹ کے تحت آپ چیریٹبل ٹرسٹ بناسکتے ہیں، ریلیجیس ٹرسٹ بناسکتے ہیں، ایجوکیشنل ٹرسٹ بنا سکتے ہیں۔ اصل میں ہوا یوں تھا کہ آزادی کے فوراً بعد ایک قانون لایا گیا تھا کہ آج جتنے بھی مساجد، قبرستان، درگاہیں ہیں، سب کو وقف کے تحت آنا چاہیے تو یکلخت انہوں نے سبھوں کو اس کے اندر سمو دیا۔ آج ایسا کوئی قانون نہیں ہے تو اس سے ہٹ کر ہم کر سکتے ہیں۔ بہت سی مساجد اور مدرسے ٹرسٹ کے تحت چل رہے ہیں، اس پر بھی کبھی ان کی نظر پڑ گئی اور وہ کچھ کرنا چاہیں تو یہ اور بات ہے، مگر قانونی طور پر پوری گنجائش ہے، ہم ایسا کرسکتے ہیں اور بہت سارے کر بھی رہے ہیں۔
(بقیہ گفتگو ان شاء اللہ اگلے شمارے میں پیش کی جائے گی)
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 نومبر تا 9 نومبر 2024