پاسداران انقلاب یوکرین میں سرگرم،روس کی حمایت کا الزام: یورپی یونین
نئی دہلی، اکتوبر 12: مشہور امریکی میڈیا ‘فاکس نیوز’ کے مطابق متعدد مغربی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ایرانی پاسداران انقلاب کے ارکان یوکرین میں روس کے زیر کنٹرول علاقوں میں نگرانی کر رہے تھے۔ ان ذرائع کے مطابق ایرانی پاسداران انقلاب کے ارکان نے روسی افواج کو تربیت دینے کے لیے یوکرین میں روس کے زیر کنٹرول علاقوں کا سفر کیا ہے اور وہاں کی فوجی مہمات میں حصہ بھی لیا ہے۔
خیال رہے کہ ایرانی پاسداران انقلاب کو امریکہ نے ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کر رکھا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار کی گزشتہ ہفتے شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ روسی افواج ”شاید” ایرانی پاسداران انقلاب سے وابستہ اہلکاروں کو روسیوں کو شاہد-136 ڈرون استعمال کرنے کی تربیت دینے کے لیے ان علاقوں میں لائی تھیں۔ اس سے ماسکو اور تہران میں گرمجوشی کی ایک اور مثال سامنے آگئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 12 اکتوبر کو، یوکرین کے مزاحمتی مرکز نے اعلان کیا کہ ایران سے تربیت فراہم کرنے والوں کی غیر متعین تعداد کریمیا میں زلزنی اور ہلاڈیوٹسی کی بندرگاہوں پر پہنچ گئی ہے۔
برطانوی ڈیلی مرر نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ کریمیا پہنچنے والے پاسداران انقلاب کے حکام کی تعداد 50 تک ہوسکتی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع نے فاکس نیوز کو بتایا ہے کہ ان رپورٹس کے جواب میں اس کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں ہے۔
دوسری طرف یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے سربراہ، جوزف بوریل نے پیر کو کہا ہے کہ یورپی یونین، یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں کسی بھی ایرانی کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت کی تلاش میں ہے۔
لکسمبرگ میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں پہنچنے پر صحافیوں کو بتایا کہ ”ہم یوکرین کی جنگ میں ایران کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت تلاش کریں گے۔ یوکرین کے وزیر خارجہ بھی اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔
مزاحمتی مرکز نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایرانی ٹرینرز سویلین اہداف پر ڈرونز کی لانچنگ کو براہ راست کنٹرول کرتے ہیں، خاص طور پر میکولائیو اور اوڈیسا کے علاقوں میں بھی ایرانی ٹرینرز لانچنگ کو کنٹرول کرتے ہیں۔
ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایرانی ڈرون کا بنیادی آپریٹر صرف پاسداران انقلاب کے افراد ہیں لہذا امکان ہے کہ ڈرون کی تربیت دینے والے پاسداران انقلاب گروپ کے رکن ہوں یا کم از کم اس گروپ سے وابستہ ہوں۔
خیال رہے کریمیا کے پل پر ہونے والے دھماکے کے بعد روس نے اپنے بم حملے تیز کر دیے ہیں۔ روس نے جواب میں یوکرین پر80 کروڈ میزائل داغے ہیں۔
تہران نے بارہا یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ یوکرین میں روسی صدر پوتن کی جنگ میں ملوث نہیں ہے، لیکن ناقدین نے اس صورت حال پر سوال اٹھایا ہے کیونکہ شاہد 136 طیارہ جسے ”کامیکازے ڈرون” بھی کہا جاتا ہے، اگلے مورچوں پر دکھائی دینے لگے ہیں۔ ماسکو کو موسم گرما کے دوران ڈرونز موصول ہوئے۔ شاہد 136 ڈرونز کی تعیناتی کی کوشش کے دوران روسی افواج کو تکنیکی مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا تاہم روسی فوج نے ستمبر کے وسط میں ڈرونز کا استعمال شروع کر دیا تھا۔
ادھر، یورپی بلاک کے ایک اعلیٰ سفارت کار جوزف بوریل نے پیر کو لکسمبرگ میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے موقع پر صحافیوں کو بتایا ’ہم (یوکرین کی جنگ میں ایران کی شمولیت) کے بارے میں ٹھوس شواہد تلاش کر رہے ہیں۔‘
واضح رہے کہ یوکرین نے حالیہ ہفتوں میں اطلاع دی تھی کہ روسی فوج نے ایرانی ساختہ شاہد 136 ڈرون کے ساتھ حملے کیے ہیں، تاہم دوسری طرف ایران نے روس کو ڈرون فراہم کرنے کی تردید کی، جب کہ کریملن نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
یورپی یونین نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کر دیں۔
خیال رہے کہ یورپی یونین نے پیر کے روز ایران کی موریلیٹی پولیس، وزیر اطلاعات اور اس کے پاسداران انقلاب کے سائبر ڈویژن پر مہسا امینی کی حراست میں جان لیوا مار پیٹ اور اس کے بعد ہونے والے مظاہروں کو دبانے پر پابندی لگا دی۔