پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے تیور جمہوریت کا اصلی چہرہ
اب این ڈی اے بھی کمزور طبقات کے حقوق کی بات کرنے پر مجبور
محمد ارشد ادیب
سیاسی پشت پناہی کے سبب ہاتھرس کا بھولے بابا ہر قسم کی قانونی کاروائیوں سے محفوظ!
شمالی ہند میں ان دنوں سیاست اور برسات میں جگل بندی چل رہی ہے۔ اس سال مانسون کی بارش نے پہلے ہی مرحلے میں پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ دلی سے پٹنہ تک سیاست اور برسات کی باتیں۔
دارالحکومت دلی میں اٹھارویں لوک سبھا کا پہلا اجلاس کئی وجوہات سے طویل مدت تک یاد رکھا جائے گا۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں ہونے والے اس اجلاس میں حلف برداری کے بعد صدر جمہوریہ کے خطبے پر بحث میں جمہوریت کا اصلی رنگ دکھائی دیا۔ کانگریس کو دس سال بعد اپوزیشن کا درجہ حاصل ہوا پارٹی نے راہل گاندھی کو اپوزیشن لیڈر بنایا ہے۔ اپوزیشن لیڈر بنتے ہی انہوں نے اپنی پہلی ہی تقریر میں حزب اقتدار کی دھجیاں اڑا دیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو دس سال بعد ایوان میں اپوزیشن سے سخت مقابلہ درپیش۔ راہل گاندھی کی تقریر کے دوران دو مرتبہ مداخلت کی کوشش کی۔ وزیر داخلہ امت شاہ بھی اپوزیشن کے خلاف اسپیکر سے تحفظ مانگتے ہوئے نظر آئے۔ ایوان بالا میں بھی اپوزیشن لیڈر ملکارجن کھرگے بھی اپنے اصلی رنگ میں نظر آئے۔ انہوں نے ایوان بالا کے اسپیکر جگدیپ دھنکڑ پر منو وادی ہونے کا الزام لگا کر انہیں بغلیں جھانکنے پر مجبور کر دیا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اپوزیشن کے یہ تیور پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں بھی جاری رہیں گے۔
اتر پردیش میں سماجی انصاف اور ریزرویشن میں حق تلفی کا موضوع طول پکڑتا جا رہا ہے۔ این ڈی اے کی حلیف جماعت اپنا دل ایس کی لیڈر انوپریہ پٹیل کے مکتوب کو یو پی کانگریس اقلیتی شعبے کے صدر شاہنواز عالم نے سیاسی چال قرار دیا۔ انہوں نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا کہ یو پی میں بی جے پی اور این ڈی اے کے لیڈر دلتوں اور پسماندہ طبقات کے ریزرویشن میں کی گئی دھاندلی کے خلاف پیدا ہونے والی ناراضگی کو کم کرنے کے لیے آپس میں ہی الزام اور جوابی الزامات کا ڈرامہ کر رہے ہیں۔
دراصل یو پی کے سیاسی حلقوں میں پارلیمانی انتخابات کے نتائج پر زوردار بحث چل رہی ہے۔ اس بار تمام محروم طبقات نے دستوری حقوق کے تحفظ کے لیے متحد ہو کر انڈیا بلاک کو ووٹ دیے ہیں جس کے سبب بی جے پی اور این ڈی اے کی حلیف جماعتوں کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا۔ بی جے پی کے وہ لیڈر جو کل تک ہندو مسلمان کے نام پر 80 فیصد بنام 20 فیصد کی بات کر رہے تھے ان کی بولتی بند ہو چکی ہے کیونکہ سبھی جماعتوں کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ اگر دلت، پسماندہ طبقات اور مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے تو یہ 85 فیصد بنام 15 فیصد کی لڑائی ہو جائے گی۔ یعنی 85 فیصد محروم طبقات ایک طرف اور 15 فیصد نام نہاد اعلیٰ ذات کے لوگ دوسری طرف ہوں گے۔ اس صورتحال میں محروم طبقات کو ورغلا کر ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کی سیاست ہی ختم ہو جائے گی۔ سیاسی تبصرہ نگاروں کے مطابق محروم طبقات نے ایودھیا سے اس کی شروعات کر دی ہے۔ ایودھیا کے نو منتخب رکن پارلیمنٹ اودھیش پرساد کا تعلق دلت سماج سے ہے جبکہ بی جے پی نے ان کے مقابلے میں اعلیٰ ذات کے للو سنگھ کو میدان میں اتارا تھا۔ ایودھیا کے پسماندہ طبقات اور مسلمان بی جے پی امیدوار کو ہرانے کے لیے ایک ہو گئے تھے، جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
ایودھیا کی کہانی یو پی کے کئی اضلاع میں دہرائی گئی ہے جہاں بی ایس پی کے وفادار ووٹر بھی انڈیا بلاک میں شامل ہو گئے تھے۔ مغربی یو پی کے نگینہ محفوظ پارلیمانی حلقے سے چندر شیکھر آزاد راون کی جیت بھی اس سیاسی بیانیے کی تصدیق کرتی ہے۔ اسی وجہ سے بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتیں ریزرویشن اور سماجی ناانصافی کے موضوع پر نورا کشتی کر رہی ہیں۔ ان کا مقصد سماجی انصاف دلانے کے بجائے اپنی کھوئی ہوئی سیاسی زمین حاصل کرنا ہے۔ یو پی میں سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن نافذ کرنے میں ڈنڈی مارنا اور مسابقتی امتحانات میں دھاندلی کرنا بھی اس موضوع سے جڑا ہوا ہے۔ حال ہی میں یو پی پبلک سرویس کمیشن نے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران یہ تسلیم کیا کہ پی سی ایس جے کے امتحانات میں 50 امیدواروں کے جوابات کی کاپیاں بدل دی گئیں جس کے بعد امتحانات کی میرٹ لسٹ مشکوک ہو گئی ہے۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب ججوں کی تقرری میں اتنے بڑے پیمانے پر دھاندلی ہو سکتی ہے تو دیگر امتحانات میں کیا نہیں ہو سکتا؟
یو پی کی کئی یونیورسٹیوں میں خاص ذہنیت کے امیدواروں کی تقرری ہو چکی ہے جن پر طلبا تنظیموں کے ساتھ سیاسی جماعتوں نے بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ آنے والے دنوں میں بے روزگار نوجوانوں کی بے روزگاری کے سوالات سیاست کے مرکزی کردار میں ہوں گے جس کا سامنا کرنا کسی بھی سیاسی جماعت یا محاذ کے لیے آسان نہیں ہوگا۔
یو پی میں آج کل ایک نام نہاد بھولے بابا کا تذکرہ عام ہے۔ اس نے مغربی یو پی کے ضلع ہاتھرس میں ایک ست سنگ یعنی مذہبی اجتماع کا اہتمام کیا جس کے دوران بھگدڑ مچنے سے 123 عقیدت مندوں کی جان چلی گئی اور درجنوں زخمی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ حادثے کے چوتھے دن بابا ایک نیوز ایجنسی کے کیمرے پر نمودار ہوا اور حادثے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے صرف دکھ کا اظہار کیا۔ ذرائع کے مطابق سورج پال نام کا یہ بابا پولیس میں بھی رہ چکا ہے اور اب اس کے لاکھوں ماننے والے ہیں، ان میں پولیس افسروں سے لے کر سیاسی لیڈروں کے نام شامل ہیں۔ سیاسی رسوخ کی وجہ سے ہی اتنا بڑا حادثہ ہونے کے باوجود بابا آج تک پولیس کی گرفت سے باہر ہے۔ حادثے کی اصل ایف آئی آر میں اس کا نام بھی نہیں ہے۔ سیاسی تبصرہ نگاروں کے مطابق بھولے بابا کو بچانے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ حادثے کی جانچ کے لیے بنی ایس آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں اسے چھوڑ کر اس کے افسروں کو ہی ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔
ادھر بہار کی پڑوسی ریاست جھارکھنڈ میں ایک بار پھر اقتدار کی خاموش منتقلی ہو گئی ہے۔ جیل سے باہر آنے کے بعد ہیمنت سورین نے ایک بار پھر وزیر اعلی کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔ ان کی غیر موجودگی میں وزیر اعلی بنائے گئے چمپئی سورین نے راضی خوشی سے استعفی پیش کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا میں لوگ سوال پوچھ رہے ہیں کہ ہیمنت سورین چند ماہ اور صبر کر لیتے تو شاید پھر سے منتخب ہو کر آ جاتے تاہم، سیاست میں اپنے خاندان کے علاوہ کسی پر بھروسا کرنا خطرناک ہے اور ہیمنت سورین جیسا آدیواسی لیڈر یہ بات بخوبی سمجھتا ہے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتہ پھر ملیں گے تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جولائی تا 20 جولائی 2024