پارلیمانی حلقوں کی نئی حد بندی کس لیے ؟

آبادی کو اگر بنیاد بنایا جائے تو جنوبی ہند کا نقصان ہوگا

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

نمائندگی میں توازن کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو وفاقیت کمزور ہوگی
اگر مردم شماری کے حساب سے پارلیمانی حلقے طے کیے جائیں گے تو ایسی ریاستیں جہاں آبادی کی روک تھام پر سختی سے عمل کیا گیا تھا ان کو بہت نقصان ہوجائے گا اور یہ بات عیاں ہے کہ جنوبی ہند کی ریاستوں نے اس قانون پر سختی سے عمل کیا ہے۔
ملکی آئین میں وفاقیت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور وفاق ریاستوں سے مل کر بنتا ہے۔ چنانچہ ہمارے ملک کے پارلیمانی حلقوں کی تشکیل میں آبادی کے ساتھ ساتھ صوبائی حیثیت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے تاکہ عوامی وعلاقائی نمائندگی میں توازن قائم رہے۔ اگر علاقائی نمائندگی کی اہمیت کو گھٹا کر صرف آبادی کی بنیاد پر حلقہ بندی کی جائے تو اس سے نمائندگی کا توازن یقینی طور پر بگڑ جائے گا اور وفاقیت کو نقصان پہنچے گا۔ بلحاظ آبادی پارلیمانی حلقوں کی ازسر نو حد بندی سے خاص طور پر جنوبی ہند کی ریاستوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑے گا، اس کے بر عکس ایسی ریاستیں جن کی کارکردگی جنوبی ہند کی ریاستوں کے مقابلہ میں کم تر رہتی ہیں ان کو فائدہ پہنچے گا۔
آئیے ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر یہ پارلیمانی حلقوں کی حد بندیاں کیا ہوتی ہیں اور کیوں کی جاتی ہیں؟ یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ حال ہی میں ملک کی نئی پارلیمنٹ کی عمارت کا ہندو رسم و رواج کے ساتھ افتتاح عمل میں آیا، اس عمارت کے افتتاح کے ساتھ ہی ایک پرانی بحث کا آغاز بھی ہو گیا کہ پارلیمانی حلقوں کی از سر نو حد بندیاں کی جائیں، اس نئی پارلیمنٹ کی عمارت میں ارکان پارلیمنٹ کی بیٹھنے کی گنجائش آٹھ سو اٹھاسی اور ایوان بالا کے ارکان کے بیٹھنے کی گنجائش تین سو چوراسی ہے۔
جمہوریت کی روح یہ ہے کہ ایک ملک ایک فرد ایک ووٹ اور ایک ہی سب کی قدر ہوتی ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ ملک کے کسی ایک شہری کے ووٹ کی قدر زیادہ اور کسی کی کم ہو، جمہوریت کی نگاہ میں سب شہریوں کے ووٹ کی قدر و قیمت یکساں ہوتی ہے، ملک کے موجودہ پارلیمانی حلقوں کی حد بندی 1971ء کی مردم شماری کے تحت کی گئی ہے، اس کے بعد سے پارلیمانی حلقوں کی کوئی نئی حد بندی نہیں کی گئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ اندرا گاندھی کی حکومت نے 1976ء میں آئین میں 74 ویں ترمیم کرتے ہوئے آئندہ بیس سالوں تک پارلیمانی حلقوں کی نئی حد بندیوں پر روک لگا دی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر آئین میں ترمیم کیوں کی گئی؟ 1971ء میں حکومت نے آبادی پر کنٹرول کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلا رکھی تھی، اس مہم میں کچھ ریاستیں بڑی تندہی سے عمل پیرا تھے اور کچھ ریاستیں اس آبادی کو کنٹرول کرنے والے قانون پر پوری طریقہ سے عمل پیرا نہیں تھے یا یوں کہیے کہ اس قانون کو اپنی ریاستوں میں نافذ نہیں کر رہے تھے، اسی کے پیش نظر اندرا گاندھی نے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے حلقوں کی نئی حد بندی پر روک لگا دی، مثال کے طور پر ریاست کیرالا کو لیجیے، جہاں آبادی کنٹرول کرنے والے قانون پر سختی کے ساتھ عمل کیا گیا جس کے نتیجے میں یہاں کی آبادی کا تناسب منفی درجے میں چلا گیا، اس کا تناسب 1.6 فیصد تک پہنچ گیا، یعنی ایک شادی شدہ جوڑے نے 1.6 بچوں کو جنم دیا، آپ پوچھیں گے کہ ایک جوڑا 1.6 بچوں کو کیسے جنم دے سکتا ہے؟ وہ اس طرح کہ دس شادی شدہ جوڑوں نے سولہ بچوں کو جنم دیا، اس کے برعکس ریاست اتر پردیش اس قانون کو نافذ کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئی، یہاں شرح پیدائش کا تناسب 2.4 فیصد ہے، یعنی اس ریاست میں بیس شادی شدہ جوڑوں نے چوبیس بچوں کو جنم دیا۔ یہی وہ صورت حال تھی جس کی وجہ سے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے پارلیمانی حلقوں کی نئی حد بندیوں پر روک لگا دی، اگر ریاستوں کی آبادی کے تناسب میں فرق ہوتا ہے تو وہ ریاستیں جنہوں نے آبادی کنٹرول قانون کو پوری طرح نافذ کیا ہے وہ ریاستیں نقصان میں رہیں گی، اور ان ریاستوں کو فائدہ ہوگا جو اس قانون کے نفاذ میں ناکام رہیں جس کے نتیجے میں وہاں آبادی کا تناسب زیادہ رہا۔
اس کے بعد 2001ء میں پارلیمانی حلقوں کی نئی حد بندیاں ہونی تھیں لیکن اس بار واجپائی جی کی حکومت نے پارلیمانی حلقوں کی نئی حد بندی پر روک لگا دی، چونکہ پارلیمانی حلقوں کی حد بندی آبادی کے تناسب سے ہوتی ہے اس لیے جنوبی ہند کی ریاستوں آندھراپردیش اور تمل ناڈو نے اس پر اپنے شدید اعتراضات کیے اور تحفظات کا اظہار کیا اور اس پر روک لگانے کا مطالبہ کیا، جنوبی ہند کی ریاستوں کے مطابق اگر پارلیمانی حلقوں کی نئی حد بندیاں 2001ء کی مردم شماری کے مطابق ہوتی ہیں تو یہ ریاستیں شدید نقصان میں رہیں گی، خاص بات یہ تھی کہ واجپائی حکومت اس وقت تلگو دیشم اور انا ڈی یم کے کی مدد سے ہی ٹکی ہوئی تھی اسی لیے اٹل بہاری واجپائی نے ان کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے آئین میں 84ویں ترمیم کرتے ہوئے پارلیمانی حلقوںکی نئی حد بندی پر مزید پچیس سال تک روک لگا دی۔
حد بندی کیا ہے؟ ملکی آئین کی شق 81 اور 82 حلقوں کی حد بندیوں سے متعلق ہے، آئین کی شق 81 پارلیمانی حلقوں کی حد بندی آبادی سے متعلق گفتگو کرتی ہے، یعنی ہر ریاست میں ان کی آبادی کے مطابق پارلیمانی حلقے ہوں گے، ایک بات یہ بھی اس میں شامل ہے کہ ایک پارلیمانی حلقے کی آبادی دوسرے پارلیمانی حلقے کی آبادی میں بہت زیادہ فرق نہیں ہونا چاہیے، یعنی آبادی کے تناسب سے پارلیمانی حلقوں کی حد بندی ہوگی۔ پارلیمانی حلقوں کی حد بندی کرنے کے لیے ہر دس سال میں ایک مرتبہ سارے ملک میں مردم شماری کی جائے گی اور اسی مردم شماری کے مطابق پارلیمانی حلقوں کی حد بندی کی جائے گی۔ آئین کی شق 82 اسی سے متعلق گفتگو کرتا ہے، اسی سے ملک میں ہر دس سال میں ایک مرتبہ مردم شماری کی جاتی ہے۔ ملک میں کبھی بھی مردم شماری کا کام روکا نہیں گیا یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم میں بھی یہ کام نہیں رکا، لیکن مودی حکومت کے کارناموں میں ایک یہ بھی ہے کہ اس حکومت میں مردم شماری کا کام نہیں ہو سکا، اس کے لیے حکومت نے کوویڈ وبا کا بہانہ بنایا، جبکہ دنیا کے مختلف ممالک نے، حتی کہ امریکہ اور شمالی کوریا تک نے اپنے اپنے ملکوں میں کوویڈ وبا کے باوجود مردم شماری کا کام کیا ہے۔
مردم شماری کے بعد حکومت نئے پارلیمانی حلقوں کی حد بندی کا قانون بناتی ہے اور ایک پارلیمانی حلقوں کی نئی حد بندی کمیشن ترتیب دیتی ہے، یہ کمیشن ریاستوں کی موجودہ آبادی کے تناسب سے یہ طے کرتا ہے کہ ریاست میں کتنے پارلیمانی حلقے ہونے چاہئیں، وہ یہ بھی طے کرتا ہے کہ ریاست میں نئے پارلیمانی حلقوں کا اضافہ ہونا چاہیے یا نہیں، اور یہ بھی کہ موجودہ پارلیمانی حلقے کس طرح تقسیم کیے جانے چاہئیں۔ یعنی سیدھی بات یہ ہے کہ آئین کے مطابق ہر دس سال میں مردم شماری کی جانی چاہیے اور اس کے مطابق ریاستوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے پارلیمانی حلقوں کی حد بندی کی جانی چاہیے۔
اب نئے پارلیمانی حلقوں کی حد بندی 2026ء کے بعد ہی ہوسکتی ہے، کیوں کہ مردم شماری طے شدہ وقت کے مطابق 2021ء میں ہونی تھی جو نہ ہوسکی، اب یہ مردم شماری 2024ء کے عام انتخابات کے بعد ہی ممکن ہے، اور 2026ء میں پارلیمانی حلقوں کی نئی حد بندی ہوگی اور اس پر عمل 2029ء کے عام انتخابات میں ہو سکتا ہے۔ نئے پارلیمانی حلقوں کی حد بندی پر جو روک واجپائی حکومت نے لگائی تھی اس کی معیاد 2026ء میں ختم ہو جائے گی۔
آئین کی شق 88 کے مطابق حلقوں کے جغرافیائی حدود میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے لیکن نئے حلقے نہیں بنائے جاتے، جن ریاستوں کو تقسیم کیا گیا ان ریاستوں کے پارلیمانی حلقوں میں اضافہ نہیں ہوا لیکن ان کے حدود میں تبدیلی کی گئی، اب بھی 1971ء کے مردم شماری کے مطابق ہی پارلیمانی حلقے پائے جاتے ہیں۔
اس وقت کیوں یہ مطالبہ سامنے آ رہا ہے کہ پارلیمانی حلقوں کی از سر نو حلقہ بندی ہو اور ان میں اضافہ ہو؟ آئین کی شق 81 کے مطابق ہمارے ایک پارلیمانی حلقے میں پچیس لاکھ رائے دہندگان ہونے چاہئیں۔ دو رعایتوں کو چھوڑ کر، ایک یہ کہ یہ شق مرکزی انتظام علاقے پر لاگو نہیں ہوتی اور ایسی ریاست پر لاگو نہیں ہوتی جہاں کی آبادی ساٹھ لاکھ سے کم ہے۔ اگر ہم اس کا تقابل امریکہ کے ایوان نمائندگان سے کریں تو ہمارے پارلیمانی حلقے کے رائے دہندوں کی تعداد تین گنا زیادہ ہے، مردم شماری کے حساب سے پارلیمانی حلقے طے کیے جاتے ہیں تو کوئی غلط بات نہیں ہوگی، اگر حلقوں کی تعداد میں اضافہ کیا جاتا ہے تو بھی کوئی مشکل نہیں ہے، اگر مردم شماری کے حساب سے پارلیمانی حلقے طے کیے جائیں گے تو ایسی ریاستیں جنہوں نے آبادی کنٹرول پر سختی سے عمل کیا تھا ان کو بہت نقصان ہوجائے گا اور یہ بات عیاں ہے کہ جنوبی ہند کی ریاستوں نے اس قانون پر سختی سے عمل کیا ہے اسی لیے یہ ریاستیں نقصان اٹھانے والی ہیں، آبادی کے حساب سے یہاں پارلیمانی حلقوں میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوگا، وہیں شمالی ہند کی ریاستوں کو زیادہ فائدہ ہوگا اس لیے کہ وہاں آبادی کے حساب سے حلقوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا، اسی لیے شمالی ہند کی اجارہ داری جو پہلے سے چلی آ رہی ہے وہ اور بڑھ جائے گی۔
***

 

***

 اب نئے پارلیمانی حلقوں کی حد بندی 2026ء کے بعد ہی ہو سکتی ہے، کیونکہ مردم شماری طے شدہ وقت کے مطابق 2021ء میں ہونی تھی جو نہ ہوسکی، اب یہ مردم شماری 2024ء کے عام انتخابات کے بعد ہی ممکن ہے، اور 2026ء میں پارلیمانی حلقوں کی نئی حد بندی ہوگی اور اس پر عمل 2029ء کے عام انتخابات میں ہوسکتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اگست تا 19 اگست 2023