پران پر تشٹھا بہانہ ہےعام انتخابات نشانہ ہے
شنکر آچاریوں کے بعد کانگریس نے بھی ایودھیا سے دوری بنالی ہے
عرفان الٰہی ندوی
نرم ہندتو کے لبادے کو اتار کر دیگر سیکولر پارٹیوں کا بھی پران پر تشٹھا میں عدم شرکت کا اعلان
ایودھیا میں 22؍ جنوری کو رام للا کی مورتی میں پران پرتشٹھا سے پہلے پورے ملک کو رام مے یعنی رام کے رنگ میں رنگنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے چاروں شنکر آچاریوں کی جانب سے پران پرتشٹھا کی دھارمک رسم پر سوال اٹھانے کے بعد 11 دنوں تک خصوصی انوشٹھان کے ساتھ برت رکھنے کا اعلان کر دیا ہے۔ مہاراشٹر میں ناسک کی پنچوٹی سے اس کا باقاعدہ آغاز بھی ہو چکا ہے۔
دوسری جانب کانگریس پارٹی بھی اس مسئلے پر کھل کر سامنے آگئی ہے اور اب اس نے نرم ہندتو کے چولے کو اتار پھینکا ہے اور ایودھیا جانے کی دعوت کو احترام کے ساتھ ٹھکرا دیا ہے۔ پارٹی کے میڈیا انچارج جے رام رمیش نے کہا کہ دھرم کسی بھی انسان کا ذاتی معاملہ ہے آدھے ادھورے مندر کا افتتاح کر کے صرف سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش ہو رہی ہے کانگریس اس کو مسترد کرتی ہے۔کانگریس کے تینوں بڑے رہنما محترمہ سونیا گاندھی، ملکارجن کھرگے اور ادھیر رنجن چودھری 22 جنوری کو ایودھیا کے پران پرتشٹھا پروگرام میں نہیں جائیں گے۔
بی جے پی آئی ٹی سیل نے کانگریس کے اس موقف کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، لیکن اس کے باوجود کانگریس اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔ کانگریس کے ترجمان پون کھیرا نے بہت واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ مندر جانے کے لیے کسی انسان کے نیوتے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور کوئی انسان مندر میں جانے کا نیوتا دے بھی نہیں سکتا اور نہ ہی روک سکتا ہے، یہ انسان کا ذاتی معاملہ ہے کہ کون کب مندر جائے گا۔ بھاجپا اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
دراصل ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا سیاسی ایجنڈا پوری طرح سے بے نقاب ہو چکا ہے۔ خود شنکر آچاریوں نے کہہ دیا ہے کہ آدھے ادھورے مندر کی مورتیوں میں پران پرتشٹھا کی اتنی جلدی کیا ہے؟ جوشی مٹھ کے شنکر آچاریہ سوامی اویمکتیشورآنند سرسوتی نے میڈیا سے بات چیت میں اعتراف کیا کہ وہ مودی کے مخالف نہیں بلکہ پرو مودی ہیں، لیکن ہم نہیں چاہتے کہ وہ دھرم شاستروں کے خلاف کوئی کام کریں اور ان کا پتن ہو جائے یعنی ان کی حکومت کا زوال ہو جائے۔ انہوں نے ان پر آدھے ادھورے مندر کا افتتاح کرکے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کا الزام لگایا ہے۔ اس سے پہلے شنکر آچاریوں نے پران پرتشٹھا کی معنویت اور نوعیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ جب رام مندر کی تعمیر ہی مکمل نہیں ہوئی ہے تو پھر رام للا کی مورتی کی تنصیب کیسے کی جا سکتی ہے؟ بنا شریر کے پران پرتشٹھا کا کیا مطلب ہے؟
عام انتخابات 2024 پر نشانہ
سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے این ڈی اے حکومت کے 10 سال مکمل ہونے والے ہیں لیکن 2024 کے عام انتخابات میں عوام کے سامنے بغیر کسی جذباتی عنصر کے جانے کی ہمت نہیں ہے۔ نوجوانوں کو روزگار دینے کا معاملہ ہو یا معیشت کی بہتری۔ مہنگائی پر روک لگانے کا معاملہ ہو یا ترقیاتی محاذ حکومت تمام محاذوں پر ناکام ثابت ہو چکی ہے اس لیے عوام کے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے اور ذہن بھٹکانے کے لیے رام مندر کا جذباتی مسئلہ اٹھایا جا رہا ہے اور ملک کی اکثریتی آبادی کا جذباتی استحصال کرنے کی نیت سے پانچ سو سالہ غلامی سے نجات کی جھوٹا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے جبکہ سب جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں صاف لکھا ہے کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی عمارت کو گرانے کو بھی غلط تسلیم کیا ہے اس کے باوجود اکثریت کی آستھا کا حوالہ دیتے ہوئے متنازعہ جگہ رام مندر کی تعمیر کے لیے ٹرسٹ کو دے دی گئی۔ اس تنازع کے مسلم فریق ہاشم انصاری کے جانشین اقبال انصاری نے ہفت روزہ دعوت سے فون پر بات چیت میں کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کر چکے ہیں اس لیے رام مندر ٹرسٹ کی دعوت پر پران پرتشٹھا کی تقریب میں شرکت کرنے جائیں گے۔ شنکر آچاریہ کی بائیکاٹ پر انہوں نے کہا کہ وہ ان کا پرسنل معاملہ ہے لیکن میں سبھی دھرموں کے احترام کے جذبے سے اس تقریب میں جاؤں گا۔
مسلمانوں کی جانب سے اتحاد ملت کونسل کے صدر مولانا توقیر رضا خان نے بریلی سے بیان دیا ہے۔ انہوں نے رام بھکتوں کو رام مندر کی تعمیر پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ "ہمیں ہندوؤں کی آستھا کی قدر کرنا چاہیے” لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں نے بابری مسجد کے معاملے میں تو صبر کر لیا لیکن دوسری مسجدوں کے معاملے میں ایسا نہیں ہوگا ان کا اشارہ وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عید گاہ کو متنازعہ بنانے کی جانب تھا۔ اس پورے معاملے کو غور سے دیکھنے والے مانتے ہیں کہ اس وقت پورے ملک میں ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے جس کا فائدہ عام انتخابات میں حکم راں ٹولے کو ہوسکے اکثریت کو خوش کرنے کے لیے
مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ 500 سالہ غلامی سے نجات کا نعرہ دیا جا رہا ہے۔ شمالی ہند اور خاص طور پر ہندی پٹی میں اکثریتی آبادی کو بھگوان رام کے نام پر متحد کیا جا رہا ہے تاکہ عام انتخابات میں ان کا سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکے۔
مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑا سوال
ان حالات میں مسلمانوں کے سامنے ایک سوال یہ ہے کہ اس سیاسی تماشے کے دوران ان کا رویہ کیسا ہونا چاہیے؟ کیا وہ اے آئی یو ڈی ایف کے سربراہ مولانا بدرالدین اجمل کی صلاح پر عمل کرتے ہوئے اپنے گھروں میں دبک جائیں؟ واضح رہے کہ مولانا نے ایک پبلک میٹنگ میں مسلمانوں کو 20 سے 26 جنوری تک سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ بہت سے دانشوروں نے ان کے اس بیان کو مایوسی اور بزدلی سے تعبیر کیا ہے اسی لیے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظم اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا بلال حسنی ندوی نے ہفت روزہ دعوت سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی حال میں مسلمانوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے مولانا بدر الدین اجمل کے بیان پر کہا کہ مولانا کو بیان دینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، لوگوں کو خود سمجھنا چاہیے بلا ضرورت کوئی کام نہ کریں اور مایوسی کے لفظ کو ڈکشنری سے نکال پھینکیں۔ مسلمانوں نے اس سے زیادہ سخت حالات کا نہایت ثابت قدمی سے مقابلہ کیا ہے۔
سیاسی منظر نامہ
ملک کا سیاسی منظر نامہ بھی تیزی سے بدل رہا ہے۔ حکم راں جماعت رام مندر کے بہانے ملک کی اکثریت کو اپنی طرف کرنا چاہتی ہے، وہیں کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے "انڈیا” کے نام سے اتحاد بنا کر اے این ڈی اے کو چیلنج کر دیا ہے۔ لیکن ان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ قوم پرستی کے اس عفریت کا مقابلہ کرنا ہے جس میں مذہبی جذبات عروج پر ہیں۔ بہار کی نتیش کمار حکومت نے پسماندہ ذاتوں کا سروے کروا کے انہیں ریزرویشن دے کر اس کی شروعات کر دی ہے۔ یو پی میں سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو بھی آئندہ عام انتخابات پسماندہ طبقات، دلتوں اور اقلیتوں کو متحد کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی کی نیائے یاترا بھی اس ماحول کو بدلنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، لیکن ان تمام سیاسی جماعتوں کے سامنے سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے اس ہائپر نیشنلزم کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟
یو پی کانگریس میں اقلیتی شعبے کے صدر شاہنواز عالم کہتے ہیں سیکولر ملک میں کسی دستوری عہدے پر فائز لیڈر کا کسی مذہبی تقریب کی پیشوائی کرنا سیکولر کردار کے خلاف ہے۔ کانگریس نے اس دعوت نامے کو ٹھکرا کر تحریک آزادی کے اقدار کی پاسبانی کی ہے۔
***
***
ملک کا سیاسی منظر نامہ بھی تیزی سے بدل رہا ہے۔ حکم راں جماعت رام مندر کے بہانے ملک کی اکثریت کو اپنی طرف کرنا چاہتی ہے، وہیں کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے "انڈیا” کے نام سے اتحاد بنا کر اے این ڈی اے کو چیلنج کر دیا ہے۔ لیکن ان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ قوم پرستی کے اس عفریت کا مقابلہ کرنا ہے جس میں مذہبی جذبات عروج پر ہیں۔ بہار کی نتیش کمار حکومت نے پسماندہ ذاتوں کا سروے کروا کے انہیں ریزرویشن دے کر اس کی شروعات کر دی ہے۔ یو پی میں سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو بھی آئندہ عام انتخابات پسماندہ طبقات، دلتوں اور اقلیتوں کو متحد کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی کی نیائے یاترا بھی اس ماحول کو بدلنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، لیکن ان تمام سیاسی جماعتوں کے سامنے سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے اس ہائپر نیشنلزم کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جنوری تا 27 جنوری 2024