پانچویں بڑی معیشت کے بھوکے اور نڈھال لوگ

بھارتی معیشت کو عالمی معاشی کساد بازاری کے اثر سے بچانے کے لیے پیشگی اقدامات ناگزیر `

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

کسانوں کی آمدنی بڑھنے کے بجائے گھٹ گئی۔ بے روزگاری کی ابترصورتحال سے فوری نمٹنے کی ضرورت
دفتر قومی شماریات (این ایس او) کے شائع کردہ حالیہ جی ڈی پی تخمینے کے مطابق آاخری سہ ماہی میں بھارتی شرح نمو 6.3 فیصد رہے گی جبکہ سالانہ شرح نمو کو 7 فیصد پر رکھا گیا تھا۔ یہ اندازہ حکومت کے اس دعوے کو بنیاد فراہم کرتا ہے کہ بھارت دنیا میں سب سے تیزی سے بڑھنے والی معیشت ہے مگر ہماری معیشت کی سالانہ شرح نمو بہت زیادہ دھوکہ میں رکھنے والی ہے جبکہ 2016-17سے معیشت تنزلی کا شکار ہے۔ مثلاً کسانوں کےتعلق سے جو سب سے پیشہ ور طبقہ ہے فروری 2016میں مودی نے اعلان کیا تھا کہ 2022تک ان کی آمدنی دوگنی ہوجائے گی لیکن اس کے برعکس 2016-17اور 2020-21کے درمیان کسانوں کی آمدنی میں 1.5فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ دوسرا طبقہ عارضی مزدوروں کا ہے۔ لیبر بیورو کے ماہانہ ڈاٹا کے مطابق حقیقی اجرت میں غیر زرعی شعبہ میں کام کرنے والے محنت کشوں کی سالانہ بنیاد پر ستمبر 2017-22کے درمیان 0.9 فیصد کی کمی آئی ہے جبکہ زرعی شعبہ میں حقیقی اجرت ایک فیصد سالانہ بڑھی ہے۔ کسان اور زرعی مزدور دونوں مل کر دیہی مزدور 70فیصد ہوتے ہیں مگر معیشت میں ان کی شراکت محض 53فیصد ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں زرعی مزدوروں کی آمدنی میں پانچ سالوں میں کسی طرح کا اضافہ نہیں ہوا۔ روزگار اور بے روزگاری سروے جسے قومی شماریاتی دفتر (این ایس او) اور پیریاڈک لیبر فورس سروے (پی ایل ایف ایس) سے ملنے والی معلومات کے مطابق سبھی درجوں کے ریگولر ملازمین خواہ مرد ہوں یا خواتین شہروں میں ان کی آمدنی میں بڑی کمی آئی ہے۔ 2011-12اور 2017-18کے درمیان ریگولر دیہی مزدوروں کی آمدنی میں سال بہ سال 0.3فیصد کی کمی ہوئی۔ بلاشبہ پی یل ایف ایس ڈاٹا سے ثابت ہوا ہے کہ سبھی کنبوں کی حقیقی آمدنی ہر طرح کے روزگار میں 2017-18اور 2020-21کے درمیان کافی گھٹ گئی ہے اب تو واضح ہے کہ معیشت میں تنزلی محض دیہی نہیں بلکہ اس کی وسعت ملک بھر کے متوسط درجے کے شہری یا شہریوں کی آمدنی میں کمی آئی ہے۔ اس لیے حکومت کو ملک کے غریب اور حاشیے پر پڑے ہوئے لوگوں پر بجٹ کے اخراجات کو بڑھانا ہوگا اور ان کی سماجی اور معاشی سلامتی کی حفاظت کرنا ہوگا۔ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ ہر طبقہ کی فی کس آمدنی کو بڑھانے کا جتن کرے جس سے معیشت کی طلب میں اضافہ ہو ۔ اس لیے آئندہ بجٹ میں خصوصی خیال رکھ کر قلیل آمدنی ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔
دوسری طرف بھارت کو 2010 میں بڑھتے ہوئے کور افراط زر (Core Inflation) کی وجہ سے گروتھ کو جھٹکا لگ سکتا ہے کیونکہ اشیاء کی زیادہ قیمتوں کے باعث کھپت اور طلب میں کمی واقع ہوئی نتیجہ کاروبار میں سرمایہ کاری محدود ہوگی۔ اس کے علاوہ جو دیگر عوامل ہیں ان سے 2023 میں بھارتی معیشت میں تنزلی آئے گی۔ ہماری معیشت ابھی بھی متحرک نہیں ہے۔ جی ڈی پی کا پہلا پیشگی تخمینہ (Advance Estimate) جو جنوری کے پہلے ہفتہ میں آیا تھا جس میں بتایا گیا ہے کہ معیشت میں دوسری ششماہی میں کمی آئے گی۔ اعداد وشمار کے مطابق 2023-24 کی پہلی ششماہی (اپریل تا ستمبر) کی جی ڈی پی میں دس فیصد کی نمو ہوگی۔ جبکہ دوسری ششماہی میں نصف سے کم ہوکر 4.5فیصد ہوجائےگی۔ ابھی افراط زر بالکل ہی قابو میں نہیں آیا ہے اس لیے اس کا اثر نمو پر پڑنا لازمی ہے کیونکہ کریسیل ریسرچ کی بنیاد پر دو دہائیوں سے بھارت کا نمو تھم سا گیا ہے۔ مغربی ممالک امریکہ، یوروپ اور جاپان کی جی ڈی پی میں تنزلی کے آثار صاف نظر آرہے ہیں جس کی وجہ سے کریسیل کا اندازہ ہے کہ 2023-24میں بھارتی معیشت کا گروتھ چھ فیصد رہے گا جبکہ نوموروا ریسرچ کے مطابق یہ شرح نمو 2023میں تقریباً پانچ فیصد رہے گی۔ کم نمو کی وجہ سے بےروزگاری کی حالت مزید ابتر ہوجائے گی اور کم نمو کی وجہ سے یونین بجٹ کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی کیونکہ آمدنی کی کمی سے مالیاتی خسارہ بھی بڑھے گا۔ گزشتہ ہفتہ شائع شدہ آفیشیل ڈاٹا بتاتا ہے کہ خوردہ شرح مہنگائی دسمبر میں 5.7فیصد پر آگئی ہے۔ یہ مسلسل چوتھا مہینہ ہے جب خوردہ مہنگائی قابو میں رہی اگرچہ 2022میں افراط زر بڑی کہانی بنی ہوئی تھی۔ افراط زر کی اونچی سطح نے لوگوں کی قوت خرید کو تباہ کردیا ہے۔ بھارت کا تجارتی خسارہ بڑھ گیا ہے اور روپے کی قیمت اور قدر گھٹ گئی اور اسے روکنے کے لیے فوریکس ریزرورس سے آر بی آئی کو خرچ کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ 2022کے دسمبر میں تھوک شرح مہنگائی میں بڑی تنزلی منظر عام پر آئی ہے جو بائیس مہینوں کی سب سے نچلی سطح یعنی 4.8فیصد پر ہے ۔ گزشتہ سال نومبر میں 2021میں ہول پرائس انڈیکس 1427فیصد تھا۔ تھوک مہنگائی کا طویل مدت تک بڑھے رہنا باعث تشویش ہوتا ہے کیونکہ یہ پروڈکٹیو سیکٹر کو متاثر کرتا ہے۔
اگر یہ زیادہ دنوں تک اونچائی پر رہتی ہے تو پروڈیوسر اسے کنزیومرس کو منتقل کردیتے ہیں۔ حکومت محض ٹیکس کے ذریعے ہول سیل پرائس انڈیکس (ڈبلیو پی آئی) کو کنٹرول کرسکتی ہے۔ مثلاً خام تیل میں تیز اضافہ کے مدنظر حکومت نے ایندھن پر اکسائز ڈیوٹی میں کٹوتی کی تھی حالانکہ حکومت کی ٹیکس کی کٹوتی کی ایک حد ہوتی ہے۔ ڈبلیو پی آئی میں بڑھوتری کااثر زیادہ تر دھات، کیمیکل اور پلاسٹک ربر جیسی فیکٹری سے منسلک اشیا پر ہوتا ہے۔ دراصل تھوک شرح مہنگائی میں گراوٹ کی اہم وجہ خوردنی اشیاء کی مہنگائی میں گراوٹ ہے۔ مگر کچھ اشیاء ایسی بھی ہیں جن کی قیمت کم نہیں ہوئی۔
بلاشبہ ہمارے ملک کی شرح نمو بہتر ہے۔ مگر اس پر بھی عالمی کساد بازاری کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔ واضح رہے کہ پونے میں جی 20کے پہلے انفراسٹرکچر ورکنگ گروپ (آئی ڈبلیو جی) کے اجلاس کا افتتاح کرنے کے بعد ایم ایس ایم ای کے مرکزی کابینہ وزیر نارئن رانے نے کہا کہ چھ ماہ بعد بھارت میں کساد بازاری آسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی قیادت والی حکومت اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کررہی ہے تاکہ عالمی اقتصادی مندی سے متاثرہ شہریوں کو بچایا جاسکے۔ وزیر نے کہا کہ بھارت کی شرح نمو صحیح راستے پر گامزن ہے۔ اس کا دنیا میں دسواں مقام ہے اور یہ بہتر ہوکر 2030تک پانچویں پوزیش پر آسکتا ہے۔ رانے نے گلوبل اکانومی پربات کرتے ہوئے کہا کہ کساد بازاری کے اثرات بڑی معاشی قوتوں، امریکہ اور یوروپی یونین ممالک پر زیادہ پڑیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت کی معاشی نمو پر گلوبل ریسیشن کے اثرات سے تنزلی آسکتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بھارت کی شرح نمو سالانہ بنیاد پر دس فیصد ہو اور نوجوان کے لیے روزگار بھی مہیا ہو مگر چار سے پانچ فیصد کی جی ڈی پی کی شرح نمو سے سستی جیسے حالات ہوسکتے ہیں۔
ڈاوس میں ہونے والی عالمی معاشی فورم (آئی ای ایف) کی سالانہ کانفرنس کے پہلے آکسفیم انٹرنیشنل کے مطالعہ میں اس بات کا پتہ چلا کہ بھارت کے سب سے امیر ایک فیصد لوگوں کے پاس کل دولت کا چالیس فیصد حصہ ہے۔ وہیں نچلے طبقے کے پاس کل تین فیصد حصہ ہی ہے۔ آکسفیم کے ذریعہ جاری کردہ سالانہ عدم مساوات رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں خواتین محنت کشوں کو مرد محنت کشوں کے ایک روپے کے مقابلے میں 63 پیسے ہی ملتے ہیں۔ دیہی محنت کشوں و محروم طبقوں کے لیے یہ فرق اور بھی زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق غربا، امراء کے مقابلے میں زیادہ ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں وہ ضروری اشیا اور خدمات پر زیادہ ہی خرچ کرتے ہیں۔ اس لیے اب ضروری ہوگیا ہے کہ امیروں پر زیادہ ٹیکس لگائے جائیں۔ فائٹ ان اکوالیٹی الائنس انڈیا کے ذریعہ 2021میں کرائے گئے ملک گیر سروے کا حوالہ دیتے ہوئے آکسفیم نے بتایا کہ 80فیصد لوگ ان امیروں اور کمپنیوں پر اضافی ٹیکس لگانے کی حمایت کرتے ہیں۔ وہیں 90فیصد لوگوں نے سماجی، سلامتی صحت کے حقوق اور جنسی تشدد کو روکنے اور عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے بجٹ بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر دس میں سے نو رئیسوں کی دولت میں اضافہ ہوا ہے جبکہ دنیا میں دس میں سے محض چار رئیسوں کی ہی دولت بڑھی ہے اس طرح کورونا کے آغاز سے نومبر 2022تک ملک میں ارب پتیوں کی دولت میں 121فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ وہیں بھوکے لوگوں کی تعداد انیس کروڑ سے بڑھ کر پینتیس کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ ارب پتیوں کی تعداد 2021 میں 102سے بڑھ کر 142تک پہنچ گئی ہے ۔ مذکورہ فارم میں پہلے دن براول آف دی ریچسٹ کو شائع کرکے آکسفیم نے امیر و غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے ترقی پسند ٹیکس روشناس کرنے کی سفارش کی ہے۔ کورونا بحران کے دوران 4.6کروڑ لوگ انتہائی غربت کا شکار ہوئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کو ایک فیصد ٹیکس بھی مل جائے تو اسے پچاس ہزار کروڑ روپے وصول ہوں گے جس سے ملک کے تمام لوگوں کو مفت ویکسین فراہم کی جاسکتی ہے۔ بھارت کے سو ارب پتیوں پر 2.5فیصد یا اس فہرست سے پہلے دس فیصد ارب پتیوں پر پانچ فیصد ٹیکس عائد کرنے سے اتنی رقم حاصل ہوگی کہ ترک تعلیم کرنے والے بچوں کو دوبارہ اسکول بھیجا جاسکتا ہے۔ 2017-21کے درمیان گوتم اڈانی کی دولت پر ٹیکس عائد کرنے سے 1.79لاکھ کروڑ جمع ہوں گے اور اس سے ملک کے پچاس لاکھ پرائمری اساتذہ کی ایک سال کی تنخواہ دی جاسکے گی۔ اس طرح ملک کے تمام ارب پتیوں پر دو فیصد ٹیکس لگادیا جائے تو 40423کروڑ روپے حاصل ہوں گے جس سے ملک میں غذائی قلت کے شکار بچوں کو آئندہ تین سالوں تک تغذیہ بخش مقوی غذا فراہم کی جاسکتی ہے۔
***

 

***

 کورونا کے آغاز سے نومبر 2022تک ملک میں ارب پتیوں کی دولت میں 121فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ وہیں بھوکے لوگوں کی تعداد انیس کروڑ سے بڑھ کر پینتیس کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ ارب پتیوں کی تعداد 2021 میں 102سے بڑھ کر 142تک پہنچ گئی ہے ۔ مذکورہ فارم میں پہلے دن براول آف دی ریچسٹ کو شائع کرکے آکسفیم نے امیر و غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے ترقی پسند ٹیکس روشناس کرنے کی سفارش کی ہے۔ کورونا بحران کے دوران 4.6کروڑ لوگ انتہائی غربت کا شکار ہوئے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 فروری تا 11 فروری 2023