فلسطینی نژاد رہنما نائب بوکیلے ۔۔

جنہوں نے ایل سلواڈور کو جرائم کی آندھی سے نجات دلائی

0

محمد مجیب الاعلیٰ

امن کے دشمنوں کے خلاف کامیابی مگر انسانی حقوق کی پامالی پر تنقیدیں!
ایل سلواڈور، لاطینی امریکہ کا وہ چھوٹا سا ملک جو کبھی دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سرِفہرست تھا، آج دنیا کے محفوظ ترین ملکوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ اس انقلابی تبدیلی کے پیچھے جس شخصیت کی قیادت کارفرما ہے، وہ ہے فلسطینی نژاد صدر، نائب بوکیلے۔ ان کی کمان میں جس انداز سے گینگ مافیا، قتل و غارت گری اور اغوا جیسے جرائم پر قابو پایا گیا، عالمی سطح پر اسے ایک غیر معمولی کامیابی کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ اس کے ساتھ کئی بنیادی سوالات اور اخلاقی الجھنیں بھی جڑی ہوئی ہیں۔
نائب بوکیلے 1981 میں سان سلواڈور کی سرزمین پر پیدا ہوئے—ایک ایسا شہر جو خود اپنی سیاسی ہنگامہ خیزیوں اور جرائم کی داستاں اپنے اندر لیے ہوئے تھا۔ ان کے والد ایک معروف فلسطینی نژاد تاجر اور مقامی سطح پر ایک باوقار سماجی رہنما تھے، جن کی شخصیت میں کاروباری بصیرت اور سماجی فہم و فراست کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا تھا۔
بوکیلے نے قانون کی تعلیم کا آغاز کیا، لیکن وہ روایتی علمی زینوں سے گزرنے کے بجائے جلد ہی عملی میدان کا رُخ کرتے ہوئے اپنے والد کے کاروبار سے وابستہ ہو گئے۔ ان کا سیاست میں آنا محض کسی اقتدار کی خواہش کا شاخسانہ نہیں تھا، بلکہ وہ ایک ایسی سوچ کے نمائندہ بن کر ابھرے جو ملک کی پرانی اور تھکی ہاری سیاست سے بیزار ہو چکنے والے عوام کے لیے تازگی کی ایک کرن ہی نہیں، بلکہ نئی صبح کی نوید ثابت ہوئی۔
2019 میں "نیو آئیڈیاز” (Nuevas Ideas) پارٹی کے پلیٹ فارم سے بوکیلے کی فتح محض ایک انتخابی کامیابی نہیں تھی بلکہ یہ ایل سلواڈور کی سیاست میں ایک نئے عہد کا آغاز تھی—ایسا عہد، جس میں پرانی اور تھکی ہاری جماعتوں کی جگہ ایک تازہ فکر نے نئی ہوا چلا دی۔ بوکیلے روایتی سیاست دانوں کی صف سے نہیں بلکہ امید کے ایک ایسے چراغ کی مانند ابھرے جنہوں نے تبدیلی اور اصلاحات کا علم بلند کیا۔ ان کے دعوے محض خطیبانہ نعرے نہیں تھے بلکہ ان میں عمل کی خوشبو اور ارادے کی صداقت تھی۔
اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے اس وعدے پر عمل کا آغاز کیا جسے وہ انتخابی مہم کے ہر پڑاؤ پر دہراتے آئے تھے—کہ وہ ملک کو جرائم کے چنگل سے نجات دلائیں گے۔ اور یہ پیش قدمی بھی محض سرکاری بیانات تک محدود نہ رہی بلکہ انہوں نے وہ کچھ کیا جس پر دنیا نے بیک وقت حیرت، تحسین اور تشویش کی نظریں ڈالیں۔
2022 کا سال ایل سلواڈور کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی سال ملک گیر ہنگامی حالت نافذ کی گئی اور گینگ کلچر کی بیخ کنی کے لیے ریاست نے وہ آہنی ہاتھ دکھایا جو پہلے کبھی دکھائی نہیں دیا تھا۔ ہزاروں مشتبہ افراد کو بغیر مقدمے کے حراست میں لے لیا گیا۔ پھر وہ اقدام سامنے آیا جو جدید دنیا کی جیلوں کی تاریخ میں عدیم المثال ہے یعنی —CECOT کی تعمیر: ’دہشت گردی کی قید کا مرکز‘۔
اس وسیع وعریض قید خانہ میں چالیس ہزار خطرناک قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔ جیل کا نظم نہایت سخت ہے۔ ہر وقت روشنیاں جلتی رہتی ہیں تاکہ قیدی وقت کا احساس کھو بیٹھیں، وکلا یا اہل خانہ سے ملاقات کی سہولت تقریباً ناپید ہے، خوراک و پوشاک پر سخت پہرے ہیں اور نظم و ضبط کا اطلاق گویا کسی فوجی کیمپ کے انداز میں ہوتا ہے۔
ان اقدامات کے نتائج نہایت مؤثر ثابت ہوئے۔ 2015 میں جہاں قتل کی شرح 100,000 افراد پر 103 تھی، وہ 2024 میں کم ہو کر صرف 1.9 رہ گئی — جو نہ صرف ایل سلواڈور بلکہ پورے لاطینی امریکہ میں سب سے کم شرح ہے۔ عوامی سطح پر سکون کا احساس بحال ہوا ہے، لوگ رات کو بے خوف گھر سے نکلتے ہیں، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بوکیلے آج بھی عوام میں بےحد مقبول ہیں۔
مگر اس کے ساتھ تصویر کا دوسرا رُخ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، اقوام متحدہ، اور ہیومن رائٹس واچ جیسے اداروں نے مسلسل ان اقدامات پر تنقید کی ہے۔ ان کے مطابق قیدیوں کو قانونی تحفظ حاصل نہیں، انہیں بغیر عدالتی کارروائی کے طویل مدت تک قید میں رکھا جاتا ہے، اور بعض معاملات میں تشدد کے شواہد بھی سامنے آئے ہیں۔ ان اداروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ نتائج قابلِ ستائش ہیں، مگر ان کا طریقِ کار بین الاقوامی انسانی قانون کے اصولوں سے متصادم ہے۔
اب سوال یہ نہیں کہ نظم و نسق کیسے قائم کیا جائے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس کے لیے بنیادی انسانی حقوق کو قربان کیا جا سکتا ہے؟ کیا عوامی سلامتی کی خاطر عدل و انصاف کے فطری تقاضوں کو درکنار کیا جاسکتا ہے؟ یہ سوالات صرف بوکیلے کی پالیسیوں تک محدود نہیں بلکہ ہر اس رہنما کے لیے ایک فکری آزمائش ہیں جو کسی بحران زدہ ریاست کو نئی زندگی دینے کا خواب دیکھتا ہے، اور سوال یہ بھی ہے کہ آیا یہ نئی زندگی، انسانیت کی روح کو سلامت رکھتے ہوئے ممکن ہے؟ اسلامی تاریخ میں خلفائے راشدین سے لے کر بعد کے کئی حکم رانوں تک جرم کے سد باب کے لیے سخت تعزیرات نافذ کی گئیں، لیکن ان کی بنیاد عدل، شفافیت اور فرد کے حقوق پر رکھی گئی۔ اگر نائب بوکیلے بھی اپنے سخت اقدامات کے ساتھ ان اصولوں کو ملحوظ رکھتے تو ان کی کامیابی دنیا بھر کے لیے ایک روشن مثال بن جاتی۔ لہٰذا بوکیلے پر ہونے والی تنقید کو مکمل طور پر بے جا قرار دے کر مسترد نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس میں وہ اصولی نکتہ پوشیدہ ہے جسے کسی بھی مہذب معاشرہ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور وہ ہے ’’اگر طاقت انصاف سے خالی ہو تو وہ ظلم بن جاتی ہے‘‘۔ تاہم، یہ کہنا بھی خلافِ واقعہ نہ ہوگا کہ بوکیلے نے جس معاشرے کو جرائم کی آگ سے نکال کر امن کی راہ پر ڈالا، اس کے لیے غیر روایتی اور سخت فیصلے بظاہر ناگزیر تھے۔ فلسطینی نژاد اور ایک اسلامی پس منظر رکھنے کے باعث بعید نہیں کہ ان کے پیش نظر اسلام کا وہ تادیبی نظام رہا ہو، جس کے ذریعے سماج میں جرائم کی بیخ کنی اور امن و انصاف کا قیام ممکن بنایا گیا تھا۔ اگرچہ بوکیلے نے جرائم کے خلاف ایک مؤثر ماڈل پیش کیا، تاہم اگر وہ اپنے اقدامات میں عدالتی شفافیت، قانونی تحفظ اور انسانی وقار کو بھی ملحوظ رکھتے تو ان کا ماڈل صرف ایل سلواڈور کے لیے نہیں، بلکہ دنیا بھر کے معاشروں کے لیے قابلِ تقلید مثال بن سکتا تھا۔

 

***

 CECOT:ایل سلواڈور کی خوفناک جیل
مکمل نام: Centro de Confinamiento del Terrorismo
(دہشت گردی کی قید کا مرکز)
گنجائش : 40,000 خطرناک قیدیوں کے لیے گنجائش
مقام : ٹیکولوکا، سان ویسنٹے، ایل سلواڈور
افتتاح: فروری 2023
نگرانی : 600سے زائد کیمرے، 24/7سخت نگرانی
روشنی: جیل میں ہر وقت لائٹیں آن رہتی ہے تاکہ دن اور رات کا احساس نہ ہو
قانونی رسائی: وکیل یا اہلِ خانہ سے ملاقات کی اجازت نہ ہونے کے برابر
خوراک و لباس: محدود اور سخت ضابطوں کے تحت
ضابطۂ اخلاق: قیدیوں کو فوجی نظم و ضبط میں رکھا جاتا ہے
بین الاقوامی سطح پر تنقید
انسانی حقوق کی تنظیموں نے CECOT کو "غیر انسانی” اور "قانونی تحفظ سے محروم” قرار دیا ہے
اقوام متحدہ اور ہیومن رائٹس واچ نے خبردار کیا ہے کہ بغیر مقدمے طویل قید، قانونی امداد کی کمی اور سخت رویہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 مئی تا 31 مئی 2025