فلسطین محض ایک سر زمین نہیں، ایک اصول اور آزمائش ہے

ایران اور جنوبی افریقہ کی جرأت مندی کو خراج۔ دلی میں فلسطین یکجہتی کانفرنس

نئی دلی ( دعوت نیوز ڈیسک)

امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی، سفراء اور دانشوروں کا اظہار خیال
غزہ محض ایک سر زمین نہیں بلکہ ایک اصول ہے جو انسانیت کے ضمیر کو للکار رہا ہے۔ ایک ایسا اصول جو یاد دلا رہا ہے کہ چاہے محاصرہ ہو یا بمباری، عزت کا سودا نہیں کیا جا سکتا اور ظلم کے سامنے جھکنا عزت نہیں ذلت ہے۔ یہ جدوجہد جغرافیے کی نہیں، ضمیر کی ہے۔ یہ تحریک کسی قوم کے حقِ خود داریت سے آگے بڑھ کر پوری تہذیب کے لیے ایک آزمائش ہے کہ آیا انسانیت آج بھی حق و انصاف، عدل اور وقار کے لیے کھڑے ہونے کا حوصلہ رکھتی ہے یا نہیں؟ فلسطین کا مقدمہ مظلوم اقوام کی اس اجتماعی صدا کا ترجمان ہے جو باطل کے بالمقابل سچ کی پکار بن کر ابھرتی ہے۔ یہ باتیں امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں منعقدہ فلسطین یکجہتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ اس کانفرنس کا اہتمام ’انڈین مسلمس فار سِول رائٹس‘ (IMCR) اور ’انڈیا-فلسطین فرینڈشپ فورم‘ کے اشتراک سے کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس سے فلسطینی سفیر ڈاکٹر عبداللہ ابو شواش، ایرانی سفیر ڈاکٹر ایراج الٰہی، سابق مرکزی وزراء منی شنکر ایّر، سلمان خورشید، سابق لیفٹیننٹ گورنر دہلی نجیب جنگ اور سابق رکن پارلیمنٹ و IMCR صدر محمد ادیب سمیت کئی اہم شخصیات نے خطاب کیا۔
امیر جماعت نے ایران اور جنوبی افریقہ کی فلسطینی کاز سے وابستگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایران نے عالمی پابندیوں اور تنہائی کے باوجود فلسطین کی حمایت جاری رکھی اور جنوبی افریقہ نے نسل پرستی کے خلاف قانونی جنگ جیتنے کے بعد بین الاقوامی عدالت میں فلسطینیوں کے حق میں مقدمہ دائر کر کے اخلاقی جرأت کی نئی مثال قائم کی۔
انہوں نے واضح کیا کہ غزہ میں جو ہو رہا ہے وہ محض ایک جنگی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ اقوامِ عالم کو عدم استحکام میں جھونکنے، سرحدوں کی نئی نقشہ کشی کرنے اور آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کی ایک منظم بین الاقوامی سازش ہے۔
جناب سعادت اللہ حسینی نے اسرائیلی جارحیت پر عالمی طاقتوں کی خاموشی کو ’’ضمیر کا انہدام‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک لاکھ سے زائد فلسطینی شہری شہید ہو چکے ہیں، جن میں بچے، خواتین، اور بزرگ شامل ہیں۔ ریلیف کارکن مارے جا چکے ہیں، دواخانے کھنڈر بن چکے ہیں، اور ستر فیصد بے گھر بچے قطار میں کھڑے ہوکر پیدا ہوئے ہیں، مگر دنیا کی طاقتور اقوام تماشائی بنی ہوئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ سفارت کاری کی ناکامی نہیں ہے بلکہ یہ انسانیت کی مکمل ناکامی ہے۔ یہ ضمیر کی شکست ہے۔
انہوں نے ہندوستانی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا تاریخی کردار ہمیشہ مظلوموں کی حمایت، نسل پرستی کی مخالفت اور فلسطین کے حق میں اقوام متحدہ میں ووٹ دینے پر مبنی رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت اپنے اس اخلاقی قبلے کی طرف واپس لوٹے۔
انہوں نے کہا ’’ہماری خارجہ پالیسی سیاسی مصلحتوں کے بجائے آئینی قدروں اور تہذیبی میراث سے رہنمائی حاصل کرے۔ کیونکہ نسل کشی کے وقت غیر جانبداری درحقیقت ظلم میں شراکت داری ہے۔‘‘
انہوں نے عالمی جنوب (Global South) سے اپیل کی کہ وہ صرف سیاسی اتحاد نہیں بلکہ اخلاقی اتحاد بن کر ابھرے۔ فلسطین، ایران اور جنوبی افریقہ کی استقامت نے نہ صرف عالمی سامراجی قوتوں کے منصوبوں کو بے نقاب کیا ہے بلکہ دُہرے معیارات رکھنے والی طاقتوں کی قلعی بھی کھول دی جو آزادی کی تبلیغ تو کرتے ہیں مگر حقیقت میں نسل پرستی اور جارحیت کو فروغ دیتے ہیں۔
اپنے خطاب کے اختتام پر انہوں نے کہا ’’یہ تقریب رسمی نہ بنے بلکہ ایک مسلسل تحریک کا نقطہ آغاز بنے۔ ہر گلی، ہر کلاس روم، ہر پارلیمنٹ اور ہر میڈیا پلیٹ فارم سے فلسطین کے حق میں آواز اٹھائی جائے۔ خاموشی کو توڑنا ہوگا، کیونکہ خاموشی اب غیر جانب داری نہیں بلکہ خیانت ہے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’ہم حق، مزاحمت اور ضمیر کے ساتھ کھڑے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب القدس آزاد فضاؤں میں سانس لے گا۔‘‘
فلسطینی سفیر جناب عبداللہ ایم ابو شاوش نے اپنے خطاب میں فلسطین کی جدوجہد آزادی کو 1857ء کی بھارتی بغاوت سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ’’ایک فرد بھی دنیا بدل سکتا ہے۔ ہمیں سوشل میڈیا اور فون کے ذریعے دنیا کو یاد دلاتے رہنا ہوگا کہ فلسطین میں مسلسل نسل کشی اور جنگی جرائم ہو رہے ہیں۔‘‘
غزہ سے ممکنہ نقل مکانی کے سوال پر ان کا واضح جواب تھا ’’غزہ کی نقل مکانی کبھی نہیں ہوگی۔‘‘
ایران کے سفیر ڈاکٹر ایراج الٰہی نے اپنے خطاب میں اس دعوے کی تردید کی کہ ایران نے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کی درخواست کی تھی۔ انہوں نے کہا ’’درخواست اسرائیل کی طرف سے آئی تھی، ایران کی طرف سے نہیں۔ ہماری عسکری کارروائی ایک منظم اور تدریجی حکمتِ عملی کا حصہ تھی جو بارہویں دن کے بعد زیادہ مؤثر ہوگئی۔ اسرائیل نے ابتدائی حملے تو شدید کیے لیکن وہ انہیں برقرار نہیں رکھ سکا۔ وہ ایران میں عوامی بغاوت کی توقع رکھتا تھا لیکن یہ تنازعہ الٹا ایرانی قوم کو متحد کر گیا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا ’’فلسطین صرف ایک اسلامی یا عرب مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک عالمی انسانی مسئلہ ہے، جو بین الاقوامی حمایت کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘
سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید نے کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے ایران اور فلسطین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا اور بھارت کی تاریخی اخلاقی پوزیشن کو یاد دلایا۔ انہوں نے کہا ’’ہماری خاموشی محض سیاسی مصلحت نہیں بلکہ ایک ذہنی کشمکش کا نتیجہ ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ‘مصلحت’ کی زنجیریں توڑ کر سچائی اور انصاف کی طرف لوٹیں۔‘‘
سابق مرکزی وزیر منی شنکر ایّر نے 7 اکتوبر کے بعد سے بھارت کی خاموشی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ’’اقوامِ متحدہ جیسے فورموں پر بھارت میں وہ اخلاقی جرأت نظر نہیں آئی جو ہماری شناخت رہی ہے۔‘‘
انہوں نے 1947ء میں نہرو کے اس تاریخی موقف کو یاد دلایا کہ بھارت واحد غیر مسلم ایشیائی ملک تھا جس نے فلسطین کی تقسیم کی مخالفت کی تھی۔
ایّر نے زور دیا کہ ’’نہرو کا ویژن ہندوستانی مسلمانوں کی برابری، بقائے باہمی اور امن پر مبنی تھا — اور ہمیں اسی راہ پر واپس آنا ہوگا۔‘‘
سابق لیفٹننٹ گورنر نجیب جنگ نے فلسطینیوں کی حالت زار کو ’’ہولوکاسٹ سے بھی بدتر‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے 1948ء کے نکبہ کو یاد دلاتے ہوئے کہا:
’’اس وقت سات لاکھ پچاس ہزار فلسطینی بے دخل کیے گئے تھے۔ آج بھی گاؤں، کیمپ، دواخانے اور مکانات تباہ ہو رہے ہیں۔ یہ جنگ نہیں بلکہ بربریت ہے۔‘‘
انہوں نے خبردار کیا کہ ’’خاموشی دراصل شریکِ جرم ہونے کے مترادف ہے اور غیر جانب داری، ظلم کی تائید بن جاتی ہے۔‘‘
آئی ایم سی آر کے صدر اور سابق رکن پارلیمنٹ محمد ادیب نے مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے جنوبی افریقہ، ایران اور فلسطین کو سراہا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’’گاندھی کے ملک میں ہم کس طرح جنگی جرائم اور نسل کشی پر خاموش رہ سکتے ہیں؟‘‘
دیگر مقررین میں پروفیسر نندیتا نارائن (سابق پروفیسر، دہلی یونیورسٹی)، پروفیسر اپوروانند، رکن پارلیمنٹ محی الدین ندوی اور انڈیا-فلسطین فرینڈشپ فورم کی پرکریتی شامل تھیں۔ تقریب کی نظامت ندیم خان نے انجام دی۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 جولائی تا 27 جولائی 2025