فلسطین لہولہو ۔ مغربی ممالک کھل کر اسرائیلی دہشت گردی کے حق میں

حماس کے حملوں نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم توڑ دیا

ندیم خان،بارہمولہ کشمیر

فلسطین میں اطلاعات کے مطابق (تادم تحریر ) اسرائیل کی فضائیہ بمباری اور زمینی دستوں کی کارروائی سے 2000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور 3700 سو سے زیادہ شدید زخمی ہیں۔ فلسطینی اس خدشے کا شکار ہیں کہ اسرائیل عرب خصوصاً خلیجی ممالک ( یو اے ای، بحرین اور سعودی عرب) کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لا کر فلسطینیوں کو تنہا کر کے مغربی کنارے کو ہڑپ لے گا۔ یہ امر قابل تشویش ہے کہ اسرائیل نے عالم عرب کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے سعودی عرب، یو اے ای اور بحرین کے علاوہ قطر اور مسقط و عمان کو بھی چنا ہے۔ عام طور پر اس کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ ایران کے خلاف ہمنوا ممالک کی صف بندی اور تیل کی برآمد سے حاصل ہونے والی آمدنی سے مالا مال ریاستوں کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون سے اسرائیل کی تیزی سے گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینا۔ اسرائیل اپنے قیام سے ہی نہ صرف دفاعی بلکہ معاشی لحاظ سے بھی بیرونی امداد، خصوصی طور پر امریکی امداد کا محتاج رہا ہے کیونکہ اسرائیل بنیادی طور پر قدرتی یا معدنی ذخائر کا ملک نہیں ہے۔ امریکہ کے ساتھ انتہائی قریبی دفاعی اور معاشی تعلقات اسرائیل کے وجود کے ضمانت رہے ہیں مگر 2008 کے مالی بحران کے اثرات سے امریکی معیشت ابھی تک باہر نہیں نکل سکی ہے اور ان حالات میں اب اس کے لیے اسرائیل کی (جو امریکی امداد وصول کرنے والے ممالک میں ہمیشہ پہلے نمبر پر ہوتا تھا) اس سطح پر مالی امداد جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے اب وہ امیر عرب ممالک کی منڈیوں کی طرف رجوع ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ کئی برسوں سے یہ خلیجی عرب ممالک فلسطینی Diaspora کے گڑھ چلے آرہے ہیں۔ اس کی وجہ سے خلیج کے امیر عرب ممالک نہ صرف حماس کے لیے فنڈز فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں بلکہ ان ممالک میں مختلف عہدوں پر موجود فلسطینی ان ممالک کی علاقائی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اسرائیل خلیجی عرب ممالک میں سرایت کر کے فلسطینیوں کو ان کے ایک اہم ذریعہ سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ خلیج فارس بحر ہند کا ایک اہم حصہ ہے، اس میں قدم جما کے اسرائیل جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا کے علاوہ مشرقی افریقہ کی جیوپولیٹکس میں ایک اہم شراکت دار بننا چاہتا ہے۔ فلسطینی اسرائیلیوں کے ان عزائم سے آگاہ ہیں اور انہیں ناکام بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ فلسطین میں اسرائیل اور حماس کے درمیان ماضی میں بھی متعدد جھڑپیں ہو چکی ہیں مگر موجودہ جنگ اس لیے بھی زیادہ اہم ہے کہ یہ اسرائیل کی طرف سے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے موقع پر چھڑی ہے لیکن فلسطین جیسا دیرینہ مسئلہ حل کیے بغیر عرب اسرائیل مصالحت کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔
وہیں فلسطین کے حق میں جتنے بھی ممالک کھڑے ہیں ان کے بیانات میں ایک قدر مشترک ہے، وہ یہ کہ سبھی نے اس متنازع اور طویل عرصے سے جنگی کیفیت کے شکار علاقے میں مستقل امن کے لیے دو ریاستوں کے قیام ہی کو اس مسئلے کا حل قرار دیا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس سے کم اس مسئلے کا حل اب نظر بھی نہیں آتا، جبکہ فلسطینیوں کے مزاحمتی وار سے پہلے ایسا کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا، بلکہ یوں کہیں کہ ایسا کچھ ہونے کا امکان بھی ختم ہو چکا تھا۔ اسی طرح پورے مشرق وسطی کے واحد بڑے لیڈر کے طور پر اسرائیل میدان میں اپنے قدم جما چکا تھا اور اس کے وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں ایک نیا معاشی منصوبہ بھی پیش کر دیا تھا جس میں بھارت سے مشرق وسطیٰ اور پھر یورپ کی جانب ایک معاشی کوریڈور بنایا جانا تھا۔ اس کا نقشہ بھی سامنے آچکا ہے۔ اس منصوبے میں چین کے اپنی معاشی سرگرمیوں کے لیے بنائے گئے منصوبوں اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا ایک متبادل پیش کیا گیا تھا اور یہ منصوبہ کھلم کھلا چین کی معاشی وسعت کے لیے ایک چیلنج تھا۔ مشرق وسطی سے جنوبی ایشیا تک اس جنگ کے اثرات جس خطے میں مرتب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں وہ جنوبی ایشیا ہے۔ جنوبی ایشیا سے مراد بنیادی طور پر بھارت، پاکستان اور نیپال ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان بھی ہے جو تکنیکی طور پر جنوبی ایشیا ہی کا حصّہ ہے۔
حماس کی طرف سے اسرائیل پر حملہ اتنا شدید تھا کہ اسرائیل دہل کر رہ گیا۔ بہت سے لوگ اس پلاننگ پر دنگ ہیں کہ کس طرح حماس نے دنیا کی ایک بڑی طاقت کو بالکل بے بس کر دیا۔ اسرائیل کے پاس ہر طرح کی جدید ٹیکنالوجی ہے، وہ اسلحے کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا ہے جبکہ مغربی ممالک کی پشت جس طرح بھی اسے حاصل ہے۔ حماس کے پاس جذبہ حریت تو ہے لیکن وسائل موجود نہیں ہیں۔ اس کے باوجود اس کے جنگجو جس میدان میں اترے وہ مناظر بہت ہی حیران کن تھے۔ حماس نے خشکی، فضا اور سمندر، تینوں اطراف سے بیک وقت حملہ کیا۔ حماس کے اچانک حملے نے اسرائیل کو حواس باختہ کر دیا۔ حماس نے بڑی تعداد میں میزائل اسرائیل کی طرف داغے اور اس کی آئرن ڈوم ٹیکنالوجی ان میزائلوں کے سامنے بے بس نظر آئی۔ اس کے ساتھ زمینی اور آبی راستوں سے بھی حملہ بھی کیا گیا۔ حماس نے بلڈوزروں کے ذریعے خار دار تاروں کو ہٹایا، اسرائیلی ناکوں کو عبور کیا اور اسرائیلیوں کو ان کے علاقوں میں گھس کر نشانہ بنایا۔ کچھ جنگجو فضا سے پیراشوٹ کے ذریعے کچھ کشتیوں سے اور کچھ موٹر سائیکلوں کے ذریعے اسرائیل میں داخل ہوئے۔ پیراشوٹ والے جنگجوؤں کو دیکھ کر ساری دنیا دنگ رہ گئی کیونکہ انہوں نے میزائل حملوں اور فائرنگ کے دوران اسرائیل میں لینڈ کیا تھا۔ اسرائیل نے اب خود کو حالت جنگ میں قرار دیا ہے۔ غزہ کے پاس سامانِ حرب تو بہت کم ہے لیکن جذبہ ایمانی بہت ہے۔ اسی کے زور پر وہ اپنے علاقے اسرائیل سے واپس لینا چاہتے ہیں۔ اسرائیل نے حماس سے حملوں کا بدلہ غزہ کے نہتے عوام پر بمباری کر کے لیا ہے۔ غزہ پہلے ہی بے شمار بنیادی سہولتوں سے محروم ہے اور اس کو ایک بہت بڑی جیل قرار دیا جاتا ہے، رہی سہی کسر اسرائیل کے حملے پوری کر رہے ہیں۔ اسرائیل ہمیشہ فلسطین کی شہری آبادی کو نشانہ بناتا ہے۔ اب حماس نے وارننگ دی ہے کہ اگر شہریوں پر حملے نہ رکے تو وہ اسرائیل کے یر غمالیوں کو قتل کرنا شروع کر دیں گے۔ اس حملے کے دوران حماس نے سینکڑوں اسرائیلیوں کو یرغمال بنایا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کے وزیرا عظم بنجامن نیتن یاہو نے دھمکی دی ہے کہ اسرائیل کا جواب مشرق وسطی کی شکل بدل دے گا۔ جنگ بندی کے بجائے حالات کے مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے جس کا نشانہ عام شہری بنیں گے۔
فلسطین اور اسرائیل کے مابین جب بھی حالات شدت اختیار کرتے ہیں پوری دنیا اس تنازع کا حصہ بن جاتی ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں جبکہ مسلم ممالک فلسطین کی حمایت میں سامنے آتے ہیں۔ حالیہ فلسطین اسرائیل تنازع میں بھی دنیا واضح طور پر دو گروپوں میں بٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم سے رابطہ میں دفاعی تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اسرائیل کی مدد کے لیے امریکہ نے اپنا جنگی بحری بیڑہ روانہ کر دیا ہے۔ لڑاکا طیاروں کے اسکواڈرنز کو بھی خطے میں اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ جس سے جنگ طویل ہونے کا خدشہ ہے۔ اسی طرح فلسطین اور اسرائیل کے دیرینہ تنازع میں اب کئی مسلم قوتیں بھی کود پڑی ہیں۔ لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ، حماس کے حق میں اس جنگ کا حصہ بن چکی ہے۔ حزب اللہ کے درجنوں جنگجوؤں کے اسرائیل میں داخل ہونے کی اطلاعات ہیں۔ چین نے فلسطین اور اسرائیل کی کشیدگی پر آزاد فلسطین ریاست کے قیام کو تنازع کا حل قرار دیا ہے، وہ اس مقصد کے لیے سعودی عرب، امریکہ اور یورپی ممالک سے رابطے میں ہے۔ تاہم اس موقع پر سلامتی کونسل کے اہم اجلاس کا بے نتیجہ ختم ہونا افسوسناک ہے۔ امریکہ کی خواہش تھی کہ رکن ممالک حماس کے حملوں کی مذمت کریں مگر روس نے دیگر ملکوں سے اتفاق نہیں کیا بلکہ روسی سفیر نے مطالبہ کیا کہ سلامتی کونسل فلسطین سے متعلق دہائیوں پہلے معاہدے پر عمل کرے۔
ایسے میں عالمی سطح پر کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کے ناکام ہونے اور بات روایتی بیان بازی سے آگے نہ بڑھنے سے جانی نقصان کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ اسلامی تعاون تنظیم نے خطے میں کشیدگی کا ذمہ دار اسرائیل کو قرار دیتے ہوئے عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ سے اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس دوران سعودی عرب دو ریاستی حل پر زور دے رہا ہے۔ اسرائیل اپنی شرائط پر اور ان لاکھوں کے بغیر مسئلے کا حل نکالنا چاہتا ہے جو پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حالیہ تنازع جلد یا بدیر ختم ہو جائے گا کیونکہ حماس کے لیے طویل عرصہ تک اسرائیل کے خلاف لڑائی جاری رکھنا مشکل ہو گا۔ فلسطینیوں کو اس حوالے سے حماس خود بھی اشارہ دے چکا ہے کہ اس کا مقصد اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کا تبادلہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حماس نے جنگی حکمت عملی کے تحت اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنانے پر توجہ مرکوز رکھی۔
ابھی تک جو تصویر واضح ہوئی ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل کسی نہ کسی طور پر پچھلے قدموں پر چلا گیا ہے۔ اسرائیل کو ان حالات میں سب سے زیادہ نقصان نفسیاتی طور پر ہوا ہے۔ اس کا ناقابل تسخیر ہونے کا ایک بھرم کرچی کرچی ہو کر رہ گیا ہے۔ اسی طرح اس کو فلسطین کے عوام کے سامنے بھی ایک سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسرائیل جوابی حملے کر کے دہشت گردی اور جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے اور کھسیانی بلی کھمبا نوچے کی طرح اب نہتے لوگوں پر وار کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے طے کردہ اصولوں کے تحت اگر جنگ میں بھی شہری آبادی کو نشانہ بنایا جائے تو یہ کھلی دہشت گردی ہے۔ اب یہ بات بھی واضح ہوتی نظر آرہی ہے کہ اب سب کچھ اسرائیل کی مرضی سے نہیں بلکہ کسی حد تک ایشیائی طاقتوں کی مرضی سے طے ہو گا۔ عالمی حکمرانی اور ورلڈ آرڈر کے اس سارے کھیل میں ایک بڑا اور فیصلہ کن موڑ آ چکا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس موڑ کے بعد ایک چوک بھی آجائے۔ واضح رہے کہ چوک ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں سے واپسی سمیت کسی بھی جانب مڑا جا سکتا ہے۔ اب جبکہ صورتحال نہایت تشویشناک ہو چکی ہے تو عالمی برادری کو فوری مداخلت کرنی چاہیے۔ حماس کے حملوں کا مقصد کیا تھا، یہ راز تو سامنے نہیں آسکا ہے البتہ مستقبل قریب میں سعودی عرب اور اسرائیل کے جو مذاکرات ہونے والے تھے، موجودہ حالات میں ان مذاکرات کا دروازہ بند ہوتا نظر آرہا ہے۔ فلسطین کی ایک قابلِ عمل اور خود مختار ریاست کا قیام 1967ء سے پہلے کی سرحدوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اس دیرپا مسئلے کا یہی حقیقی حل ہے۔ آج جبکہ دنیا جنگوں کو ترک کر کے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کر رہی ہے اس دوران نئے جنگی محاذ سے پوری دنیا متاثر ہو سکتی ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 اکتوبر تا 28 اکتوبر 2023