
‘فلسطین خالی کرو ایران کی صہیونیوں کو دو ٹوک وارننگ
اسرائیل اور اس کے ہمنواؤں کو ایران کا جرأت مندانہ جواب
پروفیسر ایاز احمد اصلاحی، لکھنؤ
صہیونیوں کی آہ و بکا؛ غزہ کا ظالم آج خود مظلوم بننے کی اداکاری میں مصروف؟
اسرائیل میں مہاجرین جیسا منظر:آبادکار بنکروں اور ہوائی اڈوں کی طرف بھاگنے پر مجبور
ایرانی قیادت کی ثابت قدمی سے اندازے ہی نہیں بیانیے بھی بدل رہے ہیں
گزشتہ دس دنوں سے عام طور سے اسرائیل میں صرف تباہ کن صبحیں ہی وہاں کے آبادکاروں کا استقبال کرتی رہی ہیں۔ لیکن 21 جون 2025 کو جب سے امریکہ نے ایران کے خلاف ایک غیر اعلان شدہ جنگ چھیڑ کر اس کے تین نیوکلیائی ٹھکانوں پر بمباری کی ہے، جس میں سب سے بڑی جوہری تنصیب فردو بھی شامل ہے، ایران نے اسرائیل کے لیے اس کے ہر پہر کو اتنا تباہ کن بنا دیا کہ میزائل کے خوف سے سڑکوں پر موت کا سناٹا چھایا ہوا ہے۔ صہیونی یہودی آباد کار یا تو مقبوضہ فلسطینی علاقے چھوڑ کر اپنے اصل ممالک، جس کے وہ اب بھی ایک شہری ہیں، کی طرف ہجرت کی تیاری میں ہیں یا پھر خوف و دہشت کی حالت میں سرکاری بنکروں تک محدود ہیں۔ اخباری ذرائع اور سوشل میڈیا کی بے شمار ویڈیوز جو عبرت ناک منظر پیش کر رہی ہیں وہ یہ ہے کہ یا تو یہ اسرائیلی اسرائیل کی گلیوں اور سڑکوں پر ایرانی میزائلوں سے بچنے کے لیے دن رات ادھر سے ادھر دوڑتے پھر رہے ہیں یا پھر سیکڑوں کی تعداد میں اپنا سروسامان لیے بنکر، ایر پورٹ اور میٹرو اسٹیشنوں کی طرف بھاگتے نظر آرہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بچاؤ کی کوئی اور سبیل نہ پاکر ایرانی حملوں کے خطرے کے باوجود بڑی تعداد میں ہجرت کرنے والے اسرائیلیوں کے لیے اسرائیلی حکومت کو تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے ایرپورٹ کھولنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
جیسا کہ ذکر آیا کہ امریکی جنگی طیاروں نے ایران میں تین جوہری مقامات کو اپنے جدید ترین اور خطرناک ترین جنگی جہازوں سے نشانہ بنایا ہے۔ اس کا مقصد کیا ہے، محض اسرائیل سے دیرینہ تعلق کی لاج رکھنا اور اندرونی صہیونی دباؤ کو پر سکون رکھنا یا مشترکہ صہیونی-امریکی استعماری دہشت گردی کا ایک اور مظاہرہ۔ اس غیر قانونی بمباری کا خفیہ مقصد جو بھی ہو، جس کا اعلان امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے گزشتہ اتوار کو بڑے فخر سے کیا ہے، اسی طرح 13 جون کو ایرانی شہروں پر اچانک کیے جانے والے اسرائیلی حملے جدید دور کی تاریخ میں کھلی دہشت گردی اور بربریت کی سب سے بڑی مثالوں میں شمار کیے جائیں گے۔ اسرائیل- ایران جنگ کے اس پہلو کا جائزہ آگے کسی اور موقع پر لیا جائے گا۔ فی الحال اس کے ذکر کی اہمیت یہ ہے کہ ایرانی جوہری تنصیبات پر یہ امریکی حملے اس خطہ اور عالمی امن کے لیے ہی نہیں خود اسرائیل کے لیے بہت مہلک ثابت ہوسکتے ہیں۔ جہاں یہ اس بات کا اعلان ہے کہ سارے بین اقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر سیمابی فطرت اور ناقابل اعتماد ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ باقاعدہ طور پر ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میں شامل ہو گیا ہے وہیں اس نے امریکہ کے سہارے ٹکےاسرائیل کے خلاف ایرانی قیادت کے غضب کو مزید بھڑکا نے کا کام کیا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس نے اپنے شدید ترین میزائل حملوں میں کئی گنا اضافہ کرتے ہوئے اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجانی شروع کردی ہے۔
اب آپ سب کو بھی اس کا علم ہے کہ ایران کی مزید خطرناک میزائلوں سے وہاں نئی تباہیوں کے سلسلے کا آغاز ہوگیا ہے۔ خبریں کچھ ایسی ہیں جس کے تجزیہ سے ایران کا یہ عظیم ارادہ سامنے آرہا ہے کہ وہ اسرائیل کی بساط لپیٹ کر اور اس کے باشندوں کو اپنے سابقہ وطنی ممالک واپس بھیج کر فلسطین اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کا مشن پورا کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح دہشت گرد حملوں کی شکل میں اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ کا رخ اور مقصد دونوں کو مظلوم فلسطینیوں کی غیر مشروط حمایت کے وسیع تر ہدف سے جوڑ کر ایرانی قیادت نے عظمت انسانی کو نئی بلندیاں عطا کی ہیں۔
ایران نے ان ظالم استعماری قوتوں کا اکیلا سامنا کرتے ہوئے بھی اسرائیل کو وہ دن دکھا دیا ہے جس کا اسے خوف تو تھا لیکن وہ اس سے غافل تھا کہ اتنی آسانی سے اور اتنی جلدی اسے اس کی کارستانیوں کی سزا کوئی اور نہیں سالہا سال سے پابندیوں میں جکڑا ایران جیسا ایک ملک دے گا جسے وہ لبنان، یمن اور غرب اردن سمجھنے کی غلط فہمی میں تھا ۔ حالانکہ انقلاب اسلامی کے قائد امام خمینی سے لے کر آیت اللہ خامنہ ای تک ایرانی رہنما اسرائیل کو ایران و فلسطین کے خلاف اس کے فتنوں اور دہشت گرد اقدامات پر پہلے سے متنبہ کرتے آرہے ہیں کہ ان حرکتوں کی وجہ سے وہ اسرائیل کا وجود بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ لیکن بے خبروں کی دنیا اسے محض بندر بھپکیاں ہی سمجھتی رہی ۔
اسرائیل گھٹنوں پر آچکا ہے
غزہ میں اپنی درندگی کی ساری مثالیں بھول کر اسرائیل بین الاقوامی فورموں پر جس طرح ایرانی حملوں سے اسرائیلی شہریوں کو پہنچنے والے نقصانات اور بین الاقوامی قوانین کی یاد دہانی کرا رہا ہے اور جس طرح اس کے شہروں کا خوبصورت نقشہ تیزی سے بگڑتا جارہا ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ ایران کے سامنے اسرائیل گھٹنوں پر آگیا ہے۔تڑپ رہا ہے۔ جنگ میں امریکہ کو گھسیٹنے کی تمام تدبیریں چل رہا ہے۔ لگتا ہے اس میں ایران کی نئی ساخت کی میزائلوں کی مار کو سہنے کی اب مزید صلاحیت باقی نہیں رہی ہے۔ اس وقت جنگی تجزیہ کاروں اور امریکہ کے فوجی ماہرین کا ماننا ہے کہ اسرائیل کے پاس خطرناک ایرانی میزائلوں کو آئرن ڈوم جیسے مداخلت کار ہتھیاروں سے ہوا میں ہی ناکارہ کرنے کی صلاحیت 90 فیصد سے گھٹ کر تقریباً 65 تک آگئی ہے جو آئندہ مزید کم ہوتی جائے گی اور اگر اس بیچ ایران کی راہ میں کوئی دوسری بڑی طاقت حائل نہیں ہوئی تو اسرائیل کو سچ میں دو میں سے کسی ایک کا سامنا کرنا پڑے گا،یا تو وہ اپنا وجود کھونے پر آمادہ ہوجائے یا پھر ایران کی شرطوں پر ہتھیار ڈال دے۔ صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل کے سبھی بڑے شہروں میں اس کے شہری سڑکوں پر چیخ و پکارکر رہے ہیں۔ وہ کبھی اپنے حکم رانوں کے خلاف غصہ دکھاتے پائے جارہے ہیں، تو کبھی اپنے مغرور و مکار وزیر اعظم نیتن یاہو پر لعنتیں بھیج رہے ہیں، تو کبھی ایران کا نام لے کر طرح طرح کی دُہائیاں دے رہے ہیں۔ لیکن ایران اس وقت نہ تو امریکہ کی دھمکیوں کو خاطر میں لا رہا ہے اور نہ ہی اسرائیل سے کسی فوری جنگ بندی معاہدے کے موڈ میں ہے۔ فی الحال تو وہ بس انسانیت کے اس سب سے بڑے مجرم اور اس کے پشت پناہوں کو سبق سکھانے اور فلسطینیوں کے تعلق سے اپنا فرض پورا کرنے میں مصروف ہے۔
ایران کے نیوکلیائی مراکز پر حملے کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران کو ایک بار پھر دھمکی دی ہے ” وہ امن کی طرف واپس آ جائے ورنہ ایسے مزید حملوں کے لیے تیار رہے جو زیادہ آسان اور زیادہ خطرناک ہوں گے”. اسرائیل نے بھی مزید تباہی سے بچنے اور اسرائیل کا وجود بچانے کے لیے یہ کہہ کر بالواسطہ طور سے پسپائی کا عندیہ دیا ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر ۔”کامیاب؟” امریکی بمباری سے ہمارا ہدف حاصل ہوگیا ہے، اب اگر ایران خود جنگ بندی کا اعلان کرتا ہے تو ہم بھی اسے تسلیم کرنے پر غور کریں گے۔ لیکن ایران نے اس کا جواب بھی حسب سابق اتنے ہی اطمینان سے دے کر، کہ وہ بین الاقوامی قوانین کو روندنے والوں کی ان دھمکیوں سے نہ پہلے ڈرا ہے اور نہ اب ڈرے گا، نہ صرف اسرائیل پر میزائلی حملہ جاری رکھے ہوئے بلکہ اس کی شدت میں کئی گنا اضافہ بھی کردیا ہے۔
اسرائیل کی نئی چال
اسرائیل کے منافق و مکار حکم رانوں نے ایران کو غالب ہوتے دیکھ کر اب دھمکیاں دینا چھوڑ دیا ہے اور ایک نئی چال چلنی شروع کردی ہے۔اب وہ غزہ میں اپنے سارے سیاہ کرتوں کو فراموش کرکے ایران کو دنیا کے سامنے اسرائیل کی عام آبادیوں پر حملہ کرنے والا جنگی مجرم ثابت کرنے میں لگے ہیں اور اس پروپیگنڈا کے سہارے فرانس، برطانیہ ، کیناڈا اور اسپین جیسے ان ملکوں کی ہمدردیاں دوبارہ حاصل کرنا چاہتا ہے جن کے سربراہوں نے غزہ میں فلسطینی بچوں اور عورتوں کے ساتھ اس کے حیوانی سلوک کی وجہ سے اس سے دوری بنا لی تھی اور اس سے حد درجہ بے زار ہیں۔حالانکہ اسے بھی خوب پتہ ہے کہ اس کا اپنا حالیہ ریکارڈ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ اب اسرائیلی شہری بھی حیفا اور تل ابیب میں جنگ بندی کی اپیلیں کر رہے ہیں جو کل تک غزہ میں اسرائیلی جرائم پر مبنی ویڈیوز کو وائرل کرنے میں مصروف تھے۔ یہ نیا اور بدلا ہوا بیانیہ انہوں نے اس وقت اختیار کیا جب ان کی اپنی جنت کا حال دگر گوں ہوچکا ہے۔
وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ ایرانی میزائلوں کے اثرات سے ان کے شہر بھی کس طرح کھنڈر میں تبدیل ہورہے ہیں، جس کی شدید مار حماس کے راکٹوں کی محدود مار سے بہت مختلف ہے۔ گیس اور تیل صفائی کے مراکز تباہ ہوکر بند ہوچکے ہیں۔ ان کے ہوائی اڈے، ہوائی پٹیاں اور مغربی ممالک سے ہتھیار امپورٹ کرنے والی بندرگاہیں استعمال کے قابل نہیں رہیں۔ اس مار سے ان کے زیادہ تر ایر پورٹوں سے ان کے جنگی جہازوں کے لیے اڑان بھرنا بھی ناممکن ہوگیا ہے۔ ان کی ترقی یافتہ بستیاں ایرانی میزائل کے دھماکوں سے اتنی برباد اور مخدوش ہوچکی ہیں کہ وہ غیر قانونی یہودی آباد کاروں سے خالی کرائی جارہی ہیں۔ وہ، جیسا کہ بتایا گیا یا تو ملک چھوڑنے کی کوشش میں ہیں یا پھر بنکروں میں جمع ہیں۔ بے شک غزہ کی تاریخ خود کو یہاں دہرا رہی ہے اور مجرموں کو عبرت دے رہی ہے۔ کون ہیں وہ لوگ جو اس مثال سے عبرت لیں۔ غزہ میں اب بھی جو کچھ چل رہا ہے اس سے صاف ظاہر کہ اسرائیل تو خود اس حالت میں بھی کوئی سبق لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ اس قوم کی بے رحم و بد طینت فطرت کا حصہ ہے۔ چنانچہ ایران پر امریکی حملے کے ایک روز قبل بھی اس کے ظالم فوجیوں نےامداد اور کھانے کے لیے ادھر ادھر جمع بے سہارا، بے گھر، بے چھت، اور بے یار و مددگار فلسطینیوں کو گولیوں اور بموں کا نشانہ بنایا اور 60 سے زیادہ عام فلسطینی شہریوں کو ہلاک کردیا ہے۔ کیا یہ فلسطینی مسلمان ڈونالڈ ٹرمپ اس کے یہودی داماد اور اس کے صہیونی کارندوں کے نزدیک انسان نہیں ہیں؟ یا ان کی حیثیت اور قیمت ان بے زبان جانوروں سے بھی کم ہے جن پر ہمیں رحم کرنا سکھایا جاتا ہے؟
بے شک تاریخ خود کو لازماً دہراتی ہے۔ غزہ کی تاریخ جہاں ساٹھ ہزار سے زائد معصوم اور نہتے فلسطینی شہری اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں، آج خود کو اسرائیل میں دہرا رہی ہے۔ اس لیے اسرائیلی حملوں کی شدت سے لرزتے اسرائیل کو اب مجبور ہوکر بین الاقوزمی قوانین کی دہائیاں دینا بالکل زیب نہیں دیتا ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے فرعون وقت دریائے نیل میں ڈوبتے ہوئے ابنائے اسرائیل کو انسانیت کے تقاضے یاد دلائے۔
اسرائیل اپنی پرانی منطق پر ہنوز عمل پیرا
اسرائیل کی یہ پرانی منطق ہے کہ اپنا جرم بھی حق دفاع اور معیار اخلاق انسانیت ہے جبکہ دوسروں کا حق دفاع بھی بدی و دہشت گردی ہے۔
انگریزی ادب کا ایک معروف مقولہ ہے:
"Doing what is right, even when no one is watching”
” اسی پر عمل ہو جو حق ہے، اس وقت بھی جب تمہیں کوئی بھی دیکھ نہیں رہا ہو”۔
وہ قتل عام بھی کریں تو کارخیر!
وسطی غزہ میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے کم از کم 22 افراد کے ہلاک ہونے کی خبر ہے۔ یہ نہتے، بھوکے اور بے گھر فلسطینیوں پر اسرائیلی بربریت کی سب سے تازہ مثال ہے جس کا وزیر اعظم اپنے سارے شیطانی کرتوتوں کو فراموش کرکے پوری بے شرمی کے ساتھ ایران کو سویلین آبادی پر حملہ کرنے والا "کریمینل”کہہ رہا ہے۔ یہ نہتے فلسطینی عوام پر اسرائیلی فوجوں کی اندھا دھند فائرنگ کی ایک اور بد ترین مثال ہے جو اس وقت غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں ہر روز دہرائی جارہی ہے۔ پھر بھی یہ صہیونی دہشت گرد اس غلط فہمی میں ہیں کہ وہ ایران کے خلاف یہ پروپیگنڈا کرکے کہ وہ اسرائیلی عوام اور ہسپتالوں پر حملہ کر رہا ہے، یا ہٹلر کی مثال دے کر دنیا کی ہمدردیاں دوبارہ حاصل کر لیں گے ۔ دنیا اتنی اندھی بھی نہیں ہے ۔
الجزیرہ اور دیگر ذرائع کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ میں امداد کے لیے جمع ہونے والے فلسطینیوں پر بہیمانہ طور سے حملہ کرکے ایک بار پھر معصوم عوام کو بڑی تعداد میں ہلاک کیا ہے۔ الجزیرہ نے دیر البلاح میں العودہ ہسپتال کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے وسطی غزہ میں نیٹزارم محور کے قریب امداد کے متلاشی فلسطینیوں پر بالکل صبح تڑکے فائرنگ کی ہے جس میں کم از کم 22 افراد ہلاک اور درجنوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ نصف شب سے ساڑھے چار گھنٹوں کے دوران غزہ کے تباہ حال شہریوں پر اسرائیل کے مختلف حملوں میں کم از کم 31 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
غزہ میں اسرائیل کے سیاہ کارناموں کی داستان اس وقت ہر گوشے میں موجود ہے۔ جن اسرائیلی وزراءکو ایرانی میزائلوں سے سویلین اسرائیلی آبادی کے نشانہ بننے پر شکایت ہے اور انہیں اس کی وجہ سے انسانیت اور بین الاقوامی قوانین یاد آرہے ہیں انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کے ہاتھوں پورے غزہ کی سویلین آبادی کی ساری تعمیرات تباہ ہوچکی ہیں اور پورا غزہ ایک بڑے ملبے میں بدل چکا ہے۔ یہ بزدل صہیونی تحریک آزادی حماس کو تو میدان جنگ میں اب بھی شکست نہیں دے سکے ہیں لیکن ان کی دو سال سے مسلسل بمباریوں سے غزہ میں انسانیت، تہذیب اور بین الاقوامی قوانین کی روح پوری طرح ضرور کچل دی گئی ہے۔ اسرائیلی فوج نے بغیر کسی روک ٹوک کے اس شہر کا پورا ڈھانچہ اتنا تباہ کردیا ہے کہ وہاں کے شہریوں کے پاس نہ بجلی ہے، نہ پانی، نہ کھانے کی اشیاء اور نہ سونے کے لیے اب کہیں محفوظ چھتوں کا وجودہے ۔ وہ بھیڑ بکریوں کی طرح ادھر سے ادھر مارے مارے پھر رہے ہیں، اور اسرائیلی فوجی جب چاہتے ہیں اسلام و اہل اسلام سے اپنے بغض و نفرت کی دیرینہ آگ کو ٹھنڈی کرنے کے لیے ان معصوم و غیر مسلح شہریوں کو بھون ڈالتے ہیں۔
مختصر یہ کہ اس وقت کوئی ایک ہسپتال یا اسکول یا مکان نہیں بلکہ پورا غزہ اسرائیل کے جرائم کا منہ بولتا ثبوت ہے اور وہاں کے سارے تیس ہسپتالوں میں سے کسی ایک کو بھی اس لائق نہیں چھوڑا ہے جہاں زخمی اور بیمار فلسطینیوں کا علاج ہوسکے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے انسانی امور کے سربراہ برائے فلسطین جوناتھن ویٹال نے غزہ سے ایک پریس کانفرنس کے دوران اسرائیلی فورسز کے معصوم اور بھوک سے نڈھال عام فلسطینیوں پر گولہ باری جیسے غیر انسانی برتاؤ کا ایک بار پھر ذکر کرتے ہوئے موت و ہلاکت سے گھرے غزہ کی طرف دنیا کو متوجہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا: ’جب دنیا کی توجہ دوسری سمتوں میں ہے غزہ میں لوگ صرف زندہ رہنے کی کوشش میں روز قتل ہو رہے ہیں۔ یہاں تو صرف روٹی کی تلاش بھی موت کا پروانہ بن چکی ہے۔‘
یہ الفاظ بھی میرے نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے ایک ذمہ دار کے ہیں، جس نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کا محصور اور زخمی علاقہ اب’دھیرے دھیرے ایک خاموش قتلِ عام‘ کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جہاں فلسطینی صرف کھانے کی تلاش میں مارے جارہے ہیں۔”جہاں عالمی انسانی قانون کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے ہر روز درجنوں بے گناہ شہری اسرائیل کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے جا رہے ہیں۔‘
یہ ہے غزہ میں، انسانیت، انسانی تہذیب، عالمی قوانین و بنیادی انسانی حقوق کے تعلق سے اسرائیل کا اپنا ریکارڈ جو آج کی مہذب دنیا کے لیے شرم ناک ہی نہیں بلکہ ناقابل تصور بھی ہے۔
ان کے مظالم پر آہ کرنے والا بھی مجرم
لیکن اب جب کہ ایران کے ہاتھوں اس غیر قانونی مجرم ریاست کی اپنی چمڑی ادھڑنی شروع ہوئی ہے تو اس کا وزیر اعظم نیتن یاہو چیخ و پکارکر رہا ہے اور دنیا سے فریادیں کر رہا ہے کہ ایران نے اس کے ایک ہسپتال اور سویلین آبادی پر حملہ کرنے کا "جرم” کیا ہے اور ” یہ اخلاق کی سب سے نچلی سطح ہے”۔ اب سوال صرف یہ ہے کہ کیا اسرائیل کے اس مجرمانہ دُہرے کردار یا شیطانی منافقت اور رذیل ترین انسانی برتاؤ کی اس سے بڑی بھی کوئی مثال ملے گی؟
کون نہیں جانتا کہ موجودہ دور میں اسرائیل انسانیت کا سب سے بڑا مجرم ہے، فلسطینیوں پر اس نے جو مظالم ڈھائے ہیں اس کے آگے، فرعون، ہلاکو اور ہٹلر کے مظالم بھی ماند پڑتے نظر آ رہے ہیں۔ اب جب کہ ایک لمبے عرصے تک برداشت کرنے کے بعد ایران نے اسے اسی کے انداز میں سبق سکھانا شروع کیا ہے تو اپنے تھوڑے سے نقصان پر وہ بہت جلد چیخنے لگا ہے۔ ایرانی میزائلوں سے چند ہی دن میں نہ صرف اس کا نقشہ بگڑ چکا ہے بلکہ اس نے اپنا آپا بھی کھو دیا ہے۔
اسرائیل کی چیخیں اس وقت سے سب سے زیادہ نکلنے لگی ہیں جب سے ایران اپنے میزائل اس کے میزائل ڈیفنس سسٹم، فوجی مراکز اور موساد کے حساس ترین اڈوں تک پہنچانے میں کامیاب ہوا ہے اور منصوبہ بند طور سے اسرائیل کے ایک ایک گوشے کو چن چن کر نشانہ بنا رہا ہے۔ اسرائیل کی بوکھلاہٹ خاص طور سے اس وقت سے زیادہ بڑھ گئی ہے جب سے ایران نے اس کی خفیہ ایجنسی موساد کے اڈوں کا رخ کیا ہے جو دور حاضر میں دہشت گردی کی موجد اور درجنوں ایرانی، عرب اور حماس کے قیمتی رہنما، جنرل اور سائنس دانوں کی قاتل ہے۔
یہاں یہ واضح رہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقہ بئر شیبہ میں جو اسرائیلی ہسپتال چند روز قبل ایرانی میزائل سے جزوی طور سے متاثر ہوا ہے اور جس کا حوالہ دے کر وہ "جنگی جرائم” کا واویلا مچا رہا ہے وہ در اصل ایک ملٹری ہسپتال ہے جو اسرائیل کی ایک اہم فوجی تنصیب سے ملحق ہے۔ ایرانی میزائل سے اصلاً یہی فوجی مرکز تباہ ہوا ہے جو ایران کے مطابق ان کا اصل ہدف تھا۔ لیکن صہیونی ٹولہ اپنی ہرزہ سرائیوں کے وقت یہ بھول جاتا ہے کہ ‘تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے’ اور وقت انسانیت کے مجرموں کو بہت دنوں تک نہیں بخشتا۔
اب اسرائیلی وزیر اعظم موجودہ ایرانی قیادت کو ختم کرکے یا خامنہ ای کو مارکر انتقام لینے کی دھمکیاں دے رہا ہے، اسرائیلی وزیر دفاع ایران کے اعلیٰ ترین رہنما کے بارے میں برملا کہتا پھر رہا ہے کہ ’خامنہ ای کو مزید زندہ رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی” اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ انسانیت اور اخلاق کی ادنی ترین سطح سے بھی نیچے کون ہے؟ وہی جو تاریخ انسانی میں دو حیثیتوں کے لیے سب سے زیادہ مشہور ہیں:
ایک ہمیشہ اپنے وقت کے سب سے بڑے قولی و عملی منافق ہونے کی اور دوسری دہشت گردی اور مفسدانہ سازشوں کے موجد ہونے کی ۔
اللہ کی کتاب نے بھی اس عیار اور ناشکری قوم کے کردار کی انہیں دو خصوصیات، منافق اور مفسد والے کردار سے ہمیں بار بار خبردار کیا ہے۔
’فلسطین خالی کرو‘
بہر حال ایران کی جرأت مند و غیور قیادت پر اسرائیل یا اس کی ہم نوا قوتوں کی عیار چالوں اور کھوکھلی دھمکیوں کا فی الحال کوئی اثر پڑتا نظر نہیں آرہا ہے بلکہ اس بار الٹا ایران انہیں بار بار اپنے مزید سخت حملوں سے متنبہ کر رہا ہے۔ جس طرح غزہ میں اسرائیلی فوجیں سِول فلسطینی آبادیوں پر اپنی ممکنہ بمباریوں کی وارننگ دے کر عام فلسطینیوں کو بار بار اپنی جگہیں خالی کرکے کھلے آسمان کے نیچے کہیں اور نکل جانے کی ہدایت جاری کرتی رہی ہیں ٹھیک اسی طرح اس بار کی جنگ میں ایران نے چند روز قبل اسرائیلی آبادکاروں کے لیے وارننگ صادر کی ہے کہ اب تمہارے بنکراور محفوظ پناہ گاہیں بھی تمہارے لیے محفوظ نہیں رہیں گی، کیونکہ وہ بھی ہماری میزائلوں کی زد میں ہیں۔ اب تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ "مقبوضہ فلسطینی علاقے چھوڑ کر
نکل جاؤ اور فلسطین کی زمینیں خالی کردو”۔
یہ ایران کا اسرائیلیوں کے ساتھ کوئی نفسیاتی کھیل نہیں ہے بلکہ میں ایرانی فوج کی طرف سے صہیونی ٹولے کو ملنے والی ایک بہت سنجیدہ وارننگ ہے۔ اس وارننگ کی سنجیدگی کا اندازہ خود اسرائیلی باشندوں کو بھی اس وقت ہوگیا جب ایرانی میزائلیں ذوالفقاری شمشیر کی مانند ان کے بنکروں کی دیواریں چھید کر ان تک پہنچنے لگیں۔
جن لوگوں کی ایران اسرائیل جنگ کے حوالے سے پچھلے دنوں کے واقعات پر نظر ہے وہ بڑی آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ غزہ کی تاریخ اسرائیل میں خود کو ہر روز دُہرا رہی ہے۔ جن کے چہروں پر کل تک غرور ،رعونت اور نسلی و قومی برتری کا احساس غالب تھا اس وقت ان پر مایوسی ، گھبراہٹ، خوف، دل شکستگی، اور ذلت و رسوائی کی پر چھائیاں بہت آسانی سے دیکھی جا سکتی ہیں۔
اس جنگ کے دوران ایران کی بہادر فوج نے اسرائیل کو وہ دن دکھائے ہیں جس کا انہیں خواب میں بھی اندازہ نہیں تھا۔ اس کے سوپر سونک میزائل اور ڈرون حملوں کے دھماکوں سے تقریبا دس سے مسلسل اسرائیل متواتر شمال سے جنوب تک لرز رہا ہے، مختلف مرحلوں میں ہولناک ایرانی حملوں نے اسرائیل کی نیندیں اڑادیں. تل ابیب، حیفا اور مغربی یروشلم بئر شیبہ سے حیفا بندرگاہ سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں تک کئی عمارتیں طاقت ور ایرانی میزائلوں کا نشانہ بن چکی ہیں اور وہاں غزہ جیسی ہی تباہی کا منظر ہے۔ ذرائع نے اب تک کم سے کم 40 اسرائیلیوں کے ہلاک اور تین ہزار سے زائد کے زخمی ہونے کی خبر دی ہے۔ اسرائیل میں ایسی خبروں پر سخت سنسر لاگو ہے ورنہ آزاد ذرائع کو یقین ہے کہ وہاں ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس دوران ایرانی ترجمان نے ایران کے اس موقف کو ایک بار پھر دہرایا ہے کہ ” جب تک اسرائیل غیر مشروط طور سے اپنی جارحیت سے باز نہیں آتا اور دشمن گھٹنوں پر نہیں آجاتا یہ حملے جاری رہیں گے۔” گویا ایران اب قاتلِ غزہ کا زور بازو پوری طرح آزمانے کی ٹھان چکا ہے اور اس میں کیا شک کہ جو قومیں عزم کر لیتی ہیں اور کچھ کرنے کا ٹھان لیتی ہیں کامیابی ہمیشہ انہیں کو ملتی ہے:
اتنے مایوس تو حالات نہیں
لوگ کس واسطے گھبرائے ہیں
جنگ کا حتمی نتیجہ کیا نکلتا ہے، اس پر فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن اب تک جو نتیجہ بالکل واضح ہے وہ یہ کہ ایران کے ہاتھوں قدرت نے صہیونیوں کو ایک طویل مدت کے بعد ان کے کرتوں کی قرار واقعی سزا دینی شروع کردی ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جون تا 05 جولائی 2025