فلسطین کے مسلمان اور ہمارا دینی و اخلاقی فریضہ

توسیع کی ہوس رکھنے والے یہودی ظالموں کو فلسطینیوں پر کئے گئے ہر ظلم کا حساب چکانا ہوگا

مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی

(مسجد اشاعت اسلام،نئی دلی میں مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی نے فلسطین کی تاریخ اور مسلمانوں کے کردار کے حوالے سے نہایت ہی پُرمغز خطاب فرمایا ہے ۔ قارئین ِہفت روزہ دعوت کے استفادے کے لئے اس خطبۂ جمعہ کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے،ملاحظہ فرمائیں ۔ادارہ)
تقریباً 75برسوں سے فلسطین کے مسلمان اپنی زمین کی حفاظت اور اپنی بقاء کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ شاطروں کے ایک ٹولے نے دنیا کے ظالم و جابر حکمرانوں کی پشت پناہی سے 1948 میں وہاں بسنا شروع کیا تھا، اس وقت ان کا تناسب پانچ یا چھ فیصد تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ وہ اپنی شاطرانہ چالوں سے 90 فیصد زمینوں پر قابض ہوگئے۔ مسلمان فریاد کرتے رہے، مزاحمت کرتے رہے، شہید ہوتے رہے، ان کی مائیں بیوہ ہوتی رہیں اور بچے یتیم۔ لیکن دنیا کو ان پر رحم نہیں آیا۔ بندوق کی نوک پر انہیں ان کے گھروں سے نکالا جاتا رہا۔ذرا اس دلدوز منظر کا تصور کیجیے کہ ایک طرف نہتے مسلمان جنہیں غلیل بھی دستیاب نہیں، دوسری طرف اے کے 47 رائفلیں، توپیں اور جدید ٹکنالوجی سے لیس دشمن۔ دشمن گولیاں برساتا ہے، جواب میں یہ غلیل چلاتے ہیں، یہ ہے فلسطین کا منظر۔ اقوم متحدہ میں یکے بعد دیگرے قراردادیں پاس ہوتی رہیں مگر ظالم حکومتیں نے ان قرار دادوں کے خلاف ویٹو کرتی رہیں، اس لیے کہ یہ قراردادیں مسلمانوں کے حق میں تھیں اور مسئلہ مسجد الاقصیٰ کا تھا۔ جب فلسطین کے بے بس مسلمانوں نے دیکھا کہ کوئی ان کے ساتھ کھڑا ہونے کو تیار نہیں تو پھر اپنی کم مائیگی و بے سروسامانی کے باجود خود ہی اپنی زمین اور مسجد اقصیٰ کے دفاع کا بیڑہ اٹھایا۔ دنیا کی جابر حکومتوں نے ان کے ساتھ متعصبانہ و جانب دارانہ رویہ اختیار کیا۔ انہیں فلسطینیوں کے ہاتھوں میں پتھر تو دکھائی دیے لیکن اسرائیل کے توپ و ٹینک کسی کو نظر نہیں آئے اور پتھر پھینکنے والوں کو دہشت گرد کہا۔ ان ظالموں کو ایک دن ان کے غیر منصفانہ و ظالمانہ رویے کا حساب رب العالمین کو دینا ہوگا۔
فلسطین سے مسلمانوں کی نسبت دو طرح کی ہے۔ ایک اس سرزمین میں واقع مسجد اقصیٰ جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، اس کے علاوہ یہ انبیاء کی سرزمین بھی ہے اور اس کے اصل وارث فلسطینی مسلمان ہیں۔ دوسری یہ کہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت پوری دنیا کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے مگر بیشتر مسلم حکومتیں اپنی ان ذمہ داریوں سے چشم پوشی کی ہوئی ہیں۔ مگر یہ نہتے فلسطینی مسلمان تمام دنیا کے مسلمانوں کی طرف سے اپنی جانوں و مالوں کی قربانیاں دے کر سب کی طرف سے کفارہ ادا کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ 75 سالہ تاریخ پر محیط ہے۔ آج وہ قبلہ اول کی حفاظت کے لیے بے سروسامانی کی حالت میں لڑ رہے ہیں، کیونکہ ان کے سینوں میں ایمان ہے۔ وہ اپنی کم مائیگی سے بے پروا ہو کر اپنے محدود وسائل کے ساتھ دشمنوں کے ٹینکوں اور بموں کے مقابلے میں معمولی قسم کے میزائیل تیار کرکے دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اسرائیل پر برسائے گئے ان چھوٹے چھوٹے بموں اور راکٹوں کا دنیا پر ایسا خوف طاری ہے کہ دنیا چیخ پڑی ہے، مگر یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ ہر روز فلسطینی نوجوانوں کو قتل کیا جارہا ہے، عورتوں و بچوں کو زدو کوب کیا جا رہا اور مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی روا رکھی جارہی ہے۔ بیشتر ممالک مظلوم کو تڑپتا چھوڑ کر ظالم کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔ امریکہ نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ہے۔ لیکن یاد رکھیں، اللہ ظلم کو کسی بھی شکل میں پسند نہیں کرتا۔ اس کی عدالت میں کوئی بچ نہیں سکتا۔ ظالم کا ساتھ دینے والوں کو نہیں بھولنا چاہیے کہ فلسطین کی سرزمین ابتداء سے مسلمانوں کی ملکیت رہی ہے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے پوچھا کہ زمین پر سب سے پہلی مسجد کون سی بنائی گئی؟ فرمایا ’’مسجد حرام“۔ میں نے پوچھا پھر کون سی مسجد؟ فرمایا ”مسجد اقصیٰ“۔ پھر میں نے پوچھا کہ ان دونوں مسجدوں کے درمیان تعمیر میں فاصلہ کتنا ہے؟ فرمایا ”چالیس سال“۔ مسجد حرام کی تعمیر حضرت آدمؑ نے کی اور چالیس سال کے بعد ان کے بیٹوں نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر کی۔ یہ مسجد مسلمانوں کا قبلہ اول اور ان کے دل کی دھڑکن ہے۔ یہیں سے نبی آخرالزماں کے معراج کا سفر شروع ہوا جس کی توثیق قرآن نے سورہ بنی اسرائیل میں کی ہے۔ یہ مسجد گواہ ہے کہ روئے زمین پر جتنے بھی انبیاء و رسل آئے، اللہ نے معراج کی شب میں سب کو یہاں جمع کیا اور پھر اپنے آخری نبی محمد (ﷺ) کو شرف امامت سے نوازا۔ یہ امامت، علامت ہے کہ آخری نبیؐ سب کے امام ہیں۔اب تا قیامت تمام انسانوں کو انہی کی تعلیمات کو اپنا رہنما بنانا ہوگا۔
فلسطین کی زمین فلسطینیوں کی ملکیت ہے۔ ان کے آباء و اجداد نے ہی اسے آباد کیا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس جگہ پر سب سے پہلے آباد ہونے والی قوم کنعانی ہے۔ یہ عربوں کا ایک قبیلہ ہے۔ مگر عیسائیوں نے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ 656ء مطابق 15ھ میں حضرت عمرؓ کی خلافت کے دور میں حضرت عمرو بن عاصؓ کی قیادت میں مسلمانوں کا ایک لشکر فلسطین گیا اور جنگ لڑے بغیر ہی اسے فتح کرلیا۔ یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی۔ اس کے بعد عیسائیوں نے ارض فلسطین کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوششیں کیں بالآخر 11ویں صدی کے اواخر میں وہ کامیاب ہوگئے اور 90 سال تک حکومت کی۔ بیت المقدس کو عیسائیوں سے آزاد کرانے کے لیے سلطان صلاح الدین ایوبی نے جنگیں کیں اور 1187ء میں فلسطین کو فتح کرلیا۔ اس طرح فلسطین کا علاقہ عیسائیوں کے قبضے سے نکل کر اسلامی مملکت کا حصہ بن گیا جس پر عثمانیوں نے حکومت کی۔ 
تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ارض فلسطین کے معاملے میں مسلمان اور عیسائی کئی بار آمنے سامنے ہوئے، لیکن یہودیوں نے اس خطے کو اپنا وطن بنانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ یہودی جرمنی، فرانس اور یورپ کے مختلف ملکوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ جب اٹھارہویں صدی میں یہودیوں کو جرمنی اور فرانس کے مختلف ملکوں سے بھگایا جانے لگا تو وہ خلافت عثمانیہ کے فرمانروا سلطان عبدالحمید ثانی کے پاس آئے اور بہت سے مال و زر کے بدلے میں فلسطین میں ایک اسرئیلی ریاست کے قیام کی درخواست کی مگر عبدالحمید ثانی نے ان کی یہ درخواست مسترد کردی۔ چنانچہ یہودی دولت عثمانیہ کے مخالف ہوگئے اور اندر ہی اندر عثمانی حکومت کے خلاف سازشیں رچنے لگے۔ خلافت عثمانیہ جو پہلے سے ہی زوال پذیر تھی، ان کی سازشوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا نتیجے میں 1924 میں خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد یہ خطہ انگریزوں کی کالونی بن گیا۔ ہندوستان پر بھی انہی کا قبضہ تھا۔ یہاں کے ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر ان کے خلاف لڑائی کی اور ملک کو آزاد کرالیا۔ جو لوگ اپنے ملک کی آزادی کے لیے لڑ رہے تھے ان کو انگریزوں نے دہشت گرد کہا جبکہ حقیقتاً یہ مجاہد آزادی تھے جو اپنے ملک کی آزادی کے لیے لڑ رہے تھے۔ آج فلسطینی بھی اپنے ملک کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ پھر وہ دہشت گرد کیسے ہوسکتے ہیں؟
1948 میں برطانیہ نے فلسطین کا ایک چھوٹا سا حصہ یہودیوں کو دے دیا اور اس کی ریاست کو اسرائیل کا نام دیا۔ تھوڑی سی زمین ملتے ہی اسرائیلیوں میں توسیع کی ہوس پنپنے لگی۔ انہوں نے مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے ان پر ظلم و ستم شروع کر دیا۔ اس کے لیے انہیں عیسائیوں کا بھرپور تعاون مل رہا تھا۔ نتیجے میں وہ فلسطینیوں کی 90 فیصد زمین پر قابض ہوگئے۔ اسی زمین کو حاصل کرنے کے لیے آج فلسطینی لڑ رہے ہیں۔ حالانکہ فلسطینیوں نے لڑائی کے بجائے ہمیشہ امن معاہدے کو ترجیح دی اور عالمی برادری کے معاہدوں کی پاسداری کی لیکن اسرائیلیوں نے طاقت کے زعم میں کبھی بھی ان معاہدوں کی پروا نہیں کی۔ اس سلسلے میں ایک نام نہاد ’اوسلو معاہدہ‘ بھی فلسطینیوں پر تھوپا گیا۔ جس میں کہا گیا کہ جتنی زمین پر اب تک اسرائیل نے قبضہ کرلیا ہے اس سے آگے نہ جائے۔ مگر اسرائیلیوں نے اس معاہدے کو بھی توڑ دیا۔ کیونکہ ان کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ وہ امریکہ کی سرپرستی میں فلسطینیوں پر کھلے عام ظلم ڈھا رہے ہیں۔ مگر یاد رکھیں! دنیا کی عمر بہت تھوڑی ہے۔ اگر ظالم نے دنیا میں ظلم جاری رکھا تو آخرت میں اس کا حساب دینا ہوگا۔ یہ زمینیں اور یہ مال و اسباب تو ظالم و مظلوم دونوں کے لیے آزمائش ہیں۔ جو ظالم ہے اسے اللہ اپنی رسی دراز کرکے آزما رہا ہے اور جو مظلوم ہے اللہ اس کے صبر کا امتحان لے رہا ہے۔ اس لیے ہر فرد، جماعت اور ریاست و ملک پر واجب ہے کہ وہ فلسطینیوں کو ان کا حق دلانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور ظالم قوم کو ظلم و بربریت سے روکنے کے لیے اقدامات کریں۔ یہی انسانیت کا تقاضا ہے اور دین کا مطالبہ بھی۔
آج مسلمانوں پر تین اہم ذمہ داریاں عائد ہیں۔ ایک; مسجد اقصیٰ کی حرمت و تقدس کا تحفظ، دوسری; فلسطینیوں کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی و ہمدردی۔ کیونکہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ”پوری دنیا کے مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں، ایک عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے چین رہتا ہے“۔ تیسری; باہم اتحاد۔ مسلکی اور نظریاتی اختلافات کو پیچھے کر کے ایک ساتھ ایک صف میں کھڑا ہونا۔ اگر ہم ان تینوں اصول پر عمل کریں گے تو ظالم کا عنقریب خاتمہ ہوگا اور حق غالب ہوگا۔

 

***

 آج مسلمانوں پر تین اہم ذمہ داریاں عائد ہیں۔ ایک; مسجد اقصیٰ کی حرمت و تقدس کا تحفظ، دوسری; فلسطینیوں کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی و ہمدردی۔ کیونکہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ”پوری دنیا کے مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں، ایک عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے چین رہتا ہے“۔ تیسری; باہم اتحاد۔ مسلکی اور نظریاتی اختلافات کو پیچھے کر کے ایک ساتھ ایک صف میں کھڑا ہونا۔ اگر ہم ان تینوں اصول پر عمل کریں گے تو ظالم کا عنقریب خاتمہ ہوگا اور حق غالب ہوگا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 اکتوبر تا 28 اکتوبر 2023