فلسطین کے حق میں دلّی میں بڑا مظاہرہ۔ عالمی حمایت کی اپیل

اسرائیلی مظالم کی شدید مذمت۔ عرب ممالک کی خاموشی پر تنقید۔ بھارت کی پالیسی پر سوالات

نئی دلّی:(دعوت نیوز ڈیسک)

راجندربھون آڈیٹوریم میں سنیچر کی شام فلسطین اور غزہ کے مظلومین کے ساتھ یکجہتی کا ایک تاریخی مظاہرہ ہوا۔ اس کانفرنس کا انعقاد مسلم مجلس مشاورت نے کیا، جس میں انسانی حقوق کے دفاع میں متحرک شخصیات، بین الاقوامی ماہرین اور سماجی و سیاسی رہنماؤں نے شرکت کی۔ یہ مظاہرہ غزہ میں جاری جنگ کے دوران ہندوستان میں مظلومین کی حمایت کا سب سے بڑا اجتماع قرار دیا گیا۔کانفرنس کی صدارت نیپال کے سابق نائب وزیراعظم اوپندر یادو نے کی، جبکہ نظامت کے فرائض معروف صحافی سہیل انجم نے انجام دیے۔ مقررین نے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کی بھرپور مذمت کی۔
مسلم مجلس مشاورت کے صدر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے فلسطین کے ساتھ ہندوستان کے تاریخی تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ تعلق بابا فرید اور بابا گرونانک کے بیت المقدس میں قیام سے شروع ہوتا ہے۔ ہندوستانی مہمان خانہ اور غزہ میں موجود وقف املاک اس تعلق کی تاریخی علامت ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بیسویں صدی میں مولانا محمد علی جوہر کی فلسطینی کاز کے لیے حمایت اور ان کی مسجد اقصیٰ میں تدفین اس تعلق کو مزید مضبوط بناتی ہے۔ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے اسرائیلی مظالم کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ غزہ کی موجودہ حالت کس طرح اسرائیلی جارحیت کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت مقبوضہ علاقوں میں مزاحمت جائز ہے، مگر اسرائیل نے بین الاقوامی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں 800 مساجد، درجنوں چرچ اور تمام تعلیمی ادارے تباہ کر دیے ہیں۔
پروفیسر اچین ونائک اور پروفیسر سندیپ پانڈے نے عرب ممالک کی خاموشی پر شدید تنقید کی اور کہا کہ اگر عرب ممالک اسرائیل کے خلاف مضبوط موقف اختیار کرتے تو حالات مختلف ہو سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی خطے میں امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ پروفیسر ونائک کے مطابق اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جو بین الاقوامی قوانین کو مسلسل پامال کر رہا ہے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی تاریخ میں حقوق انسانی کی پامالی اسرائیل سے زیادہ کسی نے نہیں کی۔ مغربی ممالک کی تائید اور سازش سے اسرائیل نے آج فلسطینیوں کو دو کھلے ہوئے جیلوں میں بند کر رکھا ہے اور ان دونوں جیلوں درمیان بھی کوئی کنکشن نہیں ہے۔ لوگ اسرائیل کے ساتھ فلسطینیوں کی بھی مذمت کرتے ہیں لیکن یہ کہنے والے 1948ء سے آج تک ہونے والے واقعات کو بھول جاتے ہیں۔ اگر 7؍اکتوبر نہ ہوا ہوتا تو سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر چکا ہوتا۔ اوسلو کو بھلایا جا چکا ہے۔ یہ ایک یکطرفہ جنگ ہے۔ ایک فریق دوسرے پر مسلسل بمباری کر رہا ہے۔ اس جنگ کے دوران بھی ہندوستان نے نہ صرف اسرائیل کو نہ صر ف مزدور بلکہ اسلحے بھی بھیجے ہیں ۔ ہمارے وزیراعظم یوکرین میں جنگ بندی کے لیے بہت پریشان ہیں لیکن فلسطین کے بارے میں کچھ نہیں بولتے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں اسرائیلی ظلم کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے لیکن ہندوستان میں احتجاج کی اجازت نہیں ہے۔ یہ آج پہلی کانفرنس ہندوستان میں منعقد ہورہی ہے جہاں ہم کھل کر اس مسئلے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ غزہ اور مغربی کنارے میں سارے ظلم کے باوجود اسرائیل آج تک اپنے لوگوں کو آزاد نہیں کرا پا یا ہے اور حماس نے آج شکست نہیں مانی ہے۔ دنیا میں اتنی بہادر اورکوئی قوم نہیں ہے۔ لوگ مر رہے ہیں، گھر تباہ کیے جا رہے ہیں لیکن فلسطینی قوم شکست نہیں مان رہی ہے۔ ہم ان کو سلام کرتے ہیں۔ صرف غزہ ہی میں نہیں بلکہ ایران میں جا کر اسرائیل نے حماس کے سربراہ کو شہید کیا۔ اس دوران عربوں نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ اگر آج عرب ممالک اور امریکہ وغیرہ چاہیں تو یہ جنگ بند ہو جائے گی۔ اسرائیل درحقیقت پورے علاقے کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔اسلحے کی دوڑ کی وجہ سے بڑی طاقتوں کے سامنے انسانوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہمارے ملک کو، جو اہنسا کی بات کرتا رہا ہے، ایک واضح موقف اختیار کرنا چاہیے ۔
نیپالی سیاست داں اور سابق نائب وزیر اعظم اوپندر یادو نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ فلسطین میں جو آج ہو رہا ہے وہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر نے بھی نہیں کیا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ ہٹلر نے یہودیوں کی نسل کشی کی تھی اور اس وقت ساری دنیا نے اس کی مذمت کی تھی اور اب بھی اس کو یاد کیا جا رہا ہے۔ اس ظلم کے باوجود ہٹلر نہیں جیتا اور اس نے خودکشی کی۔ویتنام چھوٹا سا ملک ہے، وہ امریکہ کی بےتحاشا لشکرکشی کے باوجود جیتا۔ ایک پترکار نے نیکسن سے پوچھا : امریکہ اتنا طاقتور ہے لیکن وہ ایک کمزور ویتنام کو کیوں نہیں ہرا سکا؟ نیکسن نے جواب دیا: یہ امریکی فوج اور ویتنام کی فوج کے درمیان جنگ نہیں تھی بلکہ امریکی فوج اور ویت نامی عوام کے درمیان تھی، اس لیے وہ جیتے اور ہم ہارے۔ اوپندر یادو نے کہا کہ فلسطین، اسرائیل کے سامنے کمزور ہےبلکہ سارے عرب ممالک اسرائیل کے سامنے کمزور ہیں۔ اسرائیل جو کر رہا ہے وہ نسل کشی ہے لیکن پھر بھی فلسطینی اس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ جو تکلیف یہودیوں کو ہٹلر سے ہوئی تھی، آج اس سے کہیں زیادہ تکلیف فلسطینیوں کو ہو رہی ہے۔ نوزائیدہ بچے مارے جا رہے ہیں، زخمیوں کے لیے علاج نہیں، پانی ، کھانا ، دوا اور بجلی بند کر دی گئی ہے۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں لوگ اس نسل کشی کے خلاف کھڑے ہیں۔ ایشیا میں سب سے پہلا اسرائیلی سفارت خانہ نیپال میں کھلا تھا لیکن آج نیپالی اسرائیل کے بہت خلاف ہیں۔ ممکن ہے کہ کوئی حکومت اس نسل کشی کی تایید کر رہی ہو لیکن عوام اس کے خلاف ہیں۔ فلسطین کے لوگ اپنے مستقبل کے لیے لڑ رہے ہیں، ان کو شکست نہیں دی جا سکتی ہے۔ وہ آخری آدمی تک لڑیں گے لیکن شکست نہیں تسلیم کریں گے۔ ان کے حقوق کو ماننا پڑے گا۔ اس کے بعد ہی کوئی ترقی ہو سکتی ہے۔ اس ظلم کو فورا بند کرنا چاہیے ۔ فلسطینیوں کے حقوق کو تسلیم کرنا چاہیے ۔ اقوام متحدہ کو مزید متحرک ہونا چاہیے اور اس ظلم کو روکنے کے لیے ساری دنیا کو کھڑا ہونا چاہیے ۔
سماجوادی پارٹی کے جنرل سکریٹری اور کسان لیڈر ڈاکٹر سنیل نے کہا کہ ان کی تنظیم ’’انڈیا فلسطین سولیڈیرٹی فورم‘‘ نے ملک بھر میں فلسطین کے حق میں پروگرام کیے ہیں، جن میں نیپال کا پروگرام بھی شامل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تنظیم کا ایک قائد وینیزویلا میں فلسطین کی حمایت میں کانفرنس میں شریک ہے۔ ڈاکٹر سنیل نے کہا کہ فلسطین صرف مسلم مسئلہ نہیں، بلکہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے نتن یاہو کو ہٹلر سے بڑا ظالم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کا حزب اللہ کے ساتھ سمجھوتہ اس کی بڑی ہار ہے اور اقوام متحدہ کے 146 ممالک فلسطین کی حمایت کر رہے ہیں۔مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطین کے مظلوم عوام کے لیے عالمی سطح پر حمایت بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں عوامی سطح پر فلسطینی کاز کے لیے جو حمایت موجود ہے، اسے مزید مؤثر بنانے کے لیے مشترکہ کوششیں ہونی چاہئیں۔ کانفرنس کے آخر میں شرکاء نے فلسطین کا عَلم لہراتے ہوئے عہد کیا کہ فلسطین کی آزادی اور صہیونیت کے خاتمے کے لیے جنگ جاری رکھیں گے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 دسمبر تا 21 دسمبر 2024