فلسطین۔۔۔۔ ایک اور نیا سال

صہیونی ظلم و جبر کے وہی پرانے حربے اور فلسطینی عزم و یقین کی وہی آہنی دیوار

0

پروفیسر ایاز احمد اصلاحی، لکھنو

نئے سال کی آمد پر حسب روایت دنیا بھر میں گزشتہ سال رونما ہونے والے  نوع بنوع واقعات اور سال نو کے امکانات اور اندیشوں پر مشتمل تجزیوں کا سلسلہ کافی طویل رہا جو کسی حد تک اب بھی جاری ہے۔ لیکن  میرے لیے گزرے ہوئے سال کی داستان کی اگر کوئی سب سے بڑی شہ سرخی ہوسکتی ہے تو وہ یہی ہوگی کہ’غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے ہاتھوں  تقریبا 45000 نہتے معصوم  فلسطینیوں کے قتل عام  اور ان کی نسل کشی کا سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے سال بھر جاری رہا اور وہ ہنوز جاری ہے‘۔
نیا سال پرانی داستان
یقیناً سال گزشتہ کی سب سے بڑی خونیں داستان اصلاً صہیونی درندگی کی ہیبت ناک مثالوں اور فلسطین میں ہونے والی قتل و خون ریزی پر ہی  مشتمل ہے اور اس نے اسی حالت میں  نئے سال کے لیے اپنی جگہ خالی کی ہے کہ اس میں نہ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی یورش میں کہیں سے کوئی کمی ائی ہے اور نہ ہی غزہ پر اس کے ظالمانہ حصار میں کوئی فرق واقع ہوتا نظر آرہا ہے۔  گویا 2024 کی صورت میں ایک اور سال  ماضی کی اس داستان کا حصہ بن گیا جو اہل اسلام کے خلاف عالمی جنگ اول کے بعد سے ہی ناجائز صہیونی ریاست اور اس کی حامی مغربی  طاقتوں کے بغض و عناد  اور حیوانیت و درندگی پر مبنی طرز عمل کی بے  شمار مثالوں سے پر ہے۔ اس کا اندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو ماضی و حال سے آگاہ ہوں اور یہ جانتے ہوں کہ آج بھی جنگ اول و دوم کی ‘متحدہ  طاقتوں’  کے سامنے منصوبہ بندی کا وہی نقشہ پھیلا ہوا ہے جسے انہوں نے  اس دنیا خصوصاٌ عالم اسلام کو سیاسی و دفاعی لحاظ سے اپنے سامنے سرنگوں رکھنے اور انہیں اپنی معاشی و سیاسی  ترجیحات کا غلام بنائے رکھنے کے لیے بناکر رکھا ہے۔ کمزور و لاچار اور اپنی غفلتوں کی ماری مسلم قوم کو اس نقشے کا بھلے علم نہ ہو، لیکن یہ مغربی و صہیونی قوتیں اس کے سال بہ سال اور لمحہ بہ لمحہ  پروگرام (Minute to minute programme)  کی تفصیلات سے نہ صرف اچھی طرح آگاہ ہیں بلکہ آج تک اسی پر عمل پیرا ہیں۔  جنہیں بھی مسلم دنیا کے خلاف مغربی و صہیونی قوتوں اور ان کے خطرناک اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کے  حوالے سے میری اس بات میں کوئی شبہ اسے وقت نکال کم سے کم  معاہدہ  سائیکس- پیکو ( Sykes–Picot Agreement)، معاہدہ سیورے  ( Treaty of Sèvres) معاہدہ ورسائے  ( Treaty of Versailles)  معاہدہ لوزان (  Treaty of Lausanne ) بالفور سمجھوتہ  ( Balfour Declaration)  اور  ایسے بعض دیگر معاہدوں کی تاریخی تفصیلات پڑھ لینی چاہییں جو جنگ عظیم کے دوران طے پائے تھے اور جو یک طرفہ طور سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کے محافظ تھے۔ان معاہدوں کے بین السطور میں آپ کو صاف طور سے سلطنت عثمانیہ کی عظمت کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے، مسلم دنیا کو تقسیم کرکے اسے ہمیشہ باہم دست و گریباں رکھنے اور عالم عرب و اسلام کو صدیوں تک سر اٹھانے کے قابل نہ رہنے دینے جیسے مذموم  مقاصد چھپے ہوئے ملیں گے ۔۔۔۔۔۔۔  ہم نے دیکھا کہ جب بھی ان قوتوں کو ترکی سے فلسطین تک اور مصر سے  سعودی عرب تک کسی ایسی تبدیلی کا اندیشہ ہوا ہے جو ان کے اس طویل منصوبے کے تقاضوں کے خلاف ہو تو داخلی یا خارجی سطح پر انہوں نے اپنے سارے مہروں کو فوراً متحرک کر دیا ہے۔ جن عناصر سے  انہیں ذرہ برابر بھی اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ ان کے قدیم منصوبے کی کسی شق کے آڑے آرہا ہے تو یا تو اپنے مقامی ایجنٹوں کے ذریعہ یہ قوتیں انہیں داخلی طور سے  کمزور اور منتشر اور یک و تنہا کرنے کی کوشش کرتی ہیں یا پھر کوئی بہانہ بناکر ان کے زیر اقتدار مسلم ممالک کو براہ راست حملوں اور بمباریوں کے ذریعہ تباہ و برباد کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں۔ یہاں  گزشتہ چار پانچ دہائیوں سے اس خطے، خصوصاٌ مصر، فلسطین اور عراق و شام وغیرہ میں منصوبہ بند طریقے سے چھیڑی گئی جنگوں، غزہ پر پے در پے صہیونی حملوں اور سازشی چالوں کے ذریعہ اقتدارِ کی تبدیلی کے جو ہولناک واقعات رونما ہوئے ہیں وہ سب اسی منصوبے کا تسلسل ہیں اور اس دوران براہ راست یا بالواسطہ یہاں چل رہی کشاکش کا زیادہ فائدہ اسرائیل کو ملا ہے۔  
یہ جنگ نہیں نسل کشی ہے
اکتوبر 2023 سے لے کر دسمبر 2024 تک فلسطین میں جو کچھ ہوا ہے اسے ایک جنگ کہنا جیسا کہ عالمی میڈیا کہتا ارہا ہے، مطلقاً خلاف حقیقت ہے، اس وقت غزہ اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں معصوموں،  عام شہریوں اور وہاں کے بے یارو مددگار فلسطینیوں یعنی ایک پوری قوم کو جس طرح تباہ و ہلاک کیا جارہا ہے اس کے بارے میں  اقوام متحدہ  حقوق انسانی کے ماہرین کی ٹیم  آج سے تقریباً ایک سا قبل (نومبر 2023)  ہی غزہ میں قتل عام کا خطرہ ” Risk of Genocide in Gaza”، اور اسے "موجودہ دور میں نسلی صفایے کی سب سے بڑی  مثال” قرار دے چکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اسے دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ  اسرائیل اور اسے مدد فراہم کرنے والے اس کے دوست ملکوں کا یہ ایسا منصوبہ ہے جس کا ہدف ہی ہے” زیر قبضہ فلسطینی قوم کو پوری طرح برباد کرنا”۔ غور کیجیے کہ غزہ میں مسلمانوں کی ہونے والی نسل کشی  کے بارے میں حقوق انسانی کے ماہرین کی یہ وارننگ ایک سال قبل آئی تھی   تاکہ  اسرائیل کے ہاتھوں اہل فلسطین کے مکمل صفایا سے بچایا جاسکے اور آج ایک سال بعد جب کہ وہاں کا ہر گھر اسرائیلی دہشت گردی کی ایک داستان بن چکا ہے اور یہاں کے گھروں ، ہسپتالوں اور مہاجر کیمپوں پر صہیونی فوجوں کی اندھا دھند بمباری ایک دن کے ناغہ کے بغیر اسی طرح جاری ہے تو  یہاں کے باشندوں کا قتل عام کس حد کو پہنچ چکا ہوگا اس کو سمجھنے کے لیے یہ اشارہ ہی کافی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قوم فلسطین کے مکمل صفائے کے منصوبے پر اسرائیل کس قدر آگے نکل چکا ہے۔ 
غزہ اور مشرق وسطیٰ کی  عالمی بساط پر ابھی بھی سارے مہرے وہی ہیں جنہوں نے جنگ عظیم کے وقت سے لے کر اب تک مسلم دنیا کو  بربادی کے اس دہانے تک پہنچایا ہے کہ فلسطین اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہا ہے اور وہاں سب کچھ ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے، لیکن کسی مسلم ملک میں یہ ہمت نہیں ہے یا وہ اس پوزیشن میں ہی نہیں چھوڑا گیا ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں دہشت گرد اسرائیل سے مقابلہ کے لیے اگے آئے اور اس کی بے لگام دہشت گردی کو لگام دینے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھائے۔اس طرح ہم کہ سکتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کو اپنے ماتحت رکھنے کے لیے پہلی جنگ عظیم میں فسطائی قوتوں کے ذریعہ بنایا گیا خطرناک منصوبہ اب بھی پوری طرح زیر عمل ہے۔ اس کی سب سے بڑی شہادت یہ ہے کہ ایک پوری انسانی بستی کو اسرائیل تقریباً بیس سالوں سے بری بحری اور فضائی ناکہ بندیوں کی مدد سے پوری طرح  اپنے حصار میں لے کر  برباد کر رہا ہے، ہزاروں بچے غذا کے بغیر اور ہزاروں زخمی دوا کے بغیر وہاں دم توڑ رہے ہیں، لیکن  پوری دنیا (کیا عالم عرب، کیا عالم اسلام اور کیا عالم  انسانیت) خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے یا پھر وہ اس غاصب ریاست کے سامنے اتنی عاجز و مجبور ہوگئی ہے کہ بہت سارے سال اور مہینوں کے گزرنے اور بدلنے کے باوجود ظالموں کو وہاں ظلم کی ساری حدیں پار کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔ یہاں آج بھی عام فلسطینیوں کا قتل عام پہلے کی طرح ہی جاری ہے جسے خود اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نسلی صفایا (Genocide) کہ چکے ہیں۔ اس نئے سال میں دنیا نے غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی کا مشاہدہ اس کے دوسرے ہی دن اس وقت کیا جب اسرائیلی فوجیوں نے بین الاقوامی برادری کے ذریعہ قرار دیے گئے ایک "محفوظ علاقہ” (Safe Zone) اور خان یونس کے مواسی مہاجر کیمپ میں پناہ گزیں عام فلسطینیوں پر بمباری کرکے تقریبا 43 لوگوں کو شہید کردیا۔ اس لیے غزہ کے لیے تو 2025 بھی وہی ہے جو 2024 تھا اور جب تک اسے اس نسل ہشی سے نجات نہ ملے اور اس کا وجود انسانیت دشمن اسرائیلی درندے کے تسلط سے آزاد نہ ہوجائے اس وقت تک اس کے لیے تو ہر سال ہی نہیں ہر دن برابر ہے۔
بچوں کا قاتل اسرائیل
2025 کا غزہ وہی غزہ  ہے جو تقریبا 20 سالوں سے ایک محصور انسانی بستی ہے۔ یہاں اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی فوجوں نے فلسطینی بچوں کو شرم ناک حد تک ایک منصوبند طریقے سے اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا ہے۔
غزہ پر حملے سے بھی بہت پہلے سے اسرائیل اس شرم ناک حکمت عملی پر کاربند ہے۔ یا یوں سمجھیں کہ اسرائیل کسی موسیٰ کے خوف سے فرعون کی طرح فلسطینی بچوں کے قتل عام پر اتر ایا ہے۔
یہاں صرف اکتوبر 2023 سے  اب تک 45000 سے زائد فلسطینی ختم کیے جاچکے ہیں۔ اس دوران یہاں  14 سے 15 ہزار معصوم فلسطینی بچے اسرائیلی دہشت گردی کا لقمہ بنے ہیں،تقریباً 10 لاکھ بچے بے گھری اور در بدری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں 17 ہزار ایسے بچے ہیں جنہوں نے اپنے والدین کو کھو دیا ہے اور ان یتیموں میں سے بھی کئی ہزار ایسے بد قسمت بچے یا کم سن نوجوان ہیں جو اسرائیل کی قید میں صہیونی درندگی کا سامنا کر رہے ہیں۔
عالمی میڈیا کے پاس تو فلسطینیوں پر توڑے جانے والے مظالم کی ایسی ایسی اندوہناک خبریں اور ایسی ایسی ہولناک تصویریں ہیں کہ جنہیں دیکھ کر ہمارے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ اگر انہیں درد دل سے آشنا کوئی شخص پڑھنا چاہے تو پڑھ نہ سکے اور انہیں دیکھنا چاہے تو اس کا کلیجہ دہل جائے۔ ان تصویروں میں اس غاصب اسرائیل کے حملوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی لاشیں، ہزاروں شہیدوں کے  یتیم ہونے والے بچوں کی سسکتی تصویریں، زخموں سے بلا علاج تڑپتے بچے، علاج سے محروم ہزاروں زخمیوں کے کٹے پھٹے جسم، عام بستیوں پر اسرائیلی بمباری سے اجڑنے اور منہدم کیے جانے والے گھروں کے ملبے، ان پر لگے ہوئے خون کے سرخ چھینٹے،   بھوک اور بیماری  سے دم توڑنے والے ان کے والدین اور ان کی اولادوں کی المناک صورتوں کو بھی آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔  جی ہاں یہ وہی غزہ ہے جس کے بارے میں اقوام متحدہ کے امدادی ادارے اور دیگر بین الاقوامی ایجنسیاں اقوام عالم کو  مسلسل خبر دار کر رہی ہیں کہ اگر اسرائیل کو غزہ کی بستیوں پر وحشیانہ حملوں اور اہل فلسطین پر اس کے نوع بنوع مظالم سے باز نہیں رکھا  گیا تو غزہ میں انسانی زندگیوں کے صورت حال اس سے بھی زیادہ تباہ کن ہوسکتی ہے۔ جہاں کم از کم 20 فیصد آبادی (یا 576,000) فلسطینیوں کو(جن میں تقریبا نصف بچے ہیں) قحط اور بھکمری کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ اس کے علاوہ یہ ادارے ہمیں اس بات سے بھی خبر دار کر رہے ہیں کہ اسرائیلی بمباری سے غزہ کے بیشتر ہسپتالوں کے تباہ ہو جانے کے بعد مناسب اور فوری علاج نہ ملنے کی صورت میں ہزاروں زخمی فلسطینیوں کی جانیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔
غزہ میں اسرائیل نے اپنی روزمرہ کی بمباریوں کے علاوہ  اپنی غیر قانونی ناکہ بندیوں سے بھی فلسطینیوں کو مصنوعی قحط و بھکمری کی حالت  سے دو چار کردیا ہے۔ اسرائیل کے اس غیر انسانی اقدام کو انسانی حقوق کے ذمہ داروں نے فلسطینیوں کے قتل و ہلاکت اور ان کی نسل کشی کا ایک نیا اسرائیلی ہتھیار قرار دیا ہے جس کا استعمال عالمی قانون میں جوہری ہتھیاروں کی طرح ہی غیر قانونی قرار پاتا ہے، لیکن امریکہ کہ شہ پر اسرائیل اپنے دیگر جنگی جرائم کی طرح اس جرم کا ارتکاب بھی غزہ میں پوری ازادی سے کر رہا ہے اور اسے روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ اس علاقے میں اسرائیل کے جبری حکم انخلا کے سبب بھی  عام فلسطینیوں کی زندگی دن بدن بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے۔ وہ  اپنی بستیاں چھوڑ کر بار بار ادھر سے ادھر منتقل ہورہے ہیں یا بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ اس کے باوجود اس علاقے میں معصوم شہریوں پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری برابر جاری ہے۔ اسرائیل کے ان دہشت گردانہ اقدامات سے ہی وہاں چھوٹے اور نوزائیدہ بچوں کی ہلاکتوں میں ہر روز اضافہ  ہوتا جارہا ہے اور فلسطینی بچوں کے تعلق سے ہر دن وہاں سے کسی نہ کسی دل دہلا دینے والے واقعے کی خبر  عالمی اخبارات و ذرائع میں ہمیں ضرور دیکھنے کو ملتی ہے۔
  زندگی کے صرف بیس بائیس دن پانے والی سلا  غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ان تقریبا 15000 بچوں میں سے ایک ہے جو یا تو براہ راست اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنے ہیں یا اسرائیلی حملوں سے پیدا ہونے والے یا زیادہ صحیح لفظوں میں،  قصداً پیدا کیے گئے حالات (یعنی بھکمری،بیماری،  غذا اور دیگر بنیادی اشیائے ضروریہ کی عدم فراہمی) کا شکار ہوکر جاں بحق ہوئے ہیں۔
قبرستان بن چکے غزہ کے ایک گھر  میں کل تین ہفتے کی عمر پانے والی سلا نام کی ایک چھوٹی سی بچی کی لاش پڑی ہے۔ یہ وہ فیملی ہے جو غزہ میں جاری وحشیانہ اسرائیلی حملوں کے دوران دس ماہ میں تقریباٌ دس بار اجڑی اور بے گھر ہوئی ہے اور اسے اتنی ہی بار اپنا گھر بدلنا پڑا ہے۔ سوائے اس بچی کے غم زدہ والدین کے اس بڑے خاندان کے سبھی لوگ اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والے  اسرائیلی حملوں میں یکے بعد دیگرے شہید ہوچکے ہیں ۔ اس بچی کے والدین اسرائیلی فوجیوں سے بچنے اور ان کی مسلسل  بمباریوں سے محفوظ رہنے کے لیے کئی ہفتوں سے  برابر ادھر ادھر پناہ لیتے رہے ہیں۔ گزشتہ دسمبر کی آخری ساعتوں میں جب کہ یہ دنیا نئے سال کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف تھی  سلا کے والدین ایک گھر میں سخت سرد رات میں بے سروسامانی کی حالت میں اس بچی کو اپنے ساتھ لے کر سوئے تھے۔صبح اٹھے تو اس کی ماں  نریمان النجمہ کو اندازہ ہوا کہ دوسرے بہت سے فلسطینی بچوں کی طرح ان کی ننھی بچی بھی  مناسب دوا، غذا اور کپڑے کی عدم فراہمی کی وجہ سے اللہ کو پیاری ہوچکی ہے۔ بی بی سی کی تفصیلات کے مطابق بچی کی والدہ نے اپنے اندوہناک کہانی سناتے ہوئے بتایا: "میں صبح اٹھی اور اپنے شوہر کو بتایا کہ کافی دیر سے بچی حرکت نہیں کر رہی ہے۔ میرے شوہر نے بچی کے چہرے کو روشنی میں دیکھا تو رنگ نیلا پڑ چکا تھا، وہ اپنی زبان کاٹ رہی تھی اور اس کے منھ سے خون نکل رہا تھا۔” بچی کے والد نے اپنی بچی کو اپنے ہاتھوں میں لےکر صحافیوں کو دکھاتے ہوئے جب یہ کہا کہ "یہ میری بچی ہے جو اب برف کی طرح جم گئی ہے” تو اس فلسطینی کے الفاظ میں صرف ایک سلا کی داستان ہی نہیں  بلکہ اسرائیلی حملے اور ناکہ بندی کی وجہ سے بھوک پیاس اور دوا  کی کمی سے مرنے والے ہزاروں معصوم فلسطینی بچوں کی دل فگار داستان چھپی ہوئی تھی۔ 
اس مثال سے آپ کو صرف غزہ میں عام شہریوں کی یہاں سے وہاں جبری منتقلی اور اس کے ہولناک نتائج سے آگاہ کرنا مقصود ہے اور یہ بتانا بھی ہے کہ یہی حال تقریباً غزہ کے ہر فلسطینی خاندان کا ہے۔ وہاں ایسے بہت سے احباب ہیں جن سے ہم دور و نزدیک سے واقف ہیں،ان سبھی کے خاندان بھی اسی دردناک حالت سے گزر رہے ہیں۔ ان میں سے ہر گھر کے در و دیوار  دس سے ساٹھ یا اس سے بھی زیادہ شہیدوں  اور ان گنت زخمیوں کے شاہد ہیں۔ ایسے درجنوں خاندان ہیں جن کا کوئی بھی فرد اپنی داستان ستم بتانے کے لیے اب زندہ نہیں بچا ہے۔  فلسطین کے تعلق سے سب سے بڑا سچ یہی ہے کہ یہاں اس وقت انسانی خون جتنا ارزاں و بے وقعت ہے اتنا دنیا کے کسی بھی خطے میں نہیں ہے۔ اس وقت غرب اردن سے غزہ تک  پورے فلسطین کا یہی خوں بار حال ہے اور اگر انسانیت زندہ ہو تو اسے دیکھ کر اور  جان کر کوئی بھی دل خون کا آنسو روئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
غزہ نے سب کچھ کھو دیا
دو ماہ قبل، گزشتہ سال ماہ نومبر میں سارے خطرات مول لے کر غزہ کا دورہ کرنے والے ناروے کے معروف انسانی حقوق کے ادارے  ناروے ریفیوجی کونسل Norwegian Refugee Council (NRC) کے جنرل سکریٹری جان اجیلینڈ (Jan Egeland)  نے وہاں کے دورے کے بعد اپنا چونکانے والا مشاہدہ پوری دنیا کے سامنے بڑے درد سے رکھتے ہوئے کہا ہے کہ "غزہ  میں سب کچھ ختم ہوگیا ہے” ان کے بقول "یہاں شہریوں کے لیے اب کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے” ان کی پوری رپورٹ کا ایک ایک لفظ عالم انسانیت کے لیے ایک سخت انتباہ ہے۔
وہ اپنا مشاہدہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"میں نے غزہ کے شمال میں جو کچھ دیکھا اور سنا وہ ایک ایسی آبادی تھی جو ٹوٹ پھوٹ کے بھی مقام سے پرے دھکیل دی گئی ہے۔ خاندان کے خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے ہیں، زیادہ مرد اور لڑکوں کو حراست میں لے لیا گیا اور انہیں اپنے پیاروں سے الگ کر دیا گیا ہے، اور یہ خاندان اپنی میتوں کو دفنانے کے قابل بھی نہیں رہے۔ پینے کا پانی کہیں نہیں ملتا۔ کچھ دن بغیر خوراک کے گزر گئے، پینے کا پانی کہیں نہیں ملا۔ یہ بالکل مایوسی کا منظر ہے۔”
دنیا کے بہت سے انصاف پسند انسانوں کی طرح جان اجلینڈ بھی اسرائیل کے ان بھیانک جرائم میں اس کی مدد کرنے والے مغربی ممالک کو بھی برابر کا حصہ دار سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: "یہ کسی بھی طرح سے قانونی ردعمل نہیں ہے، مسلح گروپوں کو ختم کرنے کے لیے ‘اپنے دفاع’ کو ہدف بنانے والا آپریشن یا جنگ انسانی قانون کے مطابق نہیں ہے۔ اسرائیل یہاں جو کچھ کر رہا ہے وہ دراصل مغربی ممالک کے فراہم کردہ ہتھیاروں کے ساتھ، ایک گنجان آباد علاقے کو تقریباً 20 لاکھ شہریوں کے لیے ناقابل رہائش بنا رہا ہے۔۔۔میں نے جن خاندانوں، بیواؤں اور بچوں سے بات کی ہے وہ ایسے مصائب برداشت کر رہے ہیں جن کی حالیہ تاریخ میں کہیں بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ مسلسل جنگ اور تباہی کا کوئی جواز نہیں ہے”
اس رپورٹ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل پورے غزہ کو  اس کے تمام شہریوں کے لیے جیل بنائے ہوئے ہے اور  بندوق کی نوک پر جبری مںتقلی کے ذریعہ انہیں ہلاک کرنے پر تلا ہوا ہے، یہاں تک کہ انہیں غزہ کے صرف 20 فیصد حصے میں بھیڑ بکریوں کی طرح سمیٹ دیا گیا ہے اور وہ وہاں بھی اس کی بمباریوں سے محفوظ نہیں رہتے۔ ناروے مہاجر کونسل کی رپورٹ کی اطلاع کچھ یوں ہے:
"غزہ میں شہریوں کو کہیں بھی محفوظ پناہ نہیں ہے۔ فلسطینی خاندان اب بھی ایک غیر محفوظ علاقے سے دوسرے غیر محفوظ علاقے میں جانے پر مجبور ہیں۔ ایسے 62 فعال اسرائیلی نقل مکانی کے احکامات کا مقصد فلسطینیوں کو غزہ کے صرف 20 فیصد تک محدود کرنا ہے، جس میں حفاظت یا واپسی کی کوئی یقین دہانی نہیں ہے۔ یہ زبردستی منتقلی ہے – بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے.”
اس لیے میں آپ سب کو اس نئے سال پر صرف اپنی اس دعا میں شریک کرنا چاہوں گا کہ خدا کرے نئے سال کے کسی دن کا سورج ناجائز صہیونی ریاست، جو اس وقت دنیا کی  سب سے بڑی غاصب و دہشت گرد ریاست ہے، کے خاتمہ اور اس کے سیاہ کرتوتوں کے انجام بد کی خبر کے ساتھ طلوع ہو اور وہ سعید لمحہ بھی جلد آئے جب غزہ و مسجد اقصیٰ آزاد فلسطینی ریاست کا حصہ بن کر بہادر مجاہدین آزادی اور مردان حُر کے زیر سایہ فلسطین میں ہمارا استقبال کریں۔
گویا فلسطین و اہل فلسطین کے لیے نیا سال وہی ہوگا جس میں آزادی فلسطین کا سورج ساری کالی گھٹاؤں کو چیر کر طلوع ہو۔۔۔۔دعا یہ بھی ہے کہ  ہماری اس بے حس دنیا کو فلسطین میں انسانیت کے تحفظ کے تعلق سے اپنا انسانی فریضہ یاد آ جائے۔
عزم و یقین سے پر اہل فلسطین کا مستقبل
رہے اہل فلسطین اور ان کی جدوجہد آزادی کا مستقبل تو نیا سال ہو یا پرانا، وہ ہمیشہ امید و یقین سے پر رہا ہے جو صہیونی ٹولے کے لیے  تشویش کا سب سے بڑا سبب ہے۔ شاید یہی سبب ہے کہ اس نے فلسطینی مجاہدین کے غیر متزلزل عزم و یقین سے شکست کر عام فلسطینی عورتوں اور بچوں کو بطور خاص نشانہ بناتا آرہا ہے۔یہ در اصل کسی قوم کی نسل کشی کرنے والوں کا ایک پرانا حربہ ہے۔ اسرائیل بھی کسی موسیٰ کے خوف سے فرعون کی طرح فلسطینی بچوں کے قتل عام پر اتر ایا ہے۔چنانچہ ایک رپورٹ کے مطابق غزہ پر اس کے حملے کے ابتدائی بارہ مہینوں کے اندر تقریبا 11000 سے 14000 بچے شہید ہوئے اور 6 سے 8 ہزار عورتیں شہید کی گئیں۔ لیکن یہ صہیونی حربے بھی آزادی فلسطین  کی لڑائی لڑنے والے مجاہدین کو کبھی کمزور نہیں کرسکے۔ان کے دل ان کی طویل جدوجہد آزادی کے دوران اپنی فتح و کامرانی اور نصرت خداوندی پر یقین  سے ایک دن بھی خالی نہیں رہا۔ ان کا ایک ایک فرد اس ناقابل شکست عزم و یقین سے پر ہے کہ آزادی فلسطین جو ان کا پیدائشی حق ہے اسے وہ آج یا کل حاصل کرکے رہیں گے(ان شاء اللہ) چاہے اس کے لیے انہیں مزید ہزاروں جانوں کی قربانیاں دینی پڑیں’ یا چاہے اس کے لیے انہیں اپنی چھتوں پر موت کو رقص کرتے کتنی ہی بار دیکھنا پڑے اور چاہے اس کے لیے انہیں سوبار اجڑنا اور بے گھر ہونا پڑے۔ انہیں یہ بھی یقین ہے کہ ان  پر بھی کسی نئے سال کا سورج فتح و کامرانی کی نوید کے ساتھ ایک دن ضرور طلوع ہوگا جب صہیونی قوت کے سارے تخت زمیں بوس ہوں گے اور اس متکبر اور اس کے حامیوں کے سروں سے کبر و غرور کے سارے تاج گر کر خاک میں مل جائیں گے۔ تو ایسا ہی ایک سال ان کے لیے اصلاٌ نیا سال ہوگا۔
فلسطینی جیالوں کے اس زندہ یقین کا سب سے بڑا گواہ گزشتہ سال اس جہاد آزادی کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے اس کے عظیم رہنما اور سپہ سالار اسمعیل ہنیہ، یحی سنوار اور دیگر فلسطینی شہداء کا خون شہادت بھی ہے اور اس کا عکس اس مٹی کے ہر اس سپوت میں ہمیں ملتا ہے جس کی ماں نے اسے صرف محافظ اقصیٰ بن کر زندگی گزارنے اور اس کے لیے ہر مقتل اور ہر دار و رسن سے ہنستے مسکراتے گزرجانے کی تعلیم دی ہے۔ ان کی زبان سے نکلنے والی تکبیر اور نعرہ حریت، ان کی دعائیں، ان کی نظمیں، اپنے رب ذوالجلال سے ان کی مناجات اور ان کے ادبی و شعری شہ پارے فتح و کامرانی کے اسی یقین کی شہادت ہیں۔ دیکھیے فلسطینیوں کے جذبات اور ان کردار کی خود انہیں کے ایک معروف شاعر سمیح القاسم نے کتنی سچی ترجمانی کی ہے جنہیں خود بارہا آزادی فلسطین کے لیے قید و بند کی مرحلوں سے گزرنا پڑا تھا۔  شرق و غرب میں ان کی ایک معروف نظم ” اے دشمن خورشید” میں فلسطینی مزاحمت کو ہر حال میں جاری رکھنے کے عزم کو دہرانے کے ساتھ وہاں ایک نئے سورج کے طلوع ہونے کی بشارت پوری خود اعتمادی سے دی گئی ہے ۔
اے روشنی کے دشمن
تم میری زمین کی آخری پٹی لے سکتے ہو،
میری پوری جوانی کو جیل کی نذر کرسکتے ہو۔
تم میرا ورثہ لوٹ سکتے ہو۔
تم میری کتابیں، میری نظمیں جلا سکتے ہیں۔
تم میرا گوشت کتوں کو کھلا سکتے ہو۔
تم میرے گاؤں کی چھتوں پر دہشت کا جال پھیلا سکتے ہو۔
لیکن اے سورج (روشنی) کے دشمن
میں سمجھوتہ نہیں کروں گا۔
اور اپنی رگوں میں نبض کی آخری حرکت تک
میں  مزاحمت کروں گا۔
یہ سورج (نئے دن) کی واپسی ہے،
میرے (وطن کے) جلاوطنوں کی واپسی ہے،
اور اس کی اور اس کی (وطن کے مرد وخواتین کی) خاطر،
میں قسم کھاتا ہوں۔
میں سمجھوتہ نہیں کروں گا۔
اور اپنی رگوں میں نبض کی آخری حرکت تک
میں مزاحمت کروں گا”

 

***

 فلسطینی جیالوں کے اس زندہ یقین کا سب سے بڑا گواہ گزشتہ سال اس جہاد آزادی کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے اس کے عظیم رہنما اور سپہ سالار اسمعیل ہنیہ، یحی سنوار اور دیگر فلسطینی شہداء کا خون شہادت بھی ہے اور اس کا عکس اس مٹی کے ہر اس سپوت میں ہمیں ملتا ہے جس کی ماں نے اسے صرف محافظ اقصیٰ بن کر زندگی گزارنے اور اس کے لیے ہر مقتل اور ہر دار و رسن سے ہنستے مسکراتے گزرجانے کی تعلیم دی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 جنوری تا 18 جنوری 2024