!فلسطینی عوام، عالمی ضمیر اور مسلم ممالک

غزہ میں ہونے والے ظلم کو جان کر بھی جشن منانے والے حد درجہ بے حس ہیں

ندیم خاں، بارہمولہ کشمیر

مسلم ممالک کو احتجاجی بیان بازی کے ساتھ عالمی قوت بننے کی کوشش کرنا ہوگا
وقت تو ایک بہتا ہوا دریا ہے جو ابد تک یونہی رواں دواں رہے گا۔ انسانوں نے اپنی سہولت کی خاطر وقت کو ماہ و سال کے پیمانوں میں بانٹ رکھا ہے۔ ہم نئے سال کی آمد پر خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں۔ شاید ہمیں معلوم نہیں کہ گھڑی کی سوئیوں اور کیلنڈر کی تاریخوں کے بدلنے سے کچھ نہیں بدلتا ۔ فیض لدھیانوی نے کیا خوب کہا تھا:
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
اسرائیل حماس جنگ کو شروع ہو کر تقریباً تین ماہ کا عرصہ ہوچکا ہے، اس دوران بیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ ابتدا میں جب غزہ پر بمباری شروع ہوئی تو پوری دنیا میں اس کے خلاف آواز اٹھی۔ اسلامی ممالک نے اس کی مذمتیں کیں۔ جو ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے جارہے تھے انہوں نے اپنے ان فیصلوں کو روک لیا اور اسرائیل کی مسلسل مذمت کرتے رہے، عالمی برادری سے اس معاملے پر توجہ دینے کی اپیل کرتے رہے۔ کئی ممالک کے سربراہان بالخصوص ایران کے وزیر خارجہ عرب ممالک کے مسلسل دورے کرتے رہے اور اسرائیل کے خلاف انہیں متحد ہونے اور اس کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کرتے رہے۔
میڈیا پر بھی اس کے خلاف بہت سی آوازیں اٹھیں۔ اسرائیل کی ان ظالمانہ کارروائیوں اور فلسطینیوں کی مظلومیت اور ان کی شہادتوں پر کئی پروگرام ہوتے رہے، مگر رفتہ رفتہ سب کچھ معمول پر آنے لگا۔ اسرائیل نے جنگ میں تو کچھ بھی معمول پر نہ آنے دیا، وہ تو مسلسل فلسطینیوں پر بمباری کر رہا ہے، ہسپتالوں کے محاصرے کیا ہوا ہے، ہسپتالوں میں مریضوں اور زخمیوں کو بھی مارنے سے گریز نہیں کر رہا ہے، روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں فلسطینیوں کو شہید کر رہا ہے۔ شہریوں اور رہائشی علاقوں پر مسلسل بمباری جاری ہے، کئی مساجد کو شہید کرچکا ہے۔ غزہ کا محاصرہ اسی طرح سے جاری ہے، وہاں پر کسی طرح نرمی نہیں آئی، کچھ بھی معمول پر نہیں آیا۔ اسلامی ممالک اور ان کا میڈیا تو جیسے جنگ کی کوریج کرتے، جنگ کی مذمت کرتے کرتے اور جنگ کو روکنے کی اپیل کرتے کرتے تھک گیا ہو۔ ان کی تو پہلے ذمہ داری یہ تھی کہ جیسے ہی اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا تو ساتھ ہی وہ حماس کے ساتھ مل جاتے اور اس کے ساتھ مل کر اسرائیل کے دانت کھٹے کر دیتے۔ اسرائیل کی جرأت نہ ہوتی کہ وہ 20 ہزار مسلمانوں کو شہید کر سکے۔ اتنے بڑے بڑے اسلحے، میزائل، ایٹم بم اور تجربہ کار فوجیں، سب کچھ ہونے کے باوجود بیس ہزار مسلمان دنیا کی آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہی دیکھتے دو ماہ کے اندر شہید کر دیے گئے اور پوری دنیا نے مذمتوں پر اکتفا کیا۔ یہ ہمارے لیے نہایت شرم کی بات ہے اور ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ہم 55 سے زائد اسلامی ممالک ہونے کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں ہوتے ہوئے بھی اپنے سامنے بیس ہزار مسلمانوں کو شہید ہوتے دیکھ رہے ہیں اور کوئی ٹس سے مس نہیں ہو رہا ہے۔ جو بول رہا ہے سو بول رہا ہے لیکن اکثر و بیشتر کے کانوں پر تو جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ پچھلے دنوں سب نئے سال کا جشن منانے میں مصروف تھے اور اقتدار کے نشے میں دھت رہے۔ جشن منانے والوں کو پروا ہی نہیں تھی کہ فلسطینی مسلمانوں پر کس قدر ظلم ہو رہا ہے اور ہم ابھی تک زندہ ہیں۔ ہم محض تماشا دیکھ رہے ہیں اور عیاشیاں کر رہے ہیں۔ اگر یہ نہیں کرسکتے تھے تو کم از کم جو مذمتوں کا ایک معمولی سا سلسلہ شروع کیا تھا، اس کو تو جاری رکھتے۔ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم مذمتیں کرکے بھی تھک چکے ہیں۔ چند روز مذمت کی اور اس کے بعد خاموش ہوگئے۔ اب اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کسی دوسرے ملک میں جاکر اسرائیل کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتے ہیں۔ اس جنگ میں حماس کی حمایت تو دور، اسرائیل سے جنگ بندی کی ہی بھیک مانگ لیں یا او آئی سی کا اجلاس طلب کرکے ان پر اتنا ہی باور کرا دیں کہ اسرائیل کی یہ کارروائیاں ہمارے لیے کسی طرح قابل قبول نہیں ہیں۔ اسلامی ممالک کا میڈیا جو اس کے خلاف آواز اٹھا رہا تھا، پروگرامس کر رہا تھا، اب وہ بھی خاموش ہوگیا ہے۔
آخر ایسا کیوں ہے، ہم کیوں اتنی جلدی تھک گئے ہیں؟ فلسطینی تو اسرائیل کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں، وہ تو نہیں تھکے۔ مگر ہم فقط بولتے ہوئے بھی تھک گئے ہیں۔ یہاں تو سب ایسے خاموش ہوگئے ہیں جیسے اب اسرائیل نے جنگ بندی کردی ہے، اب اس نے بمباری چھوڑ دی ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے، وہاں تو روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں فلسطینیوں کو شہید کیا جا رہا ہے، لیکن مسلم ممالک میں ایسے خاموشی چھائی ہوئی ہے جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا ہے۔ ہماری یہی مجرمانہ غفلت اور اتنے بڑے ظلم سے چشم پوشی ہی کفار کو شہ دے رہی ہے کہ وہ مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھائیں۔ ظلم پر خاموش رہنا بھی ظالم کی طرف داری کے مترادف ہے اور قدرت ہونے کے باوجود اس کا ہاتھ نہ روکنا تو اس سے بھی بڑا ظلم ہے اور اسلامی ممالک اسی ظلم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
یوں تو انسانی اقدار کی کئی اقسام ہیں مگر ہم صرف تین کا ذکر کریں گے۔ اہم ترین اقدار میں سر فہرست صداقت امن و امان اور عدل و انصاف ہیں۔ عالمی و علاقائی جنگوں میں لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر مغرب نے جمہوریت تک کا سفر طے کیا تھا۔ مغرب کو اس جمہوری منزل کے حصول پر بہت فخر ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ صداقت کو جمہوریت کی پہلی سیڑھی شمار کرتے ہیں، تاہم یہ صداقت صرف ان کے اپنے ملکوں تک محدود ہوتی ہے۔ یہ مغربی جمہوریتیں دوسرے ملکوں کے بارے میں ہر جھوٹ اور فریب کو نہ صرف روا رکھتی ہیں بلکہ اس پالیسی پر استمرار کے ساتھ عمل درآمد بھی کر رہی ہیں۔ یہ ترقی یافتہ حکومتیں اپنے شہریوں کے لیے تو امن و امان کے قیام کو از بسکہ ضروری سمجھتی ہیں مگر اپنے مفادات کے لیے دوسرے ممالک کو تباہی و بربادی سے دو چار کرنا پڑے تو ذرہ برابر بھی تامل نہیں کرتیں۔
اسی طرح یہ جمہوریتیں عدل و انصاف اور انسانی حقوق کو بھی اپنے ملکوں تک ہی محدود رکھتی ہیں۔ 2023ء میں ساری دنیا نے دیکھا ہے کہ کس طرح سے 7 اکتوبر سے اسرائیل غزہ پر بمباری کر رہا ہے اور کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں ہے۔ اب تک 22 ہزار سے زائد فلسطینی شہید کر دیے گئے ہیں۔ ان شہداء میں آٹھ ہزار سے زائد بچے شامل ہیں۔ لگ بھگ پچپن ہزار فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ کی 23 لاکھ آبادی کے گھروں کو بموں اور ٹینکوں سے ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے، اس کے علاوہ فلیٹوں پر مشتمل کئی کئی منزلہ عمارتوں، ہسپتالوں، اسکولوں اور مساجد کو بھی کھنڈر بنا دیا گیا ہے ۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران اسرائیلی جارحیت کو روکنے اور غزہ میں جنگ بندی کے لیے درجنوں مرتبہ سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں کوششیں کی گئیں مگر ہر کوشش کو امریکہ نے ویٹو کر دیا۔ اس جنگ کو بھڑکانے اور اس کے شعلوں کو علاقے کے دوسرے ممالک تک پھیلانے کے لیے دنیا کی سپر پاور سمجھی جانے والی طاقت علی الاعلان اسرائیل کی بے پناہ مالی مدد کر رہی ہے اور اسے اسلحہ بھی فراہم کر رہی ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کے لیے تقریباً ڈیڑھ سو ملین ڈالر مالیت کے انتہائی تباہ کن اسلحہ کو فروخت کرنے کی منظوری دی ہے۔ جہاں تک 57 مسلمان و عرب حکومتوں کا تعلق ہے تو وہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔ اگر مسلم ممالک بزدلی کی وجہ سے جنگ میں براہ راست حصہ نہیں لے سکتے تو کم از کم ان کے لیے آواز تو بلند کرتے رہیں۔ دنیا کے تمام فورمس پر ان کے حقوق کی بات کرتے رہیں۔ ہمارے پاس پرنٹ و الیکٹرانک یا سوشل میڈیا ہے تو ان کے ذریعے سے فلسطینیوں کے حقوق کی بات کرتے رہیں۔ دو دن آواز بلند کرکے انہیں بھول نہ جائیں بلکہ جب تک انہیں ان کے حقوق نہیں مل جاتے یا کم از کم جنگ بندی نہیں ہوجاتی تب تک تو ان کے لیے بولتے رہیں اور دنیا کو اس طرف متوجہ کرتے رہیں۔ مسلم دنیا کے رہنماؤں، اہلِ دانش، علماء اور سب سے بڑھ کر عوام کو غور کرنا چاہیے کہ غزہ جیسے واقعات ان کی کس کمزوری کا نتیجہ ہیں؟ ریلیاں نکالنا اچھی بات ہے، سربراہی اجلاس بھی وقت کا تقاضا ہے، رہنماؤں کی جانب سے یک جہتی کا اظہار بھی قابلِ تعریف لیکن مزہ تو تب ہے جب مسلم دنیا اِن شان دار جذبات کو عملی اقدامات میں بدل کر عالمی اسٹیج پر ایک بڑی قوت بن کر ابھریں۔ اگر مسلم حکم رانوں میں یہ کردار اختیار کرنے کی سوچ اور حوصلہ موجود ہے اور وہ اسے روبہ عمل لانے کی کوئی صورت نکال سکتے ہیں تو شاید حالات کچھ سنبھل جائیں۔ ورنہ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ خلا اور حبس زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتے اور حبس جس قدر شدید ہو اس کی طرف بڑھنے والی آندھیوں کی رفتار بھی اسی حساب سے تیز ہوا کرتی ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جنوری تا 20 جنوری 2024