فلسطین اور عرب حکم راں یہ دوستی ہے یا دغا؟

غزہ میں نسل کشی اور عرب دارالحکومتوں میں خاموشی

0

پروفیسر ایاز احمد اصلاحی،لکھنو

فلسطین کے تعلق سے اپریل 2025 کی تازہ خبروں میں ایک خبر کینیڈا سے تعلق رکھتی ہے تو دوسری کا تعلق متحدہ عرب امارات یعنی یو اے ای سے ہے ۔
ان دو مختلف اور باہم متضاد خبروں پر تبصرہ و تجزیہ کے بعد میں آپ سے ضرور یہ پوچھنا چاہوں گا : کیا آپ یقین کر سکتے ہیں؟
 پہلی خبر
کینیڈا نے جو کہ امریکہ کا ایک اتحادی ہے، غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والی فلسطینیوں کی نسل کشی کی وجہ سے اسرائیل کے خلاف اسلحہ کی پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دوسری خبر
ایک عرب ریاست (  متحدہ عرب امارات یعنی یو اے ای  ) نے کھلے عام اور بعض دیگر عرب ریاستیں خفیہ طور سے  غزہ میں آباد تمام فلسطینی شہریوں کے قتل عام اور جبری انخلا  کی شکل میں ان کی مکمل نسلی کشی اور نسلی صفایا کے امریکی – اسرائیلی شیطانی منصوبہ کی  حمایت کی ہے۔
کینیڈا کا ردعمل
غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے ہاتھوں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی اس وقت عالمی غصہ اور تشویش کی علامت بن چکی ہے۔ اس کے خلاف عالمی رائے عامہ کو جگانے کے لیے مسلسل احتجاج کرنے والوں کے لیے کینیڈا کے وزیر اعظم کارنے کا ردعمل اس وقت ایک توانا آواز بن کر سامنے آیا جب مظاہرین نے ان سے چیختے ہوئے پوچھا: "مسٹر کارنے، فلسطین میں نسل کشی ہو رہی ہے۔”  (یعنی وہ پوچھنا چاہ رہے تھے کہ کیا آپ اس نشل کشی سے آگاہ ہیں؟)
پھر کینڈیائی وزیر اعظم مسٹر کارنے نے انہیں جواب دیتے ہوئے کہا: "شکریہ… (ہاں ہاں) میں جانتا ہوں (کہ غزہ میں فلسطینیوں کا نسلی صفایا ہو رہا ہے)۔ اسی وجہ سے ہم نے (اسرائیل کے خلاف) ہتھیاروں کی پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے”۔
عرب حکومت کا رد عمل
اب ملاحظہ فرمائیں: غزہ کی مکمل تباہی اور وہاں فلسطینیوں کی نسل کشی کے اندوہناک مسئلے پر ایک عرب خاندان ’آل نہیان‘ کی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا ردِ عمل۔ ایسا ردِ عمل، جس سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ ان غیر مسلموں کو بھی شدید مایوسی اور حیرت ہوئی ہے، جو اسرائیلی مظالم پر انسانیت کے ناطے تشویش کا اظہار کر رہے تھے۔
ٹرمپ منصوبہ میں اپنوں کی منشا؟
غزہ میں اہلِ فلسطین کے مکمل خاتمے، یعنی ان کی پوری نسل کو نیست و نابود کر دینے کے صہیونی منصوبے کو حالیہ برسوں میں "ٹرمپ منصوبہ” کے نام سے جانا گیا۔ اس شیطانی و مہلک منصوبے کے بارے میں، جسے دنیا بھر کے باحوصلہ مسلمان اور بین الاقوامی برادری نے اہلِ فلسطین کے ساتھ مکمل یکجہتی کے جذبے سے مسترد کر دیا تھا، متحدہ عرب امارات نے کینیڈا کے برعکس ایک انتہائی افسوسناک موقف اپنایا ہے۔
اس عرب ریاست کے سرکاری بیانات اور پالیسیوں سے یہ بات صاف جھلکتی ہے کہ دبئی کی قیادت، امریکہ کی ٹرمپ حکومت کی مانند، غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ یاد رہے، 2020 میں ٹرمپ کا مشرقِ وسطیٰ کا مبینہ ’امن منصوبہ‘ یا ’صدی کی ڈیل‘ بھی اسی صہیونی ایجنڈے کا تسلسل تھا، جس کے تحت اسرائیل نے غرب اردن سے غزہ تک تسلط جمانے کا عمل تیز کر دیا تھا۔ اُس وقت بھی مشرقِ وسطیٰ کی بعض عرب حکومتیں پسِ پردہ اس منصوبے کی تائید کر رہی تھیں — اور آج وہی حکومتیں اس فلسطین دشمن منصوبے کی کھلم کھلا حمایت کرتی نظر آ رہی ہیں، خصوصاً متحدہ عرب امارات۔
خود اکتوبر 2020 میں امارات اور بحرین کے ذریعے طے پانے والا نام نہاد "ابراہیمی معاہدہ” (Abraham Accords) بھی اسی پس منظر میں وقوع پذیر ہوا تھا۔
امارات کی شرمناک لابیئنگ
سفارتی ذرائع کے مطابق، حالیہ دنوں میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ متحدہ عرب امارات، امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اس منصوبے کی حمایت کر رہا ہے، جس کے تحت فلسطینیوں کو غزہ سے جبری طور پر نکالا جانا ہے۔ امارات کو امید ہے کہ صہیونیوں کی اس خدمت کے عوض وہ امریکہ کے قابلِ اعتماد اتحادیوں میں شامل رہیں گے — اور ساتھ ہی فلسطینی مزاحمتی تحریک کا خاتمہ ہو جائے گا، جو مستقبل میں ان کی آمرانہ حکومت کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔
کیا یہ فقط اسرائیل کا کھیل ہے؟
اب سوال یہ ہے:
آج انسانیت کے قتلِ عام کا سب سے بڑا مجرم کون ہے؟
وہ جو براہِ راست فلسطینیوں کا خون بہا رہا ہے — یعنی اسرائیل؟
یا وہ جو سازشوں کے تانے بانے بُن کر، امریکی و صہیونی منصوبوں کی راہ ہموار کر رہا ہے — یعنی متحدہ عرب امارات؟
ظاہر ہے، دوسرا کردار زیادہ مہلک ہے، کیونکہ منافقت اور خیانت ہمیشہ کھلی دشمنی سے زیادہ کاری ہوتی ہے۔
کیا اب بھی ثبوت کی ضرورت ہے؟
کیا اتنے ٹھوس اور واضح شواہد کے بعد بھی ہمیں مزید کسی دلیل کی ضرورت باقی رہ گئی ہے کہ آج کی بیشتر عرب حکومتیں — خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات — اپنی حکومتی مصلحتوں کے تحت صہیونی طاقتوں کے ساتھ فلسطین اور بیت المقدس کا سودا کر چکی ہیں؟
جو کوئی بھی فلسطینی کاز اور تاریخ سے واقف ہے، وہ ان اقدامات کو کسی طور بھی فلسطین دوستی نہیں سمجھ سکتا۔ اگر ان عرب حکمرانوں کی گزشتہ برسوں کی پالیسیوں اور اقدامات کا غیر جانبدار تجزیہ کیا جائے، تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ نہ صرف اہلِ فلسطین بلکہ پوری امتِ مسلمہ ان کے اخلاص پر سوال اٹھانے میں حق بجانب ہے۔
عرب فلسطینی کاز سے کیوں گریزاں ہیں؟
یہ عرب ریاستیں آخر فلسطینیوں کی حمایت سے اس قدر خائف کیوں ہیں؟ ان کے حکمران مظلوم فلسطینیوں کی حمایت سے کیوں پہلو تہی کرتے ہیں؟
اس سوال کا جواب جارجیو کیفیرو نے 20 مئی 2024 کو نیوز پورٹل "آر ایس” میں شائع ہونے والے اپنے تجزیے "عرب رہنما غزہ میں فلسطینیوں کی مدد کیوں نہیں کر رہے؟” میں دینے کی کوشش کی ہے۔
یہ تجزیہ ایسے وقت لکھا گیا ہے جب اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کے قتلِ عام میں درندگی کی تمام حدیں پار کر چکا ہے۔ پچاس ہزار سے زائد فلسطینی اسرائیلی بمباری میں شہید اور کئی گنا زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ پورا غزہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے، لاکھوں لوگ بے گھر اور بے سہارا ہو کر پناہ گاہوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کم از کم 20 لاکھ فلسطینی خوراک اور آمدنی سے محروم ہو چکے ہیں اور بھوک سے مرنے کے قریب ہیں۔
کیفیرو لکھتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب اہلِ فلسطین عرب اور اسلامی دنیا کی توجہ کے سخت محتاج ہیں، عرب کی مطلق العنان حکومتیں فلسطینیوں کی حمایت کے بجائے اپنے ہی ملکوں میں فلسطین حامی مظاہروں اور آوازوں کو پوری قوت سے دبانے میں مصروف ہیں۔
سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات جیسی ریاستوں میں فلسطین کے حامیوں کی گرفتاریاں، اظہارِ رائے پر پابندیاں اور پولیس و خفیہ اداروں کے ذریعہ ان پر سخت نگرانی معمول بن چکی ہے۔
فلسطین کی حمایت میں لب کشائی کرنے والوں پر چڑھائی (کریک ڈاؤن) اب ان ملکوں میں ایک معمولی اور متواتر عمل بن چکا ہے۔
فلسطین مخالف نفسیات کی بنیادیں
کولمبیا یونیورسٹی کی پروفیسر مرینا کیلکولی کے مطابق عرب ریاستیں عوامی مظاہروں سے عمومی طور پر الرجک ہیں۔ انہوں نے’آر ایس‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ:
’’فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کی اجازت دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ عوام کو دیگر شعبوں میں بھی حکومتی پالیسیوں پر سوال اٹھانے کا موقع ملے، اور یہی وہ چیز ہے جس سے یہ حکومتیں سب سے زیادہ خوفزدہ ہیں۔
اسی تناظر میں ’’الولید سنٹر برائے مسلم-عیسائی مفاہمت‘‘ (جارج ٹاؤن یونیورسٹی، امریکہ) کے ڈائریکٹر نادر ہاشمی کا کہنا ہے کہ یہ بے حس عرب حکومتیں ہر ایسی تحریک سے خائف ہیں جو بیداری، تحرک اور عوامی شعور پیدا کرنے والی ہو۔
ان کا ماننا ہے کہ فلسطینی کاز، آزادی، عزتِ نفس اور انصاف جیسے انقلابی اقدار سے لبریز ہے—اور یہی چیز ان عرب حکمرانوں کو سب سے زیادہ پریشان کرتی ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسی تحریکیں ان کے اقتدار کی بنیادیں ہلا سکتی ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ ان عرب ریاستوں نے ’سیاسی استحکام‘ کے نام پر فلسطینی کاز سے اپنی ہر بے وفائی اور بے اعتنائی کو جائز قرار دینا سیکھ لیا ہے۔ اور جب فلسطین کے مظلوموں کی حمایت کو اقتدار کے لیے خطرہ سمجھا جائے، تو پھر مظلوموں کی کوئی فریاد ان کے ایوانوں میں نہیں سنی جاتی۔
نادر ہاشمی نے عرب تاناشاہوں کے دل و دماغ کو برسوں سے قابو میں رکھنے والی اس ذہنیت اور نفسیات کے تانے بانے کو بڑی خوبصورتی سے یوں بیان کیا ہے: "فلسطین کا مسئلہ دراصل ناانصافی کا مسئلہ ہے، اور یہیں سے ناانصافی کا یہ سوال عرب عوام کے لیے انصاف کی تلاش کی ایک بین الاقوامی علامت بن جاتا ہے، جس میں عرب دنیا کی ان مطلق العنان اور آمرانہ حکومتوں پر تنقید بھی شامل ہوتی ہے، جو تاریخی طور پر غیر منصف رہی ہیں۔
اس حوالے سے ایک اور اہم پہلو کی نشان دہی یہاں مناسب معلوم ہوتی ہے۔ اس وقت، جیسا کہ ہم سب دیکھ رہے ہیں، عرب دنیا کے نمایاں ممالک کے حکمراں نہ صرف آزادیٔ فلسطین کے کاز سے گریزاں ہیں بلکہ فلسطین کے دشمنوں کے ہم نوا بھی بنتے جا رہے ہیں۔ وہ اپنے عوام کو یہ سمجھانے میں مصروف ہیں کہ موجودہ حالات میں اسرائیل (بلکہ عظیم تر اسرائیل) کے لیے فلسطین کو قربان کر دینا، جبری انخلا یا قتل عام کی صورت میں فلسطینیوں سے سرزمین کو خالی ہوتے دیکھنا، وقت اور مصلحت کا تقاضا ہے۔ وہ اسے قبول کرنے میں اپنی ریاستوں کے تحفظ کو مضمر بتا رہے ہیں۔
میرے نزدیک ان کی اس سوچ کے پیچھے ان کی اپنی کوئی آزاد فکر نہیں، بلکہ یہ ان کی بادشاہتوں کے ممکنہ خاتمے کا خوف اور وہ ڈرتی، سہمی ہوئی نفسیات ہے جو دراصل دشمن کے لگائے گئے خواب آور اور زہریلے انجکشن کا اثر ہے۔ یہ انجکشن انہیں برسوں سے طاقت بخشنے کے نام پر دیا جا رہا ہے، جس نے ان کی سوچنے، سمجھنے، سوال اٹھانے اور آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت مفلوج کر دی ہے۔
عالم اسلام کی وحدت، بقا اور آزادی کو نگلنے والے اس "فرضی خطرے” کا پورا بیانیہ بھی ان عرب حکم رانوں کی اپنی دریافت نہیں، بلکہ یہ امریکی و اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کی کاریگری ہے۔ یہی ایجنسیاں آج فلسطین کی مکمل نسل کشی اور اس کے خاتمے کی مہم کو عرب-اسرائیل تعلقات کی بہتری اور مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا امن کے قیام کے نام پر پیش کر رہی ہیں۔
یہ اُن خفیہ صہیونی ہاتھوں کا کمال ہے جو ایک طرف اُمت مسلمہ کو اپنے دیرینہ بغض و انتقام کی آگ میں جھلسا رہے ہیں، اور دوسری طرف انہی عرب حکومتوں کی حفاظت کا ٹھیکہ لے کر ان کے اقتدار کو لاحق فرضی خطرات کی فہرست بھی مہیا کر رہے ہیں۔ عرب شاہ و شہزادے انہی فرضی خطرات کو سب سے بڑا خطرہ مانتے ہوئے اپنے دوست اور دشمن طے کرتے ہیں۔
یہ نفسیات انہیں نہ صرف آزادانہ سوچ سے محروم کر چکی ہے بلکہ صہیونی ایجنٹوں کے ساتھ برسوں کے خفیہ روابط نے ان کا اعتماد اس حد تک اسرائیل پر پختہ کر دیا ہے کہ القدس پر اسرائیلی قبضہ، غزہ میں نسل کشی اور فلسطینیوں کے قتلِ عام میں بھی انہیں خیر اور امن کی امید نظر آتی ہے۔
اس تجزیے کا خلاصہ اور اس نفسیاتی بیماری کا علاج یہ ہے کہ ہم یہ تسلیم کر لیں کہ القدس اور آزادیٔ فلسطین کی جدوجہد اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک عرب دنیا کو عرب تاناشاہی کے گلیارے میں بیٹھنے والی اس مہلک وبا سے نجات نہ مل جائے۔
گوکہ مسئلہ فلسطین اور دیگر مسلم مخالف قوانین ایک بڑے اور تباہ کن خطرے کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ان سے نمٹنے کے لیے ایک طویل المدتی منصوبہ بندی اور گہری ذہنی تیاری کی ضرورت ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ فوری اور مؤثر اقدام بھی ناگزیر ہے۔
میرے نزدیک اس فوری تدبیر کا خلاصہ سادہ لفظوں میں یہ ہے:
امارات، سعودی عرب اور ان کی پیروی کرنے والی دیگر عرب ریاستوں کو مسئلہ فلسطین اور غزہ کے تحفظ کے کسی بھی فیصلہ کن معاہدے یا مفاہمتی کوشش سے مکمل طور پر علیحدہ کر دیا جائے۔ ان ریاستوں کی شرکت نہ صرف ناقابلِ اعتماد ہے بلکہ فلسطین کے حق میں نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔
یہ بات ہر باشعور شخص پر واضح ہے جو حالیہ برسوں میں مصر سے امارات تک کے حکمرانوں کے فلسطین سے متعلق فیصلوں اور بیانات کو دیکھ چکا ہے۔ ان بیانات اور پالیسیوں میں ایک آزاد فلسطین کی بازیابی سے زیادہ اسرائیل سے سفارتی، سیاسی اور تجارتی تعلقات کی چاہت جھلکتی ہے۔ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر اسرائیل کو رعایت دینے کی وکالت بھی ان میں نمایاں ہے۔
فلسطین سے عربوں کی وہ والہانہ محبت اور برادرانہ تعلق اب محض ایک ماضی کی داستان بن کر رہ گیا ہے۔ آج کی یہ ’دوستی‘دراصل ’دغا‘ ہے۔ یہ محبت، دشمنی سے زیادہ مہلک ہو چکی ہے۔
دشمن سے ایسے کون بھلا جیت پائے گا
جو دوستی کے بھیس میں چھپ کر دغا کرے
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اپریل تا 03 مئی 2025